ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

گناہ اور سائنس: سوویت یونین میں گناہ کے خاتمے کا پنجسالہ منصوبہ(1): پروفیسر ڈی۔ ڈی کو سامبی

گناہ اور سائنس  
سوویت یونین میں گناہ کے خاتمے کا پنجسالہ منصوبہ
پروفیسر ڈی۔ ڈی کو سامبی

جو شخص کسی جدید شہر کے ماحول میں پل کرجوان ہوا ہے وہ جانتا ہے کہ جرم، گناہ اور سائنس کے معنی کسی دلیل کے محتاج نہیں۔ دنیا میں اکثر لوگ یا کم از کم ہندو ستانیوں اور پاکستانیوں کی اکثریت گناہ کی تعریف اپنے اپنے مذہب کے مطابق کرتی ہے۔ مسلمان کے لیے شراب پینا گناہ ہے اور ہندو کے لیے گائے کا گوشت کھانا۔ لیکن عیسائی شراب بھی پیتا ہے اور گائے کا گاشت بھی کھاتا ہے اور جھرجھری تک نہیں لیتا چونکہ گناہ کا یہ رنگا رنگ تصور سماج کو کسی منزل پر نہیں لا سکتا۔ اس لیے بعض افعال کو روکنے کے لئے قانون کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان افعال پر جرائم لیبل لگایا جاتا ہے اوران کا ارتکاب کرنے والوں کو پولیس اور عدالت سے سزا دلائی جاتی ہے عدالت سے سزا دلانے کے لئے جرم کا ثبوت اورملزم کومروجہ قانون کے مطابق مجرم قرار دینا لازمی ہے۔ لیکن گناہ کا ثبوت اور اس کی سز ا کا تعین اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا گناہ کی سزا اگلے جہان یا اگلے جنم پرموقوف کردی جاتی ہے۔ سائنس مذہبی اور عدلی قوانین سے آزاد ہے۔ اور سائنس میں محتاط تجربات یامشاہدات کی منطقی اورمادی تشریح کے بعد نتیجے نکالے جاتے ہیں مثلاً جو شخص زہر کی ایک خاص مقدار نگل جائے، وہ یقینا مر جائے گا، خواہ اس کا یہ فعل خلاف قانون ہو یا نہ ہو۔ ہم کسی بیماری کے جراثیم کو ایک خاص تعداد تک اپنے جسم میں پرورش پانے دیں تو ایک خاص مدت کے بعد ہمیں وہی بیماری ضرور لگ جائے گی خواہ خدا کی ایسی مرضی ہو یا نہ ہو۔
اگر یہ تینوں نظریئے ایک ہی طرف اشارہ کریں اگر گناہ کرنے سے بیماری لگنے کا امکان ہوا اور ایسے فعل کاارتکاب جرم بھی ہو تو سماج ایسی برائی کی جڑ کانٹے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ مرد وعورت کے باہمی تعلقات سے متعلق قوانین اور مخصوص جنسی تعلقات سے پیدا ہونے والے مسائل مثلاً طلاق، جنسی بیماریوں اور عصمت فروشی سے متعلق قوانین ہمارے دعوے کا واضح ثبوت ہیں اسی طرح شراب نوشی کے فرد خاندان اور بحیثیت مجموعی سماج پر برے اثرات کے پیش نظر جو مشین کے زمانے میں حادثات کی کثرت کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اس کی ممانعت سے متعلق قوانین ہمارے دعوے کا ایک اور ثبوت ہے۔
ڈائی سن کا رٹر نے ان طریقوں کو نہایت خوبصورتی اور غیر جانبداری سے بیان کیا ہے جو عہد حاضر کی دو بالکل مختلف اور اپنی قسم کی واحد اور نمونے کی دنیائوں میں مذکورہ برائیوں کو نیست ونابود کرنے کے لئے حال ہی استعمال کئے گئے۔ کسے انکار ہے کہ امریکہ نے سائنس میں عظیم الشان ترقی کی ہے اور اس کی پولیس اس سے بھی کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور ہے۔ ان دو قوتوں کے علاوہ بوقت ضرورت امریکہ کے تمام مذہبی فرقے بھی اپنی کوششیں سماجی مسائل کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔تاہم وہاں طلاق کی شرح دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اور اس کی تعداد دنیا بھی میں سب سے زیادہ ہے۔ اخلاق سدھار سیاسی مہموں، سپیشل پولیس کی بھاگ دوڑ اور منبروں سے وعظ کی یورش کے باوجود جنسی بیماریوں، عصمت فروشی اور شراب نوشی ختم نہیں ہوئی سوویت یونین ایک نئے قسم کے سماج کا سب سے پہلا اور عظیم نمائندہ ہے۔ وہاں ایسی مہلک بیماریوں کے پھیلنے کا ہر ممکن سبب موجود تھا جو جدید سماج کا خاصہ ہیں۔ انقلاب سے مذہب کی منظم حیثیت ختم ہو گئی۔ بہت سی پرانی پابندیاں دور ہو گئیں بدکار کو مجرم گردان کر سزا دینا بند کر دیا گیا طلاق لینا بہت ہی سہل ہو گیا اور حکومت نے خود سستی شراب مہیاکرنا شروع کر دی۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ دار ممالک کی مسلح مداخلت سے جو تباہی پھیلی او راس کے باوجود وہاں پیداوار کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح کو دھیان میں رکھا جائے تو ان حالات میں سرمایہ دارانہ منطق کے مطابق یہی نتیجہ نکلا جا سکتا ہے کہ وہاں عیاشی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ روس میں عصمت فروشی کا نام بھی باقی نہیں رہا۔ طلاق کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اورآج ایک ایسے ملک میں آدمی شراب کا نام تک نہیں لیتا جو کبھی اپنے ہاں کے کسانوں اور مزدوروں کی بلا نوشی کے لئے بدنام تھا۔
ممکن ہے یہ باتیں خلاف قیاس اور محض واہمہ معلوم ہوں لیکن یہ ایک زندہ حقیقت ہے روس میں ہر سماجی مسئلے کی سائنسی تحقیقات کی گئی اس کی تہ تک پہنچا گیا او رجو حقیقت نکلی اس کی منطقی پیروی کی گئی اس کے بعد یہ خوشگوار نتیجے حاصل کئے گئے۔ سرمایہ دار ممالک میں ایک پولیس کا سپاہی جو سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کرتا ایک مذہبی پیشوا پوچھ نہیں سکتا اور ایک سائنسدان پوچھتا ہی نہیں وہ سوال یہ ہے کہ آخر یہ خرابیاں سماج کیوں پائی جاتی ہیں اس کا اشتراکی جواب یہ ہے کہ یہ برائیاں اس لئے پائی جاتی ہیں کہ آبادی کے بعض طبقے ان برائیوں کے بل پر بھاری منافع کماتے ہیں۔ بدطینت لوگ حرام کاری کو بھی اپنی غرض کے لئے استعمال کرتے ہیں حرامکاری لاتعداد عوام کی اس لوٹ کھسوٹ کا ایک عام نتیجہ ہے جو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو برے کاموں پر مجبور کرتی ہے۔
عام لوٹ کھسوٹ ختم ہوئی تو بداخلاقی کا بنیادی سبب دور ہو گیا۔ اس کے بعد ان لوگوں کو سخت سزائیں دی گئیں جنہوںنے بدکاری سے منافع کمانے کی کوشش کی۔ لیکن یاد رہے سزائیں ان لوگوں کو نہیں دی گئیں جو بدکارتھے بلکہ منافع خوروں کو، رنڈیوں کو نہیں بلکہ چکلہ داروں کو اور شرابیوں کو نہیں بلکہ ناجائز طورپر شراب در آمد کرنے والوں کو سزائیں دی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی سب کے لئے باعزت روز گار کے مواقع پیدا کئے گئے۔ اور کام کا حق تہذیب وتمدن کا ایک لازمی جزو بن گیا اس اقدام کے بعد نئی آزادی کے اثرات کا مشاہدہ کرنا اور نئے قوانین، پارٹی پراپیگنڈے او رلوگوں کی سائنٹفک تعلیم کی طرف رجوع کرنا آسان ہو گیا۔ اس کے علاوہ سب کے لئے آرام اور تفریح کی مختلف سہولتیں پیدا کی گئیں مکمل تعلیم اور سستے اور اعلیٰ لٹریچر اور عمدہ موسیقی کا بندوبست کی گیا۔ سنیما اور ذہنی اور جسمانی تربیت کے مختلف ادارے قائم کئے گئے۔ چونکہ ان خرابیوں کے بنیادی سبب کو ختم کر دیا گیا اس لئے وہ ناپید ہوگئیں او رزندگی سب سے پہلی مرتبہ اس قدر خوشگوار بن گئی کہ آئندہ اس سے گریز کی ضرورت ہی باقی نہ رہی۔
ہمیں اپنے ملک میں ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے اور ہم امریکی طریقہ کار آزمار ہے ہیں۔ اس میں شراب نوشی کی ممانعت بھی شامل ہے۔ لیکن ہر منافع خور کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر کے انہیں غیر طبعی موت مارے۔ چونکہ وہ باعزت طبقے کا فرد ہے اس لئے اس کایہ مذموم فعل قابل مواخذہ نہیں۔ پولیس الٹا مظلوموں کو دباتی ہے او راس ظالم کی ذات اور اس کے منافع کی حفاظت کرتی ہے۔ جو لوگ منافع کے خالق ہیں، وہ فقر وفاقہ کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ غلیظ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور علم کی روشنی سے محروم ہیں۔ لیکن ایک سائنسدان اس طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ وہ سرمایہ دار کو فنی مشورے دینے اور اس کی طبی امداد کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے حتیٰ کہ انعام کی غرض سے اس کی خوشامد کرنے سے بھی نہیں چوکتا، سبب؟ یہی کہ امیر آدمی کے سوا اور کون جی کھول کر خرچ کر سکتا ہے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے اس کا داعی یہ اعلان کرتے ہوئے نہیں شرماتے کہ مظلوموں کو اگلے جہاں میں اجر ملے گا۔ یا یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ غریب اور مظلوم لوگ اس دنیا میں اس لئے یہ دن بھگت رہے ہیں کہ انہوں نے اپنے پچھلے جنم میں برے کام کئے تھے حاصل کلام یہ کہ غریبوں کویکسر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یا انہیں پہلے سے بھی زیادہ سنگ دلی سے کچلا جا سکتا ہے اپنی نیک نیتی کے باوجود، ایک مصلح قوم انقلاب کے بغیر انقلاب کا پھل چکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

آغاز بلا معذرت
مجھے تنبیہہ کی گئی ہے کہ میں یہ کتاب نہ لکھوں اور بلاشبہ بہت سے لوگوں کو ہدایئت کی جائے گی کہ وہ اسے مت پڑھیں لیکن یہ کتاب نہ کسی کو گناہ پر اکساتی ہے نہ کسی کی دل شکنی کرتی ہے بلکہ یہ ایک حقیقت کا سیدھا سادا اظہار ہے۔
اس کتاب میں جن موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور جو سوال اٹھائے گئے ہیں انہیںروائتاً بداخلاقی اور گناہ کے دو مبہم لفظوں سے تعبیر کرکے چپ سادھ لی جاتی ہے بداخلاقی، عصمت فروشی، نوجوان لڑکیوں کی تجارت، جنسی امراض،اسقاط حمل، حرام کی اولاد، طلاق ، نوجوانی کی بدکاریوں کے نہایت ہی افسوس ناک پہلو اور شراب کی تجارت اس کتاب کاخاص موضوع ہے۔
حتی الوسع کوشش کی گئی ہے کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ ان صفحات میں بعض مواد جس بے تکلفی سے پیش کیا گیا ہے۔ا س پر حساس قاری حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ میں ایسے قاریوں سے معافی کاخواستگار ہوں۔ تاہم یہ کتاب کوئی سنسی خیز انکشاف نہیں کرتی اور اس میں گناہ کا ذکر بھی داخلی اور مقبول عام انداز سے نہیں کیا گیا۔ ایسی ہزاروں کتابیں پہلے سے موجود ہیں، لیکن یہ کتاب ان سے بالکل مختلف چیز ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اظہار حقیقت اس قدر حملے اور خفگی کا موجب نہیں بنے گا جتنا کہ مندرجہ ذیل مقصد اور عملی نتیجے۔ اس کی وجہ میں بدکاری کو ایک اچھوتے انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سائنس اور خارجہ طریقے سے بداخلاقی کے مسائل کا عملی عام فہم اور سو فیصدی کامیاب حل پیش کیا گیا ہے۔
آپ اس دعویٰ کا استقبال نفرت اور مذاق سے کریں تو آپ حق بجانب ہوں گے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ انسانی سماج اخلاقی بدی کے بوجھ تلے صدیوں سے بری طرح پس رہا ہے۔ مطالعے، پر چار، تصنیف وتالیف، قانون سازی غرضیکہ ہر دیانت دارانہ طریقے سے گناہ پر قابو پانے کی کوشش کی گئی لیکن ہرکوشش ناکام ہے، جنگ کے دوران میں ہمارے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اخلاقی اقدار کی انتہائی گراوٹ اور جنگ کے بعد اخلاقی معیار کے پہلے سے بھی زیادہ پست ہو جانے سے ہر حقیقت شناس مبصر یہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ہم بڑ ماری ہے۔ پھر نہایت بے شرمی سے یہ دعویٰ کون کر سکتا ہے۔ کہ جہاں باقی تمام چیزیں ناکام رہیں وہاں ایک کتاب ضرور کامیاب ہو جائے گی۔

اب ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ کتاب سماجی اخلاق سے متعلق ایک تجربے کی ہی رپورٹ ہے۔ جووسیع پیمانے پر کیا گیاجس میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی او رجسے میں من وعن یہاں پیش کر دیا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے عام پبلک کو اس تجربے سے آج تک آگاہ نہیں کیا گیا۔ جن بااختیار لوگوں کا اس پر تصرف تھا۔ انہوں نے ان حقائق کو اب تک چھپایا ہے اور ڈاکٹروں اور رضا کاروں سے مخفی رکھا ہے۔
مجھے یہ بات دہرانے کی اجازت دیجئے کہ اس کتاب میںحقائق کا ذکر ہے۔ اور اس میں ایسے مسلمہ عملی اقدام تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں جن کے ذریعے جدید سماج سے بداخلاقی اسی طرح مٹائی جا سکتی ہے جس طرح قرون وسطیٰ کی پلیگ سی وبائیں ختم کی جا چکی ہیں۔
اس سیدھے سادھے دعوے پر وہ قاری یقینا حیران رہ جائیں گے جو جنسی امراض پر قابو پانے کی غرض سے ایک سائنٹفک پروگرام قبول کرنے کے لئے تو تیار ہیں لیکن جنہیں یقین ہے کہ گناہ کی چند ایسی صورتوںکے لئے روحانی طریقہ ہی موزوں ہے جن کا تعلق خاندانی شرافت، طلاق اور دونوں صنفوں کے درمیان اخلاقی تعلقات، حرام کاری، یا شراب نوشی سے انسانی وقار کی تباہی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بداخلاقی فرد کی اپنی روحانی زندگی تک محدود ہے لہذا اسے خارج از بحث سمجھنا چاہیئے۔ دوسری طرف ایسے لوگ ملتے ہیں جن کے نزدیک صرف طبی تحقیق ہی بداخلاقی اور بدکاری کو دور کر سکتی ہے۔ گویا سماجی برائی ایک قسم کا فاسد مادہ ہے اور ماہر کیمیا گروں کو تجربے کی آزادی دے دی جائے تو وہ اسے ایسی سہولت سے دور کریں گے جس طرح نئی دو اپنسلین سوزاک کو ختم کر دیتی ہے۔
آج کل ان دونوں خیالوں کے زبردست حامی ملتے ہیں۔ چونکہ ان طریقوں میں سے ہر ایک بڑی حد تک کامیاب طریق کار ہے اس لئے وہ بہت سے لوگوں کو موزوں نظر آتا ہے۔ تاہم سب سمجھ دار اور دیانت دار لوگ ایک ہی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جہاں تک عملی صورت کا تعلق ہے۔ ہمارے ہاں گناہ کے خلاف نہ نام نہاد طبی طریقہ موثر ثابت ہوا ہے نہ خالص مذہبی طریق ہی، بدکاری گھٹنے کانام ہی نہیں لیتی، اخلاقی گراوٹ اتنی شدید ہے کہ آج تک دیکھی نہ سنی۔
گزشتہ چند سالوں کے واقعات سماجی زندگی کی کوئی دلکش تصویر پیش نہیں کرتے۔

مصنف
سن اینڈ سائنس” (گناہ اور سائنس) کے مصنف آمسٹر ڈائی سن کارٹر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈ اور انگلستان میں بہت زیادہ مشہور ہیں۔ آپ کی تصانیف میں ”سی آف ڈسٹنی”(تقدیر کا سمندر)، ”نائٹ آف فلیم” (شعلے کی رات)، ”سٹالنس لائف” (حیات استالین)، ”مین، مشینز اینڈ مائیکرو بس” (انسان، مشینیں اور جراثیم)کے علاوہ ”اف یووانٹ ٹوانونیٹ” (اگر آپ کچھ ایجا د کرنا چاہتے ہیں)، جیسی مشہور ومعروف کتب بھی شامل ہے جسے ”بک آف دی منتھ کلب” (ماہ حال کی بہترین کتاب) کا انتخاب کرنے والی انجمن نے موجدین کے لیے معیاری درسی کتاب قرار دیا ہے۔
سائنسی ترقیات کے موضوع پر مصنف کے مقالے مختلف قومی رسائل وجراید میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور وہاں سے انگریزی دان دنیا میں منتخب مضامین کے مخزنوں میں دوبارہ نقل کیے جاتے ہیں۔ آپ نے کینیڈاوی براڈ کاسٹنگ کار پوریشن سے نشر ہونے والے سلسلہ مضامین ”سائنس ان دی نیوز (سائنس کی خبریں) اور رشین ڈائری (روسی روز نامچہ) بھی لکھی ہیں، آپ لیکچر ر کی حیثیت سے بھی بہت زیادہ مشہور ہیں۔ آپ کی سب سے زیادہ مقبول عام تصنیف ”رشیاس سیکرٹ دیپن” (روس کا خفیہ ہتھیار ہے) جسے بے نظیر شہرت حاصل ہوئی، بڑے بڑے مدیروں نے اسے سراہا اور یہ کتاب مختلف روز ناموں میں چھاپی گئی۔ اس کا سات زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
مصنف نے اپنی کسی ابتدائی تصنیف میں اشارہ کیا تھا کہ وہ بوقت فرصت گناہ کے مسئلے پر سائنسی نقطئہ نظر سے روشنی ڈالیں گے۔ لہذا موجودہ کتاب قاریوں کے پرزور اصرار اور تقاضے پر لکھی گئی۔

وکٹری گرل
ایسے حضرات جن کاکام محض عیب جوئی ہے اس شاندار بہانے سے کہ گناہ تو آدم او رحوا سے چلا آتا ہے تمام اخلاقی مسائل کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں سے دور اٹھا پھینکتے ہیں۔ یہاں ہمیں گناہ کی ابتدا کے مذہبی تصور سے متعلق کچھ نہیں کہنا۔ جہاں تک موجودہ زمانے کی جمہوریت پسند قوموں کو بدکاری کے خلاف اقدام پر ابھارنے کا تعلق ہے۔ ایک سائنس دان سب سے زیادہ مبارک باد کا مستحق ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ صحت کے سابق سرجن جرنل ڈاکٹر ٹامس پیران نے 1936میں ایک رسالے میں ایک تاریخی مقالہ لکھا۔ اس مقالے کو پڑکھ کر لاکھوں انسان دم بخود رہ گئے۔ ایک بین الاقوامی شہرت کے مالک ڈاکٹر نے پہلی مرتبہ جنسی امراض کے موضوع کو اس ریاکارانہ سنسر شپ سے آزاد کر دیا جس نے بزعم خویش اسے عام تعلیم یافتہ لوگوں سے چھپا رکھا تھا۔ اس نے دوایسی بیماریوں آتش اور سوزاک کو ہر نوجوان وپیر کے آگے رسوائے اشاعت کر دیا جن کا ذکر اخباروں کے اداریوں میں کرنے کی سخت ممانعت تھی۔ وہ حیران کن حقائق جو سر جن جنرل نے افشاکئے مختصر ادرج ذیل ہیں۔
1936میں تیس لاکھ سے زیادہ امریکی آتشک میں مبتلا تھے اورتقریباًنوے لاکھ سوزاک کے مریض تھے۔مزید بریں ہر سال پانچ لاکھ افراد آتشک سے متاثر ہوتے تھے اور اس سے تگنے سوزاک سے۔ ہر سال لاکھوں افراد دل کی بیماریوں سے مرتے تھے جن کا سبب آتشک تھا۔ آتشک سے پاگل ہونے والے لوگوں کی حفاظت پر ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے تھے ان دونوں بیماریوں سے براہ راست جسمانی اور ذہنی اعتبار سے ناکارہ ہونے والے لوگوں کی تعداد اس قدر بھیانک تھی جس کا تصور بھی محال ہے کینیڈا، برطانیہ اور اکثر دوسرے ملکوں میں بھی صورت حال اتنی ہی بری تھی یا اس سے بھی بدتر۔ ڈاکٹر پیران نے جنسی امراض کے بارے میں حق گوئی سے کام لیا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ بیماریاں بعض لوگوں کے نجی گناہوں کی سزا ہیں۔ بلکہ انہوں نے بتایا کہ دونوں بیماریوں ایسے سماجی طاعون ہیں جو ہر قسم کے پیشہ ر مذہبی، نسلی اور معاشرتی لوگوں کی جڑکاٹ رہے ہیں۔ اور اس رفتار سے بڑھ رہے ہیں کہ ان سے قوم کی مجموعی صحت خطر میں ہے ڈاکٹر پیران نے قوم سے کچھ کرنے کی اپیل کی۔ ان کی دعوت عمل کے خلاف شرمیلا سا احتجاج تو ہوا لیکن بدکاری پر طبعی حملے کو شرک قرار دینے کے باوجود بہت سے پادریوںنے بھی جنسی بیماریوں کی روک تھام کے لئے ڈاکٹروں، رضا کاروں، مدیروں اور قانون سازوں کا ساتھ دیا۔ سرجن جنرل کے اس اعلان سے ان لوگوں کی کچھ ہمت بندھ گئی کہ سب سے زیادہ مہلک مرض آتشک کو تیس سال کے عرصے میں ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہ 1936کا واقعہ ہے۔ مہم کہیں دو سال بعد شروع ہوئی۔ قانون پاس کئے گئے۔ ان گنت روپیہ جمع کیا گیا۔رہائشی شفا خانے اور تجربہ گاہیں کھولی گئیں لاکھوں اشتہار بانٹے گئے لاکھوں مریضوں کے خون کا معائنہ کیا گیا اورمہم کا آغاز بڑی دھوم دھام سے ہوا۔
ڈاکٹر پیران نے 1940میں ایک اور مقالہ لکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ آتشک کے بیس فیصد مریض شفایاب ہو چکے ہیں لیکن سوزاک کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جنسی بیماریوں کے خلاف جو جہاد شروع کیا گیا تھا۔ اس میں حسب توقع کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے فوراً بعد سرکاری اعداد وشمار شائع کئے گئے جن سے پتہ چلا کہ مہم کا نتیجہ تو بالکل الٹ نکلا ہے ان اعداد وشمار کے مطابق 1942میں امریکی افواج میں جنسی بیماریوں کے مریضوں کے تعداد 1939کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی۔
یہ صورت حال دیکھی تو امریکی فوج کے منتظمین نے اپنے طورپر مہم چلائی انہوں نے پوری طاقت سے بدکاری کا صفایا کرنے کی ٹھان لی۔ ان حضرات نے ماضی کے تجربے سے آنکھیں بند کر لیں اور گشتی گاڑیوں میں گناہگاروں کا پیچھا کرنا شروع کر دیا انہوں نے جنم جنم کی مظلوم، قربانی کی بکری طوائف کی نگرانی اور بھی کڑی کر دی اس قسم کے اخلاق پر ست لوگ جو موقع بے موقع، سرم، جرم اور سزا کی رٹ لگائے رکھتے تھے وہ بڑے جوش وخروش سے سزا کا مطالبہ کرنے لگے اللہ اللہ کہاں وہ موثر سنہری سیکم جہاں چند سال پیشتر جنسی بیماریوں کوسائنسی شائستگی کے ساتھ ملیا میٹ کرنے بیڑا اٹھایا گیا تھا اور کہاں یہ سزا کا نعرہ۔
دیوالیہ پن کی انتہا اس وقت ہوئی جب کہ بہت سی مشہور ومعروف ہستیوں خصوصاً جین ٹیٹے نے مردوں سے شریفانہ اپیلیں شروع کر دیں کہ گناہ کرنا چھوڑ دو، عورت کو بھول جائو اور بیماری کا خاتمہ اس ابدی قدر سے کر دکھائو جسے زہدو تقوی کہتے ہیں لاکھوں فوجی سپاہی کچھ عرصے کے لئے اپنے آپ کو نامرد تصور کرنے پرمجبور ہوئے اور انہیں یوگی بننا پڑا۔ اس اصول کی بنا یہ سچائی تھی کہ یوگی کو جنسی بیماری نہیں لگتی اس طرح زربفت میں لپٹا ہوا سائنسی جہاد وکٹوریائی موعظت پر ختم ہوا۔
1943کے شروع میں برعظیم امریکہ ایک بار پھر چونک گیا فوجی افسروں اور دفاع صحت اور بہبود کے محکموں کے منتظمین کے درمیان ایک اچھوتی جھڑپ جاری ہو گئی یہ محکمے امراض کے بڑھتے ہوئے طوفان پر بوکھلا گئے اور شور مچانے لگے کہ تمام بڑے بڑے شہروں میں ”بے حیائی کے اڈوں” سے عورتوں کو نکال دیا جائے انہوں نے مطالبہ کیا کہ خطرناک مقامات کو دوسری آبادی سے قطعاً الگ تھلگ کر دیا جائے پادریوں کو جو موقعہ ملا انہوں فوراً اس تجویز کی حمایت کا اعلان کیا اور وہ منظم بدکاری کے خلاف لوگوں کو ابھارنے لگے اور عصمت فروشی کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکانے میں آسانی سے کامیاب ہو گئے حالانکہ بہت سے لوگ یہ یقین کر بیٹھے تھے کہ یہ علت ایک مدت سے ختم ہو چکی ہے لیکن افواج نے اس مہم کے خلاف بھی زبردست احتجاج کیا تو یہ لوگ اور بھی بھونچکے رہ گئے۔ بعض فوجی منتظمین نے اس مسئلے کے متعلق اپنے نقطہ نظر کو اس قدر آزادی کے ساتھ پیش کیا کہ اخلاق پرست حضرات لاحول پکار اٹھے انہوں نے کہا کہ بدکاری کے اڈوں سے عورتوں کو نکال دینے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شہر میں ان کا تعاقب جاری ہو جائے گا انہیں مخصوص اور محدود علاقوں میں اپنا کاروبار جاری رکھنے دیا جائے۔ تو فوجی پولیس کم از کم اتنا تو کر سکتی ہے کہ باوردی سپاہیوں کو ان علاقوں میں نہ گھسنے دے۔
ایڈیٹروں اور رضا کاروں کی تو گویا زبانیں گنگ ہو گئیں ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت دشوار ہو گیا کہ وہ اس خطرناک جھگڑے میں کس کا ساتھ دیں لیکن دفاع صحت اور بہبود کے محکموں کے ایک افسر مسٹر چارلس پی ٹافٹ کو اپنی تجویز کی کامیابی کا سو فیصدی یقین تھا۔ اعداد وشمار ایک نہایت ہی لذیذ لقمہ لے کر آگے بزھے ان کی ایجنسی ک پاس یہ ثبوت تھا کہ ایک طوائف اپنے کو ٹھے میں ایک رات میں کوئی پچاس سپاہیوں کو بیماری لگا سکتی ہے اس کے برعکس اس عورت سے اس کا اڈہ چھین لیا جائے اور اسے گلی محلے میں چوری چھپے کاروبار چلا نا پزے تو وہ ایک رات میں زیادہ سے زیادہ آدھی درجن گاہکوں کو بیماری لگا سکے گی۔ مسٹر ٹافٹ تقدس اور زہد وتقویٰ میں ہر گز یقین نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے فوجی افسروں سے کہا کہ حرام کاری کو شہر کے ممنوعہ علاقے میں بند کر کے اس پر قابو پانے کی کوشش کرنے سے صرف ایک ہی نتیجہ نکلے گا اور وہ یہ ہے کہ اس سے عام سپاہیوں میں عموماً اور نوجوان سپاہیوں میں خصوصاً گناہ کی رغبت پیدا ہو گی اور حرام کاری کا پر چار ہو گا۔
لیکن ایک بحث کا مفید نتیجہ ضرور نکلا۔ لاکھوں شریف انسانوں نے شدت سے محسوس کیا کہ عصمت فروشی کا منظم کا روبار کتنی نفرت انگیز چیز ہے اور اس حقیقت کا احساس پیدا ہوا کہ گاہکوں کی بڑی تعداد ایسے شہریوں پر مشتمل ہو گی جو مضافات میں رہتے ہیں۔
مسٹرٹافٹ اور ڈاکٹر پیران کی قائم کردہ کمیٹیوں نے تین سو سے زیادہ شہروں میں چکلے بندکرا دئیے۔اس سے بہت سے مقامات پر جنسی بیماریوں کا پھیلائو عارضی طور پر رک گیا۔ اس کے بعد سیہ کاری کے خاص اڈوں مثلاً سستے ہوٹلوں، سیاحوں کی رہائش گاہوں، تفریح گاہوں وغیرہ کے خلاف مہم شروع ہو گئی۔ بری اور بحری فوج نے اپنی طبی سرگرمیاں تیز ترکر دیں۔ رخصت پر جانے والے سپاہیوں اور جہازیوں کو مانع امراض دوائیں پہلے سے زیادہ استعمال کرائیں گئیں۔ چند ماہ کے بعد یہاں وہاں سے جو اعداد وشمار جمع کئے گئے وہ کافی حوصلہ افزا تھے سپاہیوں میں بحیثیت مجموعی جنسی امراض میں کمی واقع ہوئی لیکن اس کا ایک سبب یہ تھا کہ سپاہیوں کو سمندر پار میدان جنگ میں بھیج دیا گیا تھا۔ البتہ شہری آبادی میں جنسی امراض میں کمی کی رفتار حوصلہ افزا نہ تھی۔
اس اثنا میں سہ کاری کے مخالفین کی لغت میں کیا نئے لفظ………وکٹری گرل کا اضافہ ہوا امریکہ کی بحری فوح کے دوڈکٹروں نے اچانک اشاعتی تار پیڈوداغ دیئے لفٹیننٹ کمانڈ روشن گرائو نے نیویارک کے رہنے والوں کو اپنے بیان سے حیران کر دیا کہ دنیا کے سب سے بزے شہر نیویارک میں طوائف اتنی خطرناک چیز نہیں رہی۔ چار سے تین جہازیوں کو غیر پیشہ ور لزکیوں سے بیماری لگتی ہے یہ جہازی خیال کرتے تھے کہ اتفاقاً ہاتھ لگی ہوئی چیز بے ضرر ہوتی ہے لفٹیننٹ کمانڈ ر بکلے نے فلا ڈیفیا کے اعداد وشمار جمع کئے اور نتیجہ نکالاکہ نوجوان اوباش لزکیوں کی تعداد بدکار عورتوں سے چوگنی ہے۔ آخر یہ لڑکیاں کون تھیں۔ چودہ برس یا اس سے زیادہ عمر کی دو شیزائیں۔
اخبار ٹائم کے نامہ نگار مقیم نار فوک نے لکھا ہے کہ پرل ہار بر پر جاپانیوں کے حملے سے پہلے نار فوک میں طوائفوں کی اکثریت پیشہ ور تھی۔ اور آج پچاسی سے نوے فیصدی طوائفیں عام فیشن پرست عورتوں پر مشتمل ہیں ان میں بہت سی نوجوان لڑکیاں ہر ہفتے سینکڑوں کی تعداد میں آتی ہیں زرعی فارموں میں کام کرنے والی اور شہروں میں کلر کی کا کام کرنے والی لڑکیوں کے لئے اپنی پسند کا مرد تلاش کرنے کا یہ بڑا ہی آسان طریقہ ہے۔
امریکہ کی میدیکل ایسوسی ایشن نے اپنے جرنل میں ان حقائق کی تصدیق کی اور لکھا کہ پرانی وضع کی طوائف کی حیثیت اب ثانوی ہوتی جارہی ہے۔ طوائف کی نئی قسم انیس بیس سالہ نوجوان لڑکی ہے۔ درحقیقت جنسی بیماریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والا اور پھیلانے والا ہمیں میں سے ایک ہے۔
بحراوقیانوس کے اس پار برطانوی میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی اپنے جرنل میں انگلستان سے متعلق اس قسم کے حقائق کا انکشاف کیا اور انگلستان میں جنسی بیماریوں سے متاثر ہونے والے لوگوں کو تعداد اتنی ہی بتائی جتنی مسٹر بکلے نے فلاڈیفیا کے بارے میں بتائی تھی۔ اس جرنل کی رپورٹ کے مطابق طوائف سے ایک مرد کوبیماری لگتی ہے تو شوقین پیشہ ور عورتوں سے چار کو۔آسٹریلیا کے ڈاکٹروں نے اپنے ملک کے نوجوانوںمیں بدکاری اس سے بھی کہیں زیادہ بتائی کینیڈا کے صاحب اقتدار حضرات نے کھلے بندوں اندازہ لگانے سے گریز کیا۔ لیکن نوجوانوں کے خلاف مقدموں سے متعلق عدالتی کاغذات سے اندازہ لگایا گیا کہ تیرہ سے انیس برس کی لڑکیاں ملک بھی میں باقاعدہ گناہ کی طرف مائل ہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اخلاقی گراوٹ محض جنگ کی وجہ سے تھی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنگ کے دوران میں کثیر آبادی کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا اور عارضی صنعتی ترقی اور خوشحالی اخلاقی گراوٹ کا باعث بنتی ہیں لیکن سماج کے ایک نئے خطرناک عنصر نئی قسم کی بدکردار لڑکی سے نفرت کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ کیونکہ حقیقت تو اس نئے رجحان کی طرف جاتی ہے۔ جس کا اخلاق اور شرافت سے کوئی تعلق نہیں اس سلسلہ میں ہم دو مشہور کتابوں کا حوالہ دینا ضروری سمجھتے ہیں جو 1939 شائع ہوئی تھیں۔ پہلی کا نام تھا ”نوے گنا زیادہ مجرم” جس کا مصنف ہک تین پاول تھا۔ دوسری کا نام ”رنگین نقوش” جس کا مصنف کو راٹنے ریلے کو پر تھا۔ یہ دونوں کتابیں بداخلاقی پر تھیں اور ان میں بتایا گیا تھا کہ نئی پود کی نوجوان لڑکیوں کو بداخلاق سمجھنے کا خیال 1925سے چلا آتا ہے۔ امریکی پار لیمان کے ایک ممبر کلاویپر کی سر کر دگی میں ایک ذیلی کمیٹی جنگ کے زمانے کی صحت وتعلیم کاجائزہ لینے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ اس کمیٹی نے 1943کے آخر میں اپنی رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ حال ہی میں نوجوان میں جرائم کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے اسے جنگ سے منسوب نہیں کیا جا سکتا یہ اس قدرتی عمل کا نقطہ عروج ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع ہوا جب کہ اچھے اور برے اشخاص کے درمیان سماجی حدود تیزی سے مٹ گئیں۔
مذکورہ بالا حقائق سے دو نتیجے نکالے جا سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جنسی امراض پر طبی حملہ نا کام رہا۔ اور ڈاکٹر پیران کا یہ دعویٰ کہ آتشک کو رہائشی شفاخانوں اور تعلیم کے ذریعے تیس سال کے عرصے میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ ناقابل قبول ہے۔ بہت سے ترقی پسند مذہبی راہنمائوں نے بھی ڈاکٹر پیران کی طرح پیشگوئی کی تھی لیکن انہوں نے بھی منہ کی کھائی کیونکہ ہر اتوار کو گرجوں میں پندونصائح کو جو چکر جاری ہے اس سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو یہ حقیقت بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ جنسی امراض کو بداخلاقی کے پورے مسئلے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح لوگوں کو نیک بننے کی تلقین کرنے سے جنسی بیماریوں ختم نہیں کی جا سکتیں اس طرح بزے بزے طبی منصوبے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جب تک لاکھوں انسانوں میں جنسی تعلقات کا تاوان ادا کرنے کی مقدرت نہ ہو۔
دوسرا نتیجہ ذرا کم واضح ہے ایسا لگتا ہے کہ جنسی بیماریوں کے خلاف جہاد کرنے والے ایک خاص قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں وہ ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں ان کا اندازہ یہاں تک خطا سے مبرا ہے کہ وہ بعض عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی بیماریوں کی ذمہ دار سمجھتے ہیں اور ٹھیک ٹھیک بتا سکتے ہیں کہ ایک وکٹری گرل ایک رات میں کتنی مرتبہ اپنے دامن کو داغدار بنا سکتی ہے۔ لیکن جو نہی مردوں کے چلن کی پڑتال کا وقت آتا ہے تو وہ آنکھیں بند کرکے گزر جاتے ہیں یہ اندھے مصلح حضرات بیماریوں میں مبتلا غیر ذمہ دار اور بدکردار لڑکی سے خفا ہو کر ان کے خلاف اقدام کے لئے میزوں پر گھونسے مار مار کر چلاتے ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ عورتوں کا سوال اٹھے تو فوراً اس کے خلاف مہمیں پیش کر دی جاتی ہیں لیکن مردوں کا سوال اٹھے تو یہ مہمیں اعدادو شمار سے آگے نہیں بڑہتیں۔ لڑکیوں کی نگرانی، تعاقب، گرفتاری سزا اور ان کی اصلاح لازمی ہے۔ لیکن مردوں کے لئے محض علاج معالجہ، تنبیہہ، مانع امراض چیزیں یا محض وعظ کافی ہے۔
سائنسی لٹریچر کو عموماً غیر جانبدار کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ غیر جانبداری بھی نام نہاد ہی ہے کیونکہ یہاں بھی حقیقت کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر لوگ ہمیشہ یہی کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ عورتیں بیماری لگاتی ہیں اور مردوں کو بیماری لگت ہے۔ اس کے الٹ کبھی نہیں سنا گیا۔ جہاں تک سماجی برائیوں کے حل کا تعلق ہے۔ اس کے لئے جو طریقہ پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل غیرموثر اورسطحی ہے بدکاری کی ایک ہی مصیبت یعنی جنسی بیماریوں کو پیش نظررکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ ایک کیسا مسئلہ بن چکا ہے جس کے سماجی نتائج نہایت ہی تباہ کن ہیں اور ہمارے مذہبی اور سائنسی راہنما ئوں نے اسے حل کرنے کی کوشش میں اور بھی الجھایا ہے۔
اخلاقیات کے اکثر ماہرین کو بلاتا مل سہل انگار کہا جاسکتا ہے سہل انگاری کیا ہے یہ کیا لاعلاج روحانی درد ہے جسے نامعقولیت اور تعصب کے جڑواں ذہنی کیڑے پیدا کرتے ہیں لغت میں عام طورسے سہل انگار کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا شخص ہے جسے ندرت خیال چھوسکتی ہے نہ بلندی نصب العین لیکن مشہور ناول نگار میکسم گور کی سہل انگار حضرات کو انسانی مسرتوں کے جانی دشمن سمجھتا تھا۔ اور ان کا ذکر کرتے وقت اس کے قلم سے چنگاریاں جھڑنے لگتی تھیں۔
ایک مرتبہ اس نے کہا کہ جس چیز کو ہم ”قانون کی روح” یا ”روایت کہتے ہیں اس سے سہل انگار کے ذہن میں ایک ایسے مشینی ڈھانچے کا تصور پیدا ہوتا ہے جو کسی کلاک سے مشابہ ہو جس کا بڑا سبب سہل انگار نکتہ چین کے خیالات کے چکر کو حرکت میں لانا ہے اس نے اپنے طنز کو ان الفاظ پر ختم کیا ہر سہل انگار کا مقولہ ہے کہ چیزیں جیسی ہیں ویسی ہی رہیں گی۔ سہل انگار نکتہ چین ایک مردہ مچھلی ہے جس کا سر سب سے پہلے سڑتا ہے۔
کتنے سخت الفاظ ہیں بظاہر ان کا گناہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن مقصد پوری طرح واضح ہے جمہورکی اخلاقی مصیبتوں کو دور نہ کر سکنے کا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم ایسے مفکروں میں گھرے ہوئے ہیں جو بظاہر گناہ کی مذمت کرتے ہیں لیکن ان کی اپیلیں اتنی فضول اور اکتا دینے والی ہیں جیسے کہ کلاک کی دوآوازیں ٹک اور ٹک وہ ہمیں اس سے آگے نہیں لے جا سکتے یہی خالص سہل انگاری ہے اسی کوگندے ماضی سے چمٹ کر دل کو جھوٹی تسلیاں دینے کی کوشش کہتے ہیں قصہ کو تاہ سہل انگاری کبھی کی مرچکی ہے، سڑچکی ہے۔
لیکن سٹر اند کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتے ہماری موجودہ نسل تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ ہم اپنے ماضی کی گندگیوں کو ختم کرنے کی وسیع پیمانے پر جدوجہد کر رہے ہیں ہم افلاس اور مکر کے ایک ایسے قید خانے کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں بنی نوع انسان کو صدیوں تک پابندسلا سل رکھا گیا ہے تمام انسان تیز رفتاری سے اپنے شاندار مستقبل کی تعمیرکر رہے ہیں۔
سوال کیا جا سکتاہے کہ آیا عوامی دنیا کے سماج میں منظم بدکاری بھی شامل ہے کیا ہم چاروں آزادیوں کا اطلاق نوجوان لڑکیوں کی تجارت پر بھی کریں گے۔ کیا ہم لاکھوں نوجوانوںکی اخلاقی بحالی کے لئے کوئی پروگرام تیار کر سکتے ہیں۔
بدکاری سے متعلق عام بازاری خیال یہ ہے کہ سماجی برائیاں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہی ہیں اور ابدتک رہیں گی۔ اس خیال کا تھوتھا پن عہد غلامی کی برائیوں کے انجام ہی سے ثابت ہو جاتا ہے انسانوں کی خرید فروخت ہزاروں سال جاری رہی۔ اور مذہب پرست، سہل انگار لوگ نسلاً بعد نسلِِ غلاموں کی تجارت کو جائز قرار دیتے رہے اور اس نظام کے ابدی ہونے کا اعلان کرتے رہے۔ لیکن اس کے باوجود مہذب قوموں نے سو سال کے اندر ہی غلامی کے نظام کو تہس نہس کر دیا اس کے بعد ہم نے ایسے طاعون ختم کئے جو سخت ہلاکت خیز تھے اور ان کے متعلق بھی بزرگان دین کا فتویٰ تھاکہ یہ ابدی ہیں اوراب اقوام متحدہ کے ماہرین فن تمام دنیا سے قحط کو باہر نکالنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ کروڑوں انسان صدیوں تک غلامی، بیماری اور کال کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے۔ لیکن کھاتے پیتے اور ہٹے کٹے علماء منہ بسور بسور کر کہتے رہے کہ شرابدی ہے۔
میںیہاں ایک بار پھر گور کی کا حوالہ دیتا ہوں اس نے ایک مرتبہ کہا تھا ”کہ آئو تھوڑے عرصے کے لئے ہی دیانتداری برتیں اور حقیقت کو پہچانیں۔
جن دنوں امریکہ میں جنسی بیماریوں کے خلاف جہاد اپنے عروج پر تھا۔ فیڈرل سیکورٹی ایجنسی کے ایک عہد یدار فلپ ایس بروٹن نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ”عصمت فروشی اور جنگ” اور اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں میں تقسیم کیا گیا تھا یہ کتاب امور عامہ کی کمیٹی نے شائع کی تھی او راس کی اشاعت سے پہلے متعلقہ ایجنسیوں نے اور محکموں نے اس کے متن کی بڑی احتیاط سے جانچ پڑتال کی تھی۔ لہٰذا یہ کتاب مستند تھی مسٹر بروئن ایک امریکی فوجی میں بدکاری کے مثالی طوفان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
اس قسم کا کاروبار کرنے کے لئے کسی تردد کی ضرورت نہیں یہ کام خود بخود شروع ہو جاتا ہے اور یوں چلتا ہے جیسے شہد کے پیچھے مکھیاں اور جہاز کے پیچھے گرداب۔ تاریخ شاہد ہے کہ فوج کو اس سے نباہ کرنا پڑا ہے۔ ہر بندر گاہ اور صنعتی ترقی اورخوشحالی کا ہر دور اس کی آما جگاہ ہے اور زنا اور جنسی امراض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
آگے چل کر فاضل یہ درد ناک آواز بلند کرتا ہے کہ جنسی بیماریاں ابدی ہیں اور لوگوں کو شر سے بچنے کے طریقے وضاحت سے سمجھاتا ہے گویا ہزاروں لفظوں میں اپنی تردید آپ کرتاہے۔میں مسٹر بروٹن کا بیان اس لئے درج کیا ہے کہ وہ نیم سرکاری ہے اور حرام کاری سے متعلق عام مسلمہ یاس انگیزاورسطحی نقطئہ نظر کا حامل ہے۔ اس کا بیان سراسر غلط ہے۔
سب سے بزی تاریخی فوج میں زنا کا نام تک نہیں تاریخ میں سب سے بڑا صنعتی ارتقا، بدکاری کے عروج کی بجائے اس کے زوال کے بعد رونما ہوا۔ گذشتہ بیس سالوں میں بیسویں صنعتی شہر اور بڑی بڑی بندر گاہیں غیر معمولی رفتار سے منصئہ شہود میں آئی ہیں۔ لیکن ان میں بدکرداری نے کبھی ادنیٰ سے مسئلہ کی حیثیت سے بھی سر نہیں اٹھایا امر واقعی یہ ہے کہ روئے زمین پر ایک ایسا ملک موجود ہے جس کاسماج اٹھارہ کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے لیکن وہاں سے عصمت فروشی جنسی بیماریوں کو عملاً ختم کر دیا گیا ہے وہ ملک سوویت یونین ہے۔
لارڈ اور لیڈی پاس فیلڈ بیڑس اور سڈنی ویب اورقیور نیا لڈس جیسے محقق اور ہزاروں ماہرین طب جنہوں نے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سائنس کے رسالوں کو اپنی رپورٹیں بھیجیں اور اسی قسم کے بے شمار غیر جانبدار مبصرین متفق الرائے ہیں کہ سوویت یونین میں بیس سال کے قلیل عرصہ میں بداخلاقی کے نازک سے نازک مسائل جن میں جنس اور شراب سے متعلقہ مسائل بھی شامل ہیں۔ ایسی کامیابی سے حل کئے گئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اوریہ کامیابی اس حقیقت کے پیش نظر کتنی عظیم ہے کہ آج سے کوئی بیس برس پہلے جب کہ بد اخلاقی کے خلاف روس میں مہم شروع کی گئی اور وہاں کی آبادی مجموعی حیثیت سے جنسی بے رہروی اور شراب نوشی کی لغت میں اس بری طرح گرفتار تھی کہ دنیا کی کوئی قوم اس کا تصور تک نہ کر سکتی تھی۔
ہٹلر نے مشرقی محاذ جنگ کا آغاز کیا ہی تھا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بحری فوج کے کمان افسر مسٹر نار من نے جوان دنوں ماسکو جانے والے ہیری مین مشن کے ممبر تھے اور روس میں امریکی سفارت خانے سے ہیلتھ آفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہ چکے تھے۔ اخباری نمائندوں کو بیان دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ روس کی سرخ فوج اور فضائیہ جنسی بیماریوں کی لغت سے مبرا ہیں۔ اور یہ بات دنیا کی کسی فوج کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ بہت کم اخباروں نے اس بیان کو شائع کیا اور اتحادی قوموں کے ان رہنمائوں نے اس کا استقبال خاموشی سے کیا جو جنسی بیماروں کے خلاف ہمیں چلا رہے تھے اس واقعے کے کوئی تین سال بعد پروفیسر لیبی دین کوروس کی ریڈ کر اس سوسائٹی کے نمائندے کی حیثیت سے امریکہ پہنچے تو ایسو سی ایٹیڈ پریس، امریکہ کے نمائندوں نے ان سے ملاقات کی یہ اخباری نمائندے پروفیسر صاحب کے اس جملے پر منہ میں قلم دبا کر رہ گئے کہ نوجوان روسیوں کی موجودہ نسل کو کبھی عصمت فروشی کے معنی تک جاننے کی ضرورت پیش نہیں آئی اس بیان کو ایک طرف بے شمار لوگوں نے نہایت دلچسپی سے پڑھا او ردوسری طرف اسے شبہ کی نظر سے دیکھا گیا لوگوں نے مزید تحقیقات کی ہر چند کوشش کی۔ لیکن اس موضوع کو فوراً ترک کرا دیا گیا۔
آج سے پانچ سال پہلے سوویت یونین کے چند ماہرین فن کے ساتھ زنا اورشراب نوشی کے موضوع پر تبادلہ خیالات کرنے کا مجھے بھی موقع ملا۔ مجھے ان کی باتوں کی سچائی کا یقین ہو گیا تو میں نے ان سے ایک خاص سوال کر دیا کہ ٹھیک ٹھیک بتائیے کہ سوویت حکومت نے عصمت فروشی، بدکاری، جنسی بیماریوں، نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی اور شراب نوشی کی عادت کی روک تھام کے لئے کیا کچھ کیا۔
لیکن جواب میں سوائے خاموشی کے کچھ نہ پایا۔ یہ روسی سب کے سب نوجوان تھے انہوں نے اپنی زندگی میں سب سے پہلے پیشہ ور عورت کی شکل نیویارک اورٹورنٹو کے بازاروں میں دیکھی تھی البتہ انہوں نے برملا کہا کہ سوویت یونین کو ان مصیبتوں سے چھٹکار حاصل کئے مدت گذری۔ کم از کم دس سال کا عرصہ ہو چکا ہو گا۔ ہم اس وقت ابھی بچے ہی تھے ہمیں اتنا تو یاد پڑتا ہے کہ ہمارے والدین ان اقدامات پربحث کیا کرتے تھے جو بدکاری کے خلاف عمل میں لائے جاتے تھے۔ لیکن ہمیں ان کی تفصیلات یاد نہیں ہمارے لئے یہ کیا قصہ پار ینہ ہے۔
ان دنوں کینیڈا اور روس کے تعلقات خوشگوار نہ تھے۔ میں نے بداخلاقی کے خلاف سوویت اجہتاد کی مکمل داستان ڈھونڈ نے کی کوشش کی لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ انگریزی میں ان سے متعلق کوئی واضح اور مفصل رپورٹ شائع نہیں ہوئی لامحالہ میں نے ایسے پروئیویٹ ذرائع سے تفصیلات اکٹھی کیں جن کا سوویت حکومت سے دور کا بھی تعلق نہ تھا یہ مسودات تکنیکی اور مستند تھے اور اس میں عصمت فروشی اور جنسی بیماریوں سے متعلق جو مواد تھا اسے پروفیسر وی ایم برونرنے ترتیب دیا تھا جو جنسی بیماریوں کے ماہر تھے اور محکمہ صحت کے افسر اعلیٰ کے مشیر بھی تھے اور انہیں یورپ بھر میں جنسی بیماریوں کے ایک چوٹی کے ماہر سائنس دان مانا جاتا تھا۔
مذکورہ بالا ر پورٹوں میں جو کہانی موجود ہے۔ یہ کہانی اسی پر مشتمل ہے یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے۔ کہ سوویت یونین سے اکثر لوگوں کی ہمدردی ایک خاص حد سے آگے نہیں جاتی۔ ہم جن موضوعات پر قلم اٹھا رہے ہیں ان میں وہی مسائل اور عندئیے شامل ہیں جو سوویت حکومت پر اکثریت کے عدم اعتماد بلکہ نفرت کی بنیاد ہیں۔ مثلاً یہی چیز جسے پراپیگنڈہ کرنے والے حضرات ”سرخ اخلاقیات” اشتراکی آزادی محبت، اسقاط حمل اور سہل طلاق کے ذریعے خاندان بلشویکانہ تباہی وغیرہ کہتے ہیں اس کتاب کا موضوع ہے۔ ہمیں بار بار بتایا جا رہا ہے کہ اہل روس ایک ایسی قوم ہیں جن کی اخلاقی اور روحانی اقدار کو سختی سے تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ اب روس میں طوائف کا نام ونمود تک نہیں بعض حضرات فوراً بول اٹھیں گے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے سرکاری قانون کے صدقے سے ہے جس کے رو سے تمام عورتوں کو مشترکہ ملکیت قرار دے دیا گیا۔ لیکن ان تمام بچگانہ الزام تراشیوں کا جھٹلانے کے لیے موجودہ جنگ میں تمام روسی قوم کا مجموعی کردار اورروس کے بے شمار جوانوں، مردوں اور عورتوں کا متاثر کن بلند اخلاق ہی کافی ہے جنہوں نے حال ہی میں ہمارے ملک کا دورہ کیا ہے۔ روس کا مشہور جنگی ترانہ ”میری منتظررہ” ایک ایسے سپاہی شاعر کی تخلیق یقینا نہیں ہو سکتی جس کی بیوی اس کے آبائی شہر کی مشترکہ ملکیت ہو۔ روس کے طول وعرض میں وسیع پیمانے پرفتح کی خوشیاں منائی گئیں اور ن موقعوں پر بہت سے روسی شہری مدہوش بھی دیکھے گئے لیکن روس کی پولیس کو کسی ایک شرابی پر پستول اٹھاتے نہیں دیکھا گیا۔
آج بین الاقوامی حالات کی رفتار کا تقاضا ہے کہ ہم روس کو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ نظروں سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ ایک پیشہ ور پراپیگنڈسٹ کی رسمی تعریف وتذلیل پر کفایت کرنے کے دن گذر گئے پھر بھی ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کے لئے یہ خیال قابل قبول نہ ہو کہ ہم سوویت یونین سے گراں قدر اخلاقی سبق سیکھتے ہیں۔ کیونکہ انسانی تعلقات کا یہ ایک ایسا نازک حصہ ہے جو ہمیشہ سے ہدف تنقید بنا رہا ہے۔ بین الاقوامی تجارت اور دنیاوی امن کی خاطر باہمی اشتراک عمل تو ممکن لیکن روسیوں سے سبق سیکھنے کی بات تو انتہا پسندی کی دلیل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ روس کے باشندوں نے نہ کبھی ماضی میں وعظ کیا ہے نہ آج کل کرتے ہیں۔ وہ اتنے مصروف ہیں کہ انہیں ہمارے لئے مشنری بننے کی فرصت ہی نہیں۔ لہٰذا جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے وہ وعظ نہیں بلکہ روس کی اخلاقی پالیسی اور منصوبے کی خارجی حقیقی رپورٹ ہے۔ اگر اس کے باوجود آپ اسے وعظ تصور کریں تو میں ایک بات ضرور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وغط سنتے سنتے آپ کو نیند نہیں آئے گی۔

