اتوار، 9 مارچ، 2014

سرد جنگ کی قیمت: گلوبل وارمنگ اور بین الاقوامی غربت: زاہدہ حنا




امریکی صدر روز ویلٹ نے ‘‘مین ہیٹن پراجیکٹ’’ کی منظوری دی، یہی وہ پروجیکٹ تھا جس نےدنیا کے پہلے ایٹم بم کو جنم دیا۔ اسی کے تحت 16جولائی 1945کو وقت سحر دنیا کا پہلا کامیاب ایٹمی تجربہ ہوا جس کی بنیاد پر وہ ایٹم بم تیار ہوئے جو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے اور جن کے گرائے جانے سے اس دنیا میں جوہری اسلحے کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا۔ چار سال بعد 1949میں روس نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور اس کے ساتھ ہی دنیا کی ان دوبڑی طاقتوں میں نیو کلیائی اسلحے کی دوڑ کا بھیانک آغاز ہوگیا۔ یکم نومبر 1952کو امریکہ نے ہائیڈروجن بم کا دھماکہ کر کے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ اگلے برس 1953میں 77ایٹمی دھماکے کیے جب کہ اسی برس روس نے 18اور برطانیہ نے 7ایٹمی دھماکے کیے ۔ 1962میں امریکہ کے 94اور روس کے 72دھماکوں سمیت مجموعی طور پر 171ایٹمی دھماکے ہوئے 1964میں چین بھی نیو کلیئر کلب میں شامل ہوگیا۔ 1994تک نیو کلیائی کلب کے پانچ ممبران مجموعی طور پر 2036ایٹمی دھماکے کرچکے تھے۔ ان میں 1030امریکہ، 715روس، 192فرانس، اور 14چین نے کیے۔ چونکہ 1965میں سطح زمین پر ایٹمی تجربات کرنے پر پابندی لگادی گئی تھی ،لہٰذا اب تمام ایٹمی تجربات زیر زمین ہورہے تھے۔
روس اور امریکہ کی یہ دوڑ صرف ایٹم بموں تک محدود نہ رہی۔ 1950کی دہائی میں ہائیڈروجن بموں کی دوڑ شروع ہوگئی جس کے بعد بین البراعظمی میزائلوں کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ 1960میں امریکہ کے پاس 630ایٹمی ہتھیار تھے جبکہ روس کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 600ہوگئی جب کہ امریکہ کی تعداد بڑھ کر 5000ہوچکی تھی۔ 1985میں امریکہ کے پاس 111000اور روس کے پاس 8500نیو کلیائی ہتھیار تھے۔ 1990میں دنیا کی کل ایٹمی ہتھیار وں کی تعداد 50,000تھی۔

