ہفتہ، 22 اگست، 2015

جوزف اسٹالن: سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی(بالشویک) کی مرکزی کمیٹی اورمرکزی کنٹرول کمیشن کے مشترکہ اجلاس میں 23 اکتوبر 1927 کو کی گئی تقریر

تاریخ کے دریچے سے۔۔۔۔
"۔۔۔۔پچھلے چند سال کے دوران پارٹی کی پالیسی کے کچھ سب سے اہم نتائج۔۔۔

جوزف اسٹالن: سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی(بالشویک) کی مرکزی کمیٹی اورمرکزی کنٹرول کمیشن کے مشترکہ اجلاس میں 23 اکتوبر 1927 کو کی گئی تقریر 

اب پچھلے دو سال میں پارٹی کی لائن کے سوال کی جانب آتے ہیں؛ آئیے اس کا جائزہ لیں اوراندازہ لگائیں۔

زینوویو اورٹراٹسکی نے کہا کہ ہماری پارٹی کی پالیسی خراب ثابت ہوئی۔ آئیے حقائق کا جائزہ لیں۔ ہم اپنی پالیسی کے چاراہم ترین سوالوں کو لیتے ہیں اوراپنی پارٹی لائن کا پچھلے دو سال کے دوران ان سوالوں کے مطابق جائزہ لیتے ہیں۔ میرے ذہن میں ایسے فیصلہ کن سوال ہیں جیسے کہ کسانوں کی حالت، صنعت اوراس کی دوبارہ تیاری، امن کا معاملہ اورآخرمیں دنیا بھرمیں کمیونسٹ عناصر کی ترقی کا معاملہ۔ 
کسانوں کا سوال۔ دو یا تین سال پہلے ہمارے ملک کے حالات کیا تھے؟ آپ جانتے ہیں کہ ملک کے دیہی علاقوں میں صورتحال نہایت سنجیدہ تھی۔ ہماری وولوسٹ ایکزیکیٹو کمیٹی کے چئرمین، اوردیہی علاقوں میں موجود افسران عمومی طورپر، ہمیشہ تسلیم نہیں کئے جاتے تھے اوراکثردہشت گردی کا نشانہ بنتے تھے۔ گائوں کے نامہ نگاروں کو بندوقوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ادھرادھر، خصوصا سرحدی علاقوں میں ڈاکووں کی سرگرمیاں ہوتی تھیں؛ اورجارجیا جیسے ملک میں بغاوتیں تک ہوئیں۔ فطری طورپر، ایسی صورتحال میں کولاک (امیرکسان) نے طاقت حاصل کی، درمیانی سطح کے کسان ان کے گرد جمع ہوگئے اورغریب کسان غیرمنظم ومتحد ہوگئے۔ ملک میں صورتحال اس وجہ سے مزید بگڑگئی کہ دیہاتی علاقوں میں پیداواری قوتوں نے بہت سست روی سے ترقی کی، قابلِ کاشت زمین کا ایک حصہ بے کاشت تھا اورفصل کا رقبہ جنگ سے پہلے کے زمانے کے رقبے کے 70 سے 75 فیصد حصے کے برابرتھا۔ یہ سب پارٹی کی چودہویں کانفرنس سے پہلے کی صورتحال تھی۔ 

چودہویں کانفرنس میں پارٹی نے بہت سے اقدامات اٹھائے جیسے کہ درمیانے کسانوں کومختلف رعایتیں دینا جن کا مقصد کسان معیشت کی ترقی کوتیزی دینا تھا، زرعی اجناس – غذا اورخام مال کی پیداوارمیں اضافہ کرنا، درمیانے کسانوں کے ساتھ مستحکم اتحاد قائم کرنا اورکولاکوں کی علیحدگی کے عمل کو تیز کرنا تھا۔ ہماری پارٹی کی چودہویں کانگریس میں زینوویو اورکامینیوکی سربراہی میں حزبِ اختلاف نے پارٹی کی اس پالیسی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی اوراس پالیسی کے بجائے تجویز دی کہ کولاک مخالف پالیسی کواختیارکیا جائے جس کا لب لباب یہ تھا کہ غریب کسانوں کی کمیٹیوں کے قیام کی پالیسی کو پھر سے بحال کیا جائے۔ اپنے جوہرمیں، یہ دیہی علاقوں میں پھر سے خانہ جنگی کی طرف لوٹنے کی پالیسی تھی۔ پارٹی نے حزبِ اختلاف کے اس حملے کوپسپا کردیا؛ اس نے چودہویں پارٹی کانفرنس کے فیصلوں کی توثیق کی، دیہی علاقوں میں سوویتوں کوتقویت دینے اورصنعتکاری کے نعرے کوسوشلسٹ تعمیر کے مرکزی نعرے کے طورپرآگے بڑھانے کی پالیسی کو منظورکیا۔ پارٹی نے استقامت کے ساتھ درمیانے کسانوں کے ساتھ مستحکم اتحاد اورکولاکوں کودیوارسے لگانے کی پالیسی پرعمل کیا۔ 