بدکاری کا پاسپورٹ سسٹم
روس کی موجودہ حکومت نے سوویت یونین کی عنان انتظام 1917کے انقلاب کے دوران میں سنبھالی۔ کمیونسٹوں کے پلے ایک ایسی قوم پڑی جو نہ صرف معاشی اورجسمانی بلکہ اخلاقی اعتبار سے اتنی گر چکی تھی کہ یقین نہیں آتا۔ روس میں بداخلاقی کی بنیاد عصمت فروشی کا باضابطہ نظام تھا جس کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی زار کی ریاست کرتی تھی۔ یہ نظام ان دنوں داغ بدنامی کی طرح دنیا بھر میں مشہور تھا۔ ”اسے پیلا پٹہ” کہتے تھے۔
زار شاہی روس میں تمام شہریوں کے پاس اپنے نام اور حلیے کی سند ہوتی تھی۔ جسے پاسپورٹ کہتے تھے۔ اس پاسپورٹ کے ذریعے زار کی پولیس روس کے باشندوں کی نہایت ہی سخت نگرانی رکھتی تھی۔ پاسپورٹ کے بغیر سفر کرنا خطرے سے خالی نہ تھا اور مسافر کو ہر وقت گرفتاری کا ڈر لگا رہتا تھا۔ یہ چھوٹا سا کارڈ نہایت ہی اہم دستاویز تھی۔ گویا یہ جینے کا اجازت نامہ تھا۔ لیکن بے شمار افراد کو اپنی مرضی سے اپنا پاسپورٹ پولیس کے پاس جمع کرانے کی اجازت تھی اوراکثر افراد کو ایسا کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہ ایسی عورتیں ہوتی تھیں جو عمر بھر کے لئے عصمت فروشی کا پیشہ اختیار کرتی تھیں۔ زار کے عہد حکومت میں یہ کام مردوں کی صحت کے لئے لازمی سمجھا جاتا تھا۔ عورت کی سماجی حیثیت اور اس کی بدکرداری سرکاری قانون کے ماتحت تھی۔
ان قوانین کے مطابق جو عورت بازار میں بیٹھنا شروع کر دیتی تھی اسے حق شہریت سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے اور اسے پاسپورٹ کی جگہ رسوائے عالم پیلاپٹہ لینا پڑتا تھا یہ پٹہ پولیس کی جانب سے عام جاری کیا جاتا تھا۔ یہ پٹہ سرکاری اجازت نامہ تھا اور اسے رکھنے والی عورت کو پولیس کے قوانین کے مطابق کھلے بندوں عصمت فروشی کا حق مل جاتا تھا۔ اس سسٹم کا سب سے مذموم پہلو یہ تھا کہ جو لزکی ایک مرتبہ یہ حیثیت قبول کر لیتی تھی، اسے اپنی تمام عمر بدکاری کے جہنم میں گذارنا پڑتی تھی۔ اس کے لئے کوئی راہ نجات نہ تھی۔ ہر عورت اپنا پاسپورٹ پیلے پٹے سے تبدیل کرا سکتی تھی۔ اس کے لئے کوئی راہ نجات نہ تھی۔ ہر عورت اپنا پاسپورٹ پیلے پٹے سے تبدیل کراسکتی تھی۔ لیکن قانون اسے دوبارہ اپنا پاسپورٹ بدلنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ یہ پٹہ اس داغ کی طرح دائمی اور انمٹ تھا جو قرون وسطیٰ میں چوروں کے ہاتھوں پر جلا کر کھود دیا جاتا۔
روس کی مقامی حکومتوں کا دستور تھا کہ وہ لائسنس یافتہ عورتوں کی زندگی اور پیشے کی تفصیلات اور قواعد مرتب کرتی تھیں۔ ہم ان عورتوں کے کارو بار کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ صرف اتنا ہی بتا دینا کافی ہے کہ جو عورت ایک مرتبہ اپنے لئے یہ پیشہ منتخب کر لیتی تھی۔ اسے ہمیشہ کے لئے کوئی باعزت روز گار تلاش کرنے کی ممانعت تھی کیونکہ پاسپورٹ کے بغیر ملازمت کا ملنا ناممکن تھا اور وہ اپنا پاسپورٹ پولیس کے پاس جمع کرا چکتی تھی۔
زار کے عہد میں بدکاری عورتوں اور لڑکیوں کی اصلاح کی ذرا بھی کوشش نہ کی جاتی تھی۔ اس کے برعکس قانون کی رو سے کسی پیشہ ور عورت کو دوبارہ باعزت روز گار تلاش کرنے کی ممانعت تھی اور وہ زندگی بھر اپنے پیشے کی حدود میں رہنے پر مجبور تھی۔ بصورت دیگر عدالتیں انہیں مجرم گردان کر سخت قسم کی سزائیں دیتی تھیں۔
شرافت کے تقاضے کے پیش نظر ہم زار شاہی قوانین کی تفصیلات میں نہیں جاسکتے۔تاہم یہ بات قابل توجہ ہے کہ پیشہ ور عصت فروشی اور زنا کار عورتوں کاوجود سماج کے لئے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ اکثر مقامات پر پیلے پٹے والی عورتوں کو مخصوص مکانات میںر ہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ جنہیں سرکاری طور پرحرام کاری کے اڈے کہا جاتا تھا۔ جہاں ایسا ممکن نہ ہوتا وہاں خاص علاقے مخصوص کرائے جاتے تھے۔ بسا اوقات پیشہ ور عورت کے لیے لازمی ہوتا تھا کہ وہ دوسرے کرایہ داروں کی طرح اس مخصوص علاقے میں داخلے کے مکان اپنا نام درج کرائے لیکن اس صورت میں پولیس اس کے نام کے ساتھ اس کا پیشہ بھی ضرور درج کرتی تھی ۔ہمارے لئے اس سے زیادہ اخلاقی پستی کا تصور بھی محال ہے۔ 1917کے انقلاب سے پہلے روس بھر میں حرام کاری کا وجود مسلمہ تھا۔ دراصل پیشہ ور عورتوں کو اپنا اتاپتا بتانے پر اس لئے مجبور کیا جاتا تھا کہ جو عورت عارضی افلاس سے تنگ آکر ایک مرتبہ بھی عصمت فروشی کی ذلت کے گڑھے میں گر جائے وہ دوبارہ پولیس اور اس کے رائج کر دہ پیلے پٹے کے سسٹم کے شیطانی چکر سے نہ نکل سکے۔
روس میں حرام کاری کا انتظام خاص اہتمام سے کیا جاتا تھا۔ بظاہر اس کا مقصد بدکاری کی روک تھام تھا لیکن کوئی سمجھ دار آدمی اس سرکاری مکاری سے دھوکا نہیںکھا سکتا۔ دراصل بدکاری کے بندوبست کا خصوصی پہلو یہ تھا کہ پیشہ ور لڑکیوں اور عورتوں کے بہ لحاظ حسن وسن مختلف درجوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ سب سے زیادہ کم سن اور حسین وجمیل لڑکیوں کو اعلےٰ درجے میں رکھا جاتا تھا او وہ امیروں، وزیروں اور بڑے بڑے تاجروں کے لئے مخصوس ہوتی تھیں۔ جو عورتیں خاص دل کشی کی مالک نہ ہوتی تھیں انہیں عمر بھر چکلوں میں رہ کر گھٹیا سے گھٹیا جرائم پیشہ لوگوں کے تیر ہوس کا نشانہ بننا پڑتا تھا۔ قانون کے مطابق پیلے پٹے والی عورت مسلسل پولیس کی نگرانی میں رہتی تھی۔ قانون میں پیشہ ور عورتوں کے لئے باقاعدہ ڈاکٹری معائنے اور چکلوں کی تلاشی کی شرط بھی تھی لیکن اونچے طبقے کے لئے مخصوص چکلے اس قباحت سے بری تھے اور پولیس اکثر بدنام قسم کے چکلوں پر ہی چھاپہ مارتی تھی۔
اس نظام کی برکت سے ایسے گندے اور ہولناک افعال سرزد ہونے لگے کہ آدمی کو یقین نہیں آتا۔بعض اوقات چکلوں میں عورتوں کی قلت ہو جاتی ہے اور بعض اوقات قوجی افسر شکایت کرتے کہ سپاہیوں میں آتشک کی وبا پھیل رہی ہے۔ لہٰذا قانون پر سختی سے عمل درآمد کرانے کے بہانے پولیس کوپے درپے چھاپے مارنے کے موقعے مل جاتے پولیس بالا روک ٹوک مزدور بستیوں میں جا گھستی اور تمام بازاروں، گھروں اور تفریح گاہوں کی تلاشیاں شروع ہو جاتیں۔ جہاں اصل پیشہ ور عورتوں گرفتار کیا جاتاوہاں نہایت چالاکی سے بہت سے ایسی لڑکیوں کو بھی دھرلیا جاتا جن کی پاک دامنی اور نیک چلنی پرشبہ تک نہیں کیا جا سکتا۔ ان معصوم لڑکیوں کوعدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا اور ان پر پیلے پٹے یعنی لائسنس کے بغیر پیشہ روی کاالزام لگایا جاتا۔ قانون کی اس خلاف ورزی کا جرمانہ پانچ ہزار روبل یعنی تقریباً تین ہزار سات سو پچاس روپے تھا۔ ظاہر ہے غریب ملزمہ سے اتنی بڑی رقم وصول نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس لئے قانون میں اس کا بدل موجود تھا۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں بے قصور اور مجبور ملزمہ سے پاسپورٹ چھین لیا جاتا اور پیلا پٹہ دے دیا جاتا۔پولیس اپنے چھاپوں کا منصوبہ بڑی ہوشیاری سے تیار کرتی تھی۔ پلان کے مطابق پولیس افسر اصل پیشہ ور عورتوں کے ہمراہ جہاں ان لڑکیوں کو پکڑلاتے ہیں جنہیں بعد میں پیشے کی لعنت میں مبتلا کرنا مقصود ہوتا تھاوہاں بہت سی غریب اور شریف عورتوں کو بھی لے آتے جن میں اکثر حاملہ ہوتیں اور بچوں کو دودھ پلاتی مائیں بھی شامل ہوتیں جن کو مجرم گردانتا مقصود ہوتا تھا۔ جج صاحبان ان کے علاوہ سب کو باعزت طور پر رہا کر دیتے تھے۔اس طرح پولیس چکلوں میں پیشہ ور عورتوں کی قلت کو دور کرنے کے لئے جو ذلیل اور انسانیت سوز طریقہ اختیار کرتی تھی وہ قانونی طور پر جائز ہوتا تھا۔
خیال رہے کہ زار شاہی کی عدالتوں کے رو برو تقریباً تما م عورتوں کی حیثیت نہایت ہی مظلومانہ اور پست تھی لیکن پیشہ ور عورتیں تو نہایت ہ مظلوم اور بے بس تھیں ۔ ٹالسٹائی کے ناول ”قیامت” میں ایک ایسی ہی لزکی کی لرزہ خیز داستان بیان کی گئی ہے جسے حرام کاری کی زندگی پرمجبور ہونا پڑا۔ فاضل ناول نگارنے بتایا ہے کہ زار کے افسر عورتوں کے ساتھ اس قدر سنگدلانہ برتائو کرتے تھے کہ امیر طبقے کے لوگ بھی ان کے سامنے بے بس تھے۔ پیلے پٹے کے معنی دراصل مکمل تباہی کے پاسپورٹ کے تھے۔ قانون کی رو سے عورتیں صرف دوصورتوں میں پولیس کی نگرانی سے چھوٹ سکتی تھیں۔پہلی یہ کہ عورت کی بیماری اتنی خطرناک ہو جائے کہ وہ مردوں کے قابل نہ رہے اور دوسری موت۔
ان حالات میں جنسی بیماریاںخوب پھلتی پھولتی تھیں۔ کبھی کبھار ایسے بااثر روسی لوگ جو ٹالسٹائی کی کتابوں جیسی تحریروں سے متاثر ہوتے یابعض مشہور ڈاکٹر جو اونچے طبقے کے خاندانوں میں آتشک کے پھیلنے سے گھبراتے تھے وہ جنسی بیماری کی روک تھام سے متعلقہ دفعات قانون پر سختی سے عمل درآمد کراتے۔ لہٰذا احکامات جاری ہوتے اور جھوٹی مہمیںچلا ئی جاتیں۔ پولیس جن ڈاکٹروں کو معائنے کے مامور کرتی تھی انہیں معائنوں کے حساب سے فیس دی جاتی تھی۔ بسااوقات کمپونڈروں کو معائنہ کے کام پر لگا دیاجاتا تھا۔ اکثر ایسا بھی ہوتا کہ پولیس چند افسروں کو جمع کر لیتی اوران کے سامنے فی گھنٹہ چار سو کے حساب سے معائنے کے لئے عورتیں پیش کی جاتیں۔ ہر ڈاکٹر زیادہ سے زیادہ مریض بھگتا نے کی کوشش کرتا اور معائنے کے وقت مریضوں کے لباس اتارناضروری نہ خیال کیا جاتا تھا۔ ظاہرہے ان حالات میں جو تشخیص کی جاتی ہو گی وہ نہایت ہی غیر تسلی بخش اور غلط ہوتی ہوگی۔ چونکہ مرض دریافت ہونے کی صورت میں علاج کرانا لازمی تھا اور علاج کے لئے بے شمار روپے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا بد نصیب عورتیں سستا طریقہ اختیار کرتی تھیں اور پولیس اور ڈاکٹروں کو نقدی کی صورت میں رشوت دے کر گلو خلاصی کرالیتی تھیں۔
لیکن اس سے یہ مراد نہیں کہ روس کے ماہر ڈاکٹر پیلے پٹے کے مذموم سسٹم سے نجات کا راستہ تلاش کرنے کی بالکل کوشش نہ کرتے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام حل جنہیں زمانہ جدید کے ماہرین دریافت کررہے ہیں۔انقلاب سے پہلے روس میں دریافت کئے گئے آزمائے گئے۔ اور ”ریاکارانہ گریز” کہہ کر ترک کر دئیے گئے۔ پورے تیس سال کا عرصہ گزراکہ ڈاکٹر ابراہام فلیکسلز نے ایک مشہور کتاب لکھی تھی۔ جس کا نام یورپ میں ”عصمت فروشی” رکھا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے آخری اور فیصلہ کن دلیلوںکے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عصمت فروشی پرکنٹرول سرے سے نامعقولیت اور حماقت ہے۔
جنسی امراض کے پھیلائو کوکسی خاص عرصے کے لئے نہ تو چکلوں کی نگرانی نہ دوسرے طریقے یعنی طوائفوں پر پولیس کا تشدد ہی کم کر سکتا ہے او رزنا کار عورتوں اور مردوں کا طبی معائنہ اس وقت تک قطعاً ناممکن ہے جب تک ہم ایک ایک ڈاکٹر کو گھیر کر ایک وسیع فوج میں منظم نہ کر لیں جن کا کام صرف جنسی امراض سے متاثر لوگوں کا معائنہ کرنا ہو خون کے معائنوں اور دوائوں کے ذریعے آتشک او رسوزاک پر قابو پانے کے لئے اس بر عظیم (یورپ) میں اتنے شفاخانے کھولنے کی ضرورت ہے جتنے آج گیس سٹیشن قائم ہیں۔
زار شاہی روس کے حکمران اس سماجی برائی سے متعلق مندرجہ بالا تلخ حقیقت سے واقف تھے لیکن انہوں نے اس کے خلاف کچھ نہ کیا کیونکہ وہ معذور تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ بدکاری پر سرکاری کنٹرول کانتیجہ لامحالہ یہ نکلے گاکہ قانون پر عمل در آمد کرانے والا محکمہ خود خراب اور رشوت خور بن جائے گا۔ اس لئے انہوں نے اس خرابی کو تسلیم کیا اور اسے قانونی حیثیت دے دی۔ ہر طواف کو پیلے پٹے کی بل پرکاروبار کرنے کا حق حاصل کرنے کے لئے فیس دینا پڑتی تھی اور اپنی آمدنی کاایک مقررہ حصہ مجسٹریٹ یا دوسرے سرکاری افسر کو ادا کرنا پڑتا تھا۔
ایسی صورت حال کو آج ہم ہرگزگوار ا نہیں کر سکتے۔ 1917کے پہلے کے روس میں جو بداخلاقی کا مسئلہ پایا جاتا تھا۔ اس میں اور ہمارے ہاں کے آج کل کے مسئلے میں ایک اعتبار سے حیران کن مشابہت ہے۔ ان دنوں روس میں زنا کاری دن بدن بڑھ رہی تھی۔ زار کی وزارت انصاف کے اعداد وشمار کے مطابق بدکاری اورجرائم میں پہلی جنگ عظیم کے پہلے کے بیس سالوں میں مسلسل زیادتی ہوئی۔ قتل وتشدد آمیز جرائم میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ۔حرام کاری پہلے کی نسبت تین گنا بڑھ گئی۔ پیلے پٹے کے سسٹم کے رائج ہونے سے بھی اس میں کمی واقع نہ ہوئی بلکہ حرام کاری نے اور بھی زور پکڑا۔ 1913میں سینٹ پیڑزبرگ (لینن گراڈ) کے شہر میں ساٹھ ہزار رجسٹر ڈ پیشہ ور عورتیں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی شراب کی کھپت میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا۔ کیونکہ شراب اور زنا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں میں شراب نوشی کی عادت زور پکڑ گئی۔ اندازہ لگایا گیا کہ دس سال کے عرصہ میں نوجوانوں کی اخلاقی حالت پہلے کی بہ نسبت دو گنی پست ہو گئی۔ اگرچہ زار کی عدالتیں ایسے نوجوانوں کے خلاف مقدمات کی سماعت بھی کرتی تھیں جن پر شدید ترین جرائم کے ارتکاب کا الزام ہو۔ لیکن وہ نوجوانوں میں بدکاری سے متعلق اعداد وشمار کو یکسر نظر انداز کر جاتی تھیں۔ روس میں انقلاب عظیم کی آمد کے وقت دس میں سے آٹھ طوائفیں ایسی تھیں جن کی عمر اکیس سال سے کم تھی۔ طوائفوں کی نصف تعداد نے یہ پیشہ اس وقت سے اختیار کیا تھا جب کہ وہ اٹھارہ سال کے سن کو بھی نہ پہنچی تھیں۔ دس میں سے چار طوائفوں نے حرام کاری کی زندگی کا آغاز سولہ سال کی عمر سے کیا تھا اور بہت سی چودہ سال کے سن کو پہنچنے سے پہلے ہی زینت بازار بن گئی تھیں۔
ہم ان حقائق کو یہ کہہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے کہ یہ خرابیاں زار روس کے عہد ہی کا خاصہ تھیں۔ ان کا جواب ہمارے ہاں موجود ہے۔ ہمارے ہاں کی وکٹری گرلز بھی ہائی سکول کی طالبات کی عمر کی لڑکیاں تھیں۔ سماجی تاریخ شاہد ہے کہ بداخلاقی زور پکڑتی ہے تو سیہ کاروں کی اوسط عمراسی تناسب سے کم ہو جاتی ہے۔ یعنی بدکاری کا آغاز نسبتاً کم سنی سے ہونے لگتا ہے۔
اس مسئلے سے متعلق ہم نے حال ہی میں غفلت ترک کی ہے۔ ڈاکٹروںنے اپنی مساعی دگنا کر دی ہیں۔ پادری نصیحت کرنے اور ڈرانے لگے ہیں او رسیاست دان حضرات ماہرین کی کمیٹیاں قائم کرنے لگے ہیں۔ اس سے 1910کے زار شاہی روس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جب کہ ایسے لوگوں نے زار کی حکومت پر دبائو ڈالنا شروع کیا تھا کہ بدکاری کی روک تھام کے لئے کچھ کیا جائے جو سلطنت زار کے اندر گناہ اور جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔ روس میں دوسرے ملکوں کے سیاح جاتے تھے تو وہ بلا جھجک کہہ دیتے تھے کہ مہذب دنیا پیلے پٹے کے سسٹم کو نہایت ہی نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ اس پر امیروں، وزیروں اور ڈاکٹروں کے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایماندار لوگ مارے ندامت کے عجیب الجھن میں پھنس جاتے تھے۔ انقلاب روس سے سات سال پہلے اخلاق سدھار تحریک نے اس قدر زور پکڑا کہ زار نے ید کاری کے خلاف منظم جہاد شرود کرنے کے سوال پر غو ر کرنے کے لئے ایک کانگرس بلائی اس کا نگرس کے سامنے سب سے بڑا بحث طلب سوال تھا حرام کاری سے متعلقہ قوانین کی تنسیخ یعنی عصمت فروشی پر سے سرکاری کنٹرول اٹھانے کی تجویز۔ روس کے ٹرید یونین رہنمائوں نے ا س کا نگرس کو کافی اہمیت دی اور انہوں نے اس میں اپنے دن مندوب بھیجے۔ پولیس نے ہر چنددبائو ڈالاکہ ان نمائندوں کو نہ سنا جائے لیکن اس کے باوجود انہیں اظہار خیال کا موقع دیا گیا۔ جب انہوں نے اس کہاوت کے مطابق کہ ”سوسنار کی ایک لوہار کی” اعلان کیا کہ روس میں بڑھتی ہوئی بدکاری کا موجب زار شاہی نظام ہے تو مجمع حیرت میں پڑ گیا۔ انہوں نے معاشی اور سیاسی زبوں حالی کو بدکاری کے اضافے کا سبب ٹھہرایا اور دعویٰ کیا کہ موجودہ مطلق العنان حکومت عصمت فروشی اور جنسی بیماریوں کو دور کرنے کی جو بھی کوشش کرے گی وہ انجام کارنا کام ثابت ہو گی۔
اس پیش گوئی کو اس لئے زیر بحث نہ لایا گیا کہ مبادا اوہ کانگریس ہمیشہ کے لئے سائبیریا کی جیلوں میں منتقل کر دی جائے۔لہٰذا پولیس شاہی نے فتح پائی۔ اس کے خیال میں پیلے پٹے کا نظام بہتر تھا اور دوسرے ملکوں میں حرام کاری کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے جو صورت حال پائی جاتی تھی۔ یہ نظام ا س پر قابل ترجیح تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نچلے طبقے کی چند ہزار عورتوں کا عمر بھر کے لئے عصمت فرشی اختیار کر لینا اس سے بدر جہا اچھا ہے کہ شریف خاندانوں کی بیٹیاں بھی سیہ کاری کی لپیٹ میں آئیں۔ ان کی لمبی چوڑی تقریروں اور ریاکارانہ دلیلوں کے پیچھے جو تلخ حقیقت پوشیدہ تھی اسے دولفظوں میں یوں بیان کیا ہے کہ سلطنت روس میں بدکاری پر باقاعدہ سرکاری کنٹرول حکومت کے لئے نہایت ہی منفعت بخش تھا دراصل بدکاری پرکنٹرول کرنے کے بہانے روس کی عورتوں سے قانوناً کثیر رقم وصول کی جاتی تھی چوساری کی ساری زار کے بددیانت اور رشوت خور افسروں کی جیبوں میں جاتی تھی۔ چونکہ زار شاہی صرف پولیس کی آمریت کی بدولت قائم تھی۔ اس لئے اعلیٰ حکمرانوں نے فیصلہ کر دیا کہ محکمہ پولیس کوجوآمدنی نوجوان لڑکیوں کی عصمت کی تجارت سے ہوتی ہے اس میں دخل نہ دیا جائے۔ لہٰذا جو کانگریس بدکاری سے متعلق قوانین کی تنسیخ کے لئے بلائی گئی تھی وہ اس عیارانہ نتیجے پر پہنچ کر ختم ہو گئی کہ ”نچلے طبقوں” کی عورتیں خطرناک حدتک بدکار ہیں۔ کیونکہ ان کی گذر ان ہی عصمت فروشی پر ہے چرچ نے اس فیصلے کو اپنی ازلی انداز میں سراہا اور اعلان کیا کہ انسان ازلی گناہ گار ہے۔
حاصل کلام یہ کہ اس اجتماع نے بھی اس اصول کو تسلیم کیا کہ بداخلاقی اور نبی نوع انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور عورتیں ہی اس کی ذمہ دار ہیں۔
اس سلسلے میں ہمیں اس دلچسپ بحث کوبھی فراموش نہیں کرنا چاہیئے جو امریکہ میں بھی جاری تھی اور جس کا موضوع یہ خیال تھا کہ جنسی بیماری کو سماجی مسئلہ تسلیم کر لیا جائے تو اسے بہ اعتبار نسل دو حصوں میں یعنی گورے اور کالے میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کارنل یونیورسٹی میڈیکل کالج کے محکمہ صحت عامہ امتناعی ادویات کے ایک مشہور ممبر ڈاکٹر ڈبلیو۔ جی سملی نے امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے رسالے بابت جون 1934 میں ایک مشہور معروف بیان شائع کیا۔ انہوں نے امریکی فوج کے ان سپاہیوں کا معائنہ کیا تھا جو آتشک کے مریض تھے۔ ان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا:۔
یہ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ میں آتشک پر قابو پانے کے لئے جو پراپیگنڈہ ہوا ہے اس کااکثر حصہ گمراہ کن ہے۔ عام طور سے بتایا جاتا ہے۔ کہ دس ہزار افراد میں سے ایک کو آتشک کی بیماری ہے۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے۔ بحیثیت مجموعی گوری نسل کے لوگوں میں آتشک کا عارضہ بہت کم پایا جاتا ہے اور وہ بھی زیادہ گوری نسل کے سب سے نچلوں طبقوں کے افراد تک محدود ہے۔ آتشک کی بیماری عموماً اس قسم کے گورے لوگوں میں پائی جاتی ہے جو جاہل، بد احتیاط، جرائم پیشہ اور غیرمہذب ہیں آتشک اور دراصل ایک سماجی مرض ہے”۔
اس کے بعد ڈاکٹر سملی نے حبشیوں میں آتشک کی شرح دریافت کرنے پر زور قلم صرف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”چونکہ آتشک کی بیماری گوروں کی بہ نسبت حبشیوں میں دس گنا زیادہ پائی جاتی ہے اس لئے حکام کا چاہیئے کہ جہاں اس بیماری کا تناسب حد سے زیادہ ہے وہیں اپنے منصوبوں کودس گناہ زیادہ شدومد سے عمل میں لائیں۔ اور قوم کے سیاہ فام لوگوں میں بیماری کو روکنے کے لئے اپنی تمام کوششیں وقف کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سفید فام لوگوں میں بھی بیماری گھٹ جائے گی۔
یہ دلیل حبشیوں پر ایک کھلے حملے کے مترادف ہے۔ کیونکہ اکثر جاہل، بداحتیاط، جرائم پیشہ اور غیر مہذب گورے لوگوں کے تعلقات حبشی قوم سے بھی ہیں۔ لیکن ہم ایک منٹ کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ ڈاکٹر سملی کی مراد کچھ اور تھی وہ ڈاکٹروں کی توجہ ایک ناقابل انکار حقیقت کی طرف دلا رہے تھے مگر وہ آگے چل کر کہتے ہیں۔
یہ رجحان اب تک عام پایا جاتا ہے کہ صحت عامہ سے متعلق سرکاری حلقے اس امر کو سرسری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں یا یکسر فراموش کر جاتے ہیں کہ آتشک کی بیماری حبشیوں میں عام ہے۔ اس حقیقت کو جتنی جلدی مان لیا جائے اور موجودہ صورت حالات کی اصلاح کر لی جائے تو یہ نہ صرف حبشی نسل کے لئے اتنا ہی بہتر ہے بلکہ بہ حیثیت مجموعی قومی صحت کے لئے مفید ہوگا”۔
ڈاکٹر سملی کی نیت بری نہ بھی سہی لیکن وہ خود اور دوسرے بہت لوگ جوان کی حمایت کرتے ہیں۔ ان افسروں سے زیادہ مجرم ہیں جنہیں وہ ہدف تنفید بناتے ہیں۔ اس دلیل میں ان حقائق پر جس طرح پر دہ ڈالا گیا ہے وہ ایک سائنس دان کے شایان شان نہیں۔ اس میں حقیقت کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے۔
جنسی بیماری گورے لوگوں کی نسبت حبشیوں میں کیوں زیادہ ہے؟ ڈاکٹر سملی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک نسلی خصوصیت ہے۔ کیا یہ سچ ہے! اور پھر گوری نسل کے اکثر غیر مہذب لوگ جنسی امراض میں کیوں مبتلا ہیں؟
جسے خدمت خلق کاکچھ تجربہ ہے اس کے نزدیک اس سوال کا جواب نہایت آسان ہے حبشی قوم میں جنسی بیماریوں پر پردہ ڈالنے کی بھی ایک خاص وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ حق بات کہنے سے وہ ہولناک صورت حال منظر عام پر آتی ہے جس میں حبشی لوگ زندگی گزار رہے ہیں امریکہ کے حبشیوں کی بہت بڑی اکثریت اس قسم کی بے رحمانہ سیاسی اور سماجی لوٹ کھسوٹ کا شکار ہے جو کبھی زار شاہی روس میں پائی جاتی تھی۔ حبشیوں کے آتشک میں مبتلا ہونے کے سبب بھی وہی ہے جس سے غیر مذہب گورے لوگوں کی بیماری لگتی ہے۔ وہ سبب ہے غربت جسے نسل وسل سے کوئی واسطہ نہیں۔
ڈاکٹر سملی اس واضح اور ٹھوس حقیقت پر اعداد وشمار کا ایک نرم ونازک پردہ ڈال رہے ہیں۔ جس ایسے لوگ خاص طور سے پسند کرتے ہیں جو دانستہ یا نا دانستہ بدکاری کے بنیادی وجوہ کو چھپاتے ہیں ”آتشک دراصل ایک سماجی بیماری ہے”۔ آخر اس فقرے کا کیا مطلب ہے؟ جو مطلب بھی آپ چاہیں نکال لیں۔ معاشی بحران کے دوران میں اس قسم کے فقرے ان نام نہاد سائنس دانوں نے استعمال کئے تھے جنہوں نے امداد یاب اور بے رو زگار لوگوں کے حالات کی تفتیش کرتے وقت اپنی غیر جانبداری کا ڈھنڈ ورا پیٹا تھا۔ سماجی سائنس کے ان متوالوں نے اپنی مصفےٰ ناکیںآسان کی طرف اٹھا کر فیصلہ کیا کہ ”بے روز گاری دراصل ایک سماجی مظہر ہے”۔ انہوں نے لاکھوں ”ناقابل ملازمت” لوگوں کے بارے میں ہزاروں قسم کے نظریئے تراشے۔ وہ ان رجعت پسندوں اشاروں پر ناچ کر ذلیل ہوئے جنہوں نے سائنس کو مادیت میں منتقل کر دیا۔ یعنی رجعت پسندوں نے یہ مقولہ گھڑ لیا کہ ”قابل آدمی بے کار ہوہی نہیں سکتا صرف ناکارہ،نکمے لوگ ہی امداد طلب کرتے ہیں”۔
آتشک یقینا سماجی بیماری ہے اوراسی طرح عصمت فروشی بھی سماجی علت ہے۔ لیکن اس کامطلب یہ ہے کہ بداخلاقی اور اس سے وابستہ باقی تمام مسائل ہمارے سماج کی بنیادی خرابیوں کی پیداوار ہیں۔ ڈاکٹر سملی حبشی نژادا مریکیوں کوجرائم پیشہ اورغیر مہذب گوروں کے ساتھ ملا کر سائنسی حقیقت کے دائرے سے باہر نکل گئے ہیں اور خواہ ان کی نیت ہو یا نہ ہو ایسا کرنے سے وہ نسلی تنا فربرتنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں ایک نہایت ہی خطرناک ہتھیار دے رہے ہیں۔ آتشک کا اس قسم کا تجزیہ اور بھی شیطانی فعل ہے کیونکہ یہ بیماری جنسی ہے۔ اور یہ سفید جھوٹ ہے کہ حبشی لوگ بہ اعتبار نسل سفید فام لوگوں کی نسبت گھٹیا اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں۔ حبشی قوم کے خلاف نفرت انگیز پراپیگنڈے کی ایک بڑی بنیاد ہے اور یہی وہ زہر ہے جس سے متاثر ہو کر جنوبی ریاستوں کے فاشسٹ انتقام کے جذبے سے اندھے ہو کر قتل وغارت کا بازار گرم کرنے پر تل جاتے ہیں۔ جنوبی ریاستوں کے حبشیوں اور گوروں میں جو اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں وہ حبشی نسل میں جنم نہیں لیتیںجو نہ صرف حبشیوں بلکہ اسی طرح سفید فام لوگوں میں بھی بد اخلاقی کو جنم دیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر سملی ہمیں باور کرانا چاہتے ہیں کہ حبشیوں کا علاج ہو جائے تو آتشک ختم ہو جائے اس کا تو صاف اور سید ھا مطلب یہ ہے کہ کالے لوگ ہی گوروں میں بیماری پھیلاتے ہیں۔ ایسے خیالات براہ راست گوئبلز اینڈ کمپنی کی بکواسیات سے چرائے گئے ہیں
اب ہم یہ بتائیں گے کہ دوسرے ملکوں میں ”سماجی بیماری”کی نوعیت کیا ہے؟سب سے پہلے کینیڈا کو لیجئے۔ وہاں حبشی آبادی بہت ہی تھوڑی ہے جو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں امریکہ کی بہ نسبت معاشی ناانصافی بہت کم ہے۔ وہاں آج تک کسی نے آتشک کے بیماروں کے متعلق گورے اور کالے لوگوں کے لئے الگ الگ اعدد وشمار پیش نہیں کئے۔
میں نے کینیڈا کے ڈاکٹروں اور سوشل ورکروں سے تحقیقات کی ہے۔ کینیڈا کے حبشی بھی اوسطاً غریب ہیں لیکن وہ اتنے افلاس زدہ نہیں ہیں جتنے امریکہ کے لاکھوں کالے خاندان اور جہاں تک جنسی بیماری کا تعلق ہے گورے اور کالے کینیڈاوی میں تمیز روا نہیں رکھی جاتی۔
تاہم امریکہ کے اصلی باشندے انڈین عموماً آتشک میں مبتلا ہیں جو ایسے علاقوںمیں رہتے ہیں جہاں سخت لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہے۔ اس سے بھی زیادہ متاثر کن وہ اعداد وشمار ہیں جو کینیڈا میں تپ دق سے متعلق ہیں۔ جہاں تک اس مرض کا تعلق ہے کینیڈا والوں نے کبھی بھی گوروں اور انڈینوں میں خط امتیاز کھینچ لیا ہے کیونکہ بحیثیت مجموعی ملک کی تمام آبادی کے مقابلے میں انڈینوں میں دق کا مرج بہت زیادہ ہے لیکن کینیڈا کے ڈاکٹر حقیقت کی پووہ پوشی کے مجرم نہیں وہ اس نظریے کے ہر گز حامی نہیں کہ انڈین بہ لحاظ نسل سفید طاعون یعنی دق سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ تپ دق ان معنوں میں سماجی بیماری ہے کہ یہ بیماری ان لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی جنہیں سماج ہمیشہ کے لئے افلاس کے جہنم میں دھکیل دیتا ہے اور گھٹیا غذا ، گندی رہائش، جہالت اور طبی امداد سے محرومی ان کا مقدر ہو جاتا ہے۔ انڈینوں میں تپ دق سے مرنے والوں کی تعداد مختلف مقامات پر مختلف ہے۔ ڈاکٹرای۔ ایل۔ راس اور اے ایل پین نے حال ہی میں تخمینہ لگایا ہے کہ جو سفید فام لوگ مخصوص انڈین علاقے کے ساتھ آباد ہیں ان کے مقابلہ میں انڈینوں میں تپ دق کا مقابلہ کرنے کی قوت بہت کم ہے۔ تاہم یہ دلچسپ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ علاج کے بعد ان کی ایک بڑی تعداد نے خاطر خواہ شفاپائی۔ اگر انہیں گورے لوگوں کی طرح سہولتیں اور مواقع میسر کئے جائیں تو مانع اوردافع مرض اقدامات سے وہ بھی اتنے ہی متاثر ہوں گے جتنا کہ گورے لوگ۔ ان محققین نے اس جاںگداز افلاس، غلاظت اور جہالت کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔ جس میں بے رحم حکومت وقت نے کینیڈا کے اصلی باشندوں کو دھکیل رکھا ہے۔
آتشک کا مرض امریکہ کے کالے باشندوں میں دس گنازیادہ ہے۔ تپ دق کینیڈا کے گورے باشندوں کے مقابلہ میں انڈینوں میں دس سے لے کر بیس گنا تک زیادہ ہے۔ یقینا دونوں امراض سماجی بیماریاں ہیں او راس کے اصل معنی بالکل واضح ہیں۔
اور وہ معنی یہ ہیں کہ امریکہ کے حبشی اور کینیڈا کے انڈین اپنے اپنے ملک میں سماجی زبوں حالی کی ایک ہی سطح پر ہیں وہ سب سے نچلے طبقے ہیں۔ وہ معاشی گڑھے کی تہ پر ہی رینگتے رہنے پر مجبور ہیں۔ کوئی جو شیلا اور دیانت دار منصوبہ ساز جنسی امراض کے رہائشی شفاخانے یا تپ دق کے خیراتی ہسپتال قائم کرنے کے خواہ کتنے بھی منصوبے بنائے وہ اس سماجی حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔
ایک پشت یعنی تیس سال سے زیادہ عرصہ گذرا کہ روس کے ٹریڈ یونین رہنمائوں نے اس کا نگریس کے سامنے جو عصمت فروشی کے بارے میں غور کرنے بیٹھی تھی یہی حقیقت رکھنے کی کوشش کی تھی جس کااطلاق ان دنوں ان کی قوم پر ہوتا تھا لیکن زار کی سلطنت میں حبشیوں جیسی قربانی کی بکریاں نہ تھیں۔ مفکرین نے سماجی بیماری کے اقتصادی وجوہ پر غور کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے باز ولہر الہرا کر نچلے طبقے کی عورتوں کو بدکاری پر اور مردوں کو ابدی ہوس پر برا بھلا کہا اور بس۔
اور گور کی کے الفاظ میں زار شاہی اور اس کے ماہرین اخلاقیات ایک مردہ مچھلی کے مشابہ تھے۔ جس کا سر سب پہلے سٹرتا ہے۔

