جمعہ، 27 مارچ، 2020

کورونا وائرس: لاشوں کی تعداد کتنی ہو تو ہم پھر بھی برداشت کر لیں گے? یورپ بھر میں لاک ڈاؤن



کورونا وائرس: لاشوں کی تعداد کتنی ہو تو ہم پھر بھی برداشت کر لیں گے?
یورپ بھر میں لاک ڈاؤن

جمود کو ابھی صرف دو ہفتے ہوئے ہیں لیکن کرنے والوں نے جمع تفریق شروع کر بھی دی ہے: انسانی ہلاکتوں کی تعداد کا مقابلہ اقتصادی ترقی سے ہے۔ سبھی دیکھنے اور سننے والے بے یقینی سے پوچھنے لگے ہیں کہ ایسا بھلا ہو کیسے سکتا ہے؟
ابھی بمشکل دو ہفتے ہی تو ہوئے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے زندگی تقریباﹰ جمود کا شکار ہو گئی۔ کچھ لوگ اپنے اندازے اور اعداد و شمار ہاتھوں میں لیے ابھی سے یہ حساب کتاب کرنے لگے ہیں کہ انسانی ہلاکتوں اور اقتصادی ترقی کو پہنچنے والے نقصان میں سے بڑا نقصان کون سا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ہینریک بوئہمے لکھتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی ہیں اور سننے والوں کو یقین نہیں آ رہا کہ وہ سن کیا رہے ہیں اور یہ ہو کیا رہا ہے؟
جو سوال پوچھا جا رہا ہے، اس کے پیچھے سوچ ایک ہی ہے: یہ کہ ہمارے لیے زیادہ اہم کیا ہے؟ عام انسانوں میں سے ہر ایک کی صحت اور سلامتی یا کسی تباہ کن اقتصادی بحران سے تحفظ؟ یہ وائرس نظر نہ آنے والا ایسا دشمن ہے، جو بہت خطرناک بھی ہے اور جس سے لوگ بہت خائف بھی ہیں۔ اس کا نتیجہ: عام لوگوں کے باہمی رابطے منقطع، گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی، عوامی زندگی جمود کا شکار اور اقتصادی کارکردگی مفلوج
پیرس میں لاک ڈاؤن
فرانسیسی حکومت کی طرف سے گزشتہ جمعرات کو ملکی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سیاحوں میں مشہور خوابوں کا شہر پیرس بھی بالکل خاموش ہو گیا ہے۔ پیرس کے مقامی باسیوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے کہ وہ ضروری کام کے علاوہ گھروں سے نہ نکلیں۔ یہ وہ شہر ہے، جس کے کیفے جنگوں میں بھی کبھی بند نہیں ہوئے تھے۔
برلن میں خاموشی کا راج
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے دن سخت اقدامات متعارف کرائے۔ نئے کورونا وائرس پر قابو پانے کی خاطر نو نکاتی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ دو سے زیادہ افراد عوامی مقامات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ لوگوں کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر آپس میں ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں۔ جرمن عوام اس عالمی وبا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آ رہے ہیں، اس لیے دارالحکومت برلن بھی خاموش ہو گیا ہے۔
غیرملکیوں کے داخلے پر پابندی اور سرحدیں بند
اس عالمی وبا پر قابو پانے کے لیے برلن حکومت نے غیر ملکیوں کے جرمنی داخلے پر بھی کچھ پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس قدم کی وجہ سے یورپ کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں شمار ہونے والے فرینکفرٹ ایئر پورٹ کی رونق کے علاوہ اس شہر کی سڑکوں پر ٹریفک میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
باویرین گھروں میں
رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے باویریا میں گزشتہ ہفتے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ نئے کورونا وائرس سے نمٹنے کی خاطر اس صوبے میں ابتدائی طور پر دو ہفتوں تک یہ لاک ڈاؤن برقرار رہے گا۔ یوں اس صوبے کے دارالحکومت ميونخ میں بھی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے
برطانیہ میں بھی سخت اقدامات
برطانیہ میں بھی تمام ریستوراں، بارز، کلب اور سماجی رابطوں کے دیگر تمام مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری سفر اور سماجی رابطوں سے احتراز کریں۔ یوں لندن شہر کی طرح اس کی تاریخی میٹرو لائنز بھی سنسان ہو گئی ہیں۔
میلان شہر، عالمی وبا کے نشانے پر
یورپ میں کووڈ انیس نے سب سے زیادہ تباہی اٹلی میں مچائی ہے۔ اس ملک میں دس مارچ سے ہی لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ کوششوں کے باوجود اٹلی میں کووڈ انیس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ پریشانی کا باعث ہے۔ میلان کی طرح کئی دیگر اطالوی شہر حفاظتی اقدمات کے باعث ویران ہو چکے ہیں۔
ویٹی کن عوام کے لیے بند
اٹلی کے شمالی علاقوں میں اس عالمی وبا کی شدت کے باعث روم کے ساتھ ساتھ ویٹی کن کو بھی کئی پابندیاں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویٹی کن کا معروف مقام سینٹ پیٹرز اسکوائر عوام کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ اس مرتبہ مسیحیوں کے گڑھ ویٹی کن میں ایسٹر کی تقریبات بھی انتہائی سادگی سے منائی جائیں گی۔
اسپین بھی شدید متاثر