اس سے پارٹی کو کیا حاصل ہوا؟
اس نے جو حاصل کیا وہ یہ تھا کہ دیہی علاقوں میں امن قائم ہوا، کسانوں کے مرکزی حصے کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے، غریب کسانوں کوخودمختارسیاسی قوت کے طورپرمنظم کرنے کے حالات پیدا ہوئے، کولاک مزید علیحدگی کا شکارہوئے اورریاستی اورکوآپریٹوگروہوں نے بتدریج اپنی سرگرمیوں کودسیوں لاکھوں کسانوں کے انفرادی کھیتوں تک بڑھا دیا۔ 

دیہی علاقوں میں امن کا کیا مطلب ہے؟ یہ سوشلزم کی تعمیر کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ اگرہماراسامنا ڈاکہ زنی اورکسانوں کی بغاوتوں سے ہوگا تو ہم سوشلزم کوتعمیرنہیں کرسکتے۔ کاشتکاری کے علاقے کواب جنگ سے پہلے کے طول وعرض (95 فیصد) تک بڑھایا جا چکا ہے، دیہی علاقوں میں امن ہے، درمیانے کسانوں کے ساتھ اتحاد، کم وبیش منظم غریب کسانوں نے دیہی سوویتوں کو مضبوط کیا اوردیہی علاقوں میں پرولتاریہ اوراس کی پارٹی کے وقارمیں اضافہ کیا۔ 

چنانچہ ہم نے وہ حالات پیدا کردئے ہیں جنہوں نے ہمیں دیہی علاقوں میں موجود سرمایہ دارعناصر کے خلاف حملے کو آگے بڑھانے اوراپنے ملک میں سوشلزم کے قیام میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کے قابل بنایا۔ 
یہ ہیں پچھلے دو سال میں دیہی علاقوں میں ہماری پارٹی پالیسی کے نتائج۔ چنانچہ، یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرولتاریہ اورکسان طبقے کے درمیان تعلقات کے انتہائی اہم سوال پرہماری پارٹی کی پالیسی درست ثابت ہوئی ہے۔

صنعتکاری کا سوال۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ آج تک کسی بھی نوجوان ریاست نے اپنی صنعت کو، اورخصوصا بھاری صنعت کو، بیرونی امداد کے بغیر، بیرونی قرضوں کے بغیر، یا دوسرے ملکوں کی لوٹ مار، کالونیوں، وغیرہ وغیرہ کے بغیرترقی نہیں دی۔ یہ سرمایہ دارانہ صنعتکاری کا عام راستہ ہے۔ ماضی میں برطانیہ نے اپنی صنعت کوتمام ملکوں سے، تمام کالونیوں سے، سینکڑوں سال اہم خام مال چوس کر اوراس لوٹ کے مال کو اپنی صنعت میں لگا کراپنی صنعت کو ترقی دی۔ جرمنی دیرسے ابھرنا شروع ہوا لیکن اس نے امریکا سے قرض لئے ہیں جن کی مالیت کئی ہزارملین روبل ہے۔ 

لیکن ہم ان میں سے کسی راستے سے اپنا آغازنہیں کرسکتے۔ کالونیوں کی لوٹ مارہماری پالیسی کا بالکل بھی حصہ نہیں۔ اورقرض ہمیں دئے نہیں جاتے۔ ہمارے لئے صرف ایک راستہ بچتا ہے، وہ راستہ جس کی نشاندہی لینن نے کی، یعنی: اپنی صنعت کوبڑھانا، اپنی صنعت کواندرونی وسائل سے آراستہ کرنا۔ حزبِ اختلاف ہر وقت یہ رٹ لگائے رہتی ہے کہ ہمارے اندرونی وسائل ہماری صنعت کودوبارہ آراستہ کرنے کے لئے کافی نہیں۔ اپریل 1926 میں حزبِ اختلاف نے مرکزی کمیٹی کے ایک اجلاس میں زور دیا کہ ہمارے اندرونی وسائل اتنےنہیں کہ ہم اپنی صنعت کوآراستہ کرنے کے راستے پرآگے بڑھ سکیں۔ اس وقت حزبِ اختلاف نے یہ پیش گوئی کی کہ ہمیں ایک کے بعد ایک ناکامی سہنا پڑے گی۔ تاہم، جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ ان دوسال میں ہم اپنی صنعت کوآراستہ کرنے کے راستے پرآگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسال کے دوران ہم نے اپنی صنعت میں دوہزارملین روبل خرچ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ اخراجات ہماری صنعت کوآراستہ کرنے کی راہ میں اورملک کی صنعتکاری میں پیش قدمی کرنے کے لئے کافی ثابت ہوئے ہیں۔ ہم نے وہ کچھ حاصل کیا ہے جو اب تک دنیا کی کسی ریاست نے حاصل نہیں کیا: ہم نے اپنی صنعت میں اضافہ کیا ہے، ہم نے اسے آراستہ کرنے کا آغاز کردیا ہے، ہم نے اس معاملے پراپنے اندرونی وسائل کی بنیاد پرپیش قدمی کی ہے۔ 
یہ وہ نتائج ہیں جو ہماری صنعت کو آراستہ کرنے کے سوال پر ہماری پالیسی کے حوالے سے آپ کے سامنے ہیں۔