6؍جولائی 1944کا لکھا ہوا سرونسٹن چرچل کا ایک خفیہ خط یاد آتا ہے جو اس نے برطانوی محکمہ دفاع کے نام لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ....
‘‘ہوسکتا ہے کہ ابھی ا س بات میں چند ہفتے یا چند مہینے باقی ہو ں جب میں آپ لوگوں کو حکم دوں کہ جرمنی کے ہر گوشے اور ہر کونے میں زہریلی گیس پھیلا دی جائے اور یہ سمجھ لیں کہ جب یہ کر گزرنے کا وقت آئے گا تو ہمیں سوفیصد ی اس پر عمل کرنا ہوگا۔ اس حکم کو دینے سے پہلے میری خواہش ہے کہ اس معاملے پر کچھ سمجھدار افراد غیر جذباتی او رمتشدد انہ انداز میں غور وفکر کریں۔ اس بارے میں شکست خوردہ ذہنیت رکھنےوالے ان لوگوں کی رائے لینے کی کوئی ضرورت نہیں جو ان دنوں دعائیں او رمناجاتیں گاتے ہوئے ہمیں کبھی اس کو نے میں اور کبھی اس نکڑ پر نظر آتے ہیں’’۔
سرونسٹن چرچل جیسے سیاستدانوں اور جرنیلوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں ۔ آج کل جبکہ روزانہ اخبارات ،رسائل او رٹیلی ویژن کے ذریعہ ہمیں فوجوں کی تعداد ہتھیار وں کے نام ،طیاروں کی اقسام اور بموں کی ہلاکت خیزی کا دائرہ اثر بتایا جاتا ہے تو بے اختیار پہلی دوسری جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد یادآتی ہے۔ فرانس ، جرمنی، برطانیہ ،اٹلی، سوویت یونین او رامریکہ کے ہلاک شدگان کی کل تعداد پہلی جنگ عظیم میں چوراسی لاکھ اٹھارہ ہزار تھی ،جبکہ دوسری جنگ عظیم میں ان ملکوں کے ہلاک شدگان میں جاپانی ہلاک شدگان کا بھی اضافہ ہوا تھا اور یہ تعداد بڑھ کر ایک کروڑ انہتر لاکھ تینتیس ہزار تک جاپہنچی تھی ۔ دونوں ہی مرتبہ ہلاک شدگان کے اعداد شمار ہونے سے بہت پہلے اپنی اپنی فوجیوں کی شان وشوکت اور ان کی عدوی قوت کا اعلان کیا گیا تھا۔ ٹینکوں کی تعداد بتائی گئی تھی، بمباری طیاروں کے اعداد وشمار جاری ہوئے تھے اور ہر دوفریق نے خود کو ‘‘ناقابل تسخیر ’’ قرار دیا تھا۔ کاش جنگو ں کے شائقین ایک جنگ کے آغاز سے پہلے، سابقہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے بھی دنیا کو آگاہ کردیا کریں۔
جائزہ لیا جائے تو دنیا پر حکومت کرنے والے سیاستدانوں ،فوجی جرنیلوں ، افسر شاہی کے افراد او راسلحے کے بڑے بڑے صنعتکار وں کی کل تعداد بہ مشکل تمام چند ہزار افراد دنیا کی ہر قوم سے تعلق رکھتے ہیں ، ہر زبان بولتے ہیں ، ہر عقیدے او رہر نسل اور رنگ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی ہیں جو دنیا پر اور انسانیت پر جنگیں مسلط کرتے ہیں اور جن کی ہوس اقتدار او رہوس زر کسی طرح کم نہیں ہوتی ۔ دوسری طرف دنیا بھر کے عوام ہیں،
برٹرینڈ رسل ، آندرے سخاروف وہ لوگ تھے جنہوں نے ‘‘غداری’’ اور ‘‘وطن پرستی’’ کے الزام سنے۔ انہیں ماؤف بوڑھوں کے نام سے پکارا گیا۔ ان کے ہم وطنوں نے ان پر گندے انڈے اور ٹماٹر برسائے ۔ برٹرینڈر رسل کو لندن کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور اس خوش خیال فلسفی کے ساتھ کسی مجرم اور آوارہ گرد کا ساسلوک کیا گیا۔ آندرے سخاروف نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان لوگوں نے ہمیت نہیں ہاری ،اپنی آواز مدھم نہیں ہونے دی۔ یہ لوگ تنہا اس عذاب ناک سفر کو طے کرتے رہے جو یہ آنے والی نسلوں کی زندگی ،ان کی خوشحالی اور ان کی خوش خیالی کے لیے کررہے تھے۔ انہوں نے یہ دکھ ان کے لیے اٹھائے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔
جب ہمیں بتایا جاتا ہے کہ درجن بھر کنیڈین نوجوانوں نے کروز میزائل تیار کرنے والی فیکٹریوں کی دیوار وں پر اپنا خون چھڑکا اور اس ‘‘جرم کی پاداش’’ میں گرفتار ہوئے تو یہ بارہ نوجوان ذہن کے افق پر امید کے بارہ سورج بن کر طلوع ہوتے ہیں اور ڈوبتا ہوا دل تھم سا جاتا ہے کہ ہوش دنیا سے ابھی مکمل طور پر رخصت نہیں ہوا اور باضمیر ابھی زندہ ہیں۔ میں نے ان نوجوانوں کے بارے میں 1994میں پڑھا تھا۔
دنیا میں یہ دو انتہا ئیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔پیرس اور واشنگٹن کی سڑکوں پر امن مظاہرے کرنے والے بھی عوام ہیں جنگ سیاور وہ بھی نیوکلیائی او رکیمیاوی جنگ سے مغرب کتنا لرزاں ہے ، اس کا اندازہ ان کے ادب سے ہوتا ہے ۔ ان کے یہاں ایسے متعدد افراد ہیں جنہوں نے جنگ کے خوف سے یا جنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے زندگی جیسی خوبصورت چیز دی ہے۔
‘‘ میں آپ کو ایک چیک بھیج رہی ہوں، یہ چیک میری جانب سے نہیں، میرے اس بیٹے کی جانب سے ہے جس نے کچھ دنوں پہلے خود کشی کرلی۔ یہ رقم خطیر نہیں، انجان اور اجنبی لوگ میرے بیٹے کی یاد میں مجھے جو رقم بھیجتے ہیں انہیں اکٹھا کرکے میں آپ کو بھیج رہی ہوں۔ آئندہ جب بھی مجھے ایسے عطیے مو صول ہوئے وہ میں آپ کو ہی بھیج دوں گی۔ آپ کو میں اپنے بیٹے کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔ وہ 23برس کا تھا اور ہوش سنبھالنے کے بعد سے نیو کلیائی لڑائی کا خوف اس کے اعصاب پر ہمہ وقت چھایا رہا۔ وہ شاعر اور موسیقار تھا۔ اس کی بیشتر نظمیں اور دھنیں جنگیں جنون میں مبتلا لوگوں کے خلاف تھیں۔ یہ لو گ ہمارے چاروں طرف نظر آتے ہیں ۔ اس نے اپنے کمرے کی چھت سے لٹک کر خودکشی کرلی تھی۔ اسے جب نیچے اتارا گیا تو اس کی جیب سے اخبار کا ایک تراشہ نکلا جس میں نیوکلیائی جنگ کی تباہ کاریوں کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں ۔ اس خوف نے میرے بیٹے کے اعصابی نظام کو شل کردیا تھا پھر وہ اس خوف میں اتنا ڈوبا کہ اس نے خود ہی اپنی جان لے لی۔ خوف اس کی برداشت سے باہر ہوچکا تھا۔’’