یورپ میں نئے کورونا وائرس کی وجہ سے اٹلی کے بعد سب سے زیادہ مخدوش صورتحال کا سامنا اسپین کو ہے۔ ہسپانوی حکومت نے گیارہ اپریل تک ملک بھر ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔ اسپین میں زیادہ تر متاثرہ شہروں مییں بارسلونا اور میڈرڈ شامل ہیں۔
آسٹریا میں بہتری کے آثار
آسڑیئن حکومت کے مطابق ویک اینڈ کے دوران نئے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی شرح پندرہ فیصد نوٹ کی گئی، جو گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔ قبل ازیں یہ شرح چالیس فیصد تک بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ویانا حکومت کی طرف سے سخت اقدامات کو اس عالمی وبا پر قابو پانے میں اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
بڑی بڑی رقوم
کسی بہت بڑے مالیاتی بحران کے پیش نظر ہوش ربا حد تک زیادہ رقوم کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ امریکا میں دو ٹریلین ڈالر کا اقتصادی پیکج، یورپی مرکزی بینک کی طرف سے ساڑھے سات سو بلین یورو اور جرمن حکومت کی طرف سے چھ سو بلین یورو مالیت کے اقتصادی پیکج کا اعلان۔ یہ جملہ رقوم ادا کون کرے گا؟
اگر یہ نئے قرضے لے کر مہیا کی جائیں گی، تو متعلقہ ممالک شدید حد تک نئے قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ اگر حکومتیں یہ وسائل بچت کر کے مہیا کریں گی، تو نقصان پھر عوام کا ہی ہو گا۔ سماجی تحفظ، صحت، تعلیم اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں سرکاری اخراجات میں بچت کی وجہ سے۔
لیکن یہ بات کسی نے نہیں سوچی ہو گی کہ برطانوی طبی ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق، دو ہزار آٹھ سے دو ہزار دس تک کے مالیاتی بحران کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد مریض صرف کینسر کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر گئے تھے۔ تب حکومتوں نے طبی شعبے کے لیے رقوم واضح طور پر کم کر دی تھیں اور بہت سے کارکن ملازمتیں اور کوئی جاب انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے بالکل ہی بے یار و مددگار ہو گئے تھے اور ان کا علاج نہ ہو سکا تھا۔
بہت سخت الفاظ اور کڑوا سچ
اب یہ بحث شروع کی جا رہی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد کس حد تک رہے تو ہم اسے پھر بھی برداشت کر لیں گے؟ یہ سوال یوں پوچھا جانا چاہیے: کسی ایک انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ ایسی باتیں کرنے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہلاکتیں صرف کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں ہو ں گی۔ طبی شعبے پر دباؤ بہت بڑھے گا، جیسا کہ اٹلی میں بھی ہوا، تو ہسپتالوں کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو گی اور لوگ سرطان، امراض قلب اور دیگر بیماریوں سے بھی زیادہ تعداد میں مرنے لگیں گے۔
کورونا کی وبا کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کے مقابلے میں اقتصادی ترقی کا ذکر کرنے والوں کو شاید علم نہ ہو کہ لندن کے امپیریل کالج کے تیار کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف امریکا ہی میں اس وائرس کی وجہ سے ایک ملین سے زائد ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کو شاید یہ علم بھی نہ ہو کہ فرانس کے شہر میوہل ہاؤزن میں جو لڑکا لاشوں کو تھیلوں میں بند کر کے ٹرانسپورٹ کر رہا تھا، وہ طب کا ایک بیس سالہ طالب علم تھا۔
لاتعداد متاثرین
ہر طرف نظر آنے والا جمود اور اقتصادی تعطل ظاہر ہے بہت بڑا مسئلہ ہے۔  گلی کے کونے پر چھوٹی سی دکان سے لے کر حجام کے سیلون تک، ہوٹلوں سے لے کر کیٹرنگ تک اور بڑے بڑے صنعتی پیداواری اداروں سے لے کر فضائی کمپنیوں تک، ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔ لفتھانزا کے تقریباﹰ سبھی مسافر طیارے زمین پر ہیں، فوکس ویگن کی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ کورونا وائرس یوں ہمارے معاشروں، سماجی نظاموں اور آزادیوں کو کھا جانے پر اتر آیا ہے۔
ہمیں موجودہ مرحلے میں اس وبا کے خلاف ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہم جن معاشروں میں رہتے ہیں، وہ خود پسند اور انا پرست معاشرے ہیں۔ انہی معاشروں میں کورونا وائرس نے اپنی تمام تر تباہی کے باوجود سماجی یکجہتی کے جس ننھے سے پودے کو جنم دیا ہے، اس پودے کی حفاظت لازمی ہے۔ اس سماجی یکجہتی کا تحفظ ہی کورونا کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہو سکتا ہے: انسانوں کا متحد ہونا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔ جہاں تک معیشت کا سوال ہے، تو اسے ہم دوبارہ سدھار لیں گے۔ ایسا ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔
ہینریک بوئہمے (م م / ع ا)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...