بدھ، 15 جولائی، 2015

ترکی میں سیاسی اسلام اور سیکولر کمال ازم میں کشمکش: از لیونائیداس اویکونوماکِس



ہراکلیون، کریٹی: چند ہفتے پہلے "وال سٹریٹ جرنل" نے ایک مضمون شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا "ترکی کی خونریزی سے پاک خانہ جنگی پر ایک نظر"۔ یہ مضمون ترکی کی اسلام کی طرف جھُکاؤ رکھنے والی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اور مُلک کے اُس پرانے سیکولر طبقہٴ اشرافیہ کے درمیان سرد جنگ جیسے ماحول کے بارے میں تھا جو خود کو "کمالسٹ" کہتا ہے اور مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے یکسر الگ رکھنے کا خواہاں ہے۔ لیکن یہ تو ترکی میں سیاسی اسلام اور سیکولرازم کے درمیان کم وبیش سو سال پہلے شروع ہونے والی "سرد جنگ" کی محض ایک تازہ ترین "جھڑپ" ہے۔ 

اِن دونوں اطراف کی تاریخ اور باہمی تعلق کو اچھّی طرح سمجھنا ترکی میں جاری اس سرد جنگ کو ختم کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے تاکہ مُلک میں امن وسکون قائم ہو سکے۔ 

اس سارے قصّے کا آغاز 1923 میں ہوا تھا جب سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترک جمہوریہ نے جنم لیا۔ جدید ترکی کے بانی مصطفٰے کمال اتا تُرک نے ترک جمہوریہ قائم ہونے کے فوراً بعد ہی "ثقافتی انقلاب" کا نعرہ لگا دیا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ ریاستی امور میں مذہب کی کوئی جگہ نہیں ہے اس لئے انہوں نے مذہب کو ریاست کے تابع بنانے کی مہم چلائی: خلافت کو ختم کیا، تمام مذہبی سکول، تنظیمیں اور ادارے بند کر دیئے، اسلامی قوانین کی بجائے سوئٹزر لینڈ کے شہری، جرمنی کے تجارتی و کاروباری اور اٹلی کے تعزیری قوانین نافذ کیے؛ عربی رسم الخط کی جگہ اطالوی کو رائج کیا؛ تعلیم کو لازمی قرار دیا، عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا اور سرکاری اداروں میں مذہبی علامات کی نمائش پر پابندی عائد کر دی۔

لیکن اتا تُرک کا یہ ثقافتی انقلاب 'اُوپر سے نافذ ہونے والا انقلاب' تھا اور کبھی بھی اکثریت کے دلوں اور دماغوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ 

سیاسی اسلام اور ترک سیکولر ازم کے درمیان پہلا بڑا تصادم اتا تُرک کے عروج کے زمانے میں ہونے والا مینمین کا واقعہ تھا جب 1930 میں صُوفیوں کے ایک گروہ نے لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی۔ بغاوت کو سرد کر دیا گیا اور اس کے ذمہ داروں کو ترک فوج نے موت کے گھاٹ اُتار دیا یا اُنہیں جیل میں پھینک دیا گیا۔ 

1938 میں اتا تُرک کی موت کے بعد اور 1950 کے کثیرالجماعتی انتخابات کے دوران سیاسی رہنما اور مستقبل کے وزیرِ اعظم عدنان میندیریس اور اُن کی ڈیمو کریٹک پارٹی نے عربی کو دوبارہ قانونی حیثیت دے کر اور اذان پر عائد پابندی ہٹا کر اسلام کو عوامی زندگی میں دوبارہ شامل کرنے کے نعرے تَلے انتخابی مہم چلائی اور کامیابی حاصل کی۔ تاہم ترک فوج نے 1960 میں کمال اتا ترک کے سیکولر ازم کا پاسبان ہونے کا دعوٰی کرتے ہوئے بغاوت کی اور میندیریس کو آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ 