اس غمزدہ ماں نے خط کے آخر میں لکھا تھا۔۔۔

‘‘میں یہ سب کچھ آپ لوگوں کو اس لیے لکھ رہی ہوں تاکہ آپ کے توسط سے بے شمار افراد یہ جان لیں کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو کس قدر شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کررکھا ہے اور ہم انہیں کس طرح مرنے پرمجبور کررہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں کہ وہ جو ابھی زندہ ہیں اور جنہوں نے اپنے آپ کو ختم نہیں کیا ہے، وہ ایک بہتر پرُ امید اور پُر امن وپرُ سکون دنیا میں زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں ۔ کیا ہم انہیں اسی لیے وجود میں لائے تھے وہ ایک پاگل ،جنگ زدہ اور زہر ناک دنیا میں سانس لیں اور تڑپ تڑپ کر مرجائیں ؟’’
1989میں دو فرانسیسی سائنسدانوں ہیوبرٹ ریوز اور البرٹ جیکو ارڈ کی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان کتابوں میں دونوں نے نیوکلیائی جنگ کے نتیجے میں انسان کے مکمل خاتمے اور دنیا کی بربادی کی تفصیلات بیان کی تھیں۔
جیکو ارڈ کا کہنا تھا کہ کسی بھی نیوکلیائی جنگ کے نتیجے میں انسان واقعتاً بھاپ بن کر اڑ جائیں گے ،کونوں کھدروں میں بچ رہنے والے جو انسان چند دن یاشاید چند ہفتے زندہ رہ سکیں ان کی نصیبوں پر رشک کریں گے جو پہلے ہی لمحے ختم ہو گئے ۔ جیکوارڈ کے پیش کردہ اعداد وشمار کے مطابق 80کی دہائی کے اختتام پر دنیا میں جو نیو کلیائی اسلحہ تھا، اگر اس کا صرف ایک فیصد بھی کسی جنگ میں استعمال ہوگیا تو زمین پر اس نیو کلیائی سردی کا آغاز ہوجائے گا جس کا خاتمہ شاید ہزاروں برس بعد ہی ممکن ہوسکے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا ایک بار پھر ‘‘برفانی دور’’ سے دوچار ہوجائے گی۔