کوئی نابینا شخص ہی اس حقیقت کوجھٹلا سکتا ہے کہ اس معاملے پرہماری پارٹی کی پالیسی درست ثابت ہوئی ہے۔

خارجہ پالیسی کے سوال پر۔ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد، اگرکسی کے ذہن میں سرمایہ دارریاستوں سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں، امن قائم رکھنا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے کیا حاصل کیا ہے؟ جو ہم نے حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے امن کو، اچھی طرح یا بری طرح، بہرحال، مقدم رکھا ہے۔ جو ہم نے حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ، سرمایہ دارانہ گھیرائوکے باوجود، سرمایہ دارانہ حکومتوں کی مخالفانہ سرگرمیوں کے باوجود، پیکنگ، لندن اورپیرس میں اشتعال انگیزی کے باوجود، اس سب کے باوجود، ہم نے خود کواشتعال انگیزی کا شکارنہیں ہونے دیا اورامن کے مقصد کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ 

زینوویواوردیگرکی مسلسل پیش گوئیوں کے باوجود ہم حالتِ جنگ میں نہیں ہیں اوریہ وہ بنیادی حقیقت ہے جس کے سامنے ہماری حزبِ اختلاف کا تمام ہسٹیریا بے کار ہے۔ اوریہ ہمارے لئے اہم ہے کیونکہ ہم پرامن حالات میں ہی اپنے ملک میں سوشلزم کی اس رفتار سے تعمیرکرسکتے ہیں جو ہماری خواہش ہے۔ لیکن پھربھی جنگ کی کتنی پیش گوئیاں کی جاتی رہی ہیں! زینوویو نے پیش گوئی کی تھی کہ اس سال کی بہارمیں ہم جنگ میں مبتلا ہوں گے۔ بعد میں اس نے پیش گوئی کی کہ ہرممکن طورپراس سال کی خزاں میں جنگ پھوٹ پڑے گی۔ تاہم ہم پہلے ہی سرما سے گزررہے ہیں لیکن اب تک کوئ جنگ نہیں چھڑی۔

یہ ہیں ہماری امن کی پالیسی کے نتائج۔
صرف نابینا افراد ہی ان نتائج کودیکھنے سے محروم ہوسکتے ہیں۔
آخر میں چوتھا سوال جس کا تعلق دنیا بھرمیں کمیونسٹ قوتوں کی حالت سے ہے۔ کوی نابینا ہی اس سے انکارکرسکتا ہے کہ دنیا بھرمیں کمیونسٹ پارٹیاں پھل پھول رہی ہیں، چین وامریکہ سے لے کربرطانیہ اورجرمنی تک۔ کوئی نابینا ہی انکارکرسکتا ہے کہ سرمایہ داری کے بحران کے عناصرپھل پھول رہے ہیں کم نہیں ہورہے۔ کوئی نابینا ہی انکارکرسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں سوشلزم کی تعمیرمیں ترقی، ملک کے اندرہماری پالیسی کی کامیابیاں، پوری دنیا میں کمیونسٹ تحریک کی ترقی کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔ کوئی نابینا ہی دنیا کے تمام ملکوں میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کے وقاراوراثرمیں مسلسل اضافے سے انکارکرسکتا ہے۔ 

یہ ہیں پچھلے دو سال میں داخلہ اورخارجہ پالیسی کے چار اہم سوالوں کے حوالے سے ہماری پارٹی پالیسی کے نتائج۔
ہماری پارٹی کی پالیسی کی درستگی کس چیزکی اہمیت کی جانب اشارہ کرتی ہے؟ دیگرتمام چیزوں کے علاوہ، یہ صرف ایک چیز کی اہمیت اجاگرکرسکتی ہے: ہماری حزبِ اختلاف کی پالیسی کے مکمل دیوالیہ پن کی۔"

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...