آزاد محبت
نومبر 1917 کے انقلاب نے زار شاہی معاشرے کی جھوٹی چمک کو خاک میں ملا دیا۔ نیم جاگیرداری کا نظام پہلے سے ہی متزلزل تھا اور انقلاب کے ایک ہی ریلے سے تہس نہس ہو گیا۔ جو رسمیں اور حقوق صدیوں سے مقدس اور مسلم مانے جاتے تھے وہ فوراً ختم ہو گئے۔ روس کا معاشی، سیاسی اور سماجی بحران اور بھی شدید ہو گیا اور سوویت حکومت کافی مدت تک بدکاری اور بد اخلاقی کے خلاف کوئی موثر اقدام نہ کر سکی۔
لیکن انقلاب کے پہلے دن ہی سے کمیونسٹ رہنمائوں کو احساس تھا کہ جو معاشرہ حقیقی معنون میں آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی ایسے اخلاقی نظام کو برداشت نہیں کر سکتا جس کی بنیاد لاتعداد عورتوں کی غلامی پر ہو جہاں انقلابی حکومتوں کے ہاتھ میں طاقت آتی۔ وہاں پولیس کا انتظام بھی عوام کے ہاتھ میں آجاتا اور سب سے پہلے جو اقدام کیا جاتا وہ پیلے پٹے کے سسٹم کا خاتمہ ہوتا 1917کے بعد اشتراکی حکومت نے پیشہ ور عورتوںسے ہر قسم کے ٹیکس کی وصولی بند کر دی۔ تاہم اس تبدیلی کا آنا لازمی امر تھا۔ کیونکہ انقلاب تھا ہی منظم مزدور طبقے کا اور لایا ہی محنت کش طبقے کے لئے تھا۔ مزدور طبقے کی حمایت نہایت ہی مفلس کاشت کاروں نے کی تھی۔ چونکہ روس کی طوائفوں کی بھاری اکثریت شہر اور دیہات کے مفلس اور نادار طبقوں سے جبراً بھرتی کی گئی تھی۔ لہٰذا نئی حکومت ان بد قسمت اور معصوم عورتوں کا وحشانہ استحصال کب دیکھ سکتی تھی۔
یوں پیلا پٹہ غائب ہوا اور تمام عورتوں کے شہری حقوق بحال کر دیئے گئے لیکن اسی سخاوت پر قناعت نہیں کی گئی۔ انقلابیوں میں بھی بعض سیاسی رہنما خیال پرست تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بدکار عورت کو مہذب عورت کے پہلو بہ پہلو استعمال رائے کا حق دے دینے سے اس کا انسانی وقار بحال ہو جائے گا۔ لیکن انہوں نے بہت جلد منہ کہ کھائی۔ قدیم زار شاہی حکومت کے زوال کے بعد ہر قسم کی بدکاری جس میں فیشنی عصمت فروشی بھی شامل ہے۔ حقیقتاً بہت زیادہ بڑھ گئی۔
بہت جلد ایک نئی حقیقت کا انکشاف ہوا کہ انقلاب سے جو نئی آزادیاں ملی ہیں انہیں عجیب وغریب قسم کے معنی پہنائے جارہے ہیں۔ ایک اشتراکی نعرہ کہ تمہیں اپنی زنجیروں کے سوا کھونا ہی کیا ہے۔ کارل مارکس کا یہ انقلابی نعرہ اقتصادی لوٹ کھسوٹ سے متعلق تھا۔ بہت سے روسیوں خاص طو ر سے نوجوانوں اور دانش وروں نے اس نعر ے کو یہ معنی پہنا کر عام کر دیئے کہ ”تمہیں اپنی رکارٹوں کے سوا کھونا ہی کیا ہے”۔ ان لوگوں نے سوچا کہ زار شاہی کے ساتھ ہی اخلاق کے سرمایہ دارانہ معیار کوبھی ختم کر دینا چاہئے۔
جس طرح ان لوگوں کو توقع تھی کہ لینن ایک ہی جھٹکے سے سوشلسٹ سماج پیدا کر دے گا، جس میں ہر چیز ان کی دسترس میں ہوگی اسی طرح ان باتونیوں سے روس کی لڑکیوں اور عورتوں کو یقین دلایا کہ محبت اب پیچیدہ شے نہیں رہی۔ بس جیسے کھانا کھا لیا او رپانی پی لیا۔ ویسے ہی محبت کر لی۔
آزاد محبت کا نظریہ بہت پرانا ہے۔ آج ہمارے ہاں اکثر نوجوان اس کے حامی ہیں لیکن اسے انقلابی لفاظی میں لپیٹ کر پیش کیا گیا تو بعض روسی مردوں میں یہ خاصا ہر دلعزیز ہو گیا۔ بعض حضرات یہاں تک بڑھے کہ ایک نیا نظریہ لے کر میدان میں آئے اور کہنے لگے کہ زنا کاری کو ختم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ جنسی تعلقات پر سے ہر قسم کی پابندی ختم کر دی جائے۔
بداخلاقی سے متعلق یہ نیا نظریہ آگے چل کر نہایت ہی نفرت انگیز اور واضح الفاظ میںپیش کیا جانے لگا۔ بعض حضرات کھلم کھلا دلیلیں دینے لگے کہ جب آپ کو بھوک لگتی ہے آپ کھانا کھالیتے ہیں اور جب پیاس لگتی ہے پانی پی لیتے ہیں اسی طرح جب آپ پر شہوت غالب آئے تو جو عورت بھی آپ کی دسترس میں ہو اس سے محبت کیجئے ایسا کرنا کوئی بداخلاقی نہیں۔
ان لوگوں کے مغز میں یہ بات نہ آئی کہ اخلاق کا یہ معیار قائم ہو گیا تو اخلاق کا جنازہ ہی نکل جائے گا۔ روس کے دانشوروں کی اکثریت نے تو اخلاقی فلسفے کو سرے سے بورژوائی فلسفہ ہی قرار دے دیا اور کہنے لگے کہ یہ زار شاہی دور کی چیز ہے۔ اسے نئے سماج میں جگہ نہ دینا ہی بہتر ہے۔ ظاہر ہے ان لوگوں کو زار شاہی سماج سے دلچسپی تھی نہ سوویت سماج سے، وہ تو مزدور اور کسان طبقے کی عورتوں کو آزاد کرانا چاہتے تھے۔
ان کا قول ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ وہ چاہتے یہ تھے کہ آزاد محبت کے نظریے کو فوراً تسلیم کرلیا جائے۔ آزاد محبت کے نظریئے کو جذباتی شاعروں سے لے کر اخلاقی خور دبین کے نیچے رکھیئے تو آپ پر اس کی حقیقت فوراً عیاں ہو جائے گی کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ”آزادی” کے نام سے تمام عورتیں زنا کاری شروع کر دیں۔
اشتراکی رہنمائوں کے نظریات اور پر وگراموں میں آزاد محبت کے لئے کوئی جگہ نہ تھی اس کے برعکس اشتراکی حکومت کے رہنما جانتے تھے کہ انفرادی آزادی کے پردے میں جس قسم کی آزادی محبت کی وکالت کی جاتی ہے وہ سوشلسٹ سماج کے راستے میں روڑے اٹکائے گی۔ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ دنیا کی جو طاقتیں اشتراکی حکومتیں کا تختہ الٹنے کی تیاریاں کی رہی ہیں۔ وہ آزاد محبت کے نظریئے کو خوب استعمال کریں گی جسے وہ عورتوں کی ”مشترکہ ملکیت” کا نام دیتی تھیں۔ سوویت حکومت کے خلاف جو پراپیگنڈا کیا جاتا تھا۔ اس میں اس بات پر خاص طورسے زور جا تا تھا کہ بالشویک اخلاقیات کی بنیاد اسی پالیسی پر ہے کہ تمام عورتیں ہر مرد کی دسترس میں ہونی چاہئیں۔ یعنی عورتوں کو مشترکہ ملکیت قرار دے دیا جائے۔ شادی کا نظام ختم کر دیا جائے۔ تمام بچوں کی ریاستی اداروں پر ورش کی جائے اور بچہ باپ کی تمیز سے آزاد ہو وغیرہ وغیرہ۔
میکسم گورکی عمر بھر زار شاہی روس کے پر فریب اور ظالم نظام کے خلاف جدوجہد کرتا رہا۔ لیکن اس نے چند سال اشتراکی نظام کی مخالفت بھی کی ۔نئے نظام پر اس کاایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ کروڑوں مزدوروں اورکسانوں کی نجات کے دوران میں ناقابل تغیر انفرادی حقوق بھی پامال نہ ہو جائیں۔ گورکی ان مشہور تاریخی ہستیوں میں سے تھا۔ جنہوں نے شخصی آزادی کے لئے سخت جہاد کیا تھا۔ لیکن اس نے آج کل کے خطیبوں کی طرح چند چوٹی کے افراد کی شخصی آزادی کی خاطر تلوار نہیں اٹھائی۔ کیونکہ آزادی سے اس کا مطلب سب کی آزادی، لاکھوں انسانوں کی آزادی۔ عوام کی آزادی تھا۔
گورکی نہایت ہی مخلص مجاہد تھا۔ وہ جانتا تھا کہ خامی کہاں ہے۔ ا س نے یہ نہیں کہا کہ نئے اخلاقی رجحان کے ذمہ دارا شتراکی رہنما ہیں بلکہ جو شخص اس رجحان کو ہوا دیتے تھے اس نے انہیں ہی ملزم ٹھہرایا اور سخت الفاظ میں اس رجحان کی مخالفت کی۔ اس نے 1920میں جو کچھ کہا وہ آج ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس نے اپنے ایک مشہور ناول میں لکھا۔
میں محبت کی بحث چھیڑنا نہیں چاہتا۔ تاہم اتنا ضرور کہہ دیتا ہوں کہ میرے خیال میں نوجوانوں کی موجودہ پود نے جنسی تعلقات کی حدسے زیادہ سادہ بنا لیا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا انہیں جلد یا بد یر لیکن ضرور ملے گی”۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے لینن نے آزاد محبت کے پرچارکوں پر سرکاری طور سے حملہ کیا۔ وہ عرصہ سے کسی موقع کی تلاش میں تھا۔ کلاراز یتکین نامی ایک انقلابی عورت نے لینن سے اس مسئلے پر ملاقات کی تو اس نے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا۔ کلا رانے نئے انقلابی خیال کی طرف لینن کی توجہ مبذول کرائی کہ جنسی خواہش بھی پیاس کی طرح ایک فطری، جسمانی حاجت ہے اور جب کبھی خواہش پیدا ہو پیاسے کی طرح پیاس بجھا لینی چاہئے۔ اس نے نئے نظام کے رہنما سے سوال کیا کہ اس کا اس بارے میںکیا خیال ہے۔
لینن نے کہا۔ ”ہاں” ۔ پیاس بجھانا ضروری ہے۔
اس کے بعداس نے اخلاقی ظاہر داری اور تکلفات سے نفرت کا اظہار کیا اور نئے رجحان کی سخت مخالفت کی۔ اس نے کہا۔
عام حالات میں ایک صاحب ہوش آدمی کو پیاس لگے تو وہ نالی میں لیٹ کر گندے کیچڑ میں سے پانی پی لے گا یا ایک ایسے گلاس میں پانی پی لے گا جس کے کنارے بے شمار ہونٹوں کی نمی سے چکنے ہو رہے ہوں۔ لیکن اس امر کو سماجی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پانی پینا ایک ذاتی فعل ہے۔ لیکن محبت دو زندگیوں کے باہمی تعلقات کا نام ہے اور اس سے تیسرے نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ لہٰذا سماجی اہمیت اور قومی فرض کے پیش نظر ایک کمیونسٹ کی حیثیت سے مجھے پانی کے گلاس والے نظریئے سے کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ اس پر ”تسکین محبت” کا حسین لیبل لگا ہواہے۔ بہر حال اس قسم کی محبت نہ کوئی نئی چیز ہے نہ اشتراکی تمہیں یاد ہو گا کہ گذشتہ صدی کے وسط میں رومانی ادب میں اس نظریئے کا پرچار ”دل کی نجات” کے نام سے کیا جاتا تھا۔ لیکن عملاً یہ نظریہ نفس کی آزادی بن گیا۔ ان دنوں آج کے مقابلے میں نہایت ہی سلجھے ہوئے طریقے سے پرچار کیا جاتا تھا۔ جہاں تک عمل کا سوال ہے میں کوئی فیصلہ نہیں دیتا۔
جب لینن سے سوال کیا گیا کہ وہ کس حد تک جنسی آزادی کے مخالف ہیں تو انہوں نے جواب دیا۔
میری تنقید کا مقصد یوگ کا پر چار نہیں۔ اشتراکیت یوگ نہیں بلکہ زندگی کی مسرت اور قوت کا نام ہے اور مطمئن محبت کی زندگی ا س کا موجب ہو گی۔ آج کل ہر کہیں جنسی معاملات پر حد سے زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ میری رائے میں اس سے زندگی کو مسرت اور قوت حاصل نہیں ہوتی بلکہ چھنتی ہے۔ ایک عظیم انقلاب کے زمانے میں اس قسم کے رجحان کا پایا جانا بری بات ہے بہت بری بات ہے۔ نوجوانون کو خاص طور سے زندگی کی مسرت اور قوت کی ضرورت ہے۔ جنسی مسائل کے متعلق دائمی نظریوں، مباحثوں اور نام نہاد ”جی بھی کے جینے” کے نظریئے کے مقابلے میں صحت بخش کھیل، مختلف قسم کی ذہنی دلچسپیاں تعلیم ، مطالعہ تحقیق وغیرہ نوجوانوں کے حق میں زیادہ مفید ہیں۔ جسم تندرست ہے تو ذہن بھی تندرست ہے”۔
جنسی تعلقات کے بارے میں اشتراکی رہنمائوں کا سرکاری عندیہ کیا تھا۔ لینن کا مذکورہ جامع بیان اس کا آئینہ ہے۔ لہٰذا ان طویل بحثوں کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں جن کو لینن کے مختصر بیان نے ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔ البتہ ہمیں ایک چیز ضرور ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اشتراکی پروگرام روس کے معاشرے کی اقتصادی اور سیاسی منصوبہ بندی تک محدود نہ تھا بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع اور دوررس تھا۔
سوویت حکومتیں نہ صرف روز مرہ کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کا عزم کئے ہوئے تھیں بلکہ وہ خود انسان کی فطرت کو بدل دینا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کو ماسکو سپورٹس کلب نے اپنے موٹو میں نہایت ہی ڈرامائی انداز میں پیش کر دیا تھا۔
ہم اقتصادی بنیادوں پر محض انسانی معاشرے کی نئی سرے تشکیل نہیں کر رہے بلکہ ہم سائنسی اصولوں کے مطابق بنی نوع انسان کی اصلاح کر رہے ہیں۔
ہم اس موٹو کے پہلے حصے کو ہر گز رد نہیں کر سکتے۔ کیونکہ آج ہم بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی اقتصادیات کو بدلنے کی ضرورت ہے لیکن ”سائنسی اصولوں کے مطابق بنی نوع انسان کی اصلاح ” ایک بالکل ہی مختلف مسئلہ ہے یہ چند الفاظ ان تمام فلسفیانہ اور اخلاقی خیالات کے آئینہ دار ہیں جن پر صدیوں سے بحث چلی آتی ہے۔
سب سے پہلے…. اس موٹو میں یہ بتایا گیا ہے کہ نسل انسانی کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت بدلی جا سکتی ہے۔ آخر میں یہ عجیب وغریب خیال کہ سائنسی اصولوں کی مدد سے انسانی فطرت کو بدلا جا سکتا ہے یعنی انسانی فطرت کی اصلاح ایسے طریقوں سے کی جائے جنہیں پہلے تجربے کی کسوٹی پر پر کھا جائے اور درست ثابت ہوں تو بلا خوف ناکامی ان پر عمل کیا جائے۔
ہمیں محض فلسفے سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ہمارا تعلق حقائق سے ہے اور یہ امر واقعی ہے کہ انسانی تاریخ میں انسانی اخلاق کے بارے میں جو سب سے پہلا تجربہ کیا گیا اس کی بنیاد انہیں تین اصولوں پر یقین محکم تھا جن کا ذکر ابھی ابھی اوپر کیا گیا ہے۔
ہمیں ان اصولوں کو فی الحال اسی حد تک تسلیم کرنا پڑے گا جہاں تک ہمارے ذاتی اعقادات اجازت دیں۔ لیکن اگر ہم یہ جاننے کے لئے بے تاب ہیں کہ اشتراکی حکومتیں سماج سے جنسی بیماریوں، بدکاری، زنا اور شراب نوشی جیسی بدعتوں کو کس طرح ختم کرنے میں کامیاب ہوئیں تو ہمیں ذرا غیر جانبداری سے کام لینا پڑے گا۔
چلئے! ہم دیانت داری سے غیر جانبدار ہیں لیکن اس خیال کو کیسے تسلیم کر لیں کہ سائنسی اصولوں کی مدد سے انسانی نسل کی اصلاح ہو سکتی ہے؟
ہم نے وہ بڑی بڑی طبی مہمیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں جو ہمارے ملک میں بڑی شدومد سے چلائی گئیں اور اگر چہ وہ جنسی بیماریوں پر قابو پانے تک محدود تھیں لیکن فائدہ پھر بھی کچھ نہ ہوا۔ اس کے بعد کسی ذمہ دار سائنس دان نے دوبارہ یہ جرأت نہیں کہ کہ وہ بداخلاقی کا واحد علاج محض تحقیقات بتائے۔ پھر اشتراکیوں کی یہ خوش فہمی کہاں تک درست ہے کہ انجام کار بدی پرنیکی فتح پائے گی؟
اشتراکی سائنس دانوں نے سب سے پہلے یہ بتایا کہ بداخلاقی دراصل ہے کیا چیز اور اس پر اسرار پر دے کو چاک جو گناہ کے گرد لپٹا ہو اتھا۔
سرمایہ داری نے محبت کو قابل احترام بنایا
شہوت ایک انسانی جبلت ہے۔ یہ بھوک اور پیاس سے اس لحاظ سے مشابہ ہے کہ یہ بھی اپنی تسکین چاہتی ہے لیکن علم حیات، فلسفے اور تاریخ کے روسی ماہرین نے اس گھٹیا مادی نظریئے کا تجزیہ کیا جسے لینن نے ”پانی کے گلاس” والی تشبیہہ سے یاد کیا تھا۔ تو وہ متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ شہوت اور پیاس میں ایک بنیادی فرق ہے۔ بچے میں جنسی خواہش پیدائش سے موجود نہیں ہوتی بلکہ رفتہ رفتہ پیدا ہوتی ہے اور جوانی کے دنوں یعنی بارہ چودہ سال تک پوری ترقی کر جاتی ہے۔ جنس خواہش کے جوان ہوتے ہی لڑکے اور لڑکی کے جسم اور ذہن میں نمایاں تبدیلیاں ہو جاتی ہیں۔ انسانی دماغ کی رنگ آفرینیوں، خیالات تصورات اور سپنوں کے ذریعے جنسی تسکین کی لذت، مسرت اور آرزو بہت بڑھ جاتی ہے لیکن جس کو زندہ رکھنے کے لئے لازمی ہے کہ بھوک اور پیاس کی پیہم اور متواتر تسکین ہوتی رہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل کے جذبے کا یہ عالم نہیں۔ اس خواہش کی کبھار تسکین ہوتی رہے تو کافی ہے۔ لیکن نفسانی خواہش کا حیاتی مقصد بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ بوقت ضرورت اس خواہش کی تکمیل سے ہم والدین بنتے ہیں۔ انسان پیدا ہوتے ہیں اور انسانی نسل قائم رہتی ہے۔
یہ ایسے حقائق ہیں جن سے ہر کس وناکس واقف ہے۔ اس طرح یہ حقیقت بھی سب پر آشکارا ہے کہ جنسی خواہش کی تکمیل سے بے حد مسرت حاصل ہوتی ہے او رانسان کا ذہن اس راحت کو اس قدر پرکیف اور گونا کوں بنا دیتا ہے کہ اسے بھوک اور پیاس سے تشبیہہ دینا ممکن اور غلط ہے۔
اشتراکی سائنس دان اس نکتے پر پہنچ کر اپنے پیش رو اخلاقی نظریہ بازوں سے الگ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے جنسی مسئلے کو ابدی مسئلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دعویٰ کیا کہ جدید سماج کے افراد جنسی تعلقات کے اعتبار سے پرانے زمانے کے مردوں اور عورتوں سے اتنے ہی مختلف ہیں جتنے آج ہم اپنے عصر جانوروں سے۔
انہوں نے اس چیز کا ایک اچھوتا تصور پیش کیا جسے ہم ”محبت” کہتے ہیں۔ انہوں نے محبت کی اس ادنےٰ تعریف کو کافی نہیں جانا کہ محبت محض ایک مسرت بخش خواہش کا نام ہے۔ ان کے خیال میں یہ تعریف تو محبت کی تو ہیں کی مترادف تھی کیونکہ محبت…. اس سے کہیں افضل شے ہے۔ تاریخی حقائق کی روشی میں اشتراکی سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے کہ محبت کا جدید تصور انسانی سماج کی عظمت، ترقی پسندی اور انقلابی ارتقا کا مظہر ہے اور محبت کے مکمل شعور اور مسلسل عروج کی بنیاد پر ہی اصل معنوں میں ایک بااخلاق سماج قائم کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ بات کتنی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ سائنس دان اٹھیں اور محبت کے متعلق نظر یہ سازی شروع کر دیں۔ یہ تو ایک تضاد ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ انسانی کا ایک ماہر پروفیسر محبت کے متعلق وہ تخیل آرائیاں کر سکتا ہے کہ ہمارا ادراک وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر ہم اشتراکی سائنس دانوں کے وسیع مطالعے اور تحقیق سے اہم نتیجے اخذ کریں تو ان کا خلاصہ کچھ اسی سے ملتا جلتا ہو گا۔
قدیم وحشی انسانوں میں جنسی تعلقات جانوروں کے سے تھے۔ قوت شہوی مرد کی امتیازی خصوصیت تھی اور عورت محض لذت کشی کا آلہ اور بچے جننے کی مشین تھی۔ قدیم مرد علم حیات کے حقائق سے بالکل بے بہرہ تھا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ عورت کیونکر حاملہ ہوتی ہے۔ اس لئے وہ والد ینیت کے حقیقت سے بھی آشنانہ تھا۔ یعنی وہ یہ نہ جانتا تھا کہ دو افراد مردو عورت کے ملاپ سے بچہ پیدا ہو سکتا ہے اور دونوں کا اس پر برابر کا حق ہے۔ لہٰذا زمانہ وحشت کے ایک خاص سماجی گروہ کی عورتیں اس گروہ کے تمام یا اکثر مردوں سے وقتاً فوقتاً ملتی تھیں۔ یہ رواج وحشی سماج کی امتیازی خصوصیت تھا۔ لہٰذا تاریخ سے پہلے کی دنیا سے متعلق سب افسانے حماقت پر مبنی ہیں۔ قدیم مرد رومانی تصورات سے بالکل عاری تھا۔ اس کی عورت محض بچے جننے اور پالنے کی مشین تھی اور گھٹیا درجے کی محنت کش۔
اس ابتدائی قدیم سماج سے رفتہ رفتہ اس سماج نے جنم لیا جسے ہم عہد بربریت کہتے ہیں۔ اب صرف ایک ہی عورت سے شادی کرنے کا رواج پیدا ہوا اس رواج کی بنیاد علم حیات کے ابتدائی حقائق کے ادراک پر تھی۔ یعنی مرد اب یہ سمجھنے لگا تھا کہ وہ ایک ہی عورت سے ملے تو بچہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے اب بچہ نہ صرف عورت کا بلکہ مرد کا بھی تھا۔ لیکن عورت کی سماجی حیثیت ویسی ہی رہی پہلے وہ بہت سے مردوں کی ملکیت تھی۔ اب وہ ایک مرد کا مال بن گئی۔ وہ جسمانی اعتبار سے مرد کی مطلق غلام رہی۔ حتیٰ کہ اکثر بربر قبیلوں میں سخت محنت کا کام زیادہ تر عورت کو ہی کرنا پڑتا تھا۔
بربریت کے سماج کی کوکھ سے قدیم تہذیب نے جنم لیا۔ نہ صرف اشتراکی کی محقیقن بلکہ دوسرے ملکوں کے ماہرین بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسانیت کو بربریت سے آگے بڑھانے والی قوت محض ازدواجی رشتوں کا انقلاب نہ تھا بلکہ اس کے موجب اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ عوامل بھی تھے۔ یہاں ان سب پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں۔ لیکن اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ قدیم مہذب سماج کے ارتقائی مظاہر بہت سادہ اور عام فہم تھے۔ یہ ابتدائی مہذب سماج پرانے قبائلی نظاموں کے مقابلے میں خوراک، رہائش، مکانات اور ملبوسات زیادہ پیدا کرتا تھا۔ اس کی اکثریت مفلس او رمحنت کش تھی چند لوگوں کونسبتاً زیادہ اور امن چین کی زندگی نصیب تھی۔ ایسے لوگوں کے پاس اتنا وقت ضرور نکل آنکل آیا تھا کہ وہ فطرت کی پراسرار قوتوں کے بارے میں سوچ سکیں اور مختلف تاویلیں گھڑ سکیں۔
قدرتاً جس چیز نے سب سے پہلے مر د کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ جنس تھی۔ انسانی تاریخ کے ماہرین نے ثابت کیا ہے کہ قدیم مرد، جنس اور مذہب میں بہت قریبی رشتہ سمجھتا تھا۔ محبت کی دیوی زہرہ، اناج کی دیوی سیریز وغیرہ کی آفرنیش اور فرائض کا تعلق جنسیات سے تھا۔ قدیم مذہبی رسومات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی زرخیزی، سورج کی زندگی بخش روشنی اور دوسری مادی مظاہر فطرت کو پیچیدہ اور مسرت بخش نفسیاتی جذبات اور پراسرار مادریت سے براہ راست وابستہ سمجھتا جاتا تھا۔ آج ہم میں سے اکثر لوگ ان حقیقیتوں سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ قدیم مذاہب اور آج کل کے مذہبوں میں بہت سی چیزیں مشابہ ہیں، لیکن قدیم مذاہب روحانی تصورات اور عبادت کے طریقوں کے لحاظ سے بہت سے مختلف تھے۔قدیم اور جدید مذہب میں کتنی وسیع خلیج حائل ہے۔ یہ حقیقت عصمت فروشی کی اصلیت سے واضح ہے عصمت فروشی نے قدیم ترین زمانے کی عبادت گاہوں میں جنم لیا۔
زمانہ بربریت اورنیم مہذب دور کے مذہبی اصولوں کے مطابق تمام عورتوں کا فرض تھا کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک بار یا متعدو مرتبہ اپنے آپ کو مہنتوں کے حوالے کریں اس سے انحراف کی سزا عمر بھر کا بانجھ پن سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ دیوتا ایسی نافرمان عورتوں کو سراپ دے دیتے تھے کہ وہ عمر بھر اولاد کو ترسا کریں۔ مثال کے طور پر بابل میں رہنے والی ہر غریب اورامیر عورت کو زندگی میں ایک مرتبہ محبت کی دیوی زہرہ کے مندر میں ضرور جانا پڑتا تھا۔ وہ عورت اس مندر کے باغ میں اس وقت تک انتظار کرتی جب تک کوئی اجنبی مگر ہم مذہب اس سے ہمکنار نہ ہوتا۔کیونکہ اس کے دل کو اس وقت تک قرارنصیب نہیں ہو سکتا تھا جب تک وہ اپنے مذہبی فریضے سے سبکدوش نہ ہو جاتی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بھدی اور بد صورت عورتوں کو بسا اوقات کئی سال تک مسلسل منتظر رہنا پڑتا تھا۔جب کہیں جا کر وہ بڑی مشکل سے کسی پجاری کو بھوگ کرنے اورنجات بخشنے پر رضا مند کر پاتی تھیں۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس رسم پر سے مذہبی تقدس کا جھول بہت جلد اتر گیا۔
آخر مندر کی حفاظت اور پجاریوں کے لئے روپیہ کہاں سے آتا تھا؟ ہرمرد کا مذہبی فرض تھا کہ وہ مندر جائے توچاندیکاایک سکہ ضرور بھینٹ چڑھا ئے یہ رواج بے شمار غلیظ اور غیر روحانی خیالات کا ذریعہ بنا۔ اولاً ایسے آدمیوں کی کمی نہ تھی جو چاندی کے سکے کے بل پر دیوئوں کی کوشنودی حاصل کر لیتے تھے۔ کیونکہ نجات کا یہ طریقہ نہایت ہی سہل تھا۔ دوسرے اکثر عورتوں کو بہت جلد معلوم ہو گیا کہ وہ جتنی مرتبہ بھی چاہیں مندر جائیں اور ہر مرتبہ نئے سے نئے پجاری کو ممنوں کریں اور چاندی کا ٹکڑا بھی ساتھ لیتی آئیں۔
ظاہر ہے کہ بت پرست مہنتوں نے اس فاضل آمدنی سے بہت جلد اپنا حصہ مانگا۔ وہ کب دیکھ سکتے تھے کہ عورتیں ان کے مندر میں آئیں اور دیوتا کے درشن بھی کریں اور اشنان بھی، ہوتے ہوتے دیوتائون کی پوجا کا گھر عصمت فروشی کا اڈہ بن گیا۔ مرد تو سیدھے اپنی خواہش کے لئے جاتے۔ عورتیں اور مندر کے کرتا دھرتا روپیہ کماتے۔ عبادت گاہ چکلے میں بدل گئی۔
اس طرح بدکاری ایک سماجی کا روبار بن گیا اور کئی صدیوں تک اس کی حیثیت نیم مذہبی اورنیم تجارتی رہی۔ موجودہ ہندوستان میں یہ رواج بعینہ آج تک چلا آتا ہے رومانی افسانوں کی ناچنے والی لڑکیاں،دیوداسیاں، بدکردار قاصائوں سے مشابہ ہیں جو اپنے گاہکوں سے مندروں میں ملتی ہیں اور ہر ایسے آدمی کی دسترس میں ہیں جو دکشادے سکے۔
عام لوگ جانتے ہیں کہ عیسائیت نے اس گندے رواج کو مغربی دنیا میں ہر کہیں منسوخ کر دیا لیکن اس سے زنا کاری کا خاتمہ نہیں ہوا اگر کچھ ہوا تو صرف یہ کہ بدکار عورت کلیسا کی حدود سے نکل کر ایک تجارتی اور غیر مذہبی قسم کے مکان میں جا بیٹھی۔ کافی عرصہ پہلے یہ تجربہ یونان میں آز مایا جا چکا تھا۔ قدیم یونانیوں کی شاعرانہ اور عالمانہ قابلیتوں کااحترام واجب لیکن ہم اس دور کی زندگی کی اصلیت کا تجزیہ کرتے ہیں تو یونان کی کلاسیکی تہذیب کی بے پناہ تعریف وتحسین غیر متوازن سی نظر لگتی ہے سیس نامی عورت جسے دیکھتے ہی اس وقت کے بڑے فلسفی ڈیموتھینس پر الہام کی بارش ہونے لگتی تھی ایک کھلی فاحشہ تھی۔ اسی قسم کی عورت اسپا سیا تھی جس کا پجاری پیر یکلس تھا۔ یہ عورتیں یونان کی چوٹی کی دلربائوں میں سے تھیں۔ ان کے حسن اور قابلیت کی جس قدر بھی تعریف آج تک کی گئی ہے اس کے باوجود یہ گھنائونی حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ سیس ۔ اسپاسیا اور دوسری دلربانا زنینں روپے سے پیار کرتی تھیں۔ وہ اپنی ہم پیشہ عورتوں سے زیادہ باو قار اور علےٰ درجہ کی تھیں تو محض ا س لئے کہ ان میںوہ خوبیاں موجود تھیں جن کے باوصف وہ زیادہ روپیہ طلب کر سکتی تھیں ان سے نچلے درجے میں ایسی عورتیں تھیں جو ان مردوں کا دل لبھاتی تھیں جو شائستہ بات چیت کی بجائے ناچ گانے کے زیادہ شوقین تھے۔ اس سے بھی نیچے ایک اوردرجہ تھا اس درجے کی عورتیں سب سے زیادہ غریب مردوں کی خدمت کرتی تھیں۔ان طوائفوں کے پہلے دروجے کو ہیٹی ری، دوسرے درجے کو ایلیوتریدی اور تیسرے درجے کو وکٹی ریادس کہتے تھے۔
یہ تھا یونان کا گندہ نظام جسے ڈکٹیٹرین سسٹم کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ نظام غیر مذہبی اور تجارتی تھا لیکن ایک بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ عصمت فروشی کے اس نظام کو اخلاقی اعتبار سے ہر گز بر ا تصورنہ کیا جاتا تھا جس وقت رومی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ ان دنوں روم میں بھی زنا کاری کا ایسا نظام قائم تھا جو مکانات، باتھ یا حمام کے نام سے مشہور تھے۔ ان میں آج کل کے کوٹھوں میں صرف اتنا فرق تھا کہ باتھ آراستہ پیراستہ ہوتے تھے۔ان کا ماحول دلفریب اورفنکارانہ تھا اور ان میں حفظان صحت کی ہر سہولت کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔
عیسائیت نے زنا کار عورتوں کو کلیسا سے نکال کر ایک طرح برا ہی کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے بدکاری کے اڈوں کا کلیسا سے الگ کر کے ایک اخلاقی فتح حاصل۔ لیکن زنا کارعورت کو کلیسا سے نکل کر ہمیشہ کے لئے فحش اور بد اخلاقی کی زندگی اختیار کرنا پڑی اور وہ سماج میں بیماریوں کا سرچشمہ بن گئی۔ ہوا یہ کہ بدکاری کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرون وسطیٰ میں سینکڑوں سال تک اس کے سماجی وقار میں کوئی فرق نہیں آیا۔ صلیبی جنگوں کے دوران میں زنا اس قدر عام تھاکہ یقین نہیں آتا تھا۔چارلس بہادر کی فوج مشرق کے کافر اور بد اخلاق لوگوں کے خلاف بڑی سج دھج سے جہاد کرنے نکلی تھی لیکن اس مقدس فوج کے ادنےٰ ملازموں اورخیمہ برداروں میں چار ہزار سے زیادہ فاحشہ عورتیں شامل تھیں۔ کھیل کود کے میلوں،عیدوں اور دوسرے مقدس موقعوں پر عیش وعشرت کا جو بازر گرم ہوتا تھا اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس سے جو صور حال پیدا ہوئی وہ تاریخ طب کا ایک مستقل عنوان ہے۔ ہم یہاں اس کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
تاہم اتنا دینا ضروری اور مفید سمجھتے ہیں کہ جس چیز کو ایک رواج کی حیثیت حاصل تھی اسے آخر ایک سماجی برائی کیونکر مانا جانے لگا۔ بار ھویں صدی کے وسط میں جرمنی اور انگریزی فوجوں نے مل کرلزبن پر چڑھائی کی تو فوجی افسروں نے دیکھا کہ عورتوں کے غول جو فوج کے ہمراہ ہیں وہ سپاہیوں کے لئے ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لئے فوج میں زنا کاری اور عصمت فروشی کے خلاف انہوں نے سخت قانون نافذ کرائے۔ مثلاً شاہ فریڈرک اول نے حکم دیا کہ آئندہ کوئی سپاہی اپنے کوارٹر میں عورت کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ جس کسی نے ایسا کرنے کی جرأت کی اس سے اسلحہ چھین لیا جائے گا او راسے برادری سے خارج کر دیا جائے گا اور عورت کی ناک کاٹ لی جائے گی۔ لیکن عورت کو بد وضع بنا دینے کا یہ وحشیانہ اقدام بھی اسی طرح ناکام رہا جس طرح فوجی جرنیلوںکے بے عزت کرنے کی دھمکی اور پادریوں کے فتوے بے اثر ہوئے۔ لیکن فریڈرک کی مقرر کردہ سزائوں کو وقتاًفوقتاًاستعمال ضرور کیا جاتا رہا اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ آئندہ پانچ سو سال یعنی سترھویں صدی عیسویں تک یورپ کے جلا د عورتوں کی ناکیں کاٹنے میں مصروف رہے۔
یہ بات خاص طورسے قابل ذکر ہے کہ ان عورتوں کو ناک کاٹنے کی سزا نہ دی جاتی تھی جو رئیسوں سے ہم آغوش ہوتی تھیں۔ کم از کم امن کے زمانے میں تو ایسا ہر گز نہ ہوتا تھا۔ پادری ڈیوڈ جوئس نے 1180 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ملکہ فرانس اور اس کے دربار کی دوسری عورتوں کو بسا اوقات حسین وجمیل طوائفوں پر معزز بیویاں ہونے کا شبہ ہوتا تھا۔ بعض اوقات وہ بڑی الجھن میں پھنس جاتی تھیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر شاہ فرانس لوئیس سینرد ہم نے ایک قانون نافذ کیا جس کی رو سے درباری طوائفوں کو لبادہ پہننے کی ممانعت کر دی گئی تاکہ انہیں آسانی سے پہچانا جا سکے۔
اس سے کوئی سو سال بعد تیر ھویں صدی عیسوی میں جب کہ فوجی کیمپوں میں زنا کاری کسی طرح بھی کم نہ ہوئی تو یورپ کی فوجوں میں وہ نظام رائج ہو گیا جسے باضابطہ عصمت فروشی کہتے ہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک بعض جگہوں پر کئی مرتبہ اس نظام کی وکالت اور حمایت کی جاتی رہی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض حکمرانوں نے اس سے بھی پہلے یہ طریقہ رائج کر دیا ہو۔ لیکن شاہ جرمنی فریڈرک ثانی نے 1380میں اپنے مارشل کو حکم دیا کہ شاہی فوجوں میں دھندا کرنے والی عورت سے ایک مقررہ رقم وصول کی جایا کرے۔ ا س کے بعد برطانیہ، فرانس، اٹلی اورہالینڈ کے حکمرانوں نے مختلف افسروں کے ویسے ہی اختیارات دے دیئے۔ آج ہم ایسے احکام کو ایک سیکنڈ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ لہٰذا تفاوت راہ ابھی سوسال سے کچھ ہی زیادہ عرصہ گذرا ہو گا کہ ایلبا کے ڈیوک نے ہالینڈ پر چڑھائی کی تھی تو اس کے ہمراہ سینکڑوں عورتیں تھیںجو شہزادیوں کے لباس میں ملبوس تھیں اور ان کی رانوں تلے نہایت ہی نفیس گھوڑے تھے۔ بہت سی عورتیں پاپیادہ تھیں اور سب کی سب فوجی وردی پہنے تھیں۔ ان کے پاس اپنے پرچم تھے جو اسی فوج کے جھنڈے سے مشابہ تھے جس سے وہ وابستہ تھیں۔ ڈیوک نے حکم دے رکھا تھا کہ جو سپاہی مقررہ رقم ادا کر دے اسے ٹھکرایا نہ جائے۔
برطانیہ سمیت یورپ کے تمام ملکوں میں عصمت فروشی کی تاریخ ایک ساتھ چلتی ہے۔ برطانیہ کے حکمرانوں نے حملہ آوررو میوں کے رواج کے مطابق پہلے پہل زنا کاری کو باتھوں، حماموں تک محدود رکھا۔ ہنری اوّل کے زمانے تک خاص طو رہے وہ اڈے جو دریائے ٹیمز کے کنارے واقع تھے۔ عیش ونشاط کی دعوتوں اورجنسی رنگ رلیوں کے مرکز بن گئے تھے۔ ہنری دوم کو ان اڈوں پر کنٹرول کرنے کے لئے قانون بنانا پڑا۔ مثلاً مذہبی تہواروں کے موقعوں پر ان اڈودں کو بند کر دینے کا حکم تھا۔ ان اڈوں کے مالکوں کو کسی شادی شدہ عورت یا عیسائی بیراگن یانن سے پیشہ کرنے کی ممانعت تھی ۔ کوئی عورت اپنے گاہک کے ساتھ ساری رات نہ گذارے وہ کسی معاوضے کی حق دار نہ ہو گی۔
قرون وسطیٰ میں شہروں کی آبادی کے ساتھ زنا کاری بھی بڑھتی گئی۔ فوجوں اور قافلوں کو عورتیں سپلائی کرنے والے دھڑا دھڑ روپیہ کماتے تھے۔ اس وقت جوصورت حال تھی ا س کی گواہی بہت سی دستاویزوں سے ملتی ہے جو اب تک محفوظ ہیں۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ 1414میں شہنشاہ سگمنڈ آٹھ سو سواروں کے ساتھ سوئٹزر لیند کے شہر برنی میں داخل ہو ا تو برنی کی کونسل نے ازراہ مہمان نوازی کثرت رائے سے یہ فیصلہ کیا کہ معزز مہمان اور ان کے ساتھیوں کو تین دن تک کھلی چھٹی ہے کہ وہ جس طوائف سے بھی چائیں ملیں۔ یہ دعوت نہ صرف قبول کی گئی بلکہ بعد میں شہنشاہ نے تہ دل سے لکھ کر شکریہ ادا کیا۔
یہاں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ جو صورت حالات ہمیں نا قابل برداشت اور مذموم معلوم ہوتی ہے ان دنوں اسے بداخلاقی پر مبنی تصور نہ کیا جاتا تھا بلکہ یہ رواج اس زمانے کی اخلاقیات کا ایک جزو ہے۔ قرون وسطیٰ میں عصمت فروشی کو عام اخلاقی زندگی کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ایک عرصے سے حرام کاری کو سماج میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
تاریخ شاہد ہے کہ عصمت فروشی سماج کے مدراج ترقی کا پیمانہ رہا ہے اس سلسلہ میں جدید جاپان کی صورت حال زیر غور ہے۔ موجودہ جنگ کے دوران میں ٹھنگنے مہذب جاپانی نہایت ہی وحشی ثابت ہوئے اور معلوم ہو اکہ یہ مہذب لوگ بدمعاشی کے ہزاروں اڈوں کے مالک تھے اور یہ اڈے مقدس آسمانی شہنشاہ جاپان ہیروہیشو کی حکومت کے زیر نگرانی تھے ان میں اکثر کو حکومت کوخود چلاتی تھی۔ صرف جاپان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میںاگر کوئی مرد ایسی عورت سے شادی کر لے جو سالہا سال تک سر بازار عامتہ الناس کی تسکین کرتی رہی ہو تو اس کے سماجی وقار اور قدر منزلت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ہٹلر کے عہد حکومت میں جرمنی کی اخلاقی پستی انتہاکو پہنچ گئی تھی۔ اہل جرمنی کی اخلاقی بے راہ روی اور فحاشی صدمہ انگیز تھی۔ بدمعاشی کے اڈوں کی باقاعدہ تنظیم اور بڑے بڑے اخباروں میں فحش جنسی اشتہارات کی اشاعت جرمنی کے عام اخلاقی گراوٹ کی آئینہ دار تھی۔ جاپان اور جرمنی کی اخلاقی پستی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ اخلاقی اعتبار سے یہ ملک غلام داری کی طرف مائل ہیں بلکہ اس وقت سے بھی گئے گزرے ہیں۔
جاپانی اخلاقیات کے بارے میں بے حد خرافات سننے میں آئی ہیں۔ جنگ بحرالکاہل کے دوران چند اتحادی افسروں نے نہایت سنجیدگی سے اطلاع دی تھی کہ جاپان کی جیشا گرلز، ناچنے والے دوشیزائیں، طوائفیں ہرگز نہیں بلکہ وہ شریف خاندانوں کی لڑکیاں ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں مختلف اداروں میں ملازمت کرنے والی لڑکیاں ہیں۔ عرصہ ہوا کہ جاپانی اخلاقیات کے بارے میں آرہر تزے نے اپنی تصنیف ”یوشی دارا” میں تفصیلی حقائق پیش کئے تھے۔ اس نے لکھا ہے کہ جاپان میں عام چکلوں کو یوشی دارا کہتے ہیں۔ مختلف درجوں کے لحاظ سے ان کے مختلف نام ہیں۔ ان چکلوں کوعام طو رپر حکومت چلاتی ہے یاپھر مندروں کے مہنت۔ یہ رسم صدیوں پرانی ہے اور اپنی موجودہ صورت میں قرون وسطیٰ کی رسم کی زندہ مثال ہے۔ اس رسم میں آج تک کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
حکومت جاپان ان اڈوں کے لئے کم سن لڑکیوں کو خریدتی ہے اور انہیں اپنے پیشے کی تعلیم دیتی ہے۔ دیوالیے اورفاقہ زدہ کسان عموما اپنی لڑکیوں کو برضاورغبت فروخت کر دیتے ہیں۔ لڑکیوں کو ان کے خدوخال اور عقل وفہم کے مطابق مختلف طبقوں کے مردوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ سب سے اعلےٰ حسین بچیوں کو خاص توجہ سے تعلیم وتربیت دی جاتی ہے۔ انہیں لکھنا پڑھنا، شعر وشاعری، موسیقی ورقص اور آداب محفل خاص طو رسے سکھائے جاتے ہیں۔ پڑھائی بیسوا کے کوٹھے میں ہوتی ہے اور عموماً سب سے بوڑھی طوائف استانی کے فرائض سرانجام دیتی ہے لیکن کم سن لڑکیوں کوچودہ سال کے سن سے پہلے عملاً پیشہ شروع کرنے کی قانوناً ممانعت ہے۔ ایک اور قانون کے مطابق طوائف کو صرف اس صورت میں چکلہ چھوڑنے کی اجازت ہے جب کوئی مرد اسے اپنی بیوی بنانے کے لئے خریدے۔ اس مقصد کے لئے ہر شخص کسی طوائف کو خرید سکتا ہے۔ جاپانی زبان میں کسی کاہم معنی کوئی لفظ نہیں۔ اس کے برعکس پیشہ ور عورت کو ”وقتی بیوی” یا، ”ایک گھنٹے کی بیوی” کہا جاتا ہے۔ پیشہ ور عورت کو ”دلدل کے کنول” سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔
ٹوکیو کے جدید شہر کا یوشی دار یاہیرا منڈی در حقیقت ”دل کانیستان” ہے شاعر لوگ اسے”وادی مسرت” کہتے ہیں۔ شہر کے اس حصے میں ایک پل کے ذریعے داخل ہوتے ہیں جو خندق نما گڑھوں پر سے گزرتا ہے اس بازار کے دروازے پر یہ کتبہ آویز اں ہے۔
اک خواب بہاراں کہ گلیاں چیری کے پھولوں سے لبریز ہیں”۔
یوشی دارا کے قوانین میں 1876میں ترمیم کر دی گئی اور بڑے بڑے چکلے کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ نئی چکلہ کوٹھیاں جو امیروں اور فوجی افسروں کے لئے مخصوص ہیں اچھے خاصے محل ہیں۔ انہیں کے نقشے پر جاپان کے دوسرے شہروں میں چکلہ کوٹھیاں تعمیر کی گئی ہیں لیکن ٹوکیوں کی چکلہ کوٹھی دنیا میں اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ہزاروںنوجوان لڑکیاں زرق برق لباس پہن کر خوبصورت پردوں کے پیچھے بیٹھتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر ایک فرنگی کے دماغ میں وکٹور یائی عہد کاایک مشہور گیت…..”سنہری پنجرے کی چریا” تیرنے لگتا ہے۔ اعلے ترین چکلوں میں حسین ترین ”پنجرے” ہیں۔ حال ہی میں یہ فیشن چل نکلا ہے کہ اعلےٰ درجے کی چکلہ کوٹھیوں کے مالک اور راہگیروں کے سامنے لڑکیوںکی بجائے ان کی تصویروں کی نمائش کرتے ہیں۔ یوشی دارا کے اندر ہر گاہک کوکئی طرح کی رسومات ادا کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے پیش نظر بعض سادہ لوح فرنگی یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ یہ محل محض سماجی یا تفریحی ادارے ہیں۔ بہرحال ایک گھنٹے کی بیوی”کو حاصل کرنے کیل ئے ایک سجے ہوئے کمرے میں بیٹھ کرنا مہ وپیام شروع کیا جاتا ہے۔ جہاں اعلیٰ چکلوں کے مالک ضرورت مند گاہکوں کو اپنے ”ہیروں” کی تصوریں دکھاتے ہیں۔ ان میںسے بعض کے پاس اپنے مخصوص نشان امارت ہیں جو باہر محراب پر لٹکتے رہتے ہیں۔ تاہم سستے چکلے اس قسم کے تکلفات سے بری ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں عصمت فروشی کا نظام اس قدر گھٹیااور غلیظ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اس کی مثال نہیں۔ جیشا گرل عموما اوسط درجے کی صاحب عقل اور تربیت یافتہ لڑکی سے بلندتر طوائف ہوتی ہے۔ قصہ کو تاہ جاپان کے نظام بدکاری میں یونانی نظام کے خدوخال بھی ملتے ہیں اور قرون وسطیٰ کے نظام کے بھی۔
قرون وسطیٰ کے اختتام پر یورپ میں عصمت فروشی کے خلاف بے پناہ تحریک پیدا ہوئی اوراس رواج کو بداخلاقی کی علامت تصور کیا جانے لگا۔ بے شمار سائنس دانوں نے اس تبدیلی کے محرکات اور وجوہ بتانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے خیال میں اس ذہنی انقلاب کا موجب مردوں کے دماغ میں پراسرار خیالات کی پیدائش، تعلیم کی ترقی مذہب، جنسی بیماریوں کی روک تھام کی ضرورت وغیرہ ہے لیکن اشتراکی سائنس دانوں نے اس تبدیلی کی تفتیش کی تو انہوں نے جو سبب دریافت کیا وہ دوسرے سائنس دانوں کے خیال سے مختلف بھی ہے اور حیران کن بھی۔ ان کے خیال میں محبت کے متعلق جدید تصور پیدا ہوا تو بدکاری کے خلاف سماجی احتجاج کا آغاز ہوا یعنی اس انقلاب کا محرک محبت کا نیا نظریہ ہے۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ سائنس کو ایک ایسے جذبے سے کیا واسطہ جو وہبی یا جبلی ہے؟ کیا مرد اورعورت ازل سے ایک دوسرے پر عاشق نہیں ہوتے آئے۔
اشتراکی سائنس دان جواب دیتے ہیں کہ آج ہم جس چیز کو ”محبت” کہتے ہیں وہ انسانی زندگی کا ایک بالکل نیا عصر ہے۔ سب سے زیادہ حیران کن ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمارے جدید اقتصادی نظام یعنی سرمایہ داری نے جاگیرداری نظام معیشت پر فتح پر کر دائمی محبت کا تصور پیدا کیا اور محبت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر قابل احترام درجہ عطا کیا۔ اس نے محبت کو ایک ایسا اخلاقی رشتہ بنا دیا جو بدکاری کا مزاحم ہے۔
جن طریقوں سے اشتراکی حکومتوں نے بدکاری پر فتح پائی۔ ان کو سمجھنے کے لئے مذکورہ بالا غیر معمولی نتیجے کا ادراک ضروری ہے۔ اشتراکی سائنس دانوں کی معلومات اتنی مشکل نہیںکہ سمجھ میں نہ آسیکں۔
ہم اوپر بتاچکے ہیں کہ بربریت ہی کے عہد میں صرف ایک عورت سے شادی کرنے کی رسم پیدا ہو چکی تھی۔ قدیم تہذیب کا آغاز ہوا تو اس نظام شادی میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی۔ تاریخ انسانی کے اشتراکی ماہرین بھی اس بات پر دوسرے تاریخ دانوں سے متفق ہیں کہ دنیا میں جہاں کہیں یک زوجیت پیدا ہوئی، وہاں عصمت فروشی بھی پہلو جاری رہی۔ بلکہ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یونانی اوررومی تہذیبوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی عورت پر کفایت کرنے کا محرک ایک خاص اقتصادی مقصد تھا۔ قانون نے یک زوجیت کو اسی لئے مسلمہ قرار دے دیا کہ شوہر کی جمع کی ہوئی تمام پونجی اس کی وفات کے بعد چند وارثوں میںآسانی سے تقسیم کی جا سکے اور خاص طورسے ان بچوں میں تقسیم کی جائے جو اس کی جائز بیوی کے پیٹ سے ہوں۔ اس اقدام کا اصل مقصد حرام کی اولاد کو حق وراثت سے محروم کرنا تھا۔ تاکہ دولت محض اعلےٰ طبقوں کے ہاتھوں میں جمع رہے۔ ہمارے خیال کے برعکس یک زوجیت ایک مرد کے ایک ہی عورت سے عشق کے جذبے پر مبنی نہ تھی۔ یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یونان وروم کے مہذب وموقر مرد اپنی معشو قائوں سے شادی کرنے کی آرزو تک نہ کرتے تھے۔ اس کے برعکس وہ فیشن کے طور پر ایسی نا قابل شادی عورتوں سے محبت کرتے تھے جو ان کی ہم مذاق ہوتی تھیں۔
قدیم دنیا کے مردوں کے لئے شادی ایک قانون ضرورت تھی۔ اس کی بدولت وہ جائیداد اور دولت حاصل کرتے تھے، جسے وہ ا پنی جائز بیویوں کی اولاد کے نام منتقل کرتے تھے لیکن غریب مرد کے نزدیک شادی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اسے ایک خادمہ اور بچے پالنے والی عورت مل جاتی تھی۔ البتہ تما م مرد اپنی خواہش کی تسکین غیر عورتوں سے کرنے کی خواہش کیا کرتے تھے یہ رواج عین اخلاق سمجھا جاتا تھا۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کی شادی سے صرف عورتوں پر پابندی تھی۔مرد کو قانونی اوراخلاقی طور پر اپنی منکوحہ عورت کے علاوہ مال خرچ کر کے ہر عورت سے مباشرت کرنے کا حق حاصل تھا۔لیکن عورت پر پابندی تھی۔ زنا کار عورت کے لئے سخت ترین سزا کا حکم تھا۔منکوحہ عورت کا اپنے جائز شوہر کے علاوہ دوسرے مرد سے تعلق قائم کرنا بداخلاقی تھی، کیونکہ اس طرح خاوندکی جائداد حرام کی اولاد کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ تھا اور حرام کی اولاد حق وراثت سے قانوناً محروم تھی۔ تاہم مرد کے لئے زنا کاری اخلاقا جائز تھی۔ چارلس بہادر یا شہنشاہ سگمنڈ ہیرا منڈی میںہفتوں گزار سکتے تھے۔انتہا یہ ہے کہ یونان کے شاعر سیس جیسے لوگ شاہدان بازاری کی محبت کے نغمے کھلم کھلا گاتے تھے۔ہمارے لئے اس سے بھی زیادہ صدمہ انگیز بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم اور قرون وسطیٰ میں عصمت فروشی کوئی گناہ نہ تھا۔ اس کے برعکس اسے سماج کے لئے ضروری خیال کیا جاتا تھا۔
آج سے تقریباً دو ہزار برس پہلے عیسائیت نے بھی اسی قسم کے اخلاقی نظام کو اپنایا، جس کی بنیاد ملکیت کے قانونی رشتوں پر تھی۔ اس قسم کی قانونی وراثت کی سب سے ترقی یافتہ صورت بادشاہوں کا آسانی حق تھا۔ گویا رفتہ رفتہ زمین اور دولت کے حق وراثت میں اعلےٰ سیاسی اقتدار کا حق بھی شامل کر لیا گیا اور آخر کار جاگیرداری نظام کاتمام سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ سخت قسم کی وراثت پرکھڑا کیا گیا۔ بادشاہ تخت تاج کامالک اور اس کاجائز فرزند شہزادہ ہوتا تھا۔ ڈیوک یا نواب اپنی جاگیر اپنے جائز فرزند کے نام منتقل کرتا تھا۔ جرنیل کی اولاد ہی جرنیل کہلاسکتی تھی اور پسماندہ زرعی غلام ہمیشہ کے لئے اپنے باپ کے جھونپڑے سے بندھا رہتا تھا۔ قرون وسطیٰ کے صنعتی دست کار بھی شادی اور وراثت کی پابندی حسداً کرتے تھے۔ ہم پیشہ ماہر دستکار اپنی اپنی تنظیمں بناتے تھے، جنہیں گلڈز کہتے تھے اور وہ اپناہنراپنی اولاد کے سوا دوسروں کو نہ سکھاتے تھے۔ نہ صرف اپنی برادری اور طبقے سے باہر شادی کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ محبت کی شادی بھی منع تھی۔ ہرلڑکی کی شادی کا بندوبست اس کے اپنے طبقے میں پیشہ ور دلالوں کو ذریعے کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات بادشاہ وقت بھی دلالی کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ عورت کی ذاتی پسند کا خیال شاذو نادر ہی کیا جاتا تھا۔ اس کی رضا ایک رسمی سی بات تھی۔ اکثر اوقات لڑکی اپنے خاوند کی شکل پہلی مرتبہ نکاح کے دن ہی دیکھتی تھی۔
لہٰذا اس زمانے میں وہ اہم انسانی جذبہ جسے محبت کہتے ہیں قانونی اعتبار سے مسلمہ نہ تھا
نکاح کے وقت ہر لڑکی کو تاکید کی جاتی تھی کہ وہ ہمیشہ کے لئے مرد واحد یعنی اپنے خاوند کی وفادار رہے۔ قانون اور مذہب اس کی وفا داری کے ضامن ٹھہرتے تھے۔ اگر چہ لوگ جانتے تھے کہ عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی محبت میں گرفتار ہو سکتی ہے لیکن وہ اس بارے میں ایک لفظ بھی زبان پر نہ لا سکتی تھی۔ ادھر اس کے ہر جائی خاوند کے آوارہ جذبات کی تسکین کے لئے عورتیں فوج در فوج موجود تھیں۔
اس کے باوجود قرون وسطیٰ میں عورت کی محبت، وفاداری اور شرافت کا گہرا احساس پیدا ہوا۔ شاعروں اور داستان سرائوں نے عورت کی پاک محبت کی نغمہ سرائی شروع کر دی اور عشق بازی یا شولری پیدا ہوئی۔ اس کے بارے میں وکٹوریائی ادب میں جو کچھ بتایا جاتا ہے اس سے وہ بالکل مختلف شے تھی۔ اس کا مطلب سنگ دل مردوں کے ظلم سے مقدس نسوانیت کا دلیرانہ تحفظ نہ تھا بلکہ وہ جبر کی شادی کے خلاف عورت کی حقیقی اور رومانی محبت کا اظہار تھی۔ صاف لفظوں میں مرد کا اس عورت سے محبت کرنا جو اسے دل سے چاہتی ہو، خواہ اس کی شادی ایک ایسے مر د سے کر دی گئی ہو جس سے وہ نفرت کرتی ہو۔ عشق بازی یا شولری ہے۔
محبت کے جدید نقطہ نظر کے پیشہ نظر ہمیں عشق بازی محض ہوس پرستی اور زنا کا بہانہ معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ پرلے درجے کی بداخلاقی تھی لیکن یہ خیال غلط ہے۔ ہم اسے اپنے سماجی معیار پر نہیں پرکھ سکتے۔ درحقیقت یہ ایک نئے اور طاقت ور اخلاق کی ابتدا تھی کیونکہ اس نے یہ سوال کیا کہ عورت کو اپنی جذباتی پسند کے آدمی سے محبت کرنے کا حق ہے نہ کہ ایک ایسے مرد سے جو اس پر ریاست یا کلیسا کی طرف سے مسلط کیا جائے۔
اس نئے رجحان نے ایک طرف عورت کے حق محبت کا پرچم بلند کیا اور دوسری طرف مردوں پر بھی خوشگوار اثر ڈالا۔ اس نے مردوں میں محبت کی روحانی قوت کا شعور پیدا کیا۔ اس نے اس قسم کی شادی کا عیارانہ پر دہ چاک کر ڈالا جسے دوسرے طے کریں اور بدکاری کے تمام عیوب کو فاش کر دیا۔ شولوی ”بہادری” تھی کیونکہ اس نے عورت کو محبت میں وہ بلند مقام عطا کیا جس کی وہ مسحتق تھی۔ یہ عین اخلاق تھا۔ کیونکہ اس نے ثابت کر دیا کہ مردبھی وفادار اور جانثار ہیں اور وہ عورت کی مخلص محبت کے قرون وسطیٰ کے زمانہ کی نئی اور عظیم دریافت یہ تھی کہ مرد وعورت ایک دوسرے کوچاہتے ہوں تو کسی دوسری جگہ قانونی شادی کے باوجود ایک دوسرے کے جذبات شوق کا احترام کرتے ہیں اور ہمیشہ ایک دوسرے سے ملنے کے لے بے تاب رہتے ہیں۔ مردو عورت محبت کے رشتے میں منسلک ہو جائیں تو وہ مرتے دم تک ایک دوسرے کے وفادار رہتے ہیں۔ ان کے لئے قانون ورواج کی زنجیروںکی ضرورت نہیں۔
شولری نے عورت کو قانونی اور جبری شادی کی زنجیروں سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔ اس نے اسے ایک ایسے مرد سے نجات دلانے کی کوشش کی جسے اس نے خود اپنا ساتھی منتخب نہ کیا تھا۔اس ریت نے اس کے ساتھ ہی مردوں کو غیر عورتوں سے ناجائز تعلقات قائم کرنے کی لعنت سے چھڑایا اوریہ بات اس کی اخلاقی عظمت کی دلیل ہے۔
قرون وسطیٰ کی تمام شاعری محبت کے اس نئے نظریئے کی تعریف سے بھری پڑی ہے ۔ ساتھ ہی اس زمانے کی تاریخ شاعروں وتشدد کے واقعات سے بھی بھر پور ہے۔ تاہم یہ نیا رجحان ایک نئے اخلاقی نظام کی حیثیت سے ابھر نہ سکا۔ صدیوں تک اس میں شہوت پرستی کی چاشنی رہی۔ لہٰذا کلیسائے وقت کو اس پر پورے غضب اور شور سے حملہ کرنے کا اخلاق موقع مل گیا تھا۔
لیکن اس رومانی محبت کی مخالفت کا اصل سبب کچھ اور تھا۔ اقتصادی محرکات سرمایہ داری اور اس کا جمہوردوست فلسفہ جاگیرداری نظام پر کاری ضرب لگا رہا تھا۔ جاگیر داری کی اخلاقی اور قانونی پشت پناہ، دوسروں کی طے کردہ شادی، وراثت کا سخت رواج اور بدکاری تھی۔ رومانی محبت نے جاگیر دارانہ سماج کی جڑوں پر ایک مزید ضرب لگانے کی کوشش کی۔ لہٰذا جو شاعر رومانی محبت کے گیت گانے کی جرأت کرتے تھے انہیں ہر وقت اپنی زبان کے کٹ جانے، شکنجے میں کس دیئے جانے یا سر بازار پھانسی کے تخت پر لٹکا دیئے جانے کاڈر لگا رہتا تھا۔
تاہم نئی اخلاقی محبت کوپوری طرح کچلا نہ جا سکا اور ایک وقت ایسا آیا کہ شیکسپئیر اس مسئلے کو لندن میں کھلے اسٹیج پر پیش کرنے لگا۔ اگر چہ ہم میں سے کوئی ناقد ایسا نہیںکہتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ”رومیوا ینڈ جیولٹ” اپنے وقت کا ایک سیاسی ڈرامہ تھا اور اس کی اثر انگیزی بے پناہ تھی۔ اس کا موضوع اب متروک ہے۔ لیکن عہد حاضر کے شائقین کے لئے ایک ایسا عظیم المیہ ہے جس رومانی اور اخلاقی محبت کے سوال کو آزادانہ پیش کرتا ہے اور اپنے معشوق سے شادی کے حق انسانی کاپرچم بلند کرتا ہے۔ شیکسپئیر نے بے مثال فن کاری سے ثابت کیا کہ عاشق اپنے معشوق کی خاطر جان کی بازی لگادیتے ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی کیونکہ شاعر اس سے پہلے بھی شاہدان بازاری یا دوسرے کی بیوی سے مرد کی آزادمحبت کے ترانے گا چکے تھے۔ لیکن ”رومیو اینڈ جیولیٹ”میں نئی بات یہ تھی کہ اس نے حاضرین کو دوا یسے کشتگان محبت پرخون کے آنسور لائے۔ جنہیں آپس میں شادی کرنے کے حق سے جبراً اور تادم مرگ محروم رکھا گیا۔
آج ہم اس حق کو بلا چوں وچرا تسلیم کرتے ہیں۔ اشتراکی تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ محبت کی شادی کا حق اپنے زمانے میں ایک انقلابی نظر یہ تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ قرون وسطیٰ میں شادی ایک سیا سی معاہدہ رہی ہے جس کا مقصد یہ تھا کہ جاگیر دار اور نواب غلاموں اور شہزادوں کے مقابلہ میں اپنی طاقت مجتمع کرلیں۔ محل میں محبوس شہزادی سے لے کر کھیت سے پابستہ غلام لڑکی تک اس مقصد کا بے بس آلہ تھی۔
غرضیکہ قرون وسطیٰ کا اخلاقی نظام ایک طرف مردوں کے لئے کھلی زنا کاری کو ضروری قرار دیتا تھا اور دوسری طرف جبری شادی کی شکار معصوم عورت کو محبت جتانے کے خیال تک سے بھی منع کرتا تھا۔
اخلاقیات کے اشتراکی ماہرین نے ایک اور حیران کن نتیجہ نکالا۔ وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری، جاگیرداری پر مکمل فتح حاصل کر چکی تو اس کے بعد کہیں محبت کی شادی کا امکان پیدا ہوا۔ جس چیز کو ہم آزاد تجارت کہتے ہیں اس نے اخلاقیات پر دیر پا اثر چھوڑا۔ جمہوریت کے نظریئے نے سب سے پہلی مرتبہ شخصی آزادی کے سوال کو ایک بنیادی اور اخلاقی اصول کی حیثیت سے پیش کیا اور کہا کہ تمام انسانوں کو ہر قسم کے عمل کی آزادی حاصل ہونی چاہیئے۔ ہر انسان اپنی پسند کا لباس پہنے، اپنی پسند کاپیشہ اختیار کرے اور اس پر ذات پات اور اونچ نیچ کی پابندی نہ ہو۔ اس کی سماجی حیثیت خواہ کچھ بھی ہو وہ آزادی سے روپیہ کماسکے اور جہاں جی چاہے جا کر آباد ہو جائے۔ یہ خیالات اپنے زمانے میں انقلابی تھے۔ ان اصولوں کے زیر اثر عیسائیت میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ تاہم ایسے علمائے دین کی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کی تعلیم میں آزادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اورکسی انسان کو ایسا فعل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جس کے بارے میں اس کا ضمیر گواہی دے کہ وہ کام خدا کی نظروں میں برا ہے۔ لیکن قرون وسطیٰ میں ایسا خیال یقینا کفر والحاد تھا۔ جاگیرداری کلیسا ا س قسم کے آزاد خیالات کے سراسر مخالف تھے کیونکہ ان دونوں کی بنیاد پیدائش سے موت تک ہمہ گیر خیر پر تھی۔ جونہی پرانے نظام کوزوال آیا قانون، مذہب اوراخلاق میں بنیادی تبدیلیاں آگئیں۔
سب سے پہلے سرمایہ داری نے شادی کو ایک اخلاقی رشتہ بنایا اور اسی سلسلے میں ہر قسم کے جبر کا خاتمہ کیا ۔اس سے پہلے شادی ایک کھلا سودا تھی جس کو بزرگ طے کرتے تھے اور اجنبی روحوں کو زنجیروں میں جکڑ دیتے تھے۔ جمہوریت کے نظرئیے کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھا کہ سماج میں تمام کاروباری ٹھیکے یا سمجھوتے طرفین کی رضا مندی سے طے پاتے ہیں تو دوانسانوں کو اپنی رضا مندی اورآزادی سے شادی کرنے کی اجازت کیوں نہ ملنا چاہیئے۔ یہ سمجھوتہ تو سب سے زیادہ مقدس ہے۔ اس میں دو جسم اور دو جانیں عمر بھر کے لئے قسمت کا فیصلہ کرتی ہیں۔ اس لئے لوگوں کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ محبت کی شادی کریں اور ہر وہ شادی خلاف اخلاق ہے جس کی بنیاد باہمی محبت پر نہ ہو۔
ہمیں یہ اقدام دلیرانہ معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہمیں ایسے مرد یا عورت سے نفرت یا ہمدردی کرانا سکھایا گیا ہے جو کسی مصلحت کی بنا پرمخالف صنف سے محبت کے بغیر شادی کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آسانی سے یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ جمہوری اخلاقیات کی بنیادی اہمیت کیا ہے اور یہ قدیم اخلاقیات سے کتنا متضاد ہے۔
اشتراکی محققین اس اخلاقی انقلاب کی توجیہہ یوں کرتے ہیں کہ سرمایہ داری جمہوریت نے جنسی تعلقات میں جو دور رس اصلاح کی اس سے شادی کے نظام میں توکوئی خاص تبدیلی نہیں آئی البتہ عورت کی سماجی حیثیت میں ضرور انقلاب آیا۔ عورت کے اس حق کو قانونی اور اخلاقی اعتبار سے جائز سمجھ لیا گیا کہ وہ محبت کرنے پر بھی عزت واحترام کے قابل ہے۔
ہمارے ہاں کے اخلاق پرستوں نے ہمیں آج تک اس تاریخی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا بلکہ اس میں بھی شبہ کی گنجائش ہے کہ ان میں سے اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت ہے بھی لیکن اشتراکی کی محققین نے اس تحقیق کواتنا اہم جانا کہ انہوں نے اخلاقی نظام کا ڈھانچہ ہی اسی بنیاد پر کھڑا کیا۔ کیوں؟
اس لئے کہ اولاً اس تحقیق سے اس مسلمہ فریب کی قلعی کھل گئی کہ محبت شادی اور اخلاق آغاز تہذیب سے لے کر آج تک کم وبیش غیر متبدل رہے ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ نہ صرف اخلاق بدلے ہیں بلکہ ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا کہ سرمایہ داری اور جمہوریت کے عروج کے وقت جو اخلاقی اقدار پیدا ہوئیں وہ پرانے اخلاقی اقدار کی ضد ہیں۔
جاگیر داری کے زمانہ میں محبت یا پسند کی شادی کا خیال تک گناہ تھا۔ ہمارے نظریئے کے مطابق محبت کے سوا کسی اور وجہ سے شادی کا خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ جاگیرداری عہد میں بڑے بڑے راہنما بدکاری کے اڈوں کی کھلے بندوں سر پرستی اور تحسین وتوصیف کرتے تھے اور اس بات کو شیطانی فعل تصور نہ کیا جاتا تھا۔ اس پر نہ سماج نکتہ چینی کرتا تھانہ کلیسا۔ لیکن جمہوریت کے استحکام کے ساتھ ہی منظم بدکاری سماجی اعتبار سے ناقابل برداشت ہو گئی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جس قدر تبدیلی محبت، جنس اخلاق اور گناہ کے نظریات او ران سے متعلق انسانی عمل میں پیدا ہوتی ہے کسی اور شعبے میں نمودار نہیں ہوئی۔
تاریخی تحقیقات سے دوسرا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اخلاقیات کو کسی معیار سے بھی جانچیں ان میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ اس بات پرایک مادہ پرست سائنس دان اور ایک پادری دونوں متفق ہیں۔لیکن دونوںکے دلائل مختلف ہوں گے۔ اخلاقی ترقی کا سبب بیان کرتے وقت سائنس دان کی نظر میں انقلاب فرانس سے پہلے کے یورپ میں آتشک کی عام وبا سے پیدا شدہ صورت حال ہو گی تو پادری کے ذہن میں عورتوں کی وہ فوجیں ہوں گی جوقرون وسطےٰ میں زندگی بھر عصمت فروشی پر مجبور تھیں۔ بہر حال آج انسانیت ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ با اخلاق ہے۔
ہمارا تیسرا اور آخری نتیجہ عورتوں کی موجودہ حیثیت سے متعلق ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ سب سے پہلے سرمایہ داری دو رمیںیہ خیال پیدا ہوا کہ کسی مرد سے کسی عورت کو محبت کرنے پربھی عورت کی ذات قابل احترام ہے اور اسے محبت کی شادی کا حق حاصل ہے لیکن اشتراکی ماہرین نے عوت کے اس حق کاتجزیہ کیا تو انہیں اس کی خامیاں بھی فوراً معلوم ہو گئیں۔عورت کو اپنی پسند کی شادی کرنے کا حق قانونی ڈگریوں کے ذریعے نہیں مل سکتا۔ قانونی اعتبار سے جب تک کوئی عورت آزادی سے اپنی رضا کااظہار نہ کرے اسے شادی پر مجبور نہیںکیا جا سکتا اور بس۔ آج کل تقریباً تمام مہذب ملکوں میں ایسے قانون موجود ہیں لیکن کوئی قانون اس امر کی ضمانت نہیں دیتا کہ عورت محض محبت کی بنا پرشادی کرنے کی مجاز ہے کیونکہ اس قسم کی آزادی کا تقاضا ہے کہ عورتیں سماجی، سیاسی اور معاشی اعتبار سے پوری طرح آزاد ہوں اورمردوں کے برابر ہوں۔ کیا وہ ہیں؟
نومبر کے انقلاب کے بعد یہ حقیقت بہت آشکار ہو گئی کہ اشتراکی حکومت کے کاغذی اعلانوں میں تو عورتوں کو مساوات حاصل ہے لیکن وہ عملاً مردوں کے برابر نہیں۔ ا س عدم مساوات کا ایک سبب تو ہمیں اپنے تجربے سے معلوم ہے آزادی محبت کے نئے رجحان کو 1920 کے لگ بھگ گورکی اور لینن نے بری طرح رد کیا تھا۔ اس برے رجحان کا مقصد یہ تھا کہ کہ ”پانی کے گلاسوں” یعنی ”عورتوں کو پینے والوں” یعنی مردوں کی طرح شہوت پرستی کی آزادی ہو جائے۔ ایسی آزادی دراصل ایک شیطانی فعل تھا۔اگرچہ بعض روسی عورتوں نے جو جنسی اختلاط کی عملاً حامی تھیں۔ اپنے آپ کو نہایت ”انقلابی” ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن ان پرزندگی کی ایک بنیادی اورعام حقیقت جلد ہی آشکارا ہو گئی۔
علم حیات کا یہ اصول تمام قوانین اوراخلاقیات پر بھاری ہے کہ عورت اور مرد جسمانی اعتبار سے برابرنہیں۔اس لحاظ سے عورتوں کو مردوں پرفضلیت حاصل سے مباشرت سے دونوں کا مقصد صرف وقتی تسکین ہوتا ہے۔ لیکن بچے کی پیدائش انسانی نسل کی بقا اور خاندان کا وجود ایسا افضل ترین فریضہ صرف عورتیں ہی ادا کر سکتی ہیں۔
اور معاشرہ اس فضیلت کوعملی زندگی میں کس طرح تسلیم کرتا ہے۔ مادریت پر سخت سزائیں عاید کرکے۔
عورت حاملہ ہو جائے تو اپنے کام کاج سے بھی جائے۔ بچے کی پیدائش کے وقت عورت کو جو جسمانی تکلیف ہوتی ہے اسے وہی جانتی ہے۔ معصوم بچوں کی حفاظت کی ذمہ دار ہے تو عورت۔ جس طرح آج ہمارے ملکوں میں دستور ہے اسی طرح بداخلاقی کے خاتمے سے پہلے روس میں بھی کوئی عورت ماں پن، یعنی اولاد کی پرورش کابوجھ صرف اسی صورت میںہلکا کر سکتی تھی، جب کہ وہ اپنے اوپر ایک مرد یعنی شوہر کا مکمل قبضہ تسلیم کرے۔ عورت شادی کر کے دوسرے کی دست نگربن جاتی ہے، لیکن مرد اس پابندی سے آزاد ہے۔
لہٰذا ان حالات میں اصناف کی برابری کا دعویٰ خالی لفاظی ہے۔ تسلیم کہ جمہوریت اور سرمایہ داری نے عورت کو ایک ایسے مرد سے شادی کرنے کی مذموم پابندی سے نجات دلائی جس سے اسے کوئی محبت نہ ہو۔ یعنی عورت کو ایک ایسا خاوند قبول کرنے سے آزادی مل گئی جسے اس نے منتخب نہ کیا بلکہ جاگیردارانہ اصولوں کے مطابق دوسرے لوگوں نے چنا ہو لیکن عورتیں حق مادریت سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔تو ان میں سے اکثر کے راستے میں ہزاروں قسم کی سماجی اور معاشی رکاوٹیں تھیں۔ شادی کر کے اسے آزادی جیسی مقدس چیز کی قربانی کرنا پڑتی تھی۔ عورتوں کے تمام نجات دہندوں اور حامیوں کی سب کوششیں اس لئے ناکام رہیں کہ ہمارے سماج میں عورت جن زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے ان کی ہئیت اقتصادی ہے اور حیاتی حقائق کے فولاد سے گھڑی گئی ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہٹلر کے عہد حکومت میں جرمنی کے اخلاق پرستوں نے جدید عورت کی پس ماندگی سے خوب فائدہ اٹھایا۔خود ہمارے ہاں کے رجعت پسند حضرات نازیوں کے اس نعرے میں بہت زیادہ کشش محسوس کرتے ہیں کہ ”عورتوں کو …..انہیں بچے عطا کر دو۔ کھاناپکانے کے آہنی چولہے دے دو اور کلیسا بخش دو”۔
ہٹلرکے اس گھسے پٹے جاگیردارانہ نصب العین کو قدیم مذہب کا درجہ عطا کرنے سے کافی عرصہ پہلے اشتراکی ماہرین سمجھتے تھے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اور مرد میں مکمل مساوات نہیں۔وہ کہتے تھے کہ جدید دنیا میں بداخلاقی کابنیادی سبب ہی عدم مساوات ہے۔