ان حالات میں سیاسی اسلام ایک بار پھر زیرِ زمین ہوگیا اور 1996 میں وزیرِ اعظم نجم الدین اربکان اور اُن کی ویلفیئر پارٹی (آر پی) کی انتخابات میں کامیابی کی صُورت میں دوبارہ اُبھر کر سامنے آیا۔ یہ اربکان ہی تھے جنہوں نے پہلی بار ہیڈ سکارف اوڑھنے کے معاملے کو سیاسی طور پر اچھالا اور مسلم اکثریت والے ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ تاہم ترک فوج نے 1997 میں آر پی کا تختہ بھی اُلٹ دیا اور اگلے سال اُس پر پابندی لگا دی گئی۔

پابندی کے باوجود 2001 میں آر پی کا اصلاح پسند دھڑا وجود میں آیا جو آگے چل کر ترکی میں سیاسی اسلام کو آج تک ملنے والی سب سے بڑی کامیابی بن گیا۔ ترکی کے موجودہ وزیرِ اعظم ریسپ طیّپ اردگان کی اے کے پی نے 2002 کے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے اور تب سے مُلک پر حکومت کر رہی ہے۔

اے کے پی ترکی کو یورپی یونین کی دہلیز تک لے گئی ہے، ہیڈ سکارف کے معاملے کو اُچھال کر مذہب کو سیاست زدہ کیا ہے، بیانات اور اعلٰی سطحی پالیسیوں کے ذریعے ترک معاشرے کو خاموشی کے ساتھ قدامت پرست بنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے جس سے ہمسایہ معاشروں پر بھی عوام کی سطح تک تیزی سے مذہبی ہونے کے لئے دباؤ پڑ رہا ہے۔

آٹھ سال بعد ترک معاشرہ تیزی سے پولرائزڈ ہو رہا ہے۔ حکومت اور اس کے حامی میڈیا کو قابو کرنے اور پولیس اور عدلیہ کو کمال ازم کے حامیوں کے ہاتھوں سے نکالنے کے لئے مسلسل تگ ودو کر رہے ہیں حالانکہ "زمان" اخبار سمیت مُلک کے بیشتر ذرائع ابلاغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے ہی حکومت کے ساتھ ہیں۔ 

اس کے ساتھ ہی ترکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کو بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے جو مسلم دنیا پر مرکوز ہے اور ترکی اپنے روایتی مغربی اتحادیوں سے دور ہٹ رہا ہے۔ 

لیکن حقیقی نوعیت کی پائیدار ترقی کے لئے ترکی کو ان دونوں اطراف میں سے کسی کو بھی فاتح یا شکست خوردہ بنائے بغیر اپنی اندرونی سرد جنگ سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ترکی کے سیکولر اشراف کو مُلک کے واضح مذہبی منظر نامے اور حساس معاملات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہوگا اور اسی طرح سیاسی اسلام کے علمبرداروں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک مذہب ہے، ریاست چلانے کا طریقہ نہیں ہے اور یہ کہ اسے فرد کا نجی معاملہ ہی رہنا چاہیے۔

یورپی یونین اور اس کا رُکن بننے کی اہلیت پرکھنے کا کوپن ہیگن معاہدے والا معیار، جس میں جمہوریت کا احترام، قانون کی بالادستی، انسانی و اقلیتی حقوق کی پاسداری اور ایک فعال مارکیٹ اکانومی شامل ہے، ہی وہ بہترین راستہ ہے جو ترکی کی ان دونوں دنیاؤں کو ایک نقطے پر لا سکتا ہے تاکہ دونوں اطراف کے لئے قابلِ قبول ایک سماجی وسیاسی فریم ورک کے ذریعے اس مُلک کو داخلی سکون مُیسّر آسکے۔ 

اس مقصد کے حصول کے لئے یورپی یونین کو قیامِ امن میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس میں اسے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس رقص میں سازندے کا کردار یورپ کے پاس ہے اور رقص کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ موسیقی کا تسلسل قائم رہے۔ 


* لیونائیداس اویکونوماکِس کریٹی یونیورسٹی اور مشرقِ وسطیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے مرکز برائے مطالعہٴ یورپ میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) کے لئے لکھا گیا ہے۔

ماخذ : کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...