فرانسیسی سائنسدان سوزان سولو من ہے جو انٹا رکٹک کے فرانسیسی اسٹیشن پر ایک عرصے تک متعین رہی اور سترہ سائنس دانوں کی ٹیم کی سربراہ تھی۔ وہاں ایک مہینے تک برف پر مختلف تجربات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ زمین کی فضا کے حفاظتی غلاف اوزون میں امریکہ کے رقبے کے برابر جو سوراخ ہوچکا ہے ،اسے ماحول کی آلودگی کے علاوہ نیو کلیائی تجربات بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچار ہی ہیں۔ یاد رہے کہ چند برس پہلے امریکیوں نے فرانس کے کانگو رڈ طیاروں کو بھی اوزون کے غلاف کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

امریکی محقق کا رل ساگان او رروسی سائنسدان نگیتا موسیٰ یو اس بات پر متفق رہے ہیں کہ دنیا میں اگر نیو کلیائی جنگ چھڑگئی تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ ہے کہ کروڑوں ٹن دہکتی ہوئی راکھ دنیا پر برسے گی جس کی وجہ سے دنیا مکمل تاریکی میں ڈوب جائے گی اور ‘‘ نیوکلیائی رات’’ کا آغاز ہوگا بلکہ اوزون کا غلاف بھی پارہ پارہ ہوجائے گا۔ یہ غلاف ہے جو کرۂ ارض پر انسان کو سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں نے محفوظ رکھتا ہے۔

فرانسیسی سائنس دان ریوز نے لکھا کہ دنیا پر نیو کلیائی راکھ کی گرد کی جو چادر تنے گی ، سورج کی گرمی اورروشنی اس ربیز چادر سے گزر نہیں سکے گی جس کے نتیجے میں دنیا کا درجہ حرارت نقطہ امجماد سے بیس اور تیس
درجے نیچے گرجائے گا۔ تب دنیا میں اس نیو کلیائی سردی کا آغاز ہوگا جس کی تباہ کاریوں کا انسان ابھی اندازہ بھی نہیں کرسکتا ۔ موسموں کی اس اچانک تبدیلی کے سبب سمندر وں او رہواؤں میں بھیانک تلاطم ہوگا جو خوفناک طوفانوں کو جنم دے گا۔ بے پناہ سردی اور سورج کی روشنی زمین پر نہ پہنچ سکیں گے سبب روئیدگی ختم ہوجائے گی۔

جیکو ارڈ بتانا ہے کہ سال چھ مہینے بعد نیو کلیائی راکھ کی برسات جب ختم ہوگی اور نیو کلیائی رات سے دنیا کو نجات دینے کے لئے سورج کی روشنی زمین پر پہنچے گی تو اوزون کا غلاف تباہ ہوجانے کے سبب سورج کی وہی روشنی جو دنیا کے لیے سرچشمہ حیات تھی اس کے بالائے بنفشی شعائیں دنیا میں تباہی مچادیں گی۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...