سوال نامہ
لیڈی اور لارڈ پاس فیلڈ نے اپنی مشہور کتاب ” سوویت اشتراکیت، ایک نئی تہذیب” میں سوویت یونین کا مفصل حال بیان کیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ”لینن اور اس کے ساتھیوں نے روسی قوم کی اصلاح کاکام آدم کی بجائے حو اسے شروع کیا”۔ اس پر بھی اشتراکی رہنمائوں نے کبھی بڑ نہیں ماری کہ وہ صنف نازک کے نجات دلانے والے ہیں۔ انہوں نے اپنی جدوجہد کو اسی قسم کے ادنےٰ حقوق تک محدود نہیں رکھا کہ عورتیں اونچی قمیض پہنیں چاہے نیچی۔ وہ لمبے بال رکھیں چاہیے یا چھوٹے یاوہ سر عام سگریٹ پی سکتی ہیںاور قانون کے آگے مردوں کے برابر ہیں انہوں نے جہاں عورتوں کے عام مردوں سے تعلقا ت کی مخالفت کی وہاں مردوں کے اس ”حق” کی بھی مخالفت کی کہ وہ عام عورتوں سے جنسی تعلقات رکھ سکتے ہیں خاص بات یہ ہے کہ سوویت یونین میں عورتوں کی آزادی کا پروگرام صرف عورت کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنایاگیا بلکہ عام انسانیت کی بھلائی کے لئے تیار کیا گیا۔
اشتراکی سائنس اس نتیجے پر پہنچی انسانی کی اصلاح اس وقت تک ناممکن ہے جب تک مرد اور عورت کے درمیان مساوات قائم نہیں ہو جاتی۔انہوں نے بداخلاقی اور حرام کاری پر حملہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ انسانیت نا قابل تقسیم ہے اور کسی ایک طبقے کی اصلاح الگ سے ممکن نہیں۔
سوویت یونین سے باہر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج سے پچیس سال پہلے لینن نے اعلان کیا تھا کہ عورتوں کا مسئلہ انہیں عدم مساوات کی ذلت سے چھڑانے تک محدود نہیں بلکہ ان اہم مسئلوں میں سے ایک ہے جن سے آج تک کی دنیا دو چار ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے وسیع علاقے میں سب سے پہلے اسلامی ریاستوں میں اصلاح کاکام شروع کیا گیا اور دوسرے سیاسی فریضوں پر عورتوں کی آزادی کی جدوجہد کوترجیح دی گئی۔
اس سلسلہ میں جو عملی اقدام اٹھائے گئے وہ ایک مدت سے سوویت یونین کے قانون میں شامل ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے۔
-1عورتوں کو رائے دینے اور تمام سرکاری اداروں کے لئے منتخب ہونے کا حق دیا گیا۔ اکثر مہذب ملک اس حق کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن عملاً اسے نظر انداز کر جاتے ہیں۔ہمارے ہاں عورتیں رائے دے سکتی ہیں، لیکن تمام قانون مرد ہی بناتے ہیں اور وہی ان پر عمل در آمد کراتے ہیں۔
-2 تمام قانونی فرائض اور شہری حقوق عورتوں اور مردوں میں برابر تقسیم کئے گئے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ عورت اور مرد کو عدالت کے سامنے برابر کی ذمہ داریاں اور حقوق دیئے گئے۔
-3ہر ایسے شخص کے لئے سخت سزائیں مقرر کی گئیں جو عورت کو کسی طرح اس کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر مجبور کرے۔ اس سزا سے والدین کو بھی بری نہ کیا گیا۔ اس قانون میں اس کے سوا کوئی خاص انقلابی بات نہ تھی کہ اس پر سختی سے عمل دار آمد کرایا گیا۔ ہمارے ہاں ہولناک قسم کے جسمانی تشدد کی صورت میں ہی ایسے قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے۔
-4عورت کی مکمل معاشی آزادی کے تحفظ کے لئے بیسیوں کے لئے قوانین بنائے گئے اور احکام جاری کئے گئے۔
ہمارے ملکوں میں بیاہی ہوئی یاکنواری عورتوں کے حق ملازمت کے تحفظ کے لئے شاید ہی کوئی قانون بنایا گیا ہوگا۔ لیکن سوویت یونین میں عورتوں کو ملازمت کی ضمانت حاصل ہے جس کا تحفظ قانون کرتا ہے۔ بظاہر یہ امتیاز مصنوعی معلوم ہوتا ہے کیونکہ ہم نے کم از کم جنگ کے دوران میں تو دیکھا ہے کہ عورتوں کے لئے ہر کہیں ملازمت موجو دتھی لیکن یہ صورت حال مردوں کی انتہائی قلت کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور سال ہی میں عورتوں کو گھر واپس بلانے کی تحریک شروع ہو چکی ہے۔ اس تحریک کا محرک یہ خدشہ ہے کہ جنگ کے بعد کے زمانے میں تمام مردوں کے لئے کام مہیا نہیں کیا جا سکے گا او رہمارے ہاں یہ اصول مسلمہ ہے کہ کام کی قلت کے دنوں میں مردوں کو عورتوں پر ترجیح دی جائے۔ علاوہ ازیں ہمارے ٹریڈ یونین اس جدوجہد میں تو کامیابی حاصل کر چکے ہیں کہ محنت کش عورتوں کو ایک جیسے کام کا مساوی معاوضہ ملنا چاہیئے لیکن صنعتی اداروں میں بچہ گھروں کے قیام کے مطالبے کے فوری ضرورت کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جاتی تاکہ ان میں محنت کش مائیں اپنے بچوں کو چھوڑ سکیں اور بے فکری سے اپنا کام کر سکیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ عورتیں کارخانوں سے دور ہی رہیں۔
سوویت یونین کی عورتوں کی موجودہ نسل ملازمت کے بارے میں بالکل مختلف نظریہ رکھتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو مردوں کے بالکل برابر سمجھتی ہیں۔ اشتراکی ملکوں میں مردا ور عورت کو ملازمت کا حق دینے کی محرک معاشی ضرورت سے زیادہ اخلاقی اہمیت تھی۔ اشتراکی سائنس دان اور سیاست دان جانتے تھے کہ عورت کی آزادی کی تمام باتیں اس وقت تک فضول اور بے کار ہیں جب تک ان پر معاشی پابندیاں عائد ہیں۔ علاوہ ازیں انہیں یہ احساس بھی تھا کہ عورتوں کو معاشی مساوات کا درجہ ”قلم کے ایک جھٹکے” یا ”قانون کے نفاذ” سے حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ بدکاری کے تمام مسائل ابھی جوں کے توں باقی تھے۔
اشتراکی انقلاب کے چار سال بعد 1921میں دیکھا گیا کہ قوم میں بد کاری پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ صورت حال اس عام بحران کا نتیجہ تھی جو غیر ملکی حملہ آور فوجوں کے خلاف طویل جنگ کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا۔ ا س وقت باقاعدہ منصوبہ بندی پر عمل نہ ہو سکتا تھا۔ بے روز گاری بہت بڑھ گئی تھی۔ بے کاروں میں دو تہائی تعداد عورتوں کی تھی۔ ملک جنگ سے تباہ حال تھا اور خاص طو ر سے عورتوں کی مصیبتوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
دو سال تک حرام کاری بتدریج بڑھتی گئی۔
اشتراکی سائنس دان1923میں اس قابل ہو گئے کہ بدکاری کے خلاف عام مہم کا آغاز کر سکیں۔ انہوں نے حرام کاری پرپہلا وار کیا تو ملک میں سنسنی پھیل گئی۔ اس قسم کی کوشش آج تک کہیں نہ کی گئی تھی۔ اس مہم کا آغاز ایک مطبوعہ سوال نامے سے کیا گیا۔ یہ سوال نامہ ہمارے ہاں کے گیلپ پول کی طرح نہ تھا۔ بلکہ اسے خفیہ طو رسے کئی ہزار عورتوں اور لڑکیوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ سوالات دونوں صنفوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں ماہر نفسیات، ٹریڈ یونین رہنمائوں اور دوسرے ماہرین نے تیار کئے تھے۔
ان سوالات کو تمام ترد ہر انا یہاں ممکن نہیں۔ ان سب کا واحد اور غیر معمولی مقصد یہ تھا کہ ان حالات کا پتہ لگایا جائے جن کے تحت عورت اپنا جسم بیچنے پر مجبور ہوتی ہے۔
اپنے طرز کا یہ پہلا تجربہ تھا کہ مقصد کے پیش نظر کیا گیا کہ عورتیں زنا کارکیوں بن جاتی ہیں۔ مرد اس دلچسپ سوال کو سینکڑوں سال سے اٹھاتے آئے تھے۔ اس مسئلے سے متعلقہ ادب مشہور پیشہ ور عورتوں کو سنسنی ”خیز اعترافات” سے بھر پور ہے اور زیادہ تر ایسے رنگین اور مفصل بیانات پر مشتمل ہے جو بالکل اعتماد کے قابل نہیں۔ علم طب اور نفسیات کے ماہرین نے گناہ کے نظریوں کے متعلق مسلسل قیاس آرائیاں کی تھیں۔ لیکن سوویت یونین میں اس اہم سوال کا جواب چند بد اخلاق نوجوانوں سے سوال وجواب کے ذریعے یا ان کے نفسیاتی تجزیئے سے حاصل نہیں کیا گیا بلکہ ایسی بے شمار عورتوں سے بلا واسطہ سوال کئے گئے جو ہر عمر، ذات اور سماجی حیثیت سے تعلق رکھتی تھیں۔ تمام جواب تحریری تھے او رپوری طرح خفیہ رکھے گئے تھے۔
اس عجیب وغریب سوال نامے سے قدیم مسلمہ اعتقادات کا بھرم کھل گیا چونکہ عورتوں کو پوری طرح یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی رائے بالکل پوشیدہ رکھی جائے گی اس سوال کا جواب جس آزادی سے دیا گیا اس پر خود اشتراکی رہنما حیران رہ گئے۔
اس رائے شماری سے جو چونکا دینے والا نتیجہ نکالا گیا وہ یہ تھا کہ پیشہ ور عورتوں اور عام عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ بیاہی ہوئی اور کنواری دونوں قسم کی عورتوں کی ایک بڑی تعداد نے انکشاف کیا کہ وہ ایک نہ ایک وقت پر خاص حالات کے تحت زنا پر مجبور ہو چکی ہیں۔
بعض نے اطلاع دی کہ انہیں صرف ایک مرتبہ زنا کی تلخ تجربے سے گزرنا پڑا اور بعض نے بتایا کہ وہ کئی بار ایسا کر چکی ہیں۔ بعض نے تسلیم کیا کہ وہ زندگی میں کئی بار مختلف مدتوں کے لئے پیشے پر گذران کر چکی ہیں۔ تاہم وہ طوائف کا لیبل لگنے سے محفوظ رہی ہیں۔ بعض عورتیں اپنی دوسری ہمراز عورتیں کے تجربے کے پیش نظریہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ وہ اپنے آپ کو پیشہ ور کہیں یا نہ ، جن عورتوں نے زنا کاری کا اعتراف کیا ان کی ایک بھاری اکثر یت نے بیان کیا کہ ان کی جائز آمدنی بہت قلیل تھی اس لئے وہ بدکاری کے ذریعے اپنی آمدنی میںاضافہ کرنے پر مجبور ہوئیں تاکہ وہ خود اور ان کے بال بچے اچھی زندگی بسر کر سکیں۔
ہم آگے چل کر اس بے نظیر مشاہدات کو ذراتفصیل سے بیان کریں گے چونکہ اشتراکی ماہرین کے اخذکردہ نتیجے ان نتائج کی ضد تھے جو ہمارے ہاں کے سائنس دان یا ماہرین اخلاقیات نکالتے رہے ہیں۔ لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم کچھ دیر ٹھہر کر اس مشاہدے سے پہلے کی تحقیقات کا اجمالی تجزیہ کریں۔
طوائف کی اصلی تعریف کیا ہے؟
عام طور سے اس ترکیب کا اطلاق ایسی عورتوں پر کیا جاتا ہے جو روپے کے عوض اپنا جسم مختلف آدمیوں کے پاس بیچیں لیکن جس وقت سے جدید سماجی تحقیق پیدا ہوئی ہے۔ طوائف کی مذکورہ تعریف کو تسلی بخش نہیں مانا جاتا۔ تمام بااختیار حضرات متفق ہیں کہ جنسی بیماریوں کو جگہ جگہ پھیلانے والوں میں دو تہائی تعداد ایسی لڑکیوں کی ہے جنہیں اصلی معنوں میں طوائف نہیں کہا جا سکتا۔ وکٹری گرلز تو شوقین پیشہ ور عورتوں کا ایک ہی طبقہ ہے۔ ہم اس مسئلے کی دوسری انتہا کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ماہرین نفسیات نے ایسے تمام جنسی تعلقات کو زنا کاری کا نام دینے کی کوشش کی ہے جو دو ایسے افراد کے درمیان پائے جائیں۔ جنہیں ایک دوسرے سے محبت نہ ہو۔
لیکن یہاں بھی حقائق ہمیں عجیب الجھن میں ڈال دیتے ہیں۔ امریکی تحقیقات اور اشتراکی سوال نامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کی بڑی تعداد جس قلیل معاوضے پر اجنبی مردوں سے محبت کرنے پر رضا مند ہو جاتی ہے۔ اس کی قدر شام کی تفریح کے اخراجات سے کسی صورت بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ اخلاقی نقطہ نظر سے دو ایسی لڑکیوں میں کس طرح سے تمیز کی جا سکتی ہے، جن میں سے ایک اپنے کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی ضرورت سے مجبور ہو کر چند ڈالروں پر محبت کے لئے تیار ہو جاتی ہے اور دوسری محبت میں نقدی کے دخل کو بھیانک تصور کرنے کا بہانہ کرتی ہے۔ لیکن نہایت چالاکی سے ایک پر تکلف دعوت اور سینما کے تماشے کی صورت میں معاوضہ قبول کرتی ہے۔ ایسی دولڑکیوں میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ غریب لڑکی ایماندار ہے، کیونکہ دونوں صورتوں میں محبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اس سلسلہ میں مذہبی نقطہ نظر یہ ہے کہ شادی کے بغیر ہر قسم کا جنسی تعلق بداخلاقی کی دلیل ہے خواہ اس کا محرک محبت ہو یا روپیہ یہاں تمہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہم میں سے بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ سوویت یونین میں بھی سالہاسال سے جنسی تعلقات کے بارے میں بعینہ یہی نقطہ نظر پایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں کے پادری اور سوویت یونین کے کمیونسٹ رہنما اپنے اپنے اخلاقی نظریوں میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ کیونکہ نظریہ وہی سچا جو عمل میں درست ثابت ہو۔جنگ کے دوران میں جن لوگوں کو روس جانے کا اتفاق ہوا نہیں یہ جان کر سخت حیرت ہوئی کہ روس میں آج کل ایسی عورت ناپید ہے جو اپنے خاوند کے سوا کسی غیر آدمی سے کسی قسم کا قریبی تعلق قائم کرنے کا خیال تک گوارا کرے۔ انتہایہ ہے کہ روس کی نوجوان نسل کئی سال سے باہم چہل بازی کو بھی برا خیال کرتی ہے اور ان کے فلم، اخبار اور اشتہار تک کسی قسم کے جنسی اشارے سے پاک ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہمارے جمہوریتوں اور اشتراکی جمہوریتوں میں جو فرق ہے وہ نہایت ہی تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے۔
آئیے ہم اس فرق اور تضاد کو مکمل کر دیں۔ اس سے انکار نہیں کہ اکثر لوگ شادی کو ایک مقدس سماجی رواج تصور کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ابدی ہے اور اس طریقے سے جنسی تعلقات جائز ہیں۔ خواہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے مسلسل محبت کرتے رہیں یا نہ۔ بلکہ اکثر مذہبوں میں تو محبت کے ختم ہو جانے پر بھی شادی برقرار رہتی ہے۔ ہر باشعور عورت نصف درجن کے قریب سہیلیوں کے نام گنا سکتی ہے جو محض اس لئے شادی میں بندھی رہتی ہیں اور اپنے خاوند کی اطاعت کرنے پر مجبور رہتی ہیں کہ ان کے لئے کوئی راہ نجات نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اور اس کے بچے معاشی اعتبار سے شوہر کے غلام ہیں۔ کیا ایسی رشتہ داری کی کوئی اخلاقی بنیاد ہے۔ جدید ماہرین نفسیات کے قریب اس قسم کی شادی عورت کے لئے بدکاری کے مترادف ہے کیونکہ اس کا نتیجہ کچھ کم خطرناک نہیں ہوتا۔ سوویت یونین کے باشندے ایسی شادی کو انتہائی بداخلاقی اور بدکاری کی دلیل تصور کرتے ہیں۔
ذاتی عقائد کا احترام مسلم، شادی کے مسئلے کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو بھی اعلےٰ اخلاقی معیار کا تقاضا ہے کہ ایسے تمام افراد کے درمیان جنسی تعلقات ناجائز ہیں۔ جنہیں ایک دوسرے سے محبت نہ ہو او رایسے تمام طریقے قابل نفرت ہیں جن میں کسی نہ کسی صورت میں نقدی کا استعمال کرنا پڑے۔ ہم اسی موقف بد اخلاقی کے خلاف جدوجہد کا تجزیہ کریں گے۔
جب تک سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جاگیرداری نظام کا خاتمہ نہیں کر دیا اس وقت تک حرام کاری کے خلاف جدوجہد نام کو بھی نہ تھی۔ دراصل عصمت فروشی کے خلاف منظم جدوجہد کا محرک اخلاق نہ تھا بلکہ جنسی بیماریوں کو روکنے کی ضرورت بھی تھی۔ یورپ میں آتشک کا مرض سولہویں صدی میں رونما ہوا۔ غالباً یہ مہلک بیماری ہیٹی سے یورپ میں آئی۔ امیر یگوویسپگی کی سوانح عمری گذشتہ صدی کے دوران میں چھپی۔ اس میں اس مرض کا ذکر ہے جسے ہم ”فرانس کی پیداوار” کہتے ہیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ مرض وہ ملاح امریکہ سے یورپ لائے جو کولمبس کے ساتھ واپس لوٹے۔ وہاں سے یہ بیماری طوائفوں میں پھیلی پھر سپین بھر میں پھیل گئی اور چارلس ہفتم کی فوج کے سپینی سپاہی اس بیماری کو اٹلی لے گئے۔ دوسرے تاریخ دان بھی شہادت دیتے ہیں کہ چارلس کی فوجوں نے 1845 میں آٹھ دن تک نیپلز کی فتح کی خوشی منائی تو اس کے بعد یہ مرض عام ہو گیا۔ ایک غیر مصدقہ حکایت میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ جو طوائفیں آتشک میں مبتلا تھیں۔ انہیں دشمن کے ایسے سپاہیوں میں جسمانی تباہی پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جو اس وقت تک اسی آفت سے ناواقف ہوتے تھے۔
بہر حال اٹھارہویں صدی کے اواخر تک تمام سرکاری اور مذہبی لوگ اس نئی مصیبت پر چوکنے ہو گئے تھے اور جنہیں یہ ہولناک مرض لاحق ہو جاتا تھا انہیں مجرم گردانا جاتا تھا۔ شہنشاہ میکسی ملین نے ایک حکم نافذ کیا جس میں آتشک کو ”بولسٹی بلیٹرن” یعنی ایک ایسی مصیبت کہا گیا جسے پہلے کسی نے دیکھا نہ سنا”۔ فوجوں نے اس ہولناک پلیگ کو فرانس اور جرمنی میں پھیلا دیا آتشک زدہ لوگوں کے ساتھ نہایت ہی وحشیانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ عورتوں کو جسمانی ایذادی جاتی تھی او رانہیں قتل کر دیا جاتا تھا۔ ہر بیمار مرد اور عورت کو کوڑھیوں کو طرح دھتکارا جاتا تھا۔ انہیں گھروں سے نکال دیا جاتا تھا او رشہروں اور قصبوں سے دور باہر رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ چند سال کے عرصے میں یہ مرض تمام یورپ اور جزائر بر طانیہ میں پھیل گیا۔
آئندہ صدی کے دوران میں جنسی بیماریوں کی مصیبت پر فوجی افسر خاص طور سے چوکنے ہو گئے۔ مسلح فوجوں کے ساتھ جو عورتیں ہوتی تھیں ان پر نت نئی پابندیاں لگائی جاتیں۔ 1515میں فرانسس اول نے حکم دیا کہ تمام بیمار عورتیں سپاہیوں کے ساتھ پیدل چلیں۔ ان کو زین اور گھوڑے دے کر ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ 1580 میں بلجیم کے متقی بادشاہ البرٹ کو اس مرض کے خلاف طبی تدابیر اختیار کرنا پڑیں۔ اور متاثر عورتوں کا فوجوں میں داخل سختی سے بند کر دیا گیا۔ تاہم اس وقت تک اس مرض کی تشخیص بہت ہی بھدی اور ناقابل اعتبار تھی۔ غالباً سب سے زیادہ خطرناک عورتوں کی کبھی شناخت ہی نہ ہو سکتی تھی۔ البرٹ کی طرح شاہی احکام کی خلاف ورزی پرآئے سال سخت سز ا دی جانے لگی۔ قانون کی رو سے آتشک کے مریض مجرم تھے۔ اخلاقی لحاظ سے انہیں کھلا گنا گار سمجھا جاتا تھا۔ لیکن یہ رویہ محض وسواس پر مبنی تھا کیونکہ مہذب اور عالی وقار خاندانوں کے بہت سے مرد اور عورتیں بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔ سزا صرف ان بد نصیبوں کی دی جاتی تھی جو روپے اور سماجی وقار سے اپنا تحفظ کرنے کے ناقابل تھے۔ پولیس سینکڑوں سال تک مرض اور مریضوں کی صفائی کے لئے وقتاً فوقتاً منظم حملے کرتی رہی۔ جلادوں کو حکم دے دیا جاتا تھا کہ طوائف کی ناک کاٹ دی جائے اور بعض اوقات ناک کے ساتھ کان بھی کٹوا دیئے جاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ شرابی سپاہیوں کی قطاریں کھڑیں کر دی جاتیں جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے ہوتے۔ طوائفوں کو ان کے درمیان دوڑنے کا حکم دیا جاتا او رسپاہی انہیں ڈنڈے مار مار کر ہلا کر دیتے تھے۔
بداخلاقی کے خلاف قدیم قوانین میں بادشاہ لوئیس کا آرڈی ننس مجریہ مارچ 1769سب سے زیادہ عدیم المثال ہے۔ اس آرڈی ننس کے مطابق پیشہ ور عورتوں کو گرفتار کیا جاتا تھا او رانہیںتین مہینے تک صرف سوکھی روٹی اور پانی پر گذارہ کرنے کی سزادی جاتی تھی اس کے بعد انہیں اس وقت تک قید میں رکھا جا تا جب تک وہ اپنی اصلاح نہ کر لیتیں۔ اس قید کی کوئی معیاد مقرر نہ تھی۔ یہ سز امقابلتاً کم وحشیانہ تھی۔ اس میں مزید رعایت یوں کی گئی کہ قید کے دوران میں زنا کار عورتوں کا بھی علاج کیا جاتا، جس کا تمام خرچ فوجی خزانے سے ادا کیا جاتا تھا۔ چونکہ ان دنوں ابھی آتشک کا کوئی موثر علاج دریافت نہیں ہوا تھا اس لئے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ بد نصیب عورتوں کو اس اقدام سے کیا فائدہ پہنچتا تھا۔ اگر کوئی عورت کئی مرتبہ گرفتار کی جاتی تو اس کی قید میں پہلے کی نسبت زیادہ توسیع کر دی جاتی تھی لیکن لوئیس نے عورتوں کی جسمانی سزا اور انہیں سر عام رسوا کرنے کی ممانعت کر دی تھی۔ اس وقت کے کلیسیت زدہ حضرات خے خیال میں عورتوں کے ساتھ اس غیر معمولی ہمدردی کا سبب یہ تھا کہ بادشاہ کے ہاں اکثر درباری عورتیں ہوتی تھیں جن کے دام میں خطاب یافتہ منصب دار پھنسے ہوئے ہوتے تھے۔
جنسی بیماریوں کی روک تھام کے لئے مزید جو کچھ کیا گیا، اس کی تفصیل انقلاب فرانس کے مشہور مہندس، کارنٹ کی رپورٹ میںموجود ہے۔ کارنٹ نے 1793میں ڈوئی کے کیمپ میں تقریباً تین ہزار عورتیں دیکھیں۔ اس نے آتشک کی بھیانک تباہی کا مشاہد ہ کیا اور لکھا کہ اس مرض نے اس تعداد سے تقریباً دس گنا زیادہ مردوں کو مفلوج کر دیا، جتنے دشمن کی گولیوں سے ناکارہ ہوئے تھے۔ طبی سفار شات پر عمل نہیں کیا جاتا تھا او رنپولین کے عہد حکومت میں عورتوں کو دوبارہ وحشیانہ سزائیں دی جانے لگیں تھیں۔ بونا پاٹ نے بدکار اور بیمار عورتوں کے خلاف بہت سے احکام جاری کئے۔ ان احکام میں عام طور سے یہ ہدایت کی جاتی تھی کہ بدکار عورتوں کے سروں کے بال کاٹ دیئے جائیں اور ان کا منہ کالا کر کے بازاروں میں پھرایا جائے تاکہ پبلک ان کا مذاق اڑائے او ر لوگ عبرت پکڑیں۔ تاہم اس اثنا میں علم طب میں تھوڑی بہت ترقی ضرور ہوئی اور بعض مقامات پر مقامی مجسٹریٹو ں کو بیمار عورتوں کے لئے طبی مرکز کھولنا پڑے۔
1811 میں جرمن فوج کے راسٹوک ہیڈکوارٹر میں ایک طبی مشن مقرر کیا گیا۔ یہ سب سے پہلا کمیشن تھا جسے ایک مخصوص علاقے کی تمام عورتوں کا معائنہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس کمیشن کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ بیمار عورتوں کے والدین سے اخراجات وصول کرنے کا مجاز تھا یا وہ ان لوگو ں سے بھی خرچ وصول کر سکتا تھا، جو پیشہ ور عورتوں کے لئے مکان کرائے پر لیتے تھے۔
اس سے کچھ عرصہ بعد آتشک کی روک تھام کے لئے ریاست کی طرف سے باقاعدہ کوششیں شروع ہوئیں 1835 میں جرمنی کی پولیس ایسے تمام اشخاص کی نگرانی کرتی تھی جن پر آتشک کے مریض ہونے کا شبہ ہو۔ اس پر بھی کچھ نہ بنا تو کا بینہ نے زیادہ موثر اقدام کیا۔ اس نے حکم دیا کہ برلن کے تمام چکلے اٹھارہ مہینے کے اندر بند ہو جانے چاہیئں اور اکثر بند بھی ہو گئے۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ جو سپاہی برلن کے علاقہ میں مقیم تھے ان میں آتشک کا عارضہ تیزی سے پھیلنے لگا۔ لہٰذا فوجی کمان افسر رینگل نے 1848میں مجبوراً اپیل کی کہ چکلے دوبارہ کھول دیئے جائیں۔
اس کے بعد جرمنی اور براعظم یورپ کے دوسرے ملک کبھی اس انتہا کی طرف مائل ہو جاتے کبھی اس انتہا کی طرف مائل۔ کبھی پیشہ ور عورتوں کو نکال باہر کیا جاتا اور چکلے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ کبھی پولیس کے مقرر کردہ ڈاکٹروں کی زیر نگرانی وہی اڈے پھر کھول دیئے جاتے۔
برطانیہ کا تجربہ خاص طو رپر بصیرت افروز ہے۔ انگلستان ایک ایسا ملک ہے جس میں باقی تمام ملکوں سے محسوس کیا گیا کہ آتشک کے خلاف زبردست جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس کا سبب برطانیہ کی روائتی قدامت پسندی نہیں ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ دولت مشترکہ کے طبی ماہرین یورپ کے تجربوں کا مشاہدہ کر چکے تھے اور انہیں ان تجربوں کی کامیابی پر بالکل یقین نہ تھا۔
تاہم جون 1866 میں بعض بحری اور فوجی سٹیشنوں پر چھوت کی بیماری کو زیادہ موثر طریقے سے روکنے کے لئے ایک قانون پاس کیا گیا، جسے عرف عام میں ”وبائی امراض” کا قانون کہتے ہیں۔ اس قانون نے پولیس کے اختیار دے دیا کہ وہ مشکوک عورتوں کو ڈاکٹروں کے پاس جبری معائنے کے لئے لے جا سکتی ہے اور ضروری سمجھے توانہیں علاج کے لئے ہسپتال میں داخل ہونے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد سپاہیوں اور جہازیوں میں آتشک کی وبا گھٹ گئی۔ لیکن پارلیمان نے کسی واضح کے بغیر آٹھ سال کے بعد اس قانون کو منسوخ کر دیا۔
پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے عین پہلے مشہور انگریز ڈاکٹر سرولیم آسلر نے چند مشہور طبی ماہرین کو ایک خط پر دستخط کرنے پر ابھارا اور اس خط کو وہ ”ٹائمز” میں شائع کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس خط میں تنبہیہ کی گئی تھی کہ آتشک کی بیماری پھیل رہی ہے۔ اس خط کو پڑھ کر برطانیہ کے لوگ سکتے میں آگئے کیونکہ یہ پہلا خط تھا جو انگریزی بولنے والی دنیا میں اس بیماری کے متعلق شائع ہوا تھا او رجس میں نئی بیماری کوٹھیک آتشک کا نام دیا گیا تھا۔ اس خط کی اشاعت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسکو تھ کی حکومت نے جنسی بیماریوں سے متعلق مشہور سڈن ہام رائل کمیشن مقرر کیا۔
اس کمیشن نے اپنی رپورٹ جنگ کے دوران میں پیش کی ۔ اس نے آسلر کے بیان کی تصدیق کی اوربتایا کہ انگلستان کی کم ازکم دس فیصد آبادی آتشک میں مبتلا ہے۔ اور ا سے بھی زیادہ سوزاک کی مریض ہے۔ آتشک سے ہر سال تقریباً تریسٹھ ہزار انگریز ختم ہو رہے ہیں اور تپ دق اس سے بھی زیادہ اموات کا باعث ہے۔ آج بھی اس صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیںہوئی۔
جنسی وبا سے متعلق نظریوں میں جس سست رفتاری سے ترقی ہوئی ہے اسے دیکھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ ابھی لوگ حال میں جنسی بیماریوں سے متعلق کچھ بھی جانتے تھے۔ جدید ماہرین خیال ہے کہ اس بیماری کے متعلق صحیح علم اس لئے دیر بعد ہوا کہ اس سلسلے میں ظاہری شرافت اور مذہب حائل رہا اور اس بیماری کو روکنے کے لئے سائنٹیفک اقدامات بہت دیر بعد کئے گئے۔ علاوہ ازیں وہ اوہام کو بھی اس کا موجب سمجھتے ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ علم طب کے سائنٹیفک بن جانے کے کافی عرصہ بعد تک جنسی زندگی کے تمام پہلوئوں کے بارے میں سائنٹیفک علم پیدا نہیں ہوا تھا۔ اگر چہ یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان کو مجامعت اور پیدائش کا صحیح علم ابھی حال ہی میں ہوا ہے۔
یونانی تہذیب سے پہلے بچے کی پیدائش کو مافوق الطبیعاتی مظہر خیال کیا جاتا تھا لیکن یونانی فلسفیوں نے جن کی قوت مشاہدہ اور عقل کو رومانی تاریخ دانوں نے اسے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔ اس قیاس کو صرف اتنی ترقی دی کہ انہوں نے بچے کی پیدائش کا معجزہ خدائوں سے چھین کر ماں سے منسوب کر دیا۔
بقراط نے اپنی مشہور تصنیف ”انسان کی فطرت میں” جو چار سال قبل از مسیح لکھی گئی، قیاس آرائی کی کہ بچے کی پیدائش زنانہ ومردانہ ”بیجوں” پر منحصر ہے لیکن اس نے اس خیال کو ماہواری حیض کے ساتھ بری طرح گڈمڈ کر دیا۔ ارسطو نے اس خیال کو یہ ترقی دی کہ انسان کے جنسی افعال جانوروں کے افعال سے مشابہ ہیں۔ قرون وسطیٰ میں انسان کو دیگر مخلوقات سے محض روائتاً افضل شمار کیا جاتا تھا۔ اس خیال کی بنیاد کوئی سائنٹیفک علم نہ تھا۔
البتہ مغربی سائنس کے عروج سے بہت عرصہ پہلے اس سلسلے میں چینیوں نے بہت زیادہ ترقی کی تھی۔ انہوں نے اندازہ لگایا جا تھا کہ زنانہ اور مردانہ عناصر ہوتے ہیں جوالگ الگ حمل نہیں ٹھہرا سکتے۔ علاوہ ازیں چینی زبان میں ایسے لفظ موجود تھے جن کے معنی ”اووری” یعنی اندادانی اور ”منی” کے ہوتے ہیں او روہ یہ بھی جانتے تھے کہ حیض کا حمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
قرون وسطیٰ کے زمانے میں انسان کو زندگی کے بنیادی حقائق کا قطعی علم نہ تھا۔ جنس کے متعلق سنجیدہ علم کی بجائے تو اہم اور جادو ٹونے کا دور دورہ تھا۔ یہ نہ بھولنا چاہیئے کہ کسی کے ذہن میں کبھی خیال تک پیدا نہ ہوا تھا کہ بچے کی پیدائش کا علم قابل ادراک ہے۔
سولہویں صدی عیسوی میں لی یروین ہوک نے خوردبین ایجاد کی لیکن اس ایجاد کے سو سال بعد اس کے شاگرد ہام نے منی کے جراثیم دریافت کئے۔ انہی دنوں اس کے ساتھی گراف نے انڈادانی کے متعلق نئی معلومات مہیا کیں۔ اب حمل کی سچی کہانی تیار کرنے کا امکان پیدا ہوگیا لیکن سو سال یونہی گزر گئے اور اس کے بعد کہیں جا کر سپیلن زانی نے منی کے کیڑوں کو حرکت کرتے ہوئے دکھایا اور تقریباً ایک صدی اور گزر جانے کے بعدہر ٹ برگ اس قابل ہو ا کہ منی کے کیڑے کو انڈادانی میں داخل ہوتے ہوئے دکھا سکے۔ لہٰذا تاریخ کے آغاز سے لے کر 1875 تک انسان کو حمل کی حقیقت کا کوئی علم نہ تھا۔
یہ بات خاص طور سے یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہمیں 1875 کے بعد ہی علم ہوا کہ انسانی اور دوسری حیوانی زندگی کا آغاز کس طرح ہوتا ہے اور ہمیں اس حقیقت کی روشنی میں جنس سے متعلق انسانی علم کی پیچیدہ ترقی کا جائزہ لینا چاہیئے۔
اگر ہم جنسی بیماریوں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ ہم جنسی عوامل کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ اس سلسلے میں ہمارا تمام علم قیاسات، تو ہمات اور قصے کہانیوں کا مجموعہ تھا۔
حاصل کلام یہ کہ جنسی بیماریوں کے خلاف جدوجہد آج سے کوئی تین سو سال پیشتر شروع ہوئی اور یہ پہلے پہل بالکل غیر سائنسی تھی۔ جب ہم نے دیکھا کہ آتشک کا مرض اپنے دوسرے اور تیسرے درجے میں کس قدر خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے تو رفتہ رفتہ ا س کے علاج کے طریقے دریافت ہونے لگے جلد ہی طوائف سماجی بیماری کا سر چشمہ مانی جانے لگی لیکن بد معاشی کے اڈے ہزاروں سال سے جائز سماجی اداروں کی حیثیت سے قائم تھے۔ اس لئے تجارتی عصمت فروشی کے خلاف رفتہ رفتہ ہی نفرت پیدا ہوئی۔ عصمت کی تجارت کی مخالفت ہوئی تو اس پر طبی حملہ کیا گیا اور اس کے بعد کلیسا اور قانون نے دھا والول دیا لیکن دو سال تک بدکاری کے خلاف جو جدوجہد جاری رہی وہ بالکل غیر منظم تھی او رغیر موثر ثابت ہوئی۔
بعد ازیں عصمت فروشی کو ” سرکاری طور پر تسلیم” کرنے کا زمانہ آیا۔ خطرے کے مقامات کو دوسری آبادی سے الگ کیا گیا اور اس علاقے کو بظاہر طبی نگرانی میں رکھا جانے لگا۔ اس کے ساتھ ہی تجارت کی وسیع ترقی نے جسے ہم بزنس کہتے ہیں بدکاری پر بھی گہرا اثر ڈالا اور نوجوان لڑکیوں کی تجارت شروع ہوئی لڑکیوں کو باقاعدہ طو ر پر عصمت فروشی کے لئے بھرتی کیا جانے لگا اور تمام منافع چکلوں کے چودھریوں کی جیبوں میں جانے لگا۔ ایک وقت آیا کہ عصمت کی فروخت کو قانوناً منع کر دیا گیا۔ لیکن یہ دھندا چوری چھپے جاری رہا اور اس قدر نفع بخش ثابت ہوا کہ اسے ختم کرنا قانون کے بس کاروگ نہ رہا۔ نتچتہ عصمت فروشی اور بدکاری کے خاتمے کی تحریک پیدا ہوئی۔ نئے قانون پاس کئے گئے۔ اکثر ملکوں میں حرام کاری کے خلاف جدوجہد کے لئے پولیس کے خاص محکمے کھولے گئے۔ ڈاکٹروں نے جنسی بیماریوں کے خلاف پرزور پراپیگنڈہ کیا اور کلیسائوں نے زبردست تبلیغ شروع کر دی۔ ان سب کو ششوں کو مقصد بدی کو ختم کرنا تھا لیکن انسان کی جہالت نے اس نیک کام کو سرے نہ چڑھنے دیا۔ یہاں تک کہ 1938 تک سوزاک اور آتشک کا اخباروں او ررسالوں تک میں ذکر شرافت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد عصمت فروشی کی ممانعت کے تمام قانون اور بدکاری کے خاتمے کے پروگرام ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آیا۔تمام ملکوں میں بدکاری اورجنسی وبازور پکڑ گئی۔ لہٰذا اس کے خلاف سائنٹیفک بنیادوںپر دوبارہ مہم چلانے کی کوشش کی گئی۔ سینکڑوں مریضوں کی داستانیں عبرت کے طور پر اخباروں اور رسالوں میں چھاپی گئیں اور بدکاری کے متعلق نام نہاد سائنسی مواد کا اتنا بڑا ڈھیر لگ گیا کہ انسانی اخلاق، محبت شادی اور خاندان کے تمام اہم سوال اس کے تلے دب گئے۔ نفسیاتی تجزیے سے کام لیا جانے لگا۔ اور گناہ سے متعلق جو نئے نظریئے پید اہوئے ان میں سے اکثر کو طبی حمایت بھی مل گئی۔ اس کے باوجود یہ ابدی سوال بد ستور قائم رہا کہ عورتیں حرام کاری پر مجبور کیوں ہوتی ہیں۔
روس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بدکاری کے عجیب وغریب وجوہ بیان کئے گئے ہیں، جن سے شاید آپ بھی آگاہ ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں۔
-1طوائفیں فطرتاًبداخلاق ہوتی ہیں۔ اس لئے جب تک سائنٹیفک طریقے پرا نسانی نسل کی پرورش شروع نہ ہو جائے یا مذہب کے ذریعے انسان کی اصلاح نہ کی جائے اس وقت تک بدکاری کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
-2چونکہ مرد جنسی زندگی میں ذائقے کی تبدیلی کو فطرتاً پسند کرتا ہے ا س لئے زنا کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ بدکاری باقی رہے گی۔
-3صرف مرد ہی حرام کاری کے ذمہ دار ہیں اس لئے وہ برے فعلوں سے بچنے کا حلفاً وعدہ کریں اور ایسے افعال کی حمایت نہ کریں تو شاید یہ بدعت ختم ہو جائے۔
-4بہت سی بدکار عورتیں ایسی ہیں جو شروع میں شروع شریف لڑکیاں تھیں لیکن بری صحبت میں پڑ کر خراب ہو گئیں۔ لہٰذا علاج کلیسا اور گھر سے شروع ہونا چاہیئے۔
-5 چونکہ دنیا میں عورت ہمیشہ رہے گی، اس لئے بدکاری بھی ہمیشہ رہے گی کیونکہ عورتیں زندگی کی نعمتوں کے حصول کے لئے آسان طریقہ اختیار کرتی ہی رہیں گی۔
-6 تقریباً تمام پیشہ ور عورتیں فیکٹری میں کام کرنے والی لڑکیوں سے بھرتی کی جاتی ہیں۔ اس لئے حرام کاری کو ختم کرنا ہے تو عورتوں کو صنعتوں میں کام کرنے سے روک دیا جائے۔
-7جو لڑکیاں بعد میں پیشہ اختیار کرتی ہیں، وہ شادی سے پہلے مائیں بننے کا تجربہ کر چکی ہوتی ہیں۔
-8 بدکار عورت نفسیاتی علاج سے بہت جلد متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا بہت سی پیشہ ور عورتوں کو نفسیاتی تجزیے کے ذریعے ان کا کھویا ہوا اور وقار واپس مل سکتا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اس سفید جھوٹ اور نیم حقیقت کا کیا کیا جائے۔ لہٰذا بدکاری اور عصمت فروشی کے خلاف جہاد کرتے کرتے قانون ساز اسمبلیاں مفلوج ہو گئیں تو حیرانی کی کوئی بات نہیں اور پھر کوئی مثال بتایئے کہ کوئی قانونی اقدام اس قسم کی مخالفت کے بغیر اٹھایا گیا ہو کہ یہ لا محالہ نا کام رہے گا۔
چند سال پیشتر پال ڈی کروئف نے مردوں کے ایک رسالے میں اپنا ایک سنسنی خیز مقالہ شائع کیا، جس میں اس نے بدکاری کے خلاف جدوجہد کرنے کا ایک نیا طریقہ پیش کیا۔ یہ مقالہ اچھا خاصا افسانہ تھا جس میں ایک ایسی دوا کی موجودگی کی اطلاع دی گئی تھی جسے عورتیں استعمال کریں تو نہ صرف یہ ہو گا کہ دوسروں کو ان سے بیماری نہیں لگے گی بلکہ بیماری کا زور ٹوٹ جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں ا س کا مطلب یہ ہے کہ اس دوا کے استعمال سے کوئی خوف باقی نہیں رہتا اور ان گنت بارزنا کیا جاسکتا ہے۔ بچے کی ضرورت ہی کیا ہے مقصد تو بیماری سے بچنا ہے۔
لیکن یہ امسٹر کروئف کے زرخیز تخیل کی پیداوار نکلی پھر بھی ایسی دوا کی ایجاد نا ممکنات میں سے نہیں چونکہ اب تک کوئی ایسی دوا موجود نہیں ہے اس لئے طبی تحقیقات کا رجحان زیادہ تر اس طرف ہے کہ مانع مرض اور دافع مرض دوائیں ایجاد کی جائیں۔ سائنس دانوں کی اچھی خاصی تعداد کا خیال ہے کہ یہ جڑواں بہنیں ایجاد ہو گئی تو حرام کاری سے پیدا شدہ مصیبت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ کیا اہم ان سے اتفاق کر سکتے ہیں۔
اس سوال کے جواب کے لئے کسی خاص سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ آج کل بیماری لگنے اور حمل ٹھہرنے کے دوا یسے قدرتی خوف ہیں جن کے پیش نظر بہت سے نوجوان اور دو شیزائیں جنسی تعلقات میں محتاط ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بدکاری ایک حد تک قابو میں ہے۔ جو نہی یہ خدشہ جاتا رہے گا ہر قسم کی بدکاری میں کمی کی بجائے اضافہ ہو جائے گا۔ عام لوگ جتنی مقدار میں جنسی بیماری سے بچائو اور ضبط تولید کے طریقوں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے زیادہ گناہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ سوویت یونین کے سواہر ملک میں عصمت فروشی کا قوی امکان ہے کیونکہ سوویت یونین میں سائنس کاکام محض جنسی بیماری اور ناجائز پیدائش سے اعداد شمار جمع کرنے تک محدود نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہاں اس سے کہیں زیادہ اہم اخلاقی مسائل در پیش تھے۔ اشتراکی حکومتوں کو تو اس بات کی لگن تھی کہ انسانی نسل کی اصلاح کیسے ہو اس کی فطرت کو کیسے بدلا جائے۔

عصمت کی تجارت کا خاتمہ
روسی عورتوں نے سوال نامے کے جواب میں متفقہ طور پر بتایا کہ عورتیں معاشی دبائو غریبی سے مجبور ہو کر عارضی یا مستقل طور پر بدکاری اختیار کرتی ہیں۔ لیکن اس سوال کایہ جواب ادھورا ہے
روس کی غریب عورتوں کی اکثریت نے بدکاری کا غریبی کا حل سمجھ کر اختیار نہ کیا تھا۔ اس کی وجہ؟ کیا ان کی حالت اس بدنصیب اقلیت سے اچھی تھی جنہوں نے عصمت فروشی کو اپنی غریبی کا علاج سمجھا تھا؟ ہر گز نہیں؟ روسی عورتوں نے اس سوال کا بھی موثر جواب دیا۔
جو عورتیں عصمت فروشی کی لعنت میں گرفتار تھیں انہوں نے بتایا کہ وہ دوسرے لوگوں کے اکسانے پر عصمت کی تجارت کرنے لگیں۔ یہ اکسانے والے کون تھے؟ عموماً یہ ایسے مرد نہ تھے جو سب سے پہلے ان کے گاہک بنے، بلکہ یہ ایسی عورتیں اور مرد تھے جو عصمت کی تجارت سے نفع کماتے تھے او ریہ لوگ دلال یا چکلوں کے چودھری اور مالک تھے۔
بعض قاری یہ خیال کریں گے کہ مذکورہ بالا ہردو حقائق کا اطلاق صرف روسی عورتوں پرہی ہو سکتا ہے۔ انہین چاہیئے کہ وہ اس سلسلہ میں فلیکسز اور کوپر کی کتابیں پڑھیں اور کتابوں سے معلوم ہو گا کہ ان دونو ں حقیقتوں کا اطلاق 1923 کے روس کی طرح آج روس کے علاوہ ہر ملک پر ہوتا ہے اور اس سے دنیا کا کوئی ملک مستشنے نہیں عصمت فروشی کے دو سبب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ دنیا میں بے شمار مفلوک الحال اور بے یار مددگار لڑکیاں پائی جاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ عصمت کی باقاعدہ اور منظم تجارت سے بھاری منافع حاصل ہوتا ہے۔
بدنصیب لڑکیوں کو ان منافعوں سے کوئی خاص حصہ نہیں ملتا۔ رومانی اور خیالی اندازوں کے برعکس پیشہ ور لڑکیوں کی ماہوار آمدنیاں نہایت قلیل ہیں۔ ان کی زندگی نہایت ہی ہولناک او ران کا ماحول نہایت ہی غلیظ اور پست ہے۔ البتہ چند لڑکیاں ایسی بھی تھیں۔ جنہوں نے عصمت فروشی کو مستقل پیشہ بنانے کے لئے اختیار کیا تھا۔ ہزاروں لڑکیوں نے اعتراف کیا کہ وہ نا سمجھی میں بدکار بن گئیں اور ان پر حقیقت حال بعد میںکھلی۔ اکثر نے یہ دھندا مجبوراًاختیار کیا۔وہ فاقوں مر رہی ہوتیں یا ان کا کام غیر دلچسپ اور اکتا دینے والا ہوتا یا وہ نہایت قلیل اجرت پر حد سے زیادہ مشکل اور ناقابل برداشت کام کر رہی ہوتیں یا فرصت کے وقت ان کے پاس دل بہلا وے اور تفریح کا کوئی سامان نہ ہوتا تو اس حالت میںکوئی دلال مرد یا عورت وار ہوتی ۔ وہ نہایت چالاکی سے سنہری جال بچھاتی اور لڑکی کے ساتھ تاریخ اور معاوضہ طے کر جاتی عام طو رسے یہ معاوضہ قلیل ہوتا تھا۔
اشتراکی محققوں نے معلوم کیا کہ اکثریت کو کسی خاص معاوضے کا وعدہ نہ دیا جاتا تھا وہ اس قدر خستہ حال ہوتی تھیں کہ ان کے لئے معمولی معاوضہ بھی گناہ کی زبردست ترغیب ثابت ہوتا۔ کو پرنے اپنی کتاب میں بتایا کہ امریکہ میں بھی یہی صورت حال پائی جاتی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ لڑائی سے چند سال پہلے فی ہفتہ اکیس بکس (bocks) خالص منافع کے وعدہ پر لڑکیوں کو عصمت فروشی کے لئے بھرتی کیا جاتا تھا اوریہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ گناہ کی جڑ نہایت افلاس میں ہے۔
مذکورہ بالا سوال نامے کی تیاری کے وقت سوویت حکومت نے ملک کی صنعتی اور زرعی زندگی کو نئے سرے سے منظم کرنا شروع کیا ہی تھا۔ اس وقت عورتوں کے لئے تقریباً کوئی نوکری یا عہد ہ خالی نہ تھا اور اگر کوئی تھا بھی تو تنخواہ بہت ہی تھوڑی تھی۔ سوال نامے میں عورتوں کو کوئی ملازمت پیش نہیں کی گئی تھی۔اور نہ کوئی باعزت روز گار کے ذریعے اپنی اخلاقی زندگی کو بحال کرنے کے لئے بیتاب ہیں۔ انہیں اپنی اخلاقی پستی کے معاشی وجوہ کا پورا احساس تھا۔ ان بدنصیب عورتوں کی اکثریت بچوں کی پرورش کر رہی تھی۔ اور وہ ہر وقت یہ خواب دیکھتی تھیں کہ بچوں کے باشعور ہونے سے پہلے اپنے ذلیل پیشے سے نجات حاصل کر لیں، تاکہ وہ ان کے لئے ندامت کا داغ ثابت نہ ہوں۔
اس سوال نامے سے ایک اور حقیقت کی تصدیق ہوئی جسے آج ہر ماہر نفسیات، مصلح اور زانی مرد اچھی طرح جانتا ہے لیکن اس سے بہت کم شریف عورتیں آگاہ ہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی لڑکیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو ہوس پرستی یا حد سے زیادہ بڑھی ہوئی جنسی خواہش کی تسکین کی خاطر عصمت فروشی اختیار کرتی ہیں۔ روسی عورتوں نے متفقہ طور پر بتایا کہ اس قسم کی زندگی کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طبیعت جنس سے قطعاً اچاٹ ہو جاتی ہے اور دل کو جنسی فعل سے نفرت ہو جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ بدکاری کی طرف مائل ہوئیں تو لذت کشی کا خیال تک ان کے قریب نہ پھٹکا تھا۔
اشتراکی ماہرین نفسیات نے اس سوال نامے کے جوابوں کی روشنی میں اس عام تجربے کی تصدیق کی کہ اکثر طوائفیں نفسیاتی اعتبار سے صحت مند ہوتی ہیں۔ ان کے دماغوں میں خلل ہوتا ہے تو زیادہ سے زیادہ اس قدر، جتنا کہ عام با خلاق عورتوں کے دماغوں میں پایا جا سکتا ہے۔ یعنی ان کی ذہنی حالت عام عورتوں کی سی ہوتی ہے۔ شائستگی اور حیا سے بے حیائی اور بدکاری کی طرف میلان کاباعث نفساتی دبائو نہیں بلکہ معاشی دبائو ہے۔
آج کل ہمارے ہاں یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ بداخلاق لڑکی کی سماجی حیثیت کو بحال کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے کافی عرصہ تک نفسیاتی شفاخانے میں رکھا جائے۔ یہ نظریہ سائنس اور عقل کے خلاف ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر بے شمار مضحکہ خیز سکیمیں تیار ہونے لگتی ہیں ۔مثلاً عورتوں کے لئے ”نجات گھر”اور ”اصلاح گاہیں” تعمیر ہونے لگتی ہیں۔ لڑکی کو پہلے جرم پر قید کی سزادی جاتی ہے اور اس کے دوران میں ایک افسراس کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ تصدیق کر دے کہ ملزمہ کا اخلاق درست ہو گیا ہے تو اسے تجربتاً رہا کر دیا جاتا ہے۔ ایسی سکیموں سے کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے تو صر ف یہ کہ جرائم اور بدکاری کا عام سبب یعنی افلاس وقتی طور پر ….پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ روسی عورتوں نے بد معاشی کے معاشی اسباب پر بہت زیادہ زور دیا اور نہایت موثر الفاظ میں مطالبہ کیا کہ ہمیں کوئی باعزت کا م دیجئے۔ مناسب تحفظ کا یقین دلا دیجئے۔ ہم اپنے آپ کو فوراً بحال کر لیں گی۔
وہ جواب خاص طور سے بصیرت افرور تھے جو عصمت کی تجارتی لوٹ کھسوٹ سے متعلق تھے۔ ان سے اس فریب کی قلعی کھل گئی کہ عصمت فروشی کے اڈوں کو چند امیر اور صاحب دماغ آدمیوں کا گروہ چلاتا ہے اور اس پر اسرار گروہ کا راز فاش ہو گیا۔ جسے ”عصمت کا تاجر” کہتے ہیں۔ کیونکہ سوال نامے نے ثابت کر دیا کہ بدکاری سے نفع کمانے والے لوگ عام عورتیں اور مرد ہوتے ہیں۔ ان دنوں روس میں بدکاری سے نفع کمانے والوں کی اکثریت عام اور گمنام قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں تانگے والے ہوٹلوں کے بیرے، عام جرائم پیشہ اور نشہ کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔ اور گھٹیا درجے کے ناچ گھروں، ہوٹلوں ریستور انوں اور تفریح گاہوں کے مالک اور سب سے بڑھ کر ایسے جا گیردار اور صاحب جائد اد لوگ شامل ہیں جو سستے ہوٹلوں سرائوں اور سیاحوں کی قیام گاہوں کے مالک ہوتے ہیں۔
اب ہم نکتہ اختلاف یعنی اس مسئلے پر پہنچ گئے ہیں جس کا سامنا اشتراکی ماہرین کو عصمت فروشی کے خلاف مہم چلانے سے پہلے کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایسا نکتہ ہے جو اشتراکی مہم کو باقی تمام مہموں سے ممیز کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک میں عصمت فروشی کے خلاف چلائی گئیں۔
اس نکتے کی آسان تشریح یہ ہے کہ سوویت یونین میں بدمعاشی کے خلاف زبردست مہم چلانے کی ٹھان لی گئی تو فیصلہ کیا گیا کہ اس مہم کا رخ طوائف کے خلاف ہر گز نہیں ہوگا کیونکہ منظم بدکاری ایک سماجی برائی ہے اس کا بنیادی سبب عورتوں کا افلاس ہے۔ اور نفع اندوزی کا لالچ اس لعنت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس پالیسی کی اخلاقی بنیاد کیا ہے؟ اس کی مکمل تشریح میکسم گور کی ان الفاظ میں کر چکا ہے۔
اب ہم نکتہ اختلاف یعنی اس مسئلے پر پہنچ گئے ہیں جس کا سامنا اشتراکی ماہرین کو عصمت فروشی کے خلاف مہم چلانے سے پہلے کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایسا نکتہ ہے جو اشتراکی مہم کو باقی تمام مہموں سے ممیز کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک میں عصمت فروشی کے خلاف چلائی گئیں۔
اس نکتے کی آسان تشریح یہ ہے کہ سوویت یونین میں بد معاشی کے خلاف زبردست مہم چلانے کی ٹھان لی گئی تو فیصلہ کیا گیا کہ اس مہم کا رخ طوائف کے خلاف ہر گز نہیں ہوگا کیونکہ منظم بدکاری ایک سماجی برائی ہے اس کا بنیادی سبب عورتوں کا افلاس ہے۔ اور نفع اندوزی کا لا لچ اس لعنت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس پالیسی کی اخلاقی بنیاد کیا ہے؟ اس کی مکمل تشریح میکسم گورکی ان الفاظ میں کر چکا ہے۔
دنیا میں ایک بھی غلام اور مظلوم باقی نہ رہے تو اغلب ہے کہ انسان مثالی طور پر نیک بن جائے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی غلام اور مظلوم نہ رہے تو ان لوگوں کے خلاف زبردست جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے جو غلاموں کی محنت پر زندہ رہنے کے عادی ہو چکے ہیں
سوویت حکومت نے 1925 میں ایک قانون کے ذریعے اپنے نظریوں کو عملی شکل دی۔ اس قانون کا نام تھا ”عصمت فروشی کے خلاف جدوجہد کے اقدامات” اس قانون کا پیش لفظ چونکا دینے والا تھا۔ اس میں بدکاری اور بیماری کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ اور ہر حکومتی ادارے، ٹریڈ یونین، امداد باہمی اور عوامی کو ہدایت دی گئی کہ مندرجہ ذیل امور پر فوراً عمل کیا جائے۔
-1حکم دیا گیا کہ ملیشیا یعنی مسلح مزدوروں کے دفاعی دستے ٹریڈیونینوں کی براہ راست حمایت حاصل کریں اور محنت کش عورتوں کو ان کی موجودہ ملازمتوں سے ہر قیمت بر طرف نہ ہونے دیں۔ اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا جائے کہ غیر شادی شدہ عورتوں کو جو محنت کر کے اپنا پیٹ پالتی ہیں یا جو حاملہ ہیں، جو چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں۔ یا بے گھر نوجوان لڑکیوں کو کسی صورت میں بھی ملازمت سے بر طرف نہ کیا جائے۔
-2اس وقت ملک میں بہت زیادہ بے روز گاری پائی جاتی تھی اس مسئلے کے جزوی حل کے لئے مقامی حکومتوں کے مختلف اداروں کو ہدایت دی گئی کہ غریب عورتوں کو محنت مزدوری بہم پہنچا نے کے لئے امداد باہمی بنیادوں پر زرعی فارم اور فیکٹریاں قائم کی جائیں۔
-3تمام عورتوں کو سکولوں اور تربیت گاہوں میں داخل ہو کر علم اورفن سیکھنے پرا بھارا گیا اور یونینوں کو ہدایت کی گئی کہ صنعتی اور پیشہ ورانہ اداروں میں عورتوں کے داخلے کی جو مخالفت پائی جاتی ہے۔ اس کا کامیابی سے مقابلہ کیا جائے۔
-4 رہائشی مکانوں کا بندوبست کرنے والے محکموں کو حکم دیا گیا جن عورتوں کا کوئی مخصوص ٹھکانہ نہیں یا جو لڑکیاں ملازمت کے سلسلہ میں دیہات سے شہروں میں آتی ہیں ان کے لئے مشترکہ رہائشی ادارے قائم کئے جائیں۔
-5 لاوارث اور بے گھر بچوں اور لڑکیوں کے تحفظ کے لئے جو قوانین بنائے گئے ہیں۔ ان پر پوری طرح عمل کیا جائے۔
-6 ملک کی تمام آبادی کو جنسی بیماری یعنی آتشک کی خطرناک مصیبت اور عصمت فروشی کی لعنت سے آگاہ کرنے اور نئی جمہوریت سے ان برائیوں کے خاتمے کے لئے قومی امنگ اور عزم کے ساتھ جہالت پر عام دھاوابولا جائے اور تعلیم کو رواج دیا جائے۔
یہ سب اقدامات ابتدائی قسم کے تھے اور ان کا مقصد نہایت غریب عورتوں اور لڑکیوں کی حالت کو قدرے بہتر بنانا تھا۔ اشتراکی حکومت کو اس امر کا پورا احساس تھا کہ بدکاری سوسائٹی کے ہر طبقے میں پائوں جما چکی ہے۔ صرف معاشی دبائو کے ہلکا کر دینے سے یہ موجودہ نسل سے تو ہر گز دور نہیں ہو سکتی۔ اور شاید آئندہ نسل میں بھی باقی رہے۔ لہٰذا اس پر براہ راست حملہ کیا گیا۔ اس مقصد کے پیش نظر مرکزی حکومت نے تین مزید قانون نافذ کئے۔
-1زار شاہی کے قانون میں بدکر دار عورتوں کے خلاف جتنے بھی ظالمانہ اقدامت روا رکھے گئے تھے انہیں قانون اور پولیس کی سرگرمیوں سے قطعاً الگ کر دیا گیا۔
-2 مفت خوروں اور طفیلیوں کے خلاف شدید جنگ کا آغاز کیا گیا۔ کیونکہ ان لوگوں کا مفاد بلا واسطہ یا بالواسطہ عصمت فروشی سے وابستہ تھا۔ مقامی حکومتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اس سلسلہ میں ان بے رحموں سے بے رحمی کے ساتھ پیش آئیں۔
-3 جو لوگ جنسی بیماریوں سے متاثر تھے انہیں ہر ممکن طریقے سے ڈاکٹر اور طبی سہولتیں مفت بہم پہنچائی گئیں۔
ان قوانین پر عمل کرانے کے لئے محکمہ صحت عامہ کے ماتحت ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا لیکن شروع ہی سے بہت سے مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ اقتصادی اقدام سے رفتہ رفتہ خاطر خواہ نتیجہ نکلنے لگا تھا۔ لیکن منظم بدکاری یعنی عصمت کی تجارت کے خلاف جدوجہد میں کوئی کامیابی نظر نہ آئی۔
زار شاہی پولیس کے وحشیانہ طریقے مسلح مزدوروں کے بعض دفاعی دستوں نے ہو بہو اختیار کے لئے جن کے قائد ایسے لوگ تھے جو بداخلاقی سے متعلق نئے نظریئے کو سمجھ نہ سکے تھے۔ اس لئے 1923میں عوامی مجلس انصاف نے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کر دی۔ جس کا آزاد ترجمہ حسب ذیل ہے۔
دفعہ نمبر170 جو شخص ذاتی منفعت یا کسی دوسری غرض سے جسمانی یا اخلاقی دبائو کے ذریعے عصمت فروشی کی حوصلہ افزائی کرے گا وہ اپنے پہلے جرم پرکم تین سال سزائے قید کا مستوجب ہوگا۔
دفعہ 171عصمت کے تاجر اپنے پہلے جرم پرکم سے کم تین سال قید اور تمام ذاتی جائیداد کی ضبطی کی سزا کے مستوجب ہوں گے۔ اگر طوائف کسی ملزم کی زیر نگرانی ہو یا اس کی ملازمت میں ہو یا اس کی عمر اکیس سال سے کم ہو تو قید کی سزا بڑھا کر کم سے کم پانچ سال کر دی جائے گی۔
ان قوانین پر عملدر آمد کی ذمہ دای پہلے پہل محکمہ صحت عامہ کے سپرد کی گئی تھی۔ لیکن بعد میں جنوری 1924میں امور داخلہ کی عوامی مجلس کے حوالے کر دی گئی۔ یہ ادارہ تقریباًہمارے ہاں کے محکمہ عدل وانصاف یا سرکاری وکیل اعظم کے دفتر سے مشابہ ہے اس کے بعد ایک اور آرڈی ننس جاری کیا گیا۔ جسے فوراً قانونی شکل دے دی گئی۔ یہ قانون عصمت فروشی کے خلاف جدوجہد میں ملیشیا کے فرائض سے متعلق تھا۔ یہ غیر معمولی قانون تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ کیونکہ یہ پہلا قانونی اقدام ہے جو منظم بدکاری کی سماجی بنیادوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوا اور یہ اس قابل ہے کہ دوسرے ملکوں کو نمونے کا کام دے سکے اسے دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
-1 پہلے حصے میں ملیشیا کے فریضے وضاحت سے بیان کئے گئے۔ ملیشیا کا فوری کام یہ تھا کہ وہ بدمعاشی کے تمام اڈوں کا سراغ لگائے کیونکہ یہ بدطنیت لوگوں کو لئے حصول منفعت کا ایک بڑا اور مستقل ذریعے تھے جو شخص اڈوںکو چلانے والا یا ان مکانوں کا مالک یا کرائے پر دینے والا نکلے یا ان اڈوں کے لئے گاہک یا عورتیں مہیا کرنے میں جس شخص کا کسی طرح بھی کوئی ہاتھ ثابت ہو اسے فوراً گرفتار کیا جائے اور ضابطہ فوجداری کی دفعات کے مطابق سزا دی جائے۔ جن مکانوں میں عصمت فروشی کا کام ہوتا ہو، ان کے مالکوں یا مالکنوں، دلالوں یا کٹنیوں وغیرہ کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو انسانوں کے سودا گروں کے ساتھ کیا جانا چاہیئے۔ ملیشیا کو تنبہیہ کی گئی کہ وہ بدمعاشی کے مشہور اڈوں پر چھاپے کے فوراً بعد تفریح گاہوں، ریستورانوں کی طرف خاص طور سے توجہ کرے۔ تفریح گاہ یا ہوٹل وغیرہ کا مالک خواہ لاکھ عذر پیش کرے کہ اسے قطعاً کوئی علم نہیں کہ اس عمارت میں کیا ہوتا ہے، اسے بہر صورت پکڑا جائے اور اس پر الزام لگا کر سزادی جائے جس مکان میں بدکاری کے متعلق ثبوت مل جائے اسے اس وقت تک لازماًبندر کھا جائے جب تک اس کے مالک اور اس کے مدد گاروں کو قرار واقعی سزا نہ مل جائے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایسے سخت اور لازمی اقدام کے متعلق ہمارے ہاں کے قانون سازوں نے کبھی سوچا تک نہیں۔ ہمارے ہاں عصمت فروشی کا اڈہ روپیہ لگانے کا سب سے اعلیٰ ادارہ ہے۔ کیونکہ پولیس خواہ جتنی مرتبہ چاہے۔ چھاپے مارے اس کے مالک کا کھوج ہی نہیں ملتا اور وہ ہر طرح بری الذمہ رہتا ہے۔
-2 اس قانون کا دوسرا حصہ بالکل اچھوتا ہے اس میں ملیشیا اور عوام کو تنبہیہ کی گئی کہ بدکار عورت کے خلاف کسی قسم کا ذاتی اقدام نہ کیا جائے حتیٰ کہ ایک دفعہ کے ذریعے طوائفوں کی گرفتاری ممنوع قرار دے دی گئی انہیں عدالت میں صرف ان کے تاجروں کے خلاف گواہوں کی حیثیت سے طلب کیا جا سکتا تھا تاہم اس قانون میں ایک استثنا ئی دفعہ بھی تھی جس کے تحت ملیشیا کو اختیار تھا کہ وہ کم سن نوجوان لڑکیوں کو حکومت کی ایک خاص تحقیقاتی تنظیم یعنی مزدوروں اور کسانوں کی تحقیقاتی مجلس کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔ اس قانون میں اس طریق کار کو مفصل طور پر بیان کیا گیا جسے بدمعاشی کے اڈوں پر چھاپہ مارتے وقت اختیار کرنا ملیشیاکے لئے ضروری تھا۔ ملیشیا کے ارکان کے لئے لازمی تھا کہ وہ عورتوں کو سماجی لحاظ سے اپنے برابر سمجھیں انہیں جرائم پیشہ لوگوں کی بے بس اور بد نصیب شکار جانیں۔ اور خواہ وہ ان کے ساتھ کسی طرح پیش آئیںوہ ان سے شریفانہ انداز میں گفت گوکریں اور ان پر ہزگر ذاتی حملے نہ کریں حد تو یہ ہے افسروں کو بدکردار عورتوں کے نام اور پتے حاصل کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔
لیکن ہمارے ہاں کے پولیس افسر کے قریب یہ تمام اقدام عجیب اور ناقابل عمل ہیں۔ کیونکہ یہاں رسماً طوائفوں کے ساتھ انسان سے نچلے درجے کی مخلوق ایسا سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن روس میں یہ نئے قوانین نہایت ہی کار گر اور کامیاب ثابت ہوئے۔ ملیشیا اور دوسری عوامی تنظیمیں۔ مثلاً ٹریڈ یونینیں جو بدکاری کے خلاف جدوجہد کر رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ محسوس کرنے لگیں کہ جس عورت کی گذران گناہ پر ہے اسے مادی حالات کا دبائو اور نفع اندوز جرائم پیشہ لوگوں کا مفاد ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
حیران قوانین سے حقیقی نتائج کیا نکلے؟ بدمعاشی کے اڈوں کے مالک اور بدمعاشی کے کاروبار میں ان کے شریک کار فیق عدالتوں میں قطار اندر قطار پیش ہونے لگے اور انہیں جیلوں کا راستہ دکھایا جانے لگا جیسا کہ توقع تھی ان لوگوں نے مزاحمتی مہم چلانے کی کوشش کی۔ سوویت یونین کے اخباروں کے ”ایڈیڑکی ڈاک” کے کالم دن بدن پھیلنے لگے۔ یہ خط اخلاقی چاشنی لئے ہوتے تھے۔ ان میں سوویت حکومت پر عموماً الزام لگا یا جاتا کہ وہ طوائف کی حفاظت کر کے اور بدمعاشی کے اڈوں کے کرایہ دار مالکوں ایسے گناہگار لوگوں کو سزائیں دے کر ہولناک بداخلاقی کی مرتکب ہو رہی ہے پس پردہ رہ کر عصمت فروشی کا کاروبار چلانے والے افراد کے خلاف ملیشیا کی جدوجہد جتنی تیزاپنی سرگرمیاںپہلے سے زیادہ تیز اور وسیع کر دیں۔
جن بڑے بڑے چکلہ داروں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے جلد ہی سوویت حکومت پر الزام لگانا شروع کر دیا کہ وہ صاحب جائداد لوگوں یعنی ہوٹلوں کے مالکوں وغیرہ کو غیر منصفانہ سزائیں دے رہی ہے۔ امور داخلہ کی مجلس نے ان لزامات کے جواب میں کہا کہ کوئی سماج اپنے کسی رکن کو منظم عصمت فروشی جیسے قبیح فعل کی حمایت کا حق نہیں دے سکتا اور اس دلیل کے جواب میں طوائفوں کو بھی اپنا پیشہ جاری رکھنے کا حق حاصل ہے۔ سوالنا مے سے اخذ کر دہ نتیجے کی طرف اشارہ کر دیا جاتا کہ عصمت فروشی ایک تلخ معاشی ضرورت ہے اور عورتیں اسے اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں نجات دلانا اور قابل عزت کام عطا کرنا سماج کا فرض ہے۔
1924 کے اواخر میں ایک نئی شکل کا سامنا ہوا۔ اسے اخبار ” ازدستیا” نے اپنے ایک ضممیے میں ماسکو کے باشندوں کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ سوویت یونین میں اخلاقی منصوبہ بندی کافی حد تک کامیاب رہی ہے اس وقت تک عصمت فروشی کے خاتمے کی جدوجہد کے لئے صرف مذکورہ بالا اقدام اٹھائے گئے تھے لیکن اب ایک نیا اخلاقی مسئلہ اٹھایا گیا یعنی ہماری اصطلاح میں ”آگ کا رخ گاہکوں کی طرف کر دیا گیا”۔
از دستیا” نے اطلاع دی کہ عصمت کی تجارت سے نفع کمانے والوں کو ختم کرنے میں بہت بڑی کامیابی ہوئی ہے اور اپنے ادارئیے میں تنبیہہ کی کہ عصمت فروشی کے خاتمے میں کامیابی اسی وقت ہوسکتی ہے جب کہ تما م عورتوں کے لئے ملازمت کا بندوبست کیا جائے۔ اخبار مذکور نے ساتھ ہی یہ بھی اشارہ کیا کہ جدوجہد کی کامیابی کے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ مردوں میں نیا اخلاقی نظریہ پیدا ہو۔ اس مسئلے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا تھا۔ اگر ایک شہری کے لئے کسی عورت کی لوٹ کھسوٹ پر بسر اوقات کرنا جرم ہے۔ تو مردوں کا عصمت کو خرید کر کسی عورت کے وقار کو تباہ کرنا بھی برابر کا جرم ہے”۔
ہم نے بدکاری کی تاریخ کا تجزیہ کرتے وقت بتایا تھا کہ یہ مسئلہ سب سے پہلے سماجی حیثیت میں اس وقت سامنے آیا جب کہ جاگیر داری زوال پذیر ہو چکی تھی اور محبت اور شادی کے بارے میں سماج کا نقطہ نظر بنیادی طور سے بدل گیا تھا۔ لیکن روس میں نئی بات یہ ہوئی کہ اس مسئلے کو لاکھوں مردوں کے آگے پہلی مرتبہ پیش کیا گیا۔ سوویت یونین کے مردوں کے سامنے ایسے حقائق تھے۔ جن سے گریز نا ممکن تھا وہاں ایک ایسا سماجی نظام قائم ہو چکا تھا جس میں عورتوں کو مردوں کے برابر پوری قانونی، سماجی برابری دے دی گئی تھی۔ محبت اور شادی کے ذریعے جنسی خواہش کی تسکین کے راستے سے تمام روکاوٹیں دور کی جا رہی تھیں ان حالات میں کسی مرد کا ضمیر جنس کی خرید اری کیسے گوارا کر سکتا ہے؟ مرد کب تک نہ صرف عورت کو اخلاقی پستی کے گڑھے میں گراتے رہتے بلکہ اپنے وقار کو بھی پہنچاتے رہتے۔
سوویت ماہرین کو پہلے سے علم تھا کہ یہ مسئلہ اٹھے گا۔ ”از دستیا” کے مقالہ افتتاحیہ کے بعد پروفیسر ایلسترانوف نے اسے جنسی بیماریوں کے خلاف جدوجہد کی دوسری کانگرس کے موقع پر اور زیادہ ٹھوس اور واضح طریقہ سے پیش کیا اس نے کہا کہ عورتوں کی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے خلاف ملیشیا کی کامیاب جدوجہد کا اب یہ تقاضا ہے کہ ان مردوں پر سماجی دبائو ڈالا جائے جو ابھی تک بدمعاشی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
اس نے دعویٰ ہم اس مسئلے کو تنگ اخلاقی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ اسے ایک نہایت ہی اہم سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں، سوویت یونین ایک ایسی ریاست ہے جس کی بنیاد انسانوں کی ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کے خاتمے پر رکھی گئی ہے۔ جو شخص عورتوں پر یہ ہولناس ظلم روا رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو ہمارے سماج کا فرد نہیں سمجھ سکتا”۔
درست کہ پروفیسر صاحب کا بیان ہمارے کانوں کو ایک وعظ لگتا ہے لیکن یہاں بھی اشتراکی ماہرین نے پہلے نظریہ پیش کیا پھر سائنسی منصوبہ بندی کے مطابق عملی اقدام کیا امور داخلہ کی مجلس نے اس مسئلے کو محض مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے فوراً ملیشیا کے حوالے کر دیا تا کہ وہ مناسب کا روائی کرے۔
سچ مچ ایک حیران کن قانون منظور کیا گیا۔ اس کی رو سے ملیشیا کے افسروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ آئندہ بدمعاشی کے کسی اڈے پر بھی چھاپہ ماریں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا شراب خانہ ہو یا محض کوئی کالی گلی تو جتنے بھی مرد وہاں ملیں ان کے نام اور گھر وں ، کارخانوں وغیرہ کے پتے ضرور درج کریں ۔ لیکن انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔
اگلے دن ان تمام مردوں کے نام اور شناخت کی فہرست کسی ایسے مقام پر چسپاں کر دی جاتی جہاں عام لوگ آتے جاتے یا جمع ہوتے۔ فہرست کا عنوان ہوتا ”عورتوں کا جسم خریدنے والے” یہ فہرست ایک خاص مدت کے لئے چسپاں رکھی جاتی۔ عام طور سے ایسی فہرستیں سرکاری عمارتوں کے باہر فیکٹریوں کے نوٹس بورڈوں پر چسپاں کی جاتی تھیں۔
ظاہر ہے یہ قانونی اقدام بہت زیادہ موثر ثابت ہوا۔ ہمارے ملکوں میں پولیس ایک ان لکھے قانون کے تحت مجبور ہے کہ وہ مردوں سے راز داری اور عزت کے ساتھ پیش آئے۔ کیونکہ اسے پورا احساس ہے کہ وہ ایک ایسے شریف آدمی کا ننگا کر دے جو کسی چکلے کا سر پر ست ہو تو اس بیچارے کی عزت دو کوڑی کی ہو کر رہ جائے گی۔ سوویت حکومت نے صرف اتنا کیا کہ اس طاقتور اور خفیہ سماجی احساس کو ایک موثر حربے میں ڈھال دیا۔ اس نے قلم کی ایک ہی جنبش سے آدمی کے ضمیر کو عوام کا ہدف تنقید بنا دیا۔ سوویت حکومت نے گنا ہگاروں کو سزا دینے اور اخلاقی جعلسازی کے خلاف تلقین کرنے کی بجائے ایسا اقدام کیا کہ مردوں کے لئے آئندہ اپنی فریب کاری کو جاری رکھنا نا ممکن ہو گیا۔
سوویت ماہرین کو پہلے سے علم تھا کہ یہ مسئلہ اٹھے گا۔ ”از دستیا” کے مقالہ افتتاحیہ کے بعد پروفیسر ایلستر اتو ف نے اسے جنسی بیماریوں کے خلاف جدوجہد کی دوسری کانگرس کے موقع پر اور زیادہ ٹھوس اور واضح طریقہ سے پیش کیا اس نے کہا کہ عورتوں کی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے خلاف ملیشیا کی کامیاب جدوجہد کا اب یہ تقاضا ہے کہ ان مردوں پر سماجی دبائو ڈالا جائے جو ابھی تک بدمعاشی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔
اس نے دعویٰ کیا کہ ” ہم اس مسئلے کو تنگ اخلاقی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ اسے ایک نہایت ہی اہم سیاسی مسئلہ سمجھتے ہیں، سوویت یونین ایک ایسی ریاست ہے جس کی بنیاد انسانوں کی ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کے خاتمے پر رکھی گئی ہے۔ جو شخص عورتوں پر یہ ہولناک ظلم روار رکھتا ہے وہ اپنے آپ کو ہمارے سماج کا فر نہیں سمجھ سکتا۔
درست کہ پروفیسر صاحب کا بیان ہمارے کانوں کو ایک وعظ لگتا ہے لیکن یہاں بھی اشتراکی ماہرین نے پہلے نظر یہ پیش کیا پھر سائنسی منصوبہ بندی کے مطابق عملی اقدام کیا امور داخلہ کی مجلس نے اس مسئلے کو محض مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے فوراً ملیشیا کے حوالے کر دیا تاکہ وہ مناسب کاروائی کرے۔
سچ مچ ایک حیران کن قانون منظور کیا گیا۔ اس کی رو سے ملیشیا کے افسروں کو ہدایت کی گئی کہ وہ آئندہ بدمعاشی کے کسی اڈے پر بھی چھاپہ ماریں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا شراب خانہ ہو یا محض کوئی کالی گلی تو جتنے بھی مرد وہاں ملیں ان کے نام اور گھروں، کارخانوں پر غیرہ کے پتے ضروری درج کریں۔ لیکن انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔
اگلے دن ان تمام مردوں کے نام اور شناخت کی فہرست کسی ایسے مقام پرچسپاں کر دی جاتی جہاں عام لوگ آتے جاتے یا جمع ہوتے۔ فہرست ایک خاص مدت کے لئے چسپاں رکھی جاتی۔ عام طور سے ایسی فہرستیں سرکاری عمارتوں کے یا فیکٹریوں کے نوٹس بورڈوں پر چسپاں کی جاتی تھیں۔
ظاہر ہے یہ قانونی اقدام بہت زیادہ موثر ثابت ہوا۔ ہمارے ملکوں میں پولیس ایک ان لکھے قانون کے تحت مجبور ہے کہ ہو مردوں سے راز داری اور عزت کے ساتھ پیش آئے۔ کیونکہ اسے پورا احساس ہے کہ وہ ایک ایسے شریف آدمی کو ننگا کر دے جو کسی چکلے کا سر پرست ہو۔ تو اس بیچارے کی عزت دو کوڑی کی ہو کر رہ جائے گی۔ سوویت حکومت نے صرف اتنا کیا کہ اس طاقتور اور خفیہ سماجی احساس کو ایک موثر حربے میں ڈھال دیا۔ اس نے قلم کی ایک ہی جنبش سے آدمی کے ضمیر کو عوام کا ہدف تنقید بنا دیا۔ سوویت حکومت نے گنا ہگاروں کو سزا دینے اور اخلاقی جعلسازی کے خلاف تلقین کرنے کی بجائے ایسا اقدام کیا کہ مردوں کے لئے آئندہ اپنی فریب کاری کو جاری رکھنا ناممکن ہو گیا۔
ایسا دلیرانہ قدم اس سے پہلے کبھی نہیں اٹھایا گیا تھا جن ماہرین نفسیات نے اخلاقی جعلسازی کے خاتمے کا منصوبہ بنایا تھا انہوں نے اس کا نفاذ عین مناسب وقت پر کیا۔ یہ قانون اس وقت تک نافذ نہ کیا گیا جب تک پہلے موثر قوانین کے ذریعے منظم بدکاری کی معاشی بنیادیں پوری طرح کھوکھلی نہ کر دیں۔
ہمیں یہ بات خاص طور پر دھیان میں رکھنی چاہیئے کہ یہ اقدام کوئی اخلاقی جبر نہ تھا۔ مردوں کو جنسی خواہش کی تسکین سے ہر گز نہ روکا گیا۔ نہ ہی انہیں عورت کا جسم خریدنے پر سزا کی دھمکی دی گئی بلکہ انہیں صاف صاف بتایا دیا گیا کہ نئی ریاست اس فعل کو اس لئے براتصور کرتی ہے کہ یہ انسانوں کی لوٹ کھسوٹ کی ایک ہولناک شکل ہے اور سماج کے باعزت افراد کو جو غریبوں اور بدنصیبوں کی اخلاقی پستی سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کے خواہاں نہیں۔ یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ وہ کون لو گ ہیں جو اپنی ذاتی تسکین کے لئے اس لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔
محض قانون نافذ کرنے پر اکتفا کر لیا جاتا اور متعلقہ مسائل کو نہایت احتیاط سے واضح نہ کیا جاتا تو یہ قانون ہر گز اس قدر موثر ثابت نہ ہوتا۔ اس قانون کے اجرا کے ساتھ ہی لوگوں کو باشعور بنانے کی مہم قومی پیمانے پر شروع کی گئی اس مہم کی خصوصیت کا خاص پہلو یہ تھا کہ سوویت یونین کے تھیٹروں میں اس کی ڈرامائی پیش کش کی گئی اس ڈرامے میں ایک ایسی عدالت کا منظر دکھایا گیا۔ جس میں عصمت کی تجارت کے مقدمے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا۔
کہانی میں بتایا گیا کہ کس طرح ملیشیا نے ایک چکلے پرچھاپہ مارا اور کس طرح اس اڈے کے مالک، عورت اور گاہک کو عوامی عدالت کے سامنے لایا گیا۔ عصمت فروشی کے کاروبار کے متعلق مکمل اور واضح شہادت اور ثبوت مل جانے کے بعد چکلے کے مالک کو قید کی سزا دی گئی طوائف کو چھوڑ دیا گیا اور گاہک کو نہ صرف اپنی اور عورت کی عزت خراب کرنے بلکہ قومی اخلاقی کے ضابطے کو توڑنے کا مجرم بھی ٹھہرایا گیا۔ قدرتاً یہ ڈرامہ خلاف معمول لاتعداد عوام کی کشش کا باعث ہوا اور جس کسی تھیٹر میں بھی اسے پیش کیا جاتا اس میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہ رہتی۔ اس ڈرامے کی شعوری اور بچگانہ سادگی نے اسے فحاشی کی لفظی تصویر سے بہت زیادہ بلند اور موثر بنا دیا۔ اس ڈرامے میں ایک سماجی مسئلے کو نہایت سیدھے سادھے الفاظ میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ ہر قسم کی حماقتوں، مضحکہ خیز پیچیدگیوں اورلفظی گورکھ دھندوں سے بالکل پاک تھا۔ دوسرے لفظوں میں ایک کھلی سماجی حقیقت کو سٹیج پر ہو بہوپیش کر دیا گیا تھا۔
کرداروں نے حقیقت اور قانون دونوں کی ترجمانی کی۔ ہر تماشائی مرد، عورت اور نوجوان سمجھ گیا کہ کون سا اخلاقی مسئلہ در پیش ہے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ اب ضرور کچھ ہونے والا ہے اور آئندہ جو آدمی کسی طوائف کے ہاں پایا گیا اس کا علم سب کو ہو جائے گا اور جب اس کا نام عورتوں کے جسموں کے خریداروں کی فہرست میں شامل کر کے رسوائے عام کر دیا جائے گا تو وہ اپنے رشتہ داروں، ساتھیوں اور تمام قوم کی نظروں میں ذلیل اور ملزم ٹھہرے گا۔

عیسائیت اور ڈاکٹر
ہم نے ابھی تک اس جدوجہد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جو روس میں جنسی بیماری، یعنی آتشک کو ختم کرنے کے لئے کی گئی۔ سوویت حکومت نے زار شاہی سے دوسری سماجی لعنتوں کے ساتھ زرد پٹے کے نظام، یعنی عصمت کی تجارت کو بھی ورثے میں پایا، اور اس کے ساتھ ہی جنسی بیماری کا ہولناک مسئلہ بھی، اس زمانے میں روس میں آتشک کا مرض بری طرح پھیل چکا تھا۔ اس موذی مرض کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے۔ کہ اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ چہرے کے خدوخال کو بگاڑ دیتا ہے۔ چنانچہ روس کی بعض چھوٹی قومیں، خصوصاً جو دریائے والگا کے کنارے آباد تھے، اس لاعلاج بیماری کے ہاتھوں اپنی بدوضعی کے لئے ملک بھر میں مشہور تھے، اس پر طرہ یہ کہ آزاد محبت کے نئے تجربوں نے دونوں جنسی طاعونوں، یعنی آتشک اور سوزاک کو اور بھی ہوادی۔
اس نازک صورت حال کے باوجود روس کے طبی ماہروں نے حتی الوسع دوسرے سرمایہ دار ملکوں کی پیروی کرنے سے گریز کیا۔ کیونکہ ان ملکوں میں جنسی بیماری کے خلاف جتنی مہمیں چلائی گئی تھیں وہ سب بے اثر ثابت ہو چکی تھیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنی توجہ اکیلی جنسی بیماری کے خلاف طبی جدوجہد پر مرکوز نہیں رکھی۔ وہ اپنے اس درست فیصلے پر جمے رہے کہ جنسی بیماری صرف اسی وقت ختم ہو سکتی ہے جب کہ عصمت فروشی کے خلاف عام بداخلاقی کا بھی انسداد کیا جائے۔ انہوں نے اخلاقی مسئلے کو بنیادی قرار اور اس نتیجے پر پہنچے کہ عام اخلاقی مسئلے کو حل کر لیا گیا تو سوزاک اور آتشک پر سائنسی طریقے سے حملہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ اور ان دونوں علتوں کا انسداد اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ انہیں عام سماجی بیماریوں مثلاً تپ دق، شراب نوشی وغیرہ کا ایک جزو قرار دے کر ان کے خلاف قومی پیمانے پر وسیع مہم چلائی جائے۔ اس وقت ایسا کرنا آسان بھی ہو گا۔ کیونکہ لوگوں میں کسی قسم کی بے چینی اور گھراہٹ پیدا نہیں ہو گی۔ جو اس صورت میں پیدا ہو سکتی ہے۔ جب کہ آتشک اور سوزاک کے ازالے کو عام اخلاق سدھار مہم سے الگ کر لیا جائے۔ سب سے پہلے ضروری تھا کہ اس فضول حجت بازی کو رد کیا جائے کہ کسی قسم کی عورت سب سے زیادہ بیماری پھیلانے کا موجب ہو سکتی ہے۔ سیدھی بات یہ ہے کہ ہر بیمار عورت اور مرد دوسروں کے لئے وبا کا سرچشمہ ہے۔ سوویت حکومت نے موجودہ اور آئندہ نسلوں پر جنسی بیماریوں کے مضر اثرات پر بڑی سنجیدگی سے غور کر کے ضابطہ فوجداری میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ کر دیا۔ ا س قانون کے رو سے قرار پایا کہ آئندہ کوئی شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ جنسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس سے دوسروں کو بیماری لگ سکتی ہے جنسی فعل کا ارتکاب کرے گا۔ تو اس کی یہ حرکت سنگین جرم شمارکی جائے گی۔ اس طرح جنسی بیماری کے انتقال کو فرد کے ضمیر پر نہ چھوڑا گیا۔ بلکہ ملزم کو ریاست کے سامنے جواب دہ بنا دیا گیا۔
یہاں بھی اشتراکی حکومت صرف قانون پاس کر کے نہیں بیٹھ رہی۔ اس اقدام کے ساتھ ہی باقاعدہ منصوبے کے تحت ملک بھرمیں جنسی امراض کی تشخیص کے مرکز اور علاج کے رہائشی شفاخانے کھولے گئے۔
یادرہے کہ یہ مرکز آج سے تقریباً بیس سال پہلے کھولے گئے تھے۔ اس وقت آتشک اور سوزاک کی تشخیص اور علاج کے طریقے مقابلتہً گھٹیا تھے۔ علاوہ ازیں سوویت یونین اقتصادی مشکلوں میں بری طرح گرفتار تھا اور اس کے لئے ڈاکٹری سامان اور دوائیاں وساور سے منگوانا تقریباً ناممکن تھا۔ اس کے باوجود یہ شفاخانے اس قدر کامیاب رہے کہ ان کے سامنے ہمارے ہاں کی تمام طبی مہمیں ہیچ ہیں۔
اس کا سبب بالکل واضح اور عام فہم ہے۔ سوویت روس میں ان شفاخانوں یعنی ”صحت گاہوں” عصمت فروشی اور بدکاری کے انسداد کی مہم کا ایک جزو بنا دیا گیا۔ ان کی کوئی جدا گانہ حیثیت نہ تھی۔
ان مرکزوں کو ابتدا ہی سے اس طرح منظم کیا گیا، جس طرح صحت افزا پہاڑی مقامات پرتپ دق کے اسپتالوں کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ ان میں رہائشی مریضوں اور عام بیماروں، دونوں کا علاج ہوتا تھا۔ مہم کے آغاز میں بڑے بڑے شفاخانوں نے اپنی تمام تر توجہ صرف طوائفوں پر مرکوز کرنا مناسب سمجھا۔ لیکن پیشہ ور عورتوں کے خلاف ضابطہ فوجداری کو اندھا دھندا ستعمال نہیں کیا گیا۔ عدالتوں نے ایسی طوائفوں کو بھی پیشہ جاری رکھنے پر سزا نہ دی۔ جنہیں معلوم ہوتا کہ ان سے دوسروں کو بیماری لگ سکتی ہے۔ کیونکہ انہیں ایک ایسی سماجی علت کی شکار مانا جاتا تھا۔ جو ان کے بس کی بات نہ تھی۔
کوئی ملزم طوائف عدالت میں پیشی بھگت چکتی تو اس سے معزز شہریوں کی ایک کمیٹی ملاقات کرتی اور اسے شفاخانے میں داخل ہونے پر راضی کرتی۔ تاکہ کم سے کم اس کی حالت اتنی بہتر ہو جائے کہ اس سے دوسروں کو بیماری لگنے کا احتمال نہ رہے۔
اس طریقے کار پر عمل شروع ہوا تو ایک نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہمارے ہاں کی پولیس اور ڈاکٹر اس مسئلے سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایسی عورت کا علاج لا حاصل ہے۔ جو پھر سے پیشہ شروع کر دے اور جلد ہی دوبارہ بیمار ہو جائے۔
اشتراکی سائنس دانوں نے اس مسئلے کا حل بھی فوراً تلاش کر لیا، انہوں نے زنانہ شفا خانوں کو نئے سرے سے منظم کیا اور نئے ادارے کھولنے کی بجائے انہی صحت گاہوں کو فنی تربیت کے سکولوں اور ملازمت گاہوں میں بدل دیا۔
تاہم بنیادی مقصد یہی رہا کہ بیماروں کا علاج کیا جائے اور انہیں جلد از جلد شفا حاصل ہو۔ ان شفاخانوں میں مریض عورتوں کا داخلہ جبری نہ تھا۔ ان کی نگرانی کے لیے افسر مقرر نہ کیے گئے اور نہ ہی راز داری کا کوئی خاص پر تکلف اہتمام کیا گیا۔ ا س پلان کی خصوصیت یہ تھی کہ علاج کے دوران میں تمام مریضوں کو ایک ایسا پیشہ سیکھنے موقع دیا جاتا جو عام زندگی میں ان کے کا م آسکے۔ چنانچہ علاج کے دوران میں ہی اکثر مریض کام سیکھ کر روپیہ کمانے لگے۔ اس کا نفسیاتی پہلو بالکل واضح ہے۔
سزا، وعظ وتلقین یا نفسیاتی علاج کی بجائے زیر علاج عورتیں علم وفن ملازمتیں اور باعزت روز گار سے روپیہ حاصل کرنے لگیں۔ ان مریضوں میں بہت سی عورتیںایسی تھیں جو کسی طرح بھی پیشہ ورنہ تھیں۔ وہ ایسی بے روز گار لڑکیاں تھیں جو زار شاہی میں باعزت روز گار حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔
جب بیمار لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد اس قابل ہو جاتی کہ ان سے دوسروں کو بیماری لگنے کا خدشہ نہ رہتا تو انہیں شفاخانے کی بجائے اپنے گھروں میں سونے کی اجازت دے دی جاتی۔ لیکن دن کے وقت تربیت اور مزیدی علاج کے لیے شفاخانوں میں باقاعدہ حاضر ہوتی تھیں، اچھی اور بری عورتوں میں کوئی تمیز روانہ رکھی گئی۔ تمام مریضوں میں یہ احساس پیدا کیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو ایسے شہریوں سے گھٹیا خیال نہ کریں جو آتشک اور سوزاک کی بجائے دوسری بیماریوں مثلاً تپ دق وغیرہ میں مبتلا ہیں اور انہی کی طرح مختلف شفاخانوں میں زیر علاج ہیں۔
اس طرح سوویت یونین کی صحت گاہیں عملاً منظم بدکاری یعنی تجارت کے خلاف جدوجہد کے مرکز بن گئے۔ تھوڑے عرصے میں ماسکو شہر کے شفاخانوں میں پچاس لاکھ روبل سالانہ کی مالیت کی اشیائے استعمال تیار ہونے لگیں۔ یہ مرکز لوگوں میں بہت جلد مقبول ہو گئے۔ پہلے پہل راضا کا ر عورتوں کے دستے چکلوں میں جا کر پیشہ ور عورتوں کو شفاخانوں میں مفت ور عورتوں علاج کرانے کی ترغیب دیتے تھے۔ رضا کار عورتوں کے سامنے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح پیشہ ور عورتوںکے دل سے یہ خوف نکالا جائے کہ شفاخانے دراصل نئی قسم کی جیل ہیں۔ اس مقصد میں کامیابی ہوئی۔ تو اکثر طوائفیں خود بخود شفاخانوں میں آنے لگیں۔ چونکہ اس سلسلے میں جو پروپیگنڈا کیا گیا اس کی بنیاد ان اطلاعات پر تھی جو مشہور سوال نامے کے ذریعے اکٹھی کی گئی تھیں۔ اس لیے علاج معالجے کے اس نئے طریقے کو مقبول بنانے کی ہر کوشش حقیقت پسندانہ تھی اور اس کی کامیابی لازمی تھی۔
منتظمین نے جلد ہی یہ فیصلہ کیا کہ جو عورتیں شفاخانوں میں زیر علاج ہیں، وہ کم سے کم دو سال اوروہیں رہیں۔ اس دو سال کی مدت شامل نہ تھی۔ جو ابتدائی علاج میں صرف ہوئی تھی۔ اس فیصلے کے بعد شفاخانوں کے ورکشاپوں کا انتظام جمہوری اصولوں کے مطابق کیا جانے لگا۔ عورتوں نے اپنی قوت ایجاد سے کام لے کر خود ایک ضابطہ اخلاق مرتبہ کیا اور اس سے انحراف کرنے والی کے لیے سخت سے سخت سزا یہ تجویز کی گئی اسے شفاخانے سے خاج کر دیا جائے۔
اشتراکی صحت گاہوں کا اصل کام جنسی بیماریوں کی روک تھام تھا۔ کیا وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئیں؟
اس کے جواب میں ایک ہی مثال کافی ہے۔ جو اعداد وشمار کی بھاری بھر کم کتابوں پر حاوی ہے۔ امریکہ میں جنسی بیماری کے انسداد کی کوشش ایک مدت سے جاتی ہے اس پر بھی امریکہ میں جو صورت حال پائی جاتی ہے۔ اس کا مقابلہ ان نتائج سے کیا جائے جو روس میں صحت گاہوں کے قیام کے بعد حاصل ہوئے، جن کا مقصد نہ صرف جنسی بیماری کی روک تھام تھا، بلکہ اس سے بھی بڑے مسئلے کا حل یعنی عام اخلاقی اصلاح کرنا تھا۔ تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔
امریکہ کے محکمہ صحت عامہ کے منتظمین نے بڑے فخر سے اعلان کیا ہے کہ 1935سے 1940تک پانچ سال عرصہ میں جنسی بیماری کے انسداد پر جود وائیں ریاست میں صرف ہوئیں ان کی مقدار پہلے سے دو گنا تھی۔ لیکن دو سال بعد نتیجہ نکلا کہ جنسی بیماریوں کے متعلق مہم کو تیز تر کرنے اور طریقہ علاج کو بہتر بنانے کے باوجود آتشک اور سوزاک پہلے سے بھی زیادہ پھیل گئے۔
سوویت یونین میں انسدادی مہم کو 1926کے قریب باقاعدہ اور موثر طریقے پر منظم کیا گیا۔ اگلے پانچ سال تک اسے بڑھایا گیا۔ 1931کے اختتام تک یہ سکیم اتنی کامیاب ثابت ہوئی، کہ مریضوں کے فقدان کے باعث شفاخانوں کے دروازے بند ہونے لگے، اس کے دو سال بعد جنسی بیماریوں کے خاص انسدادی مرکز بالکل بند ہو گئے۔ 1938 تک سرخ فوج اور بحریہ سے آتشک اور سوزاک کو بالکل ختم کر دیا گیا۔ اور شہری آبادی میں بیماری کی حیثیت ، صحت کے ایک معمولی مسئلے کی رہ گئی۔ کیونکہ اس وقت تک تمام صحت گاہیں بند ہو چکی تھیں اور عصمت فروشی ختم ہو چکی تھی۔
اس حیران کن مہم کی مزید تفصیلات دوسرے ذریعوں سے مل سکتی ہیں۔ ڈاکٹر جے۔ اے۔ اسکاٹ نے 1945میں برطانیہ کے ماہرین کے سامنے سوویت یونین کے کام کا جائزہ لیا جو جنسی بیماریوں سے متعلق برطانوی رسالے کے مارچ 1945کے شمار میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر موصوف نے بیان کیا، کہ اشتراکی حکومت کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے روس میں صرف تیرہ میڈیکل سکول تھے۔ اور آج ستر ہیں۔ 1914میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ زار کی سلطنت میں آتشک کی وبا دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہے یا کوت کے علاقے میں تیس فی صد آبادی آتشک میں مبتلا تھی۔ ماسکو شہر میں اس کی شرح 338فی ہزار تھی۔ اس بیماری کے عام انتشار کے سبب کے علاوہ روس کے ڈاکٹروں کو بعض نئے اسباب کا مقابلہ کرنا پڑا۔یہ سب جنسی اختلاط نہ تھا۔ اس مرض کے پھیلائو کے دوسرے اسباب ہمہ گیر قسم کی رسمیں تھیں۔ مثلاً مقدس تصویروں کو بوسہ دینا، مشترکہ حقہ نوشی اور بچوں کو دانتوں سے چبا کر روٹی کھلانا۔ چنانچہ 1921 کے بعد ڈاکٹر برنر کو خاص طو رسے ان گندی رسموں کے خلاف تعلیمی مہم چلانے کا کام سونپا گیا۔
طوائفوں کے علاج کے لیے جو اقدام کیے گئے ان کے علاوہ ملک کی آبادی میں جنسی وبائوں کے انسداد کے لئے ایک خاص اور وسیع تنظیم بنائی گئی۔ ڈاکٹر اسکاٹ کے قول کے مطابق جنسی بیماری کی ڈسپنریاں جن میں سے اکثر حرکت پذیر تھیں۔ دوسرے طریقوں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئیں۔
یہ ڈسپنسریاں دراصل باقاعدہ اور مکمل شفاخانے تھے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ چلتے پھرتے شفاخانے سال میں ایک مرتبہ اپنے علاقے کے ہر باشندے کے پاس ضرور گئے۔ چھوٹی سے چھوٹی ڈسپنسری میں دو طبی ماہر، دو غیر سند یا فتہ طبی کار کن، ایک معائنہ کرنے والی عورت، ایک کلرک اور دوار دلی ہوتے تھے، قانون کے رو سے کم سے کم اتنے عملے کا ایک ڈسپنسری میں موجود ہونا ضروری تھا۔ ہر ڈسپنسری میں آتشک اور سوزاک کے جراثیم اور مریض کے خون کا معائنہ کرنے کا پورا سامان موجود تھا۔ اور ان میں مردوں اور عورتوں کے علاج کے لیے علیحدہ جگہ اور وقت کا انتظام بھی تھا۔ کسی زمانے میں وسویت یونین میں چلتی پھرتی قسم کے تقریباً دو ہزار شفا خانے تھے، جنسی بیماریوں کے انسداد کے بعد انہی ڈاکٹروں نے ان شفاخانوں میں جلد کی متعدی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کا کام شروع کر دیا۔
ان ڈسپنسریوں کے اسٹاف کے ذمے طبی اور سماجی دونوں قسم کے کام تھے۔ یہ لوگ جنسی بیماری، عصمت فروشی اور عام جنسی مسائل پر لیکچروں اور مختصر عرصے کے تدریسی نصابوں کا انتظام کرتے تھے۔ فلموں، اشتہاروں اور نمائشوں کے ذریعے عوام کی حمایت حاصل کی جاتی تھی، اسی کام کا نتیجہ تھا کہ عوام کی طرف سے کسی قسم کی مخالفت، نفرت اور مزاحمت نہیں ہوئی۔ اور ہمہ گیر ڈاکٹری معائنے کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ جو لوگ ایک مرتبہ شفایاب ہو جاتے تھے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی جنس بیماری میں دوبارہ مبتلا پایا گیا۔
ڈاکٹر اسکاٹ بیان کرتے ہیں کہ روس میں جو عورتیں یا مردار ادتاً یا دانستہ بیماری کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ یا دوسروں کو یہ مرض لگاتے ہیں وہ ملک کے قانون کے مطابق چھ مہینے سے تین سال تک سزا کے مستوجب ہیں۔ لیکن اختیارات کو استعمال کرنے کی نوبت شاذو نادر ہی آتی ہے۔
ڈاکٹر اسکاٹ بتاتے ہیں کہ سوویت یونین میں جنسی بیماریوں کے جدید شفاخانے آرسینی کلز Arsenicals اور سلفانومائیڈرز sulfonamides ہر دو کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات پنسلین pencillinکی ایجاد سے پہلے کی ہے جنسی بیماری کے علاج کے لیے سوویت یونین کے ڈاکٹروں نے جو دوائیں تیار کی ہیں ان میں سب سے زیادہ کامیاب دو اگلوکوز ٹرٹیپو سائیڈ glucostreptocid ہے۔ جو گلوکوز مالی کیول glucosemolecule اور سلفانو مائیڈ کا مرکب ہے۔
جرمن حملے سے پہلے روس میں آتشک کی ابتدائی اور وبائی صورتوں کا قلع قمع کیا جا چکا تھا۔ یہاں تک کہ 1939میں ماسکو کے میڈیکل سکولوں میں ڈاکٹری کے طالب علموں کے مشاہدے کے لیے بھی کوئی مریض دستیاب نہ ہوتا تھا ، البتہ سوویت یونین میں تیسرے درجے کا آتشک ابھی تک پایا جاتا ہے جو بیماری لگنے کے تیس سال بعد یکا یک پھوٹ پڑتا ہے۔ لہٰذا وہاں آتشک کی بیماری کے اس درجے کی تشخیص اور علاج ابھی تک جاری ہے۔
ڈاکٹر اسکاٹ کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر آرفارگن نے کہا کہ روس کی فیکٹریوں میں حفظان صحت کا جو وسیع کام ہوا ہے۔ اس کا مقابلہ اس کام سے کیا جائے جو آج کل انگلستان میں ہو رہا ہے تو روس کی کامیابی ہمارے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری وزارت صحت اور وزارت محنت فیکٹریوں حفظان صحت کے کام کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ لیکن وہ اپنے منصوبے میں روس سے بہت پیچھے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف نے دونوں حکومتوں کے طرز عمل کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا کہ دو سال پہلے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ وزارت محنت جس کتا بچے کو فیکٹریوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس میں یہ بھی لکھ دیا جائے کہ جس مرد یا عورت کو جنسی بیماری کا شبہ ہو۔ اس کے لیے ڈاکٹر سے مشہور طلب کرنا یا کسی شفاخانے میں جا کر تشخیص کرانا ضروری ہے، ۔ لیکن وزارت محنت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
ایک اور ماہر نابیر و نے اس مہم کا حوالہ دیا جو روس کے دیہات میں جنسی امراض کے انسداد کے لیے چلائی گئی اور بیان کیا کہ اگر سوویت یونین جیسے وسیع ملک میں ایک ایسی صورت حال پیدا کی جاسکتی ہے تو بشرط ارادہ برطانیہ عظمی جیسے چھوٹے سے ملک میں ایسی مہم بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نیت ہی نہیں۔ عمل کا تو ذکر ہی کیا۔
ظاہر ہے مندرجہ بالا حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ تمام سرمایہ دار ملکوں کے سائنس دان اور صحت عامہ کے منتظمین جنسی بیماری پر قابو پانے کے لیے تحقیق اور علاج کی ہر سہولت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ وہ سوزاک اور آتشک کے لیے ایک دن اور ایک ہفتے کے موثر علاج دریافت کرنے کوشش میں کوشاں ہیں۔ چونکہ شہری آبادی کی بہ نسبت افواج میں سخت اقدام کرنا سہل ہے۔ اس لیے انہیں افواج میں قدرے کامیابی رہی ہے۔ لیکن ان کے سامنے مستقبل اور مقصد کیا ہے؟
ہمارے ہاںکے سائنس دان رفتہ رفتہ اس رائے کو تسلیم کر رہے ہیں۔ جو 1943 میں ریا ستہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ صحت عامہ کے ایک افسر ڈاکٹ راجرای ہیرنگ نے نیویارک کی تپ دق اور صحت کی انجمن کے سامنے پیش کی تھی۔
جنسی بیماری پر قابو پانے کے کام میں کسی پر اسرار شعیدہ بازی کی ضرورت نہیں بلکہ مسئلے کی اہمیت کے احساس ، بیماری کے خاطر خواہ علم، انسانی خدمت کی معمولی سی واقفیت اور اس یقین کی ضرورت ہے کہ کچھ کیا جا سکتا ہے اور ضرور کرنا چاہیئے۔
اس نے یہاں تک کہہ دیا ”کہ یہ بیماریاں چھوت کی بیماریاں ہیں۔ ذلت کی بیماریاں نہیں۔ طوائف جرائم پیشہ نہیں۔ وہ تو ایک سماجی مسئلہ ہے جو پہلے ہی ایک طبی مسئلہ بن چکی ہے یا جلد ہی بن جائے گی۔ مجرم اس کی لوٹ کھسوٹ کرنے والے ہیں”۔
مندرجہ بالا بیان کو جنسی بیماری کے خاتمے کے پروگرام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تاہم اس میں چند بنیادی امور کو ضرور چھوا گیا ہے۔ ڈاکٹر ہیرنگ نے اس واہیات مقالے کی اشاعت کی طرف بھی توجہ دلائی جسے مسٹر پال ڈی کروئف نے ایک رسالے میں ”آتشک کا یک روزہ علاج” کے عنوان کے نام نہاد ترقی یافتہ طریقے اس خوف کو مٹا رہے ہیں جو بسا اوقات جنسی بیماری کو روکنے میں موثر ثابت ہوتا ہے۔ 1944 میں امریکی محکمہ صحت عامہ نے اعلان کیا کہ امریکہ کی شہری آبادی میں سوزاک کی بیماری میں گیارہ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ غالباً اس کا سبب علاج کے ان سنسنی خیز طریقوں کا پراپیگنڈا ہے جن میں زو داثر دوائیں استعمال کی جاتی ہیں”۔
تجربہ شاہد ہے کہ طبی تحققیات نے جنسی بیماری کے علاج کے طریقوں کو بہتر بنایا تو اس کے ساتھ ہی بیماری کا خوف کم ہو جانے کی وجہ سے اخلاقی دبائو کمزور پڑ گیا۔ اس کا نتیجہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ طبی سرگرمیوں کو تیز تر کر دینے کے باو جود بیماری میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ایک ایسی دوا کی ایجاد کے لئے بڑے پیمانے پر تجربے کیے جا رہے ہیں۔ جس کو استعمال کر کے بازاری عورت کے پاس جائیں تو آتشک اور سوزاک کی بیماری لگنے کا ڈر نہ رہے۔ ان کوششوں کا زنا اور عصمت فروشی پر جو اثر پڑے گا۔ وہ ظاہر ہے۔ یہ کتنا تکلیف دہ امر ہے کہ ہمارے بہت سے طبی ماہر جو صحت عامہ کو بہتر بنانے کی غرض سے جنسی وبا کے مسئلہ میں بری طرح مصروف ہیں، وہ اتنے تنگ نظر واقع ہوئے ہیں کہ عصمت فروشی کی محض اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے جنسی بیماری پھیلتی ہے۔ بعض ڈاکٹر تو بدکاری اور بداخلاقی کے وسیع مسائل پر غور کرنے کو بھی حماقت تصور کرتے ہیں اور مصر ہیں کہ ان مسائل سے سائنس کا کوئی تعلق نہیں۔
یہ دلیل غیر شعوری طو رپر اس مکروہ عیاری کی حمایت میں جاتی ہے۔ جو آج بھی جنسی بیماری کے خلاف قومی پیمانے پر انسدادی مہم چلانے میں زبردست رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ ہم برطانیہ کی وزارت محنت کے رویے پر ڈاکٹر نارگن کی تنقید اوپر دیکھ چکے ہیں۔ اس قسم کا رجحان بر عظیم امریکہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ نیویارک سٹیٹ میڈیکل جرنل کے مارچ 1943کے شمارے میں بتایا گیا کہ جب ہیلتھ کمشز، ڈاکٹر ارنسٹ ایل اسٹینزے سکولوں میں حفظان صحت کی تدریس کی تجویز پیش کی تو اعلیٰ تعلیم کے بورڈ نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا اس کے ایک سال بعدامریکی محکمہ صحت عامہ اور دفتر اطلاعات جنگی کو سماجی بیماریوںکے انسدادی طریقوں کی عام تعلیم کی نئی اور حوصلہ افزامہم منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ مذہبی مشیروں کے ایک گروہ نے اس قلم کی تجارتی تھیئڑوں میں تقسیم روک دی جس کا نام ”امریکی عوام سے” تھا۔ اور جس میں جین ہر شولٹ نے کام کیا تھا۔ اور جسے والٹر دینگر نے تیار کیا تھا۔ لہٰذا ساری مہم شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔
ماہ ستمبر میں امریکی محکمہ صحت عامہ اور دفتر اطلاعات جنگی نے رائے عامہ کو دوبارہ باخبر بنانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں ڈاکٹر پیرن نے مجلس نشریات جنگی سے خط وکتابت بھی کی۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ یہ مجلس اس وقت اس وقت تمام بڑے بڑے اخباروں اور رسالوں میں نشرو اشاعت کی مہم چلا رہی تھی۔ لیکن اس پر سخت دبائو ڈالا گیا کہ وہ اس کام کو ترک کر دے۔ اس ضمن میں جو اشتہارات تیار کیے گئے تھے۔ ان پر اشاعت سے پہلے ہی گندے، اخلاق سوز اور مکروہ ہونے کا لیبل لگا دیا گیا۔ ڈاکٹر پیرن نے جواب میں کہا کہ یہ سکیم سائنسی بنیادوں پر تیار کی گئی ہے۔ جنسی اخلاق سکھانا گھر، اور سکولوں کا اہم فریضہ ہے۔ چونکہ یہ وبائیں بے حد خطرناک ہیں۔ اس لیے جنسی بیماریوں سے نپٹنا صحت عامہ کے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ میں پرزور سفارش کرتا ہوں کہ اس مہم کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے اور شہریوں کا تعاون حاصل کرنے کی اجازت دی جائے”۔
مجلس نشریات جنگی نے جواب دیا کہ ہمیں ”جنسی بیماری کی نزاکت اور خطرے کا پورا احساس ہے، لیکن اس مہم کی متنازعہ فیہ نوعیت کے پیش نظر” ہم مجبور ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ایسی نیک مہم کے سبو تا ژ کی جتنی بھی مذمت کی جائے تھوڑی ہے۔ دراصل عام تعلیم کی بجائے سازشی لوگ ہی مکروہ اور اخلاق سوز ہیں۔خیز ہمیں ماننا پڑے گا کہ ان حضرات کے ارادے خواہ کچھ بھی ہوں۔ انہیں اپنی مکروہ حرکتوں کے لیے تمام تر مواد اس افسوسناک ذہنی الجھائو سے ملتا ہے جو طبی حلقوں میں پایا جاتا ہے۔ زار شاہی روس میں جو صورت حال پائی جاتی تھی۔ اس کا مقابلہ ان حقائق سے کرنا دلچسپی سے خالی نہیں جو ہمارے ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے پہلے چوری چھپے گھروں میں دھندا کرنے والی عورتوں سے جتنے مردوں کو بیماری لگی تھی۔ ان کی تعداد ایسے مردوں سے دگنی تھی جن کو بازاری عورتوں سے بیماری لگی تھی۔ حالانکہ اول الذکر عورتوں پر سخت قسم کی طبی نگرانی تھی۔ اور دوسری پابندیاں عاید تھیں آج کل ڈاکٹری معائنے کے فن اور علاج میں بہت زیادہ ترقی ہو چکی ہے۔ لیکن صورت حال کیا ہے؟
جنسی بیماری کے مذکورہ بالا اسباب کا مطالعہ حال ہی میں امریکی محکمہ صحت کے ایک افسر ڈاکٹر بانکوم جانسن نے کیا ہے۔ انہوںنے ثابت کیا ہے کہ چکلوں کے سر پرستوں کو جنسی بیماری س محفوظ رکھنے میں جدید ترین طریقے بھی ناکام رہے ہیں جو لوگ روس کے زرد پٹے کے نظام کا حال پڑھ کر حیران اور خوف زدہ ہو گئے تھے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ڈاکٹر جانسن نے مذکورہ نتیجہ جنگ کے دوران میں ٹیکساس کے شہر الپا سوکی صورت حال کے مطالعے کے بعد نکالا تھا۔ اس شہر میں کبھی عصمت فروشی کے نو اڈے تھے۔ اور وہ ان سپاہیوں کی جیب سے روپیہ کھینچ رہے تھے جو قریب ہی قلعہ بلس میں تربیت پار ہے تھے۔ فوجی افسروں نے اڈوں کو جبراًبند کر دیا تو یہی اڈے سر حد پار، میکسیکو کے شہر جوار یز میں منتقل ہو گئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد اطلاع ملی کہ فوج میں جنسی بیماری کم ہو گئی ہے۔ لیکن ڈاکٹر جانسن نے دو حیران کن حقائق کا انکشاف کیا۔ اس نے اپنی رپورٹ، ”جنسی بیماری سے متعلق” جلد نمبر 23، مطبوعہ جنوری 1942 میں بتایا کہ ”عصمت فروشی” کے اڈوں کو سرکاری طور سے بند کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے جنسی بیماری میں معتدبہ کمی کی رپورٹ دی۔ لیکن ساتھ ہی زیر علاج سپاہیوں کی تعداد بڑھ گئی۔
اعداد وشمار کے اس تضاد کی تشریح بالکل آسان ہے۔ ڈاکٹر جانسن نے خیال کیا کہ وہ اڈے در حقیقت بند ہو گئے۔ حالانکہ ہوا صرف یہ کہ ان کے مالک ان اڈوں کو ٹیکساس کی سرحد کے پار لے گئے۔ اور ڈاکٹروں نے اس خوف سے رپورٹ میں نئے مریضوں کی تعداد بتانے میں تامل کیا کہ یہ امرفنی نقطہ نظر سے درست نہ تھا۔ تقریباً ہر شہر میں سالہا سال سے دیکھا جاتا ہے کہ بدکاری کے خلاف پولیس ذرا سخت رویہ اختیار کر لے تو حقائق کو بالکل اسی طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ چکلے بند کر دئے جاتے ہیں ۔ تو اس کے بعد زو دیا بدیر پہلے مقام کے حدود سے باہر حسب معمول کا ر وبار جاری ہو جاتا ہے۔ یا پھر شراب خانون، ناچ گھروں، سیاحوں کے کمپوں وغیرہ میں دھندا شروع ہو جاتا ہے، پولیس کا تشدد بہت بڑھ جائے تو بدمعاشی اور بدکاری کے جدید ناظم کرائے کی گاڑیوں میں چلتے پھرتے اڈے قائم کر لیتے ہیں۔ بیمار عورتوں کو اس طرح منتشر کرنے اور تمام قوم کے لیے خطرناک نتائج پیدا کرنے کے واقعات کے علاوہ ہم اوپر ایسے اعداد وشمار بھی درج کر چکے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہیں پیشہ ور عورتوں کی بجائے وکٹری گرلز سے بیماری لگتی ہے۔
روس میں جنس کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی۔ اس نظام میں اور اس بدکاری اور بدمعاشی میں جو ہمارے ملکوں میں دن رات ترقی کررہی ہے، عملاًکوئی فرق ہے تو صرف یہ کہ روس میں بدکاری پر سخت وحشیانہ نگرانی تھی اور عصمت فروشی کے وجود کے عام تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن ہم اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ہمارے سماج کے بالکل نچلے طبقوں میں ہی عصمت کی تجارت ہوتی ہے۔ آجکل ہم اتنے سائنس پرست ضرور ہو گئے ہیں کہ آتشک اور سوزاک کے متعلق بلا جھجک پڑھنے اور بات چیت کرنے لگے ہیں۔ لیکن ہم اس سے آگے نہیں بڑھتے ، ہمارے ڈاکٹر بڑے دھڑ لے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عقل اور سائنس کے پجاری ہیں۔ ان کے خلوص میں کوئی شبہ نہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آج تک عام فریب کاری اور خوش فہمی کو طبی زبان کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ ہمارے اجداد کے زمانے کی واہیات مہموں کو دہرا رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ احیا پرستانہ وعظ سے کام لیتے تھے اور ہم زود اثرا ادوایات اورپنسلین سے کام لیتے ہیں۔
جس پریشان کن ذہنی الجھائو کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، اس سے اور کوئی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل یہ مضحکہ خیز بحث جاری ہے کہ منظور شدہ چکلوں میں جو بدکاری ہوتی ہے وہ مقابلتہً کم خطرناک ہے۔ یا وہ بدمعاشی جو ایسے خلاف قانون اڈوں میں جاری ہے جنہیں پولیس خفیہ یا ظاہری طور پر برداشت کر رہی ہے۔ اس بحث کا مقصد اس مکروہ تکرار پردہ ڈالنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہ ہم کیسے جی بھر کر عیاشی کرنے کے باوجود جنسی بیماری سے محفوظ رہیں
یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ آج سے کافی عرصہ پہلے زار شاہی روس میں اس بحث کو اپنے آخری اور تلخ نتیجے پر پہنچا کر دم لیا گیا۔ ذرا بنیادی امور کو لیجئے جنسی بیماری کس طرح لگتی ہے؟اتبداًجنسی فعل سے۔ مرد اور عورت اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے مردوں اور عورتوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں جا یا سکتا، ان کی تعداد اتنی کثیر ہے کہ انہیں نظر بند کرنا بھی محال ہے۔ انہیں ہسپتالوں میں بھی بند نہیں رکھا جا سکتا۔ کیونکہ لاکھوں مریضوں کے لیے بے شمار اداروں کی تعمیر وتنظیم ناممکن ہے اور بیمار اشخاص کو دوسرے لوگوں سے ملنے جلنے سے روکنا بھی آسان کام نہیں۔ لہٰذا یہ مسئلہ ہمیں اسی شیطانی چکر میں الجھائے رکھتا ہے۔
اس مایوس کن صورت حال سے یہ عقیدہ جنم لیتا ہے کہ منظم بدکاری، یعنی عصمت کی تجارت اور جنسی بیماری، ہر دو ابدی چیزیں ہیں۔ لیکن ہم آج کل کے ترقی یافتہ اور جدید مہذب زمانے میں یہ بھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ آتشک اور سوزاک جیسے ہلاک آفرین طاعون ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ لہٰذا طبی نقارے پر چوٹ پڑتی ہے او رہم دوبارہ اسی چکر میں پھنس جاتے ہیں۔
گذشتہ دو برس میں ایک بالکل نیا اور نازک سا واقعہ رونما ہوا ہے، جس سے جنسی بیماری کے متعلق رائے عامہ اور الجھ گئی ہے۔ ہمارے ڈاکٹر ایسے سفید پوش مجاہد تو نہیں ہیں ‘جن کا سائنسی تقدس کسی شبہ سے بالا ہو۔ اس لیے طبی تحققیات نے خاص طو ر سے جنسی بیماری کے معاملے میں انوکھا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ان میں سے ایک تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ بدکاری اور بدمعاشی کو تمام مردوں، عورتوں اور نوجوانوں کے لیے بے ضرر بنادیا جائے۔
جو پادری فوجوں میں ملازم ہیں وہ اس تحقیق کو بڑی تشویش ناک نظر سے دیکھتے ہیں ‘کسی قاری کو حقیقت حال کا پورا علم نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ امریکی فوج کے دو ڈاکٹروں، کرنل ولیم ڈنٹسن اور کیپٹن جیمز لولیس کی رپورٹ کا مطالعہ کرے جو امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے سرکاری ترجمان کے 13مارچ 1943کے شمار میں چھپی ہے۔ اس سائنسی رسالے میں اس تجربے کا ذکر ہے جو پانچ ہزار امریکی سپاہیوں پر کیا گیا۔ اس پیشترکہ یہ سپاہی اتوار منانے کے لیے قلعہ چھوڑتے، انہیںجدید ترین مانع مرض دوائیں استعمال کرائی جاتیں۔ چنانچہ مشاہدہ کیا گیا کہ جن سپاہیوں کو یہ دوائیں استعمال نہیں کرائی گئی تھیں ان کے مقابلے میں اول الذکر گروہ کے بہت کم سپاہیوں کو یہ بیماری لگی۔ اب اس طریقے کو مزید آزمایا اور بہتر بنایا جا چکا ہے لیکن اس کی اشاعت نہیں کی جا رہی۔ ”ماہرین” کا خیال ہے کہ یہ تجربہ مکمل ہو گیا تو جنسی بیماری پر قومی پیمانے پر کنٹرول کیا جاسکے گا۔
ہمارے رائے میں عصمت فروشی، بدکاری اور نوجوانی کے جرائم کا انساد قطعاً ناممکن ہو جائے گا۔ ہم اس طبی طریقے کو قبول کر لیں تو کسی قسم کے کنٹرول کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ فوجی ڈاکٹروں میں دن بدن یہ خیال عام ہو رہا ہے کہ سماجی اصلاح کے ادارے بدکاری کے خلاف اپنی تمام سرگرمیوں ترک کر دی۔ پیشہ ور شوقین طوائفوں کے خلاف مزید اقدام کرنا بندکر دیں۔ اور جنسی بیماری کے انسداد کے لیے حفاظتی دوائوں کا آزادانہ استعمال کریں۔ ایک مکتبہ خیال سے تعلق رکھنے والے سائنس دان تو ایسا فیصلہ کر بھی چکے ہیں۔ ا س مکتبہ خیال کے حامی اپنا پراپیگنڈا ابھی احتیاطاً ذاتی بحث مباحثے تک ہی محدود رکھتے ہیں او ررسالوں میں مبہم طبی اصطلاحات اور تراکیب کے پردے میں اپنے مقصد کا پرچار کرتے ہیں۔ لیکن جلد ہی وہ زیادہ دلیر ہو جائیں گے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ جمہوری ممالک کے اس فوجی اور طبی اخلاقیات کے تباہ کن پہلو کے خلاف اگر کسی نے آواز بلند کی ہے تو وہ صرف فوجی پادریوں کی ذات ہے۔
صرف ایک لحاظ سے وہ سوویت یونین کے سرکاری نقطہ نظر کے قریب ہیں اور ہم بلا خوف مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جدید پادریوں کے گناہ کے متعلق نظریئے اور بداخلاقی کے بارے میں اشتراکی نقطہ نظر میں صرف ایک ہی اختلاف کا پہلو ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے نظریے کی ایمانداری سے تبلیغ کی جاتی ہے۔ اور دوسرے نظریے پر کامیابی سے عمل ہو رہا ہے۔

مہینے میں پانچ کروڑ مرتبہ
بدکاری کے خلاف سوویت یونین کی انسدادی جدوجہد کا مزید جائزہ لینے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جنسی بیماری یعنی آتشک کے تدراک کے لیے آج تک جو کچھ امریکہ میں کیا گیا ہے اس کے باقی ماندہ حصے کو بیان کر دیا جائے پرل ہاربر کے واقعہ سے لے کر آج تک امریکہ کے مختلف قدرتی خطوں میں جنسی بیماری کے خلاف جداجدا مگر وسیع پیمانے پر مہمیں چلائی گئی ہیں۔ یہ مہمیں سوویت یونین کی جدوجہد سے کئی طرح مختلف ہیں۔ خاص فرق یہ ہے کہ امریکی شہروں میں تمام تر توجہ جنسی بیماری کے طبی علاج پر مرکوز رہی، اور سوویت یونین میں سماجی بیماری کے سماجی محرکات کا دور کرنے پر زور دیا گیا۔
ابتدائی اقدامات میں وہ مہم خاص طو رسے قابل ذکر ہے جو شہر سیکر منیٹو کے محکمہ صحت نے اگست 1941میں شروع کی۔ اس وقت جنسی بیماری کی ہولناک وبا کا الزام طوائف اور وکٹری گرل پر دھرا جاتا تھا۔ چونکہ پولیس اور ڈاکٹر جن اقدامات کی سفارش کرتے تھے، ملک کا قانون ان پر عمل در آمد کی اجازت نہ دیتا تھا، اس لیے محکمہ صحت نے اس ہنگامی مسئلے کو نرالے طریق پر سلجھانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جنسی بیماریوں یعنی آتشک اور سوزاک کے لیے ایک تجربہ گاہ کھولی گئی، اور شہر کے تمام مردوں ور عورتوں کوفوری توجہ کے لیے بلایا گیا۔
اس اقدام سے کیا مقصود تھا؟ اس کا جواب نہایت سیدھا سادا ہے یہ مرکز شام کے سات بجے سے صبح کے تین تک کھلا رہتا تھا۔ کیونکہ انہی ساعتوں میں اکثر مرد بازار جاتے تھے۔ اس میں ایک ڈاکٹر ہر وقت حاضر رہتا تھا اور اس کے پاس ایسی دوائیں ہر وقت موجود رہتی تھیں، جو آتشک اور سوزاک کی بیماری لگ جانے کے فوراً بعد مفید ثابت ہو سکتی تھیں۔ ”رفاہ عامہ” کا یہ مرکز کتنا قابل نفرت تھا!یہ ایک عمارت کے سب سے نچلے کمرے میں واقع تھا، جس کا دروازہ بازار میں بھی کھلتا تھا! دروازے پر ایک سائن بورڈ لٹک رہا تھا، جس پر ”انسدادی مرکز” کے حروف لکھے تھے۔ ان حروف پر سبز روشی پڑتی تھی۔ مرکز کے اندر مختصر سا سامان تھا۔ تاہم دن کے وقت محکمہ صحت کے ملازم مزید دوائیں لے آتے تھے اور علاج معالجے کی سہولتیں بہم پہنچاتے تھے۔
نشر واشاعت دو طریقوں سے کی گئی۔ اولاً، تمام طوائفوں اور آوارہ عورتوں کو متنبہ کر دیا گیاکہ وہ بیماری کی شرح کو اگر اس سطح سے نیچے رکھنا چاہتی ہیں۔ جس پر پولیس کے لیے چھاپہ مارنا لازمی ہو جاتا ہے، تو انہیں چاہیئے کہ اپنے خریداروں کو نصیحت کریں۔ کہ وہ ہم آغوشی کے بعد احتیاطاًانسدادی مرکز کا رخ کریں دوسرا طریقہ قدرے پیچیدہ تھا۔ سینکڑوں اشتہارات چھپوائے گئے اور ناچ گھروں، سرکاری دفتروں، شراب خانوں وغیرہ پر چسپاں کیے گئے۔ ان پر مختصر سی عبارت درج تھی: ۔
جنسی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے۔
۔خیراتی اسپتال۔
پندرہ منٹوں کے اندر۔
محکمہ صحت کے خیراتی شفاخانوں میں جائیے۔
شفاخانہ فلاں جگہ ہے
تربیت یافتہ ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہے”۔
یہ شفاخانہ کھلنے کے بعد چار مہینوں کے اندر تقریباً چار ہزارمرد اس میں داخل ہوئے ان میں تقریباً نصف شہری تھے اور نصف فوجی، ان کے قول کے مطابق بازاری عورت سے بیماری لگنے اور ہسپتال سے حاضری کے درمیان اوسطاً پندرہ منٹ کا وقفہ ہوتا تھا۔ چونکہ سخت راز داری ملحوظ تھی۔ اس لیے مریضوں کے متعلق کوئی ریکا ر ڈنہ رکھا جاتا تھا۔ لہٰذا اس امر کا کوئی ثبوت نہ تھا کہ یہ شفاخانے آتشک اور سوزاک کو روکنے میں کس حد تک کامیاب یا ناکام رہے ہیں۔ تاہم شفا پانیوالوں کی فی صد شرح کافی تھی۔ ان شفاخانوں میں مریض سے صرف یہ دریافت کیا جاتا تھا کہ اس نے کسی بازاری عورت سے فعل کیا تھا یا کسی پیشہ ور سے۔ یا عام شوقین عورت سے اور جواب محکمے کے رجسٹر میں درج کیا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ کسی قسم کے اعداد وشمار جمع نہ کیے جاتے تھے۔ اور علاج کے موثر یا نا کام رہنے کا کوئی اندازہ نہ لگایا جا تا تھا۔ لہٰذا یہ سکیم بنیادی طو رسے غیر سائنسی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شہر سکر یمنٹو کے شفاخانے کے ڈاکٹر رسل فرانطر نے رسالہ اطلاعات امراض جنسیہ کے شمارہ بابت ماہ اگست 1942میں اپنی رپورٹ شائع کی تو وہ اس شستہ بیان سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔ کہ ”موثر مانع امراض کیمیائی دوائوں کو وسیع پیمانے پر رائج کرنے اور شفاخانوں کے قیام کا مسئلہ کافی غور طلب ہے”۔
دوسرے شہروں میں جو تجربے کئے گئے وہ بھی اسی قسم کے تھے۔ لہٰذا ان کے ذکر کے اعادے سے کوئی خاص فائدہ نہیں۔ 1944میں صورت حال یکسر بدل گئی۔ پنسلین کی وسیع پیمانے پر تیاری اور ہر دو جنسی امراض آتشک اور سوزاک میں اس کے کامیاب اور موثر استعمال سے ایک مرتبہ پھر نہ صرف جنسی بیماریوں کے انسداد بلکہ ان کے قطعی خاتمے کی توقع پیدا ہو گئی۔ فوج اور بحریہ میں ہزار ہامردوں پر تجربہ کیا گیا اور اس دوا کے اثرات کا گہرا مشاہدہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی بہ یک وقت بے شمار بیماروں کے معائنے کے طریقے پہلے سے زیادہ مکمل اور بہتر ہو گئے۔ اس لیے طبی اور سماجی اعتبار سے اس بات کا امکان پیدا ہوگیا کہ جنسی بیماریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مہمیں چلائی جائیں۔
سب سے پہلی مہم کا بندوبست ایلا با ما میں کیا گیا۔ 1943میں امریکی پارلمیان کا ایک ممبر بروس ہینڈرسن جو ضلع کو کس کا امیر جاگیردار تھا۔یہ قانون منظور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ چودہ اور پچاس سال تک کی عمر کے باشندوں کے لیے اپنا ڈاکٹری معائنہ کرانا لازمی ہے۔ ایک اور قانون کے ذریعے لازمی قرار پایا کہ معائنے کے بعد جو لوگ آٹشک کے مریض نکلیں وہ اپنے گھرانے کے ڈاکٹر سے یا سر کاری ہسپتال میں مفت علاج کرائیں۔ یادر ہے کہ اس قانون کو قانون ساز اسمبلی نے بڑی قیل وقال کے بعد پاس کیا کیونکہ اس کے خواب میں بھی یہ بات نہ تھی کہ بیمار اتنی پھیل چکی ہے کہ اس کے خلاف ایسی سخت او روسیع جدوجہد کی ضرورت ہو گی جو دیکھنے میں آئی۔
مسٹر ہینڈرسن کے سامنے ایک واضح مقصد تھااس کی جاگیر بہت بڑی تھی اور اس کے تمام رعیت جنسی بیماری میں مبتلا تھی لہٰذا ان کے علاج میں ایسے نفع آیا ہر سال اس کے حبشی مزدوروں کے خون کا معائنہ مفت ہونے لگا تو اس کے طبی اخراجات کی مد میں 75فیصد کمی ہو گئی لہٰذا موصوف نے محسوس کیا کہ اسی طرح ریاست کے تمام قانون سازوں کے طبی اخراجات میں کمی ہو سکتی ہے۔ خون کے معائنے کے اخراجات کے لیے پچھتر ہزار ڈالر کی رقم منظور کی گئی اور سب سے پہلا تجربہ بر منگھم جیسے بڑے شہر میں کیا گیا۔ اس شہر کی آبادی 50ہزار کے قریب تھی۔ جن میں 40فیصد حبشی تھے۔ جو ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کا شکار تھے۔ اور یہ انسانی لوٹ کھسوٹ جنوبی ریاستوں کا خاصہ ہے وہاں حبشی آبادی پر پول ٹیکس عائد ہے اور ان کا معیار زندگی اور تعلیم بہت ہی پست ہے البتہ یہ مہم کا لے اور گورے دونوں قسم کے لوگوں کے لئے چلائی گئی۔
نشر واشاعت میں سنسنی خیز طریقوں سے کام لیا گیا۔ بڑے بڑے بازاروں میں ہر کہیں بڑے بڑے اشتہار لگا ئے گئے کہ ”پنسلین سب سے بڑے موذی’ مفلوج اور بانجھ کر دینے والے مرض سوزاک کو چار گھنٹوں میں ختم کر دیتی ہے”۔
پنسلین کے استعمال سے آتشک کا علاج 9دن میں ہو سکتا ہے”۔ وغیرہ وغیرہ نوٹس بورڈ’ شو کا رڈ’ کاریں ہر آدھ گھنٹے کے بعد ریڈیائی اعلانات غرضیکہ تجارتی پروپیگنڈے کی طرح ہر طریقے اور ذریعے سے کام لیا گیا۔ امریکہ کے محکمہ صحت عامہ اور افواج کے محکمہ حفظان صحت نے پورے تعاون سے کام کیا۔ بڑے بڑے ہیلتھ افسروں نے مہم میں حصہ لیا جن کی مد د کے لئے ہزاروں رضا کار عورتیں، لڑکیاں اور مرد نکل آئے اور انہیں تجارتی چیمبروں، ٹریڈ یونینوں، عورتوں کے کلبوں، حتی کہ کلیسائوں تک بھرتی کیا۔
اس وقت لوگوں کی حیرانی کی انتہانہ رہی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ وہی برمنگھم جہاں چند سال پیشتر آتشک اور سوزاک کے الفاظ سن کر شریف شہریوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی تھیں۔ وہاں بیماریوں کے خلاف اس طرح جہاد شروع ہوا۔ گویا یہ ایک مدت سے معاشرے کا جزو بن چکی تھیں، اخباروں نے اس نعرے کو خاص طور سے اچھالا کہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے معائنہ گاہ میں ملئے۔
یہ مہم وسط مئی سے جون کے آخر تک جاری رہی اور یہ دنیا کی تاریخ میں اپنی قسم کی پہلی مہم تھی اس سے پہلے خون کے معائنے کا بندوبست پیمانے پر نہ کیا گیا تھا۔ ہل مین میونسپل اسپتال میں ایک خاص ڈسپنسری کھولی گئی وہاں کے سابقہ کفن گودام میں معائنہ خون کی دنیا بھرمیں سب سے بڑی تجربہ گاہ قائم ہوئی۔
یہ تجربہ گاہ جلد ہی ”willow run” (ولورن) کے نام سے مشہور ہو گئی اس کا سبب کام کی تیز رفتاری تھی کیونکہ اس میں سول اور فوجی ماہرین ایک دن میں دس ہزار اشخاص کے خون کا معائنہ کر ڈالتے تھے۔ بیالیس دن کے عرصے میں تین لاکھ اشخاص کا معائنہ کیا گیا۔ خون مختلف مقامات پر حاصل کیا جاتا تھا اور اس کے بے شمار نمونے کرائے کی گاڑیوں میں مذکورہ تجربہ گاہ میں روزانہ لائے جاتے تھے۔ معائنہ منیر ینی کے طریق خور دبینی پر کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ سو فیصدی کامیاب نہ سہی لیکن اس وقت کے حالات میں موزوں ترین تھا۔ کیونکہ اس میں بہت کم وقت صرف ہوتا تھا۔ اور تفصیلی معائنے کا طریق قابل عمل نہ تھا۔ رضا کا ر عورتوں کو ایک دن میں 2ہزار نالیوں اور 12ہزار نلکیوں کو گرم پانی میں جوش دے کر جراثیم سے پاک کرنا پڑتا تھا۔
ظاہر ہے کہ خون کے نمونے کے تعین کا کام بہت زیادہ تھا۔ ہر معائنہ گاہ گویا الیکشن بوتھ تھا۔ ایک کلرک ہرشہری کا نام، پتہ ، عمر، فون نمبردرج کرتا تھا اور اس کے بعد اسے ایک شیشے کی نالی ور ایک سفید کارڈ دے دیتا تھا۔ ان دونوں پر ایک ہی نمبر لکھا جاتا تھا، تاکہ دوسروں کی نالیوں او کارڈوں میں مل نہ جائیں۔ نالی خون کے معائنے کے کام آتی تھی اور کارڈ معائنے کا ثبوت تھا۔ چند دوسرے کلرک اسی قسم کے رنگین کا رڈ تیار کرتے تھے، جن پروہی اند راج کئے جاتے تھے اور ایسے اشخاص کی مزید پیروی کے کام آتے تھے جن کے خون بیماری کے جراثیم نکلتے۔
ہر شخص کے خون کے معائنہ کی تصدیق کے لئے سختی سے تحقیقات کی جاتی تھی، جو شخص پہلے سے بیمار ہوتے ان کے لئے حکم تھا کہ وہ اپنے پرائیویٹ ڈاکٹروں سے اپنے گھروں پر سرکاری ہسپتالوں میں معائنہ ضرور کرائیں۔ تمام شہری آبادی کے خون کے معائنے کی تصدیق کے لئے مذکورہ بالا کارڈوں کا راشنتگ دفتر کے ریکارڈ سے مقابلہ کیا جاتا تھا۔ گویا معائنے سے بہت کم لوگوں کو بچ نکلنے کا امکان تھا اور جان بوجھ کر معائنہ سے بھاگنے والوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔
تجربہ گاہ کی رپورٹ معائنے سے 48گھنٹوں کے اندر مرکزی دفتر میں پہنچ جاتی تھی جس کسی شخص کا خون صاف ہوتا اس کا ریکارڈ بند کر دیا تھا۔ جن لوگوں کو معائنے سے تین دن بعد تک محکمہ صحت کی طرف سے کوئی مراسلہ موصول نہ ہوتا وہ جان جاتے تھے کہ ان کا خون صاف ہے۔ لیکن تجربہ گاہ سے مثبت رپورٹ موصول ہوتی تو مریض کی پیروی خاص ماہرین کرتے تھے اور اس شخص کو خاص معائنہ کرانا پڑتا تھا۔
اس مہم کے دوران میں جتنے لوگوں کا معائنہ کیاگیا ان میں 2لاکھ 90ہزار کی عمر قانون کی مقرر کر دہ حدود کے درمیان تھی۔ بعد میں اندازہ لگایا گیا کہ کل 3لاکھ اشخاص کا معائنہ کیا گیا جن میں مشکوک قسم کے لوگ اور ایسے اشخاص بھی شامل تھے جن کا دوبارہ معائنہ ہوا اور نوے فیصد اشخاص رضا کارانہ طور پر معائنہ کے لیے آئے۔
ان نتائج سے آتشک سے متعلق ان شماریات کی تصدیق ہو گئی جنہیں ڈاکٹر لوگ کئی نسلوں سے پیش کرتے آئے تھے۔ 2لاکھ 90ہزار میں تقریباً 40ہزار یا 13.7فیصد اشخاص آتشک کے مریض نکلے۔
ان دنوںعلاج کے طریقے بھی تشخیص کے طریقوں کی طرح زیادہ موثر نہ تھے مثبت رپورٹ والے اشخاص کو بعض دوسرے مرکزوں میں جانا پڑتا تھا اور جب بیماری کی تصدیق ہو جاتی تو ان پر علاج اسی صورت میں واجب تھا جب ان کا مرض نام نہاد ابتدائی یا وبائی منزل میں ہوتا لیکن سوزاک کے مریض کی کوئی تشخیص یا معائنہ نہ ہوتا تھا۔ آتشک کے مریض کے دوسرے معائنے کے دوران میں کوئی شخص سوزاک میں بھی مبتلا پایا جاتا تو اسے پنسلین کے ٹیکے لگائے جاتے۔ یہ علاج مفت تھا اور اس کی مدت چار گھنٹے تھی۔
شادی شدہ افراد کی صورت میں، بیوی اور خاوند دونوں کے پنسلین کے ٹیکے لگائے جاتے تھے۔ علاوہ ازیں سہ افرادی، طریق علاج بھی رائج تھا۔ تیسرے فرد کا علاج بیوی اور خاوند سے علیحدہ مگر اسی دن کیا جاتا تھا۔ آتشک کاعلاج ذرا دیر طلب مگر پیچیدہ تھا، حالانکہ 35 ہزار پرانے مریض ابھی علاج کے لیے منتظر بیٹھے تھے، لیکن سب سے پہلے پرانے مرض والوں کا علاج خاص مرکزوں میں کیا گیا۔ ان مرکزوں میں پنسلین، آرسینی کلز (arcenicals) اور بسموتھ bismouthکی دو ا استعمال کی جاتی تھی اور علاج کی مدت نو دن تھی۔
لیکن کچھ عرصے تک یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا یہ مہم کہاں تک کامیاب رہی۔ اس کا ایک خاص سبب یہ ہے کہ جنسی بیماری کسی خاص علاقے میں ایک دن کے لئے بھی محدود نہیں رہ سکتی۔ چونکہ ایلا با ما میں ہر سال بہت تھوڑے اشخاص کی تشخیص اور علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ہر علاقے میں الگ الگ مہم چلانا پڑے گی۔ عین ممکن ہے کہ ملحقہ علاقوں س بر منگھم میں بہت سے مریض گھس آئیں اور وہاں دوبارہ بیماری پھیل جائے آج تک صحیح پر معلوم نہیں ہو سکا کہ آتشک کس تیز رفتاری سے پھیلتا ہے۔ توقع ہے کہ یہ مہم آئندہ سال تک اس سوال کا جواب بھی بہم پہنچا دے گی۔
جو تجربہ ایلاباما میں کیا جا رہا ہے اس سے نہ صرف جنسی بیماری کا علاج ہوا ہے بلکہ اس سے کہیںبڑھ کر یہ فائدہ ہوا ہے کہ اس برعظیم (امریکہ) میں لوگوں کو جنسی بیماری کے متعلق کافی واقفیت حاصل ہو گئی ہے۔ تعلیمی افادے کے پیش نظر دوسرے مقامات پر بھی اس تجربے کی تقلید ہونے لگی ہے۔
سوناح (جارجیا) میں جہاں ایلاباما کی طرح کوئی جبری قانون رائج نہیں، ماہ اکتوبر اور نومبر 1945میں سماجی بیماری پر اس سے بھی زیادہ دلچسپ حملہ کیا گیا، یہ مہم رضا کارانہ تھی اور صحت عامہ کی تاریخ میں بے مثال تھی کیونکہ اس میں آتشک اور تپدق دونوں مہلک بیماریوں کا بہ یک وقت ڈاکٹری معائنہ شامل تھا اور خون کے معائنے کے علاوہ ہر شخص کے سینے کا عکس ریز بھی کیا جاتا تھا۔
خیال ہے کہ یہ مہم بر منگھم والی مہم سے زیادہ کار گر ثابت ہو گی۔ نشرواشاعت سے یہ مہم عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔ بازاروں میں جو اشتہار لگائے گئے ان میں لکھا تھا کہ ”تپ دق کا علاج مرض کے ابتدائی درجوں میں ہی ممکن ہے آج کا عکس ریز کل کا محافظ زندگی ہے”۔
اس مہم کے عروج کے دنوں میں بڑے بڑے مرکزوں میں مردوں اور عورتوں کی لمبی لمبی قطاریں معائنے کے لئے اپنی اپنی باری کی منتظر نظر آتی تھیں۔ جنسی بیماری اور تپ دق کا علاج مفت تھا۔
امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل میں اکتوبر 1945میں جنسی بیماری کے خلاف ایک اور نئی مہم کی خبر چھپی جو آج کل تجربتہً جاری ہو چکی ہے۔ آج کل ان مہموں پرپریس میں عام تنقید ہونے لگی ہے اور نئی تجویزیں پیش کی جانے لگی ہیں اس مہم کی تجویز کو پیش کئے کافی عرصہ گزر گیا تھا۔ ا س میں کہا گیا تھا کہ حاملہ عورتوں کے خون کا معائنہ کر کے دیکھا جائے کہ وہ آتشک سے متاثر تو نہیں اور جوہوں ان کا باقاعدہ علاج کیاجائے۔
اس تجویز پر الینائس میں 1939 سے عمل ہو رہا ہے جب کہ وہاں حاملہ عورتوں کے تحفظ کے قانون کا نفاذ ہوا۔ پانچ سال کے عرصے میںکوئی ایک ہزار چار سوانچاس عورتیں آتشک کی مریض نکلیں، ان کا علاج ایک ہزار ستاسی ڈاکٹروں نے کیا۔ قانون کی رو سے ہرڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ ہر حاملہ عورت کے معائنہ خون کی رپورٹ مرکز کو بھیجے۔ خون کا معائنہ لازمی ہے۔ خواہ سرکاری تجربہ گاہ ہو یا منظور شدہ پرائیویٹ تجربہ گاہ میں۔ مثبت معائنے کی صورت میں رپورٹ کی ایک نقل تجربہ گاہ سے جنسی بیماری انسداد کے محکمے میں بھیجی جاتی ہے۔ اس محکمے کی سنٹرل رجسٹری (جہاں سارے محکمے کی ڈاک کی وصولی اور ترسیل کا کام ہوتا ہے) ہر تجربہ گاہ سے باقاعدہ رپورٹ وصول کرنے کی ذمہ دار ہے۔ کسی تجربہ گاہ سے رپورٹ موصول نہ ہو تو یا دوہائی کرائی جاتی ہے۔ رپورٹ ملنے کی پر متعینہ ڈاکٹر کے پاس آتشک کے علاج کی دوائیں اور محکمہ صحت کا رسالہ دستور العمل بھیجا جاتا ہے۔
الینائس پلان کے آغاز کے وقت سلفونا مائیڈز sulfonamidesاور پنسلین کا استعمال ابھی شروع نہ ہوا تھا اس لئے عام طور سے جودوائیں استعمال کی جاتی تھیں، وہ گوشت میں سوئی کے ذریعے داخل کئے جانے والے بسموتھ کے مرکبات اور نسوں میں داخل کئے جانے والے آرسینی کلز کے مرکبات تھے۔ حاملہ عورتوں کے آرسینی کلز کے ٹیکے آخری ایام میں لگائے جاتے تھے۔
اس قانون کی بڑی خامی اس کا جبری نہ ہونا ہے کوئی آتشک زدہ حاملہ عورت انکار کر دے تو اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔ میڈیکل سائنس ثابت کر چکی ہے کہ آتشک زدہ حاملہ عورت کا بچے کی پیدائش سے پہلے علاج نہ کرانا بچے کی موت یا سے بری طرح اپاہج بنانے کے برابر ہے لہٰذا مذکورہ رعایت بہت بڑی غلطی ہے۔
اس کے باوجود یہ قانون بے حد کامیاب رہا۔ ساڑھے پانچ سو مریض حاملہ عورتوں میں سے علاج کے بعد 94فیصد نے تندرست بچے جنے۔ مریض ماں کا علاج جتنی جلدی شروع ہوا اتنا ہی زیادہ تندرست بچہ پیدا ہوا۔ اس کے برعکس علاج سے بھاگنے والی 355عورتوں میں صرف 26فیصد نے تندرست بچے جنے۔
الینائس کے محکمہ صحت کے ڈاکٹر مسٹر ہر مین ایم سولیودے کا بیان ہے کہ
مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر حاملہ عورتیں بہت دیر سے یا بچے کی پیدائش سے چند ہی روز پیشتر علاج کی درخواست کرتی ہیں”۔ قدرتاً اس سے یہ قانون اور بھی کمزور پڑ جاتا ہے تاہم علاج معالجے کے جدید ترین طریقوں کا استعمال کیا جائے تو اس قانون میں تبدیلی ضروری بھی نہیں رہتی۔ حالانکہ الینائس پلان کے تحت بیشمار مصیبتوں کا ازالہ ہوا ہے لیکن خاطر خواہ نشرواشاعت نہ ہونے کے سبب اس سکیم کی کامیابی کے باوجود دوسرے شہروں اور ریاستوں میںاس کی تقلید کا جذبہ پیدا نہیںہوا۔
فوری علاج کے مرکزوں میں حالیہ کامیابی کے سبب بہت سے شہروں میں ترغیب پیدا ہو گی اور وہاں بھی آتشک زدہ لوگوں کے علاج کی زبردست کوششیں کی جائیں گی لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ایسا ضرور ہوگا۔ 1945کے آغاز میں محکمہ صحت عامہ نے بتایا تھا کہ امریکہ میں فوری علاج کے چھپن مرکز تھے ان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ مریض علاج کے لئے آتے تھے۔ ان میں سے تقریباً نصف کے قریب آتشک اور نصف سے زیادہ سوزاک میں مبتلا تھے اور کل تعداد کا 20فیصد دونوں بیماریوں میں مبتلا تھے اگرچہ 1944کے مقابلے میں زیر علاج عورتوں کی تعداد تگنی سے بھی زیادہ تھی لیکن یہ ان مریضوں کی تعداد کا ایک ادنیٰ ساجزو تھی جن کو ہر سال جنسی بیماریوں لگتی تھیں۔
سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں امریکہ میں ہر سال دس لاکھ افراد کو آتشک او راس سے کئی گنا زیادہ کو سوزاک کا مرض لگتا ہے اور ہر سال کم از کم 30ہزار بچے آتشک کی بیماری ساتھ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔
کیا پنسلین اور دوسری طبی ایجادیں اس صورت حال کی اصلاح کر سکیں گی جنسی بیماری کی صورت پر دو بڑے متضاد محرکات اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ فوری علاج کے مرکزوں کے قیام سے علاج کازمانہ گھٹ کر ایک چوتھائی اور علاج کا خرچ آدھارہ گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مقامی منتظمین بھی مرکزکی امداد کے بغیر جنسی بیماری کے انسداد کاکام شروع کر سکیں گے۔
دوسرا یہ کہ فوج اور بحریہ کی خاص مساعی کی بدولت بیماریاں 1941 سے متعدی صورت اختیار نہیں کر سکیں۔ لڑائی ختم ہوتے ہی عام سپاہیوں کو معطل کر دیا جائے گا تو اس صورت حال کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اس کے علاوہ جو اتحادی فوجیں یورپ میں لڑ رہی ہیں ان میں جنسی بیماری اس قدر پھیل رہی ہے کہ ماہرین طب پریشان نظر آتے ہیں مثال کے طور پر کینیڈا کی افواج میں جنسی بیماری کو تقریباً ختم کر دیا گیا تھا لیکن 1945 کے وسط سے یورپ میں مقیم یا کینیڈا واپس آنے والی افواج میں آتشک او سوزاک کی شر ح اچانک بڑھ گئی اور اتنی ہی تیزی سے جنسی بیماری کینیڈا کے شہروں میں پھیلنے لگی۔
اگرچہ مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا فضول ہے لیکن جنگ کے دوران میں جو تحقیقات افواج میں کی گئی اس کی روشنی میں اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جنسی بیماری کا مسئلہ زمانہ امن میں نازک صورت اختیار کر جائے گا۔ اس تحقیقات کو ڈاکٹر جی ڈبلیو لاری مور اور ٹی ایچ سٹرن برگ نے 1945میں امریکی رسالہ صحت عامہ میں مختصر بیان کیا ہے۔
امریکی افواج کے 80لاکھ سے زیادہ سپاہیوں پر جنسی بیماری کے انسداد اور علاج کا تجربہ کیا گیا۔ فوجی منتظمین کو غیر معمولی اختیارات بیحد روپیہ اور سہولتیں حاص تھیں ۔ آتشک اور سوزاک کے انسداد میںہر معلوم حربے کو استعمال کیا گیا۔ یہ مہم شہری آبادی میں اس کامیابی سے نہ چلائی جا سکتی تھی، جس کامیابی سے فوج میں چلی۔
1944میں فوج میں ڈیڑھ کروڑ کتابیں تقسیم کی گئیں جن کا موضوع جنسی بیماری اور جنسی مسائل تھا۔ ان سپاہیوں کی تعداد جن میں لٹریچر تقسیم کیا گیا امریکہ کی کل آبادی کا تقریباًپندرھواں حصہ تھی۔ یہ لٹریچر نہایت اعلیٰ اوردل کش تھا۔ تحریر میں پرانے انداز کے طبی لیکچروںکی بجائے پروپیگنڈے کا عمدہ اسلوب اختیار کیا گیا تھا۔ اس لٹریچر کے اثر کو دو بالاکرنے کی غرض سے بے شمار فلمیں دکھائی گئیں جنہیں ایک کروڑ سپاہیوں نے دیکھا۔
ڈاکٹر لاری مور اور سٹرن برگ جنسی بیماری کے خاتمے کی جدوجہد میں مندرجہ ذیل اسباب کو بہت زیادہ اہم بتاتے ہیں۔
(1) خوف (2) شعور (3) غرور (4) حب وطن
ان کے خیال میں افواج میں طبی اور تعلیمی سرگرمیوں کی ناکامی کے مندرجہ ذیل بڑے اسباب تھے۔
(1) جنسی ترغیب (2) جنسی فلموں، مزاحیہ ڈراموں، ملازمت پیشہ لڑکیوں اور تجارتی اشتہاروں کا خواہش انگیزاثر (3) جنگ کے سبب گھرانوں کا انتشار (4) علاج کے نئے طریقے جن کے طفیل مردوں میں خیال پیدا ہو گیا کہ جنسی بیماری اتنی خطرناک نہیں۔ (5) شراب نوشی (6) عام اخلاقی معیار۔
ان اسباب کا افواج کی تعلیمی مہم پر کیا رد عمل ہوا؟
میں نے اس سلسلے میں سرجن جنرل کے دفتر کے محکمہ انسداد امراض جنسیہ کے افسر اعلی لفٹیننٹ کرنل ٹامس سٹرن برگ سے ٹیلیفون پربات کی۔ اس نے بتایا۔
اس سال ماہ نومبر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں جنسی بیماری کی شرح تقریباً دوگنی تھی۔ پچھلے سال 30فی ہزار اور اس سال 60فی ہزار تھی۔ 1944می اوسط شرح 33فی ہزار تھی۔ یوں تو فوجوں میںہر کہیں جنسی بیماری کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن مختلف علاقوں میں اوسط شرح 33فی ہزار تھی۔ یوں تو فوجوں میں ہر کہیں جنسی بیماری کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن مختلف علاقوں میں اوسط شرح بھی مختلف ہے۔ جو فوجیںجزائر فلپائن اور جنوبی بحرالکاہل میں لڑ رہی ہیں ان میں بیماری کی شرح 80تا 100فی ہزار ہے۔ جو فوجیں یورپ کے میدان جنگ میں ہیں ان میں یوم فتح کی تقریب کے بعد سے بہت زیادہ بیماری پھیل رہی ہے اور وہاں بیماری کی اوسط شرح باقی تمام علاقوں سے زیادہ ہے۔ لڑائی ختم ہونے سے پہلے یورپ میں اوسط شرح 40فی ہزار تھی اور اب 170ہزار ہے۔ گویا 325صد یعنی سوا تین گناہ اضافہ ہوا ہے”۔
میں نے سوال کیا کہ آپ کے خیال میں اس رو افزوں اضافے کا کیا سبب ہے کرنل صاحب نے جواب دیا کہ ”یہ اضافہ حیران کن نہیں ہے کیونکہ ہر جنگ کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے جنگ کے خاتمے پر عام اخلاقی معیار گر جاتا ہے۔ سپاہیوں کے پاس فرصت کا کافی وقت ہوتا ہے جن سپاہیوں کو سمندر پار جانا ہوتا ہے انہیں کافی عرصہ کشتیوں اور جہازوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے وہ بندر گاہ میں بیٹھے بیٹھے اکتا جا تے ہیں او راپنی دلچسپی اور دل بہلا دے کے دوسرے طریقے ڈھونڈ نکالتے ہیں وہ شہروں میں زیادہ آزادی سے گھومنے پھرنے لگتے ہیں اور بہت جلد جنسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں”۔
میں نے کرنل صاحب سے پھر سوال کیا کہ آپ کے خیال میں سب سے زیادہ خطرناک محرک کون سا ہے؟
کرنل صاحب نے فرمایا کہ ”جواب صاف ہے سب سے زیادہ خطرناک سبب ہے حرام کاری”۔
میجر جارجز ایک لوک کینیڈاوی افواج میں اسی قسم کے منصب دار ہیں۔ انہوں نے کینیڈاوی افواج کے متعلق بھی چونکا دینے والی اطلاعات بہم پہنچائیں۔ میں نے امریکہ اور کینیڈا کے چند سول افسروں سے ملاقات کی۔ انہوں نے اپنے نام کے اظہار سے تو انکار کیا لیکن جو حقائق اور اعدادوشمار ان سے حاصل ہوئے وہ سب ایک سے تھے انہوں نے کہا ”جب سے لڑائی ختم ہوئی جنسی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں یہاں تک کہ اس بر عظیم میں ان کے وبائی صورت اختیار کر جانے کا اندیشہ ہے۔ فوج سے معطل کئے ہوئے سپاہی آتشک اور سوزاک کی طرف سے بالکل لا پروا ہیں او راپنی تعلیم کو سر ے سے بھلا چکے ہیں۔ ان میں معائنے اور علاج وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں پائی جاتی۔
صورت حال اس قدر نازک ہے کہ نیویارک سٹیٹ میڈیکل جرنل میں تمام ماہرین اور منتظمین کو متنبہ کیاگیا کہ میدان سے واپس آنے والے سپاہیوں کے گھروں میں آتشک اور سوزاک کی ہولناک مصیبت ڈیر اجما رہی ہے۔
گورڈن بیٹس جو کینیڈا کی مشہور ہیلتھ لیگ کے ڈائرکٹر ہیں اور کئی سال سے جنسی بیماری کے ماہر حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ۔
ظاہر ہے کہ بعض ایسے لوگ جنہیں زیادہ باخبر اور ہوشیار ہونا چاہئے۔ یہ خیال کرتے ہیں کہ جنسی بیماری کے حقائق کی تعلیم، تشخیص اور علاج کی سہولتیں ہی اس مرض پر قابو پانے کے لئے کافی ہیں۔ ایک دوسرا گروہ جنس کے جسمانی حقائق سے باخبر ہونے پر اسی طرح زور دیتا ہے کہ گویا انہی حقائق کی تعلیم سے آتشک اور سوزاک پر قابو پا لیا جائے گا۔ اگر اس جنسی بیماری کے انسداد کے کام کو محض ہدایات دینے تک محدود رکھنا ہے تو تعلیم اور موثر طریقہ علاج، دونوں کی بدولت عرصہ علالت کو قدرے گھٹایا جا سکتا ہے۔ معاشی اور اخلاقی اقدار کو نظر انداز کر دیا گیا تو کثرت اختلاط کے ساتھ مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔”۔
ڈاکٹر بیٹس اور بھی واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ”جنسی بیماری پر محض اخلاقی نقطہ نظر سے بحث کرنا قدامت پسندی کی دلیل ہے لیکن اصلی اخلاقیات کے بغیر جن کا تعلق کردار اور سماج سے ہے، جنسی بیماری پر قابو پانا بھی محال ہے”۔
ظاہر ہے کہ یہ رائے ہماری فوجی ڈاکٹروں کی رائے سے بالکل متضاد ہے۔ ہم امریکی افواج میں جنسی بیماری کی انسدادی مہم کے متعلق ڈاکٹر لاری مور اور سٹرن برگ کی رپورٹ کا ذکر کر چکے ہیں انہوں نے اخلاقی دلائل کو محض غیر موثر کہہ کر نظر انداز کر دیا۔ فوج میں جنسی بیماری کے تدراک کی مہم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہتھیار خواہ کسی قسم کے ہوں۔ مقصد صرف جنسی وبائوں کی روک تھام ہے نتیجتہً ڈاکٹر لاری مور اور سٹرن برگ نے خیال کیاکہ فوج میں طبی نقطہ نظر سے جو مہم چلائی گئی تھی، وہ کامیاب رہی۔ یعنی اس میں وہ کامیابی ہوئی جس کا ڈھنڈ ور الڑائی کے خاتمے سے تھوڑا عرصہ پہلے پیٹا گیا تھا۔ جب کہ جنسی بیماری نے ہولناک وبا کی صورت اختیار نہ کی تھی اور ان ذلیل طریقوں، آلوں اور دوائوں کی مقدار اور تعداد کو پیش نظر رکھا جائے جو سپاہیوں نے بد فعلی کے وقت بطور حفاظت استعمال کیں تو اس نام نہاد ”کامیابی” کی قلعی کھل جاتی ہے۔
چونکہ ہم اس مسئلے کے مطالعے کو صرف طبی امور تک محدود کرنا نہیں چاہتے، اس لئے ہمیں اس حفاظتی سازو سامان سے آزادانہ نمٹا پڑے گا۔
شاید یہاں اس امر کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ فوجی منتظمین وقتاً فوقتاً اور مختلف مقامات میں جنسی بیماری کے خلاف اپنی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگاتے رہے ہیں کہ سپاہیوں نے کس قدر حفاظتی دوائیں اور کتنے آلے وغیرہ استعمال کئے۔ لہٰذا یہ اعداد وشمار اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتے، کہ سپاہیوں نے کتنی مرتبہ بدفعلی کی اور مانع امراض دوائوں کے طفیل بیماری سے محفوظ رہے۔
بہت سے قاری اصل شماریت پر حیرت زدہ ہو جائیں گے۔ مذکورہ بالا چیزوں کی تعداد اور مقدار بے اندازہ اور ناقابل یقین ہے۔ 1945کے شروع میں امریکی فوج میں فی کس فی چیز کے حساب سے ایک مہینے میں 5کروڑ حفاظتی چیزوں کی کھپت تھی۔
یہ ہے فوج کے منتظمین کی کامیابی کا پیمانہ۔ہمارے سپاہیوں کی تعداد 80لاکھ ہے۔ انہوں نے ہر ماہ 5کروڑ حفاظتی چیزیں استعمال کیں۔ اب بدفعلی کے ارتکاب کا حساب لگایا جائے تو جونتیجہ حاصل ہو گا اس پر شاید اوچھے نکتہ چین بھی جو پادریوں اور اخلاق پرستوں پر ناک بھول چڑھاتے رہتے ہیں ۔ ایک لمحے کے لئے ٹھہر کر کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں کہ کسی قوم نے اس قدر وسیع پیمانے پر زنا کاری کو بے ضرر بنا دینے کی کامیابی پر شیخی بگھاری ہو۔ یعنی ایک مہینے میں 5کروڑ مرتبہ۔

گناہ کے خاتمے کا پنجسالہ منصوبہ
اب ہم بدکاری اور بداخلاقی کے انسداد کی اشتراکی جدوجہد کی طرف دوبارہ روجوع کرتے ہیں۔ یہ جدوجہد 1929کے موسم گر ما میں آخری اور نازک مرحلے پر پہنچ گئی۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی حکومت کی ایک آدھ وزارت نہیں بلکہ پوری آٹھ وزارتیں اس جدوجہد میں شریک تھیں جو مشترکہ سائنسی منصوبے پر چل رہی تھیں۔
جو بن بیاہ لڑکیاں صحت گاہوں میں علاج کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کر کے گریجوایٹ بن گئی تھیں۔ انہیں ملازمت دلانے کی ذمہ داری وزارت محنت نے اپنے ذمے لی۔ سماجی تحفظ کی عوامی وزارت نے عورتوں کی تربیت گاہوں او رورک شاپوں کو ملک بھر میں قائم کرنے کا کام شروع کیا۔ او رایسی عورتوں کو محفوظ اور عمدہ رہائشی مکانات مہیا کرنے کا فریضہ سنبھالا۔ جن کے متعلق خدشہ تھا کہ وہ بری صحبت کے اثر سے بدکاری میں دوبارہ مبتلا ہو جائیں گی۔
وزارت صحت عامہ نے صحت گاہوں کو وسیع کیا۔ جنسی بیماریوں کے زیادہ سے زیادہ ماہرین کی تربیت اور بے کس مائوں کی امداد کا وسیع منصوبہ تیار کیا۔ اور تحفظ زچہ بچہ کے بے شمار مرکز کھولے۔
وزارت انصاف اس وقت تک ملیشیا یعنی قومی رضا کاروں کو نئے سرے سے منظم کر چکی تھی۔ اور بے حد فعال، ہمدرد انسانیت اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار پولیس تیار کر چکی تھی۔ اب اس منظم بدکاری اور عصمت کی تجارت کے باقیات پرآخری بھر پور حملہ کر دیا۔ گذشتہ پانچ برس کے عرصے میں جن تاجران عصمت نے اپنا ذلیل کاروبار نہ چھوڑا تھا وہ رو پوش ہو گئے تھے، اب وہ ناقص العقل لڑکیوں اور عورتوں کو اپنے جال میں پھنسا نے میں مصروف تھے۔ اس اثنا میں وزارت انصاف اور وزارت امور داخلہ نے باہمی تعاون سے خفیہ چکلوں کا کھوج لگانے کے لیے خاص سراغرساں پیدا کر لیے تھے۔ چنانچہ خفیہ چکلوں کے مالکوں کو ڈھونڈ کر سخت سزائیں دی جانے لگیں۔ چکلہ داروں کے خلاف عام لوگ حکومت کی پوری مدد کرتے تھے۔
وزارت تعلقات عامہ نے مردوں میں ان کی ذاتی اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کیا اور عوام میں ایسے لوگوں کو سختی سے ہدف تنقید بنانے کا جذبہ پیدا کیا جو نا بالغوں اور نوجوانوں کو جرائم پر ابھارتے تھے۔
آخری کام، یعنی تمام تنظیموں، اداروں، شفاخانوں، ورکشاپوں اور زچہ وبچہ کی حفاظت گاہوں کو ہر ممکن مالی امداد دینے کی ذمہ داری وزارت تجارت اور وزارت مالیات کے سپرد کی گئی۔
ظاہر ہے اب انسداد عصمت فروشی کی مہم نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ یہ جدوجہ ابتدائی مرحلے سے نکل کر ایک نئی منزل میں داخل ہو گئی۔ اب اس کا دائرہ عمل وسیع ہو گیا، چنانچہ جرائم اور بداخلاقی کا نام ونشان تک مٹانے کے لیے وسیع قومی جہاد شروع ہو گیا۔
اب حالات کا تقاضا تھا کہ جرائم، بدکاری اور بداخلاقی پر خصوصی سائنٹیفک حملہ کیا جائے۔ بے کاری ختم ہو جانے سے غریب اور مفلس عورتوں کے سامنے یہ سوال کے برابر پہنچ گئی تھی، عصمت فروشی کا معاشی محرک ختم ہو گیا تھا اور اب عورتوں کے سامنے یہ سوال نہ تھا کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے پیشہ اختیار کریں یا نہ کریں۔ سوال صرف ان عورتوں کی بحالی کا تھا جو حالات اور افلاس سے مجبور ہو کر طویل مدت سے پیشہ اختیار کیے ہوئے تھیں، اس کی عادی ہو گئی تھیں اور اپنے آپ کو کسی با عزت کام کے اہل نہ پاتی تھیں۔ ظاہر ہے عورتوں کے اس گروہ کے ساتھ ان کے ”مربیوں” کا وجود داٹل تھا۔ اس ناپسندیدہ اقلیت کو ختم نہ کیا جاتا تو یہ لوگ نابالغ نوجوان اور غیر مستقل مزاج عورتوں کی کشش کا دائمی محرک بنی رہتیں۔ اور رفتہ رفتہ عصمت فروش عورتوں کی صفوں میں اضافہ ہوتا رہتا۔
اصولاً عصمت کے تاجروں کے اس ”ہر اول دستے” کی گرفتاری، ان کے ساتھ ناقابل اصلاح سماجی عناصر کا سلوک اور ان کی سماج سے علیحدگی جائز تھی۔ لیکن اشتراکی حکومت نے اس قدام پر غور تک کرنے سے انکار کر دیا۔ اشتراکی منتظمین آخر تک اپنے قائم کر دہ سائینٹفک اصول پر قائم رہے کہ ”طوائف معاشی اور سماجی طاقتوں کی شکار ہے، وہ ایک انسان ہے۔ لیکن سماجی طاقتوں کی غلام او رمظلوم ہے۔ اس کی سماجی بحالی صرف ایک نئے، مثبت اور صحت مند ماحول ہی میں ممکن ہے”۔ شہریوں کی جو کمیٹیاں بدکاری کے خاتمے کی مہم میں حکومت کا ہاتھ بٹاتی آئی تھیں، ان سے طویل بحث اور تبادلہ کے بعد اشتراکی ماہرین نفسیات نے شفاخانوں اور ورکشاپوں کے نظام میں انقلابی تبدیلیان کر کے جرائم اور بدکاری کو قطعی طو رپر ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
نئی صورت حال اسی انقلابی تبدیلی کی متقاضی تھی۔ 1924تک رہائشی شفاخانوں میں زیر علاج عورتوں کی صرف ایک چوتھائی تعداد نے مختلف پیشے سیکھے تھے اور 1934تک تین چوتھائی عورتیں مختلف فنون میں تربیت حاصل کر چکی تھیں ۔
اس لیے اس وقت تک بہت سے رہائشی شفاخانے بند ہوچکے تھے باقی ماندہ مریض عورتوں میں نفسانی عدم صحت کی علامات پائی جاتی تھیں امراض نفس کے ماہرین کی نظر میں اس کا سبب طویل عرصے کا پست اور ذلیل طریق زندگی تھا۔ اس لیے وہ ان کے علاج کی طرف باقاعدہ اور منظم طریقے سے متوجہ ہوئے۔انہوں نے امراض نفس کے علاج کے تقریباً وہی طریقے اختیار کیے جس کی زبانی وکالت ہمارے ہاں کے ماہرین کرتے رہتے ہیں۔ عورت کے انفرادی روحانی طریق علاج پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اشتراکی ڈاکٹروں نے اپنی تمام تر کوشش اس سماجی اور معاشی ماحول کو بدلنے کے لیے وقف کر دیں۔ جس میں وہ رہتی تھیں۔ انہوں نے اس ماحول کو ایسا بنا دیا کہ عورت کے لیے با اخلاق طریق سے زندگی بسر کرنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ رہا۔
یہ طریقے اس قدر منطقی، عقلی او رسادہ تھے، کہ 1934تک رہائشی شفاخانوں کی نوعیت عام کھلے مرکزوں کی سی نہ رہی تھی۔ عورتوں کو اب بھی ان میں داخل ہونے پر مجبور نہ کیا جاتا تھا۔ لیکن ایک مرتبہ جو عورت علاج کے لیے راضی ہو جاتی تھی، اس کے لیے دو سال تک وہاں رہنا ضروری تھا، ان شفاخانوں کا روزانہ معمول بالکل بدل دیا گیا۔
پہلے پہل ان میں زندگی کا وہی معمول تھا جو عام شفاخانوں میں ہوتا ہے یعنی صبح سویرے اٹھنا، وقت پرکھانا اور آرام کرنا، سہل کام، مقررہ وقت پرعلاج معالجہ، تفریح اور تعلیم اور وقت پرجلدی سوجانا وغیرہ، اس قسم کی زندگی عورتوں اور لڑکیوں کی اکثریت کے مزاج کے تو موافق تھی، لیکن جوعورتیں عرصے سے بازاری زندگی کی عادی ہو چکی تھیں۔ ان کے لیے یہ طرز زندگی ایک بوجھ اور وبال ثابت ہوا۔ یہ عورتیں سالہا سال سے شام کے وقت سے اپنا دھندا شروع کرنے کے عادی تھیں۔ ان کے لیے شام کے وقت سونا دشوار تھا۔ اور وہ بستر پر لیٹے لیٹے جاگنے اور کروٹیں بدلتے رہنے سے بہت جلد اکتا جاتی تھیں۔ ان کے لیے شام کے وقت سونا دشوار تھا۔ اور وہ بستر پر لیٹے لیٹے جاگنے اور کروٹیں بدلتے رہنے سے بہت جلد اکتا جاتی تھیں۔ لہٰذا نتیجہ مقصد کے برعکس نکلا، وہ شفاخانوں سے نفرت کرنے لگیں۔ اور ان میں رات کی تاریخی میں بازاروں میں آوارہ گردی کرنے، ہوٹلوں اور شراب خانوں کے طواف کی عادت عود کر آئی۔
چنانچہ رات کو دن میں بدل دیا گیا۔ اب شفاخانے کی ورکشاب میں تیسرے پہر کام شروع کیا جاتا جو ساری رات جاری رہتا۔ سونے کا وقت صبح کا ذب اور جاگنے کا اگلی دوپہر کا مقرر ہوا۔ اسی طرح دوسری سرگرمیوں اور کاروبار کا وقت بھی بدل دیا گیا۔ لہٰذا شفاخانے میں داخل ہونے والی طوائف کے لیے اپنے روزانہ کے معمول میں کوئی فرق نہ رہا۔ طوائف کا علاج رات کو عین اس وقت شروع کیا جاتا جب کہ اس کی پرانی عادت اسے مردوں کی تلاش کے لیے شفاخانہ چھوڑنے پرمجبور کرتی اس طریق علاج کا نفسیاتی اصول بالکل واضح ہے مثالی قسم کی مریض عورت دو طاقتور مشروط انعکاسات میں مبتلا تھی (انعکاس مشروط میں کوئی خاص عادت اپنے ا صلی سبب سے ہٹ کر کسی دوسرے سبب سے پیوستہ ہو جاتی ہے)پہلا اسے رات کے وقت سرگرم رہنے پر مجبور کرتا تھا۔ اور دوسرا کسی مفید کام کے بجائے رنگ رلیوں پر بھارتا تھا۔ ان دونوں عادتوں کو بہ یک وقت ختم کرنا ممکن نہ تھا۔ ایسی کوشش کا نتیجہ مایوسی کے سوا کچھ نہ نکلتا۔ اس لیے ہر ایک کے ساتھ الگ الگ نمٹا گیا۔ اور سب سے پہلے عورتوں کے کام کی نوعیت بدلی گئی۔
لہٰذا شفاخانوں میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں۔ وزارت صنعت نے ورکشاپوں کی نئی تنظیم کا منصوبہ بنایا۔ تجربے کے طو رپر کیف کے شفاخانے میں ایک خاص اور اہم صنعت شروع کی گئی۔ ان میں خاص برقی آلات طب تیار کیے جانے لگے۔ جن کی سوویت یونین کے ڈاکٹروں کو بہت زیادہ ضرورت تھی۔ اس صنعت کا عورتوں پر حیرت انگیز مفید اثر پڑا۔ اس سے پہلے وہ پار چات یا عام استعمال کی چیزیں تیار کیا کرتی تھیں۔ یہ کام ان کے لیے کسی خاص دلچسپی کا موجب نہ تھا۔ اب انہیں ایک ایسا دلچسپ کا م دیا گیا جو قوم کے لیے بے حد مفید تھا۔ ان میں خدمت قوم کا جذبہ بیدار ہوا۔ اور بڑے شوق سے محنت کرنے لگیں۔ اس نئے کام کی اہمیت کا شعور پیدا ہوتے ہیں ان عورتوں کے کردار اور سیرت میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی۔ جنہیں دماغی اعتبار سے ناکارہ خیال کیا جاتا تھا، اب وہ اچھی طرح سمجھ گئیں کہ جو سامان وہ اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں، ان کے ہموطنوں کی زندگی بچانے کے لیے اس کی سخت اور فوری ضرورت ہے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ ان سے کام لینا مقصود نہیں بلکہ وہ اپنی قوم کی فلاح وبہبود کے لیے محنت کر رہی ہیں۔
یہ تجربہ غیر متوقع طور پر اتنا کامیاب ثابت ہوا۔ کہ دوسرے شہروں میں بھی اس کی تقلید شروع ہو گئی۔ جن عورتوں میں قدرے صلاحیت کی کمی تھی۔ ان کے لیے ماسکو کے قریب ایک اجتماعی زراعتی فارم قائم کیا گیا۔ اس میں محکمہ زراعت کے لیے فصلیں اگانے اور مویشی پالنے کا کام شروع کیا گیا۔ اس کام میں بھی عورتوں کی سماجی ذمہ داری اور قومی خدمت پر زور دیا گیا۔
ان تجربوں کے دوران میں عورتوں نے خاص فنون اور پیشوں میں مہارت پیدا کرلی، وہ قوم کی اقتصادی زندگی میں نہایت مفیدثابت ہوئیں۔ اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئیں۔ بد دل قسم کی عورتوں نے بھی اس موقع غنیمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے جس بے تابی اور شوق کامظاہرہ کیا اس سے وہ ماہرین امراض نفس بھی بے حد متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جو قدرے مایوس ہو گئے تھے۔ اب ماہرین نے مزدوروں اور کسانوں کی کمیٹیوں سے فوراً مشورہ کیا اور اس سلسلے میں جو کانفرنسیں ہوئیں، ان میں فیصلہ کیا گیا کہ بحالیات کے کام کو تیز تر کر دیا جائے۔
ادھر طبی ماہرین نے نہ صرف جنسی بیماریوں کے علاج بلکہ عورتوں کی بدوضعی کو دور کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ ہر شفا خانے میں ایک ایک پلاسٹک سرجن مقرر کیا گیا۔ جو بدنصیب عورتیں آتشک کے ہاتھوں بدشکل ہوگئی تھیں، انہیں سماج میں رہنے کے قابل بنانے کے لیے ان سرجنوں نے ناک اور دوسرے نازک اعضا کے خطرناک آپریشن کرنے شروع کر دئیے۔
امراض زناں کے ماہرین ایسی عورتوں کے علاج میں شریک ہوئے جنہیں از دواجی زندگی اور تولید کے قابل بنایا جا سکتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ایک وسیع تہذیبی اور ثقافتی پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ مشہور فن کار اور ادا کار ہر شفاخانے میں تہذیبی ڈرامے پیش کرنے لگے۔ زیر علاج عورتوں کے لیے خاص اخبار جاری کیے گئے اور انہوں نے خود بہت سے اخبار نکالنے شروع کر دیئے۔
یہ شفاخانے قومی زندگی سے کٹے ہوئے نہ تھا۔ مریضوں کو اپنا ماضی بھول جانے کی بھی ہدایت نہ کی جاتی تھی۔ بلکہ ہر عورت کو اس طویل المیاد اور قدیم بدعت کے خاتمے کی جدوجہد میں، جو دوسرے ملکوں میں ناکام رہی تھی، اس کی ذاتی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ اس کو یہ بات ذہن نشین کر ائی جاتی تھی کہ اپنے گھنائو نے ماضی پر اس کی ذاتی فتح ایک نتیجہ خیز سماجی تجربے کے لیے بے حد مفید ثابت ہو گی اور یہ کہ وہ اصلاح انسانی کی اصلاح و ترمیم کی جنگ میں سب سے اگلی صف میں ہے۔
شفاخانوں کے کام میں خاطر خواہ کامیابی کی توقعات کے باوجود بعض اشتراکی ماہرین کا خیال تھا کہ ”ہر اول دستے” میں لڑنے والی ان عورتوں کے لیے بدکاری کاشکار ہوئے بغیر سماج میں دوبارہ داخل ہونا ممکن نہیں۔ یہ عورتیں خود اس خطرے سے آگاہ تھیں، لہٰذا ان کی سماجی بحالی کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے: ۔
-1ہر زیر علاج عورت کو شفاخانے سے اس وقت خارج کیا جاتا جب کسی معزز برادری میں اس کی قبولیت کا خاطر خواہ بندوبست ہو جاتا۔ چند معزز شہریوں کے سواجن سے شفاخانے کی زندگی کے آخری ایام میں اس کی خط وکتابت ہوتی، باقی سب لوگوں کے لیے اس کی ماضی کی زندگی صیغہ راز میں رکھی جاتی۔ یہ رضا کار پہلے سے اس کے لیے ملازمت یعنی اس کام کا بندوبست کرتے جس کی ترتیب وہ خاص طور پر حاصل کر چکی ہوتی۔ وہ اس کے لیے ایک شریف اور معزز گھرانے کی تلاش کرتے۔ عورت کی آمد کے سلسلے میں بہت احتیاط کی جاتی تھی تاکہ کسی کے دل میں کوئی شبہ پیدا نہ ہو سکے۔
-2 وارثین کا ایک منتخب گروہ طویل عرصے تک اس کی امداد کا ضامن بنتا۔ ملازمت کے دوران میں اس عورت کی نگرانی رکھی جاتی تھی۔ لیکن نگرانی کا یہ طریقہ ہمارے ہاں کے عارضی اور تجربی، دور ملازمت سے بہت سے مختلف تھا، کیونکہ اس کی بنیاد نگران اور ماتحت، ہر دو کی ذاتی دوستی پر تھی۔ یہ بات خاص طو ر سے ملحوظ خاطر رکھی جاتی کہ سابقہ مریض عورت اپنی مو جودہ ملازمت میں پوری طرح کامیاب اور اس کے اہل ثابت ہو۔ عورت کے ساتھ کم از کم ایک وارث بھی وہی ملازمت کیا کرتا تھا۔
-3 ہر ضلع میں وارثین کے مختلف گروہوں کو امدادی انجمنوں میں منظم کیا گیا۔ یہ لوگ مہینے میں تین مرتبہ اکٹھے ہوتے او رڈاکٹروں، ماہرین نفسیات اور فیکٹری کے منیجروں سے ملاقات کرتے۔ کسی عورت کو اپنے کام میں کوئی مشکل پیش آتی تو اسے تجربہ کار مدد گار مہیا کیے جاتے۔ سابقہ مریض عورتیں پوری طرح بحال اور آباد ہو جاتیں تو وہ اپنی خدمات مذکورہ انجمنوں کے رضا کارانہ امداد کے لیے پیش کر دیتیں۔
-4شادی، ملازمت، اجرت، کرایہ وغیرہ کی مشکلات اور جھگڑوں میں امداد بہم پہنچا نے کے لیے یہ انجمنیں عورتوں کے لیے وکالت کا خاص انتظا کرتی تھیں۔
-5شفایاب عورتوں کو تاکید تھی، کہ وہ زیر علاج سہیلیوں سے خط وکتابت کا سلسلہ قائم رکھیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں۔ تاکہ وہ عام گرہستی اور برادری کی زندگی میں جلد از جلد داخل ہو جائیں۔
آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے سوویت یونین میں عصمت فروشی کو ختم کرنے کے لیے جو جدوجہد شروع کی گئی تھی۔ ہم اس کی تمام حکمت عملی اور طریق کار جائزہ لے چکے ہیں۔
اس جدوجہد کو ترک کئے ایک مدت ہو چکی ہے اور اب وہ محض قصہ ماضی ہے۔ یہ جدوجہد ان لڑائیوں کی طرح فتح پر ختم ہو ئی جو ستالن گراد، کیف سیوستوپول وغیرہ کے ناموں کے ساتھ ہمیشہ یا د رہیں گی اور جو دشمن کی مکمل شکست اور تباہی پر ختم ہو ئیں۔ آج دنیا بھر کے مبصرین گواہی دیتے ہیںکہ سوویت یونین کے شہروں اور دیہات سے عصمت فروشی کو نابود کیا جا چکا ہے۔ 1917میں زارشاہی پولیس کے نامکمل اعداد وشمار کے مطابق اکیلے شہر لینن گراد (سابقہ سنیٹ پٹیرز برگ) میں ساٹھ ہزار رجسٹر اور کئی ہزار ایسی طوائفیں تھیں جو لائسنس کے بغیرچوری چھپے پیشہ کرتی تھیں۔
1928 میں یعنی انسدادی جدوجہد کے آغاز سے پانچویں سال بعد شوقیہ زنا کاری عملاً ختم ہو چکی تھی او رپانچ ہزار پیشہ ور عورتیں علاج وتربیت کے بعد معزز شہری بننے کے لئے تیار تھیں۔ لیکن تین ہزار عورتیں ابھی تک عصمت فروشی پرگزارہ کرتی تھیں۔
ڈاکٹر جے اے سکاٹ کی رپورٹ کے مطابق جومارچ 1945کے برطانوی رسالہ امراض جنسیہ میں چھپی اور جس کا حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ 1930تک ماسکو شہر میں طوائفوں کی تعداد گھٹ کر تقریباً آٹھ سور ہ گئی تھی، دوسرے شہروں کی صورت حال بھی اسی طرح حوصلہ افزا اور خوشگوار تھی۔ بعد میں قومی پیمانے پراخلاقی بحالیات کی جو مہم چلی وہ انہی باقی ماندہ عورتوں کے لیے شروع کی گئی تھی۔
اس جدوجہد کے نتائج؟
ان مریض عورتوں میں سے تقریباً اسی فیصد نے شفاخانوں میں تعلیم وتربیت حاصل کر کے ملک کے صنعتی کارخانوں اور زراعتی فارموں میں ملازمت اختیار کی اور پانچ سال سے زائد عرصے کے لیے اپنے کام کو بڑی خوبی سے سر انجام دیتی ہیں۔
چالیس فیصد سے زیادہ ”شاک بریگیڈوں” یعنی سب سے اعلیٰ اور تیز کار گروں کے دستوں کی رکن بنیں یا اعلیٰ اور شاندار قومی خدمات کے لیے منتخب ہوئیں۔ اکثر نے شادی کر کے کامیاب ازدواجی زندگی بسر کرنا شروع کر دی۔
انیس فی صد سے کم مریض عورتیں ایسی نکلیں جو علاج اور تربیت کے بعد بھی اپنے آپ کو نئے سماجی ماحول کے مطابق نہ ڈھال سکیں۔ لہٰذا انہیں مزید تربیت کے لیے دوبارہ تربیت گاہوں میں آنا پڑا۔ باقی ماندہ تعداد ایسی عورتوں پر مشتمل تھی جو جنسی بیماریوں اور دماغی نقائص کے سبب اس قدر نا کارہ ہو چکی تھیں کہ وہ نئے سماج میں اپنے لئے کوئی مقام پیدا کرنے سے قاصر رہیں۔
لہٰذا سوویت یونین میں عصمت فروشی کے خاتمے کے جدوجہد کو غلاموں اور مظلوموں کی جدوجہد میں بدل دیا گیا اور اشتراکی سماج سے عصمت کی تجارت کا صدیوں پرانا ناروگ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا اور اس کے ساتھ ہ جنسی بیماری بھی نا پید ہو گئی۔ روسیوں کی موجودہ نسل نے اپنی زندگی میں کسی طوائف کی شکل تک نہیں دیکھی۔
دوسری جنگ عظم میں جرمنوں نے روس کے کچھ علاقے پرقبضہ کر لیا تو حالت پھر خراب ہو گئی۔ 1944میں جرمنوں کو روس سے نکال باہر کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جو علاقے ان کے قصبے میں رہ چکے تھے۔ ان میں ہر قسم کی وبائوں کا دور دورہ ہے۔ نازی سپاہیوں نے ہزاروں روسی عورتوں اور لڑکیوں سے جبراً زنا کیا تھا۔ اس لیے ایک بڑی تعداد آتشک اور سوزاک کے عارضے میں مبتلا ہو گئی تھی۔ تا دم تحریر اعداد وشمار جمع نہیں ہوسکے ہیں اور علاج معالعجے کے لیے جو اقدام کئے گئے ہیں۔ ان کی نوعیت ہنگامی ہے۔ لیکن یوکرین کی اشتراکی جمہوریت کے حالات کے مطالعے سے اصل صورت حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یوکر ینی قوم کو سب سے زیادہ جنگ کی تباہی کا شکار ہونا پڑا۔ جنگ کے دوران میں یوکرین کی صحت عامہ کا کیا حال ہوا اور مریضوں کی تندرستی کے لیے کچھ کیا جا رہا ہے، اس کی اطلا ع براہ راست یوکرین کے وزیر صحت مسٹر الارین کو نونینکو سے حاصل کی گئی ہے۔
ان کے بیان کے مطابق نازیوں کے حملے سے پہلے یوکرین کے لوگ اپنے ہاں کے اعلیٰ نظام صحت پر فخر کیا کرتے تھے۔ یوکرین کی جمہوریت میں نومیڈیکل اور دو فار میسی کالج تھے، جہاں سے تقریباً ساڑھے تین ہزار طلبا ہر سال گریجویٹ بن کر نکلتے تھے۔ یہ طبی ماہرین ہمارے ہاں کے تربیت یا فتہ طبی کارکنوں کے برابر ہیں۔ سوویت یونین میں ایسے تربیت یافتہ مرد اور عورتیں عام لوگوں کی کما حقہ خدمت کرتے ہیں اختیار ات میں ہمارے ہاں کے ڈاکٹروں اور رجسٹر ڈنرسوں کے مابین ہیں۔
1941 میں یوکرین میں 932 ہسپتال تھے ۔ جن میں 129000 مریضوں کی رہائش کا انتظام تھا۔ دیہات میں2445طبی مرکز تھے۔ بڑی ڈسپنسریوں اور رہائشی شفاخانوں کی تعداد چھ ہزار کے لگ بھگ تھی اور چھوٹی ڈسپنسریاں دس ہزار تھیں، ٹریڈ یونینوں اور اجتماعی کھیتوں کی تنظیموں کے اپنے چار سوسینی ٹوریم اور 173 آرام دتفریح گاہیں تھیں جن میں 10لاکھ سے زائد بالغ افراد اور بچے رہائش اختیار کیا کرتے تھے۔
صحت عامہ کی اس شاندار تنظیم کی بدولت جنسی بیماریوں کو ختم کرنے میں نمایاں کا میابی ہوئی۔ 1941تک آتشک کے نوے فیصد مریض صحت یاب ہو چکے تھے اور باقی ماندہ مریض زیادہ تر پرانے بیمار تھے۔ اس وقت تک جنسی ناسور کا مرض معددم ہو چکا تھا اور سوزاک خاتمے کے قریب تھا۔ اس کے ساتھ ہی سوزاک کی شرح تیزی سے گھٹ رہی تھی۔
اس کام میںعورتوں کے ہسپتال جن میں 31ہزار عورتوں کی رہائش کاانتظام تھا اور 1647 انسدادی صحت گاہیں جو حاملہ اور شیر خوار بچوں کی مائوں کے لیے مخصوص تھیں۔خاص طو رپر سے ممد ثابت ہوئیں۔
یوکرین پر نازیوں کے قبضہ کے دوران میں صحت عامہ کایہ شاندار ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ ہسپتال، رہائشی شفاخانے، کالج اور طبی ادارے جان بوجھ کر تباہ کئے گئے جو باقی رکھے گئے ان میں عوام کا داخلہ منع تھا اور وہاں جرمن سپاہ کے لئے چکلے جاری کئے گئے، جرمن سپاہیوں اور افسروں کے لئے باقاعدہ چکلوں کے قیام سے جنسی بیماری میں ہولناک اضافہ ہوا۔ لیکن اس حادثے کے اعداد وشمار شاید کبھی جمع نہ کئے جاسکیں۔ کیونکہ لاکھوں بالغ افراد اور بچے یوکرین سے جبراً نکال دیئے گئے۔ ان میں سے بہت سے ہلاک ہو گئے اور جو باقی بچے وہ طویل عرصے تک وقتاً فوقتاً یوکرین کو واپس لوٹتے رہے۔ اس لئے میڈیکل ریکارڈ کاصحیح رکھنا نا ممکن ہو گیا۔
یوکرین کی آزادی کے بعد علاج معالجے اور انسداد امراض کا کام فوراًشروع کیا گیا مئی 1945تک چھوت کی بیماریوں کے انسداد کے لئے تقریباً 766مرکز کھولے جا چکے تھے۔ چھ ہزار کے قریب عورتوں کے ہسپتال اور ابتدائی طبی امداد کے مرکز قائم ہو چکے تھے۔
مایوس اور قریب المرگ قسم کے مریضوں کی طرف فوری توجہ دینے کے لئے ساڑھے چار ہزار مرکز قائم کئے گئے اور میڈیکل کالجوں میں طلبا کی تعداد جنگ سے پہلے کے طلبا کی تعداد کے نصف تک جا پہنچی۔
جنسی بیماریوں کے خلاف الگ سے کوئی مہم نہ چلائی گئی۔ یوکرین کی صحت عامہ کو جنگ سے پہلے کے معیار پر لانے کے لئے وسیع جدوجہد جارہی ہے۔ خصوصاً تپ دق چھوت کی بیماریوں مثلاً چیچک اور گلے کے امراض وغیرہ کے انسداد کے لئے بے حد کوششیں جاری ہیں۔ امریکہ کے محکمہ صحت عامہ نے آتشک اور سوزاک کے علاج کے لئے جو نئے طریقے رائج کئے ہیں، ان کا مطالعہ کرنے کے لئے اشتراکی ماہرین امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے سریع الاثر علاج کے مرکزوں کا خاص طور سے مشاہدہ کیا۔ سوویت یونین میں پنسلین کو رائج کیا جارہا ہے۔ لیکن یوکرین کے ماہرین طب کا خیال ہے کہ جنسی بیماری کے ازالے کے لئے ان کی جنگ سے پہلے کے زمانے کی ایجاد گلو کو ز ٹریٹپو سائیڈ ہی کافی ہے۔
جو علاقے جرمنوں سے آزاد کرائے گئے ہیں، ان میں یوکرین کومثالی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں صحت کا مسئلہ بہت نازک ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہمارے لئے ایک چیلنج رکھتی ہے کہ یوکرین کی حکومت کے اس امر پر زور دینے کے باوجود کہ جرمنی کے تسلط کے دنوں میں وہاں کی صحت عامہ بے حد تباہ ہو گئی اور جنسی بیماریوں کا مسئلہ ہنگامی صورت اختیار کر گیا، یوکرین میں عصمت فروشی کے خلاف خاص جدوجہد کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ اگرچہ یہ سماجی علت دوبارہ نمودار ہو گئی ہے۔ لیکن اکاد کا واردات تک محدود ہے۔
آج اشتراکی اخبارات اپنے ملک کی ازسر نو تعمیر کے زمانے میں نااہل منتظمین کی بے رحمانہ تنقید اور بحالیات کے مسائل کے کھلے اعتراف نزاکت سے بھر پور ہیں۔ لیکن دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ وہ جنسی بیماری کے مسئلے پر کوئی خاص زور نہیں دیتے۔ کیونکہ اب وہاں اس مرض کو تپ دق اور جلد کی بعض وبائی بیماریوں سے کم خطرناک تصور کیا جاتا ہے اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سوویت یونین دو تین سال کے عرصے میں آتشک اور سوزاک کی بیماریوں کی اتفاقی امراض کی سطح پر لے آئے گا۔

قتل ۔ صیغہء راز
سوویت یونین نے بد معاشی، بدکاری اور بیماری پر فتح پائی، اسے معاشرتی اصلاح کے ایک قابل دید مگر الگ مظہر کی حیثیت سے دیکھنا سخت غلطی ہو گی۔ ہم پوری طرح بتا چکے ہیں کہ وہاں کس طرح بدکاری اور بیماری کے انسداد کی کوشش میں نمایاں کامیابی ہوئی، لیکن ہم نے جو کچھ اب تک بیان کیا ہے وہ اس وقت تک بے معنی ہوگا۔ جب تک ہم اشتراکی اخلاقیات کے وسیع تصور یعنی ”بنی نوع انسان کے سائنسی اصولوں کے مطابق اصلاح” کی دلیرانہ جدوجہد میں اسے موزوں مقام پررکھ کر نہیں دیکھتے۔
ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ انقلاب کے فوراً بعد جو سوالنا مہ روسی عورتوں میں پھرایا گیا اس کے جواب میں جو کچھ انہوں نے بیان کیا اس سے اشتراکی سائنسی دانوں اور سیاسی رہنمائوں کو یقین ہو گیا کہ بدکاری اور گناہ کا بنیادی سبب معاشی ہے۔ یعنی اس کا محرک افلاس اور بے روز گاری ہے۔ تاہم انہیں معلوم تھا کہ صرف بے روز گاری کو ختم کر دینے سے، جیسا کہ 1929کے بعد کیابھی گیا۔ منظم بدمعاشی اور تجارتی بدکاری خود بخود ختم ہو جائے گی، بلکہ برعکس نتیجہ نکلنے کا امکان ہے۔ اگر معاشی منصوبہ ہرخواہشمند عورت کومستقل ملازمت نہ دلا سکتا، تو یہ جدوجہد بے کار ثابت ہوتی، پانچ سالہ تاریخی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے جو عظیم الشان صنعتی ترقی ہوئی، اس سے نہ صرف موجودہ جنگ (دوسری جنگ عظیم) میں سرخ فوج کی شاندار فتوحات کی بنیاد پڑگئی بلکہ روس کے ہر باشندے کی زندگی پر بھی نہایت خوشگور اثر پڑا۔
اب تک بعض قاریوں کے ذہن میں یہ سوال ہو گیا ہو گا کہ طوائف نے اپنا پیشہ چھوڑ کر باعزت ذریعہ معاش اختیار کر لیا، تو اس کے بعد سوویت یونین کی عام اخلاقی حالت کا کیا ہوا؟یا زیادہ واضح الفاظ میں سوویت یونین کے مردوں، عورتوں اورنوجوانوں کے جنسی تعلقات کاکیا ہوا؟ کیا جنسی بیماری اور عصمت فروشی کے خاتمے سے معزز شہریوں کے اخلاق گر گئے؟
ہم اس سوال کو اور بھی واضح اور کھلے الفاظ میں یوں بیان کر سکتے ہیں کہ آیا آزاد محبت کے اس نام نہاد نئے رجحان کے پردے میں، جس کو گور کی اورلنین نے سختی سے مخالفت کی تھی، طوائفوں کا کام عام روسی عورتوں نے سنبھال لیا؟
نہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہوا، اسے چند لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ وہاں نہ صرف عصمت فروشی ختم ہو گئی، بلکہ بداخلاقی کے ہرمظہرمثلاً نام نہاد آزاد محبت اور زنا وغیرہ پر جس کامیابی سے قابو پایا گیا، اس کی مثال ہمارے ملکوں کی تاریخ میں قطعاً ناپید ہے اور اخلاقی اصلاح کا یہ سلسلہ آج تک کامیابی سے جاری ہے۔ اشتراکی سائنس دانوں نے جس انقلابی تبدیلی کی پیش گوئی کی تھی۔ وہ حرف بحرف پوری ہوئی،کیونکہ سماجی اور اقتصادی منصوبہ بندی کی بدولت اکثریت کے لیے محبت کی شادی اور اس کے ذریعے ذاتی تسکین کی اعلیٰ ترین صورتوں کا حصول ممکن ہو گیا۔
کہاں محبت اور شادی اور کہاں سائنسی اور اقتصادی منصوبہ بندی! ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں؟ اکثر قاریوں کے نزدیک یہ بیان مہمل ہو گا، لیکن یہ حقیقت ہے اور اس کے حق میں اس قدر فلسفیانہ دلائل دیئے جاسکتے ہیں کہ اس کتاب میں کئی بابوں کا اضافہ ہو جائے، لیکن ہم اس کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے، کیونکہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس دلچسپ موضوع پر اشتراکی اخباروں میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ بے حد طویل اور صخیم ہے۔ گزشتہ واقعات پر ایک سرسری نظر دوڑانے سے معلوم ہو گا کہ اس سلسلے میں سوویت یونین میں جو بحث چلی وہ دو متضاد نظریوں پر مشتمل تھی۔
ایک طرف ایسے لوگ تھے جو کہتے تھے کہ جہاں تک جنسی معاملات کا تعلق ہے انسانی تجربے کو ٹھوس حقائق شاہد ہیں کہ فطرت انسانی میں تبدیلی اوراصلاح کی کوئی امید نہیں اور اگر عصمت فروشی اور بدکاری کا عارضی طورپر ختم بھی کردیا جائے مرد وعورت زنا بد اخلاقی کو پھر بھی ترک نہیںکریں گے۔
دوسری طرف وہ سائنس دان اور ماہرین سیاست تھے جو اس بات پر مصر تھے کہ تاریخ میں آج تک انسانیت کوبااخلاق طریقے سے زندگی گزارنے اور محبت کرنے کے عملی مواقع بہم ہی نہیں پہنچائے گئے اور انہوں نے اشتراکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اٹھارہ کروڑ انسانوں کو ایسے مواقع بہم پہنچانے چاہئیں۔
جیت دوسرے گروہ کی ہوئی اور سوویت یونین اپنے تمام سماجی تجربوں میں سب سے زیادہ غیر معمولی تجربے یعنی اخلاقی منصوبہ بندی میں مصروف ہو گیا۔ اور اس منصوبہ بندی کے مطابق پہلا قدم اٹھتے ہی جو واو یلا مچایا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ روس سے باہر کی دنیا کو اشتراکی مقاصد کا ذرہ برابر علم نہ تھا اور مسلسل بیس برس تک ان مقاصد کو سمجھنے سے دانستہ انکار کیاگیا۔ دراصل پہلی نظر میں لگا بھی یوں کہ اخلاقی اصلاح کا ابتدائی قدم الٹی طرف اٹھا ہے۔ یعنی وہاں اخلاق کی اصلاح کے بجائے ان کی مکمل تباہی مقصود ہے اور وہ اقدام یہ ہے کہ سوویت یونین نے ایک تاریخی قانون کے ذریعے اسقاط حمل کو جائز قرار دے دیا اور ہر خواہش مند عورت کو حمل گرانے کی آزادی دے دی۔
اسقاط حمل۔ پیدائش سے پہلے ہی انسانی زندگی کی ہلاکت۔ یہ حرکت مہذب سماج میں دینی اور دنیا وی دونوں قسم کے اصولوں کے قطعاً منافی ہے۔ لوگ حمل گرانے کو قتل ہی کی ایک صورت تصور کرنے میں حق بجانب ہیں، کیونکہ ہونے والے ماں باپ اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے نوزا ئیدہ بچے کا خون کرتے ہیں لیکن سوویت یونین کے دشمن اور دوست اس روشن حقیقت کو نہ دیکھ سکے کہ اشتراکی سائنس دان اور سیاسی رہنما بھی انہی کی طرح اسقاط حمل کو انسانی قتل اور بداخلاقی تصور کرتے ہیں اور اس فعل کو فرد اور قوم دونوں کی بہتری کے خلاف جانتے ہیں پھر سوویت حکومت نے اس غیرمہذب فعل کو کیونکر قانوناً جائز تسلیم کر لیا؟
اس سلسلے میں جو طویل نظری بحث ہوئی، اس کی تفصیل میں جانے سے کوئی فائدہ نہیں، ہمارے ملکوں میں اسقاط حمل کے خلاف یا حمایت میں بے شمار مذہبی اور علمی چیزیں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ دراصل اتنا پر اسرار اور ناقابل فہم نہیں سوویت یونین میں اسقاط حمل کو عصمت فروشی کی طرح ایک سماجی جرم مانا جاتا ہے۔ جس کا بنیادی سبب انسانوں کا عام افلاس ہے۔
اس مسئلے کے متعلق جو الجھائو پایا جاتا ہے اسے جدلیات کی مدد سے فوراً دور کیا جا سکتا ہے۔ انقلاب روس کے وقت کی بین الاقوامی صورت حال کا جائزہ لیجئے۔اس وقت دوسرے مہذب ممالک کی طرح زار شاہی روس میں بھی حمل گرانا قانوناً جرم تھا او راس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سخت سزا مقرر تھی۔ اس کے باوجود تمام ممالک میں اس مذموم فعل کا ارتکاب وسیع پیمانے پر ہوتا تھا عام طور سے حمل گرانے کا کام ڈاکٹر انجام نہ دیتے تھے۔ بلکہ اس کے ذمہ دار ایسے جرائم پیشہ لوگ تھے جنہیں شاید ہی کبھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہو گا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جرمنی میں ہر سال دس ہزار عورتوں کی موت خلاف قانون اسقاط حمل سے واقع ہوتی تھی۔ اس سے کئی گنا عورتیں آپریشن کے دوران میں عمر بھر کے لیے زخمی اور بیمار ہو جاتی تھیں۔ لیکن یہ تعداددہ ہے جو حکومت کے علم میں آئی اور یہ ایسے واقعات کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے جو حکومت کی نظروں سے پوشیدہ رہے۔
شمالی امریکہ میں نامکمل شماریات سے اندازہ لگایا گیا کہ وہاں ہر سال لاکھوں حمل گرائے گئے۔ زار شاہی روس میں ہر سال پچیس ہزار عورتیں اسقاط حمل کے سبب مرتی تھیں۔
یہ حالت اس وقت تھی۔ جب کہ ہر ملک میں اسقاط حمل کے خلاف سخت قانون رائج تھے۔
اب موجودہ حقائق کو لیجئے۔ اشتراکی کی تجربہ آج سے بیس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ سوویت یونین میں دوسرے ملکوں کی طرح اسقاط حمل کے خلاف پھر سے قانون موجود ہے اور کئی سال سے اسقاط حمل کو ایک جرم تصور کیا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس قانون کو 1944 میں پہلے سے بھی زیادہ سخت بنا دیا گیا۔ آخر کیوں؟ کیا اشتراکی کی تجربہ ناکام رہا؟ نہیں! یہ تجربہ ناکام نہیں رہا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عصمت فروشی کی طرح روس میں اسقاط حمل بھی نا پید ہے۔ دوسرے ملکوں میں زبردست مذہبی اور قانونی مخالفت اور طبی سہولتوں کے فقدان کے باوجود اس جرم کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اور ہر سال بے شمار عورتیں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ یا شکم میں زخم آجانے کی وجہ سے سد بیمار ہو جاتی ہیں۔
اب اپنے برعظیم (امریکہ) کی صورت حال کو لیجئے، بہت سے ڈاکٹروں نے حال ہی میں تفتیش فرمائی ہے۔ مثال کے طو رپر نفسانی امراض کے معالج اے اے برل نے نیویارک کی اکادمی ادویہ کے اس اجتماع کے سامنے جواسقاط حمل کے مسئلے پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا تھا، یہ بیان دیا کہ ”اسقاط حمل ایک لانیحل سماجی مسئلہ ہے۔ کیونکہ ہمیں اس کی نسلی پیچیدگیوں کا صحیح علم نہیں”۔
اور ”نسلی پیچیدگیوں” سے ان کا مطلب کیا ہے؟ان کی مرادً ان تبدیلیوں سے ہے جو ارتقا کے دوران میں رونما ہوئیں”۔
آگے چل کر ڈاکٹر برل ذرا صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ ”اسقاط حمل ثقافتی نا ہمواری کی علامت ہے”…… حاصل کلام یہ کہ فطرت، انسان کو افزائش نسل پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن تہذیب اسے اس فعل سے باز رکھنے یا صرف خاص قوانین کے تحت ایسا کہ کرنے کی اجازت دینا بہتر خیال کرتی ہے۔
آخر میں ڈاکٹر برل سفارش کرتے ہیں کہ ”ہمیں چاہیئے کہ ہم ایماندار ڈاکٹروں کو مستحق افراد کی خواہش اسقاط حمل پوری کرنے کی اجازت دے دیں اور اس طرح عام حمل گرانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں”۔
گویا اخلاقیات کو ڈاکٹروں کی تحویل اور حفاظت میں دے دیا جائے۔
اور یہ فیصلہ ڈاکٹر کے دفتر میں ہو کہ کسی عورت یا نوزا ئیدہ بچے کو جینے کا حق ہے یا نہیں۔ یعنی ہر ڈاکٹر بیک وقت سلیمان بھی ہواو رجلا د بھی۔
لیکن امراض نفسانی کے اس ماہر کی رپورٹ میں نہ اس سوال کا کوئی جواب ملتا ہے کہ اسقاط حمل کی کہاں تک آزادی ہونی چاہیئے اور نہ یہ پتہ چلتا ہے کہ موجودہ صورت حال کیا ہے؟
حال ہی میں ڈاکٹر آسلون، لاہمن، متیوس اور مثل نے ایک موقر جریدے میں اسقاط حمل کے مسئلے کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے ان حقائق کو فاش کر دیا ہے۔ جنہیں محکمہ صحت عامہ اور پریس عوام کے سامنے لانے کی جرأت نہ کرتے تھے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسقاط حمل کے جتنے واقعات کی پڑتال کی ہے ان میں تیس فیصد کے مجرم بازاری ڈاکٹر ہیں او ر35فیصد سے زیادہ کی ذمہ داری دائیوں پر ہیں اوسطاً پچاس فی صد حمل ایسی عورتوں نے ضائع کرائے جو کنواری تھیں یا پھر مطلقہ اور بیوہ۔
یہ مشہور حقیقت پسند ڈاکٹر فرماتے ہیں” کہ گزشتہ بیس تیس سال سے حمل گرانے کی واردات میں ہولناک اضافہ ہوا ہے۔ یہ حقیقت اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ حمل گرانے کا مسئلہ دن بدن زیادہ اہم اور نازک ہوتاجارہا ہے”۔
ہو سکتا ہے وہ قدرے مبالغہ کرتے ہوں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں صرف 1941 میں 6لاکھ 80 ہزار حمل ضائع کئے گئے اور جدید ترین حفاظتی طریقوں کے استعمال کے باوجود امریکہ میں ہر سال آٹھ ہزار عورتیں اس مجرمانہ اقدام سے موت کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ان ڈاکٹروں نے اسقاط حمل کی بڑھتی ہوئی تعداد کا سبب تلاش کرتے وقت کسی ”نسلی پیچیدگی” کے پراسرار بہانے کا سہارا نہیں لیا۔ بلکہ انہوں نے مندرجہ ذیل ٹھوس سماجی اسباب بیان کئے ہیں۔
حرام کی اولاد جننے پر رسوائی، والدین بننے کی ذمہ داریوں سے گریز، عام افلاس اور گزشتہ دس برس کا مسلسل اقتصادی بحران، کنبے کی تعداد کم سے کم رکھ کر معاشی معیار بلند کرنے کی خواہش، پہلی جنگ عظیم کے بعد سے نظر یات کا لا مذہبیت کی طرف عام جھکائو وہ اس مسئلے کو ہنگامی قرار دیتے ہیں۔ کیا وہ جھوٹ کہتے ہیں؟
ذرا خیال کیجئے کہ امریکہ میں ہر سال چھ لاک اسی ہزار بچوں کو پیدائش سے پہلے ہی ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ آپ اس کتاب کے مطالعے میں مصروف ہیں اور ادھر ہمارے برعظیم میں نوزائید ہ زندگیوں کا قتل عام جاری ہے۔ فی منٹ فی جان کے حساب سے۔
دوسرے جمہوری ملکوں کا بھی کم وبیش یہی حال ہے، عوام اس صورت حال سے تاریکی میں ہیں۔ منظم مزدور بے حس ہے، طبی اور قانونی ادارے اصلیت کو چھپاتے ہیں۔ پادری اپنے منبروں پر خاموش ہیں اور ادھر اس اخلاقی جنگ میں جو ہمارے بے اخلاق معاشرے میں جاری ہے۔ لاکھوں جانیں تلف ہورہی ہیں۔
ہمارے ہاں ایسے ڈاکٹروں کی بھر مارہے جو برل کی طرح کہتے ہیں کہ ”اسقاط حمل ایک لانیحل مسئلہ ہے، کیونکہ ہمیں ان نسلی پیچیدگیوں کا صحیح علم نہیں جو ارتقا کے دوران میں رونما ہوئیں”۔
ان حضرات کو چاہیئے کہ وہ ایک مرتبہ سوویت یونین ہو آئیں۔ کیونکہ سائنس وہاں ”نسلی پیچدگیوں” کے خاتمے اور ”ثقافتی ناہمواریوں” کے سلسلے میں بہت کچھ کر گزری ہے۔ آئیے ہم دیکھیں کہ وہاں کیا تبدیلیاں آئیں۔
انقلاب کے فوراً بعد اشتراکی سائنس دان اس فیصلے پر مہپنچے کہ اسقاط حمل کا مسئلہ فوری توجہ کا طالب ہے، لہٰذا انہوں نے سوویت حکومت کو اس بات کا یقین دلایا کہ اسقاط حمل کی روک تھام نہ قوانین امتناعی کے ذریعے ہو سکتی ہے اورنہ ڈاکٹروں کو اندھا دھند انسانی زندگی تلف کرنے کی اجازت دینے سے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اسقاط حمل ایک سماجی مسئلہ ہے، جس کا تعلق معاشی اور اخلاق سے ہے۔ اس کے خلاف خفیہ جہاد نہیں کیا جا سکتا، بلکہ تمام قوم کو اس کے اسباب دور کرنے اور نئے قومی اخلاق کی تبدریج تعمیر کے لیے وسیع پیمانے پر جدوجہد کرنی پڑے گی
لہٰذا سوویت حکومت نے عارضی طور پر اسقاط حمل کو قانوناً جائز قرار دید دیا لیکن ساتھ ہی اس پر سخت سماجی پابندیاں لگا دیں تاکہ رفتہ رفتہ اسے ختم کیا جا سکے۔
اگرچہ اس میں دو متضاد باتیں کہی گئی ہیں، لیکن حقیقت بالکل برعکس اور عام فہم ہے، ہوا یوں کہ سوویت یونین میں اس قانون کے اجرا کے ساتھ ہی خاص ہسپتال کھولے گئے۔ جن میں نہ ہر قسم کی طبی سہولت بہم پہنچائی جاتی تھی بلکہ ان میں مشورے کے لیے مشاورتی بورڈ بھی بٹھائے گئے جو عورتیں یا لڑکیاں حرام کا بچہ نہ جننا چاہتیں انہیں ہدایت دی جاتی کہ ان ہسپتالوں میں جائیں اور خفیہ مدد لیں۔
سوویت یونین کے بدخواہوں کے پراپیگنڈے اور مذہبی لوگوں کے خیال کے برعکس ان ہسپتالوں کا کام ”خفیہ قتل” نہ تھا، بلکہ عورتوں کو عمل جراحی یعنی آپریشن سے باز رکھنے کی کوشس کرنا تھا۔ اشتراکی حکومت کے ابتدائی ایام میں تمام ملک میں افلاس اور تباہی کا عمل تھا۔ اس کے باوجود مشاورتی بورڈ 50فیصد سے زائد عورتوں کو حمل ضائع کرنے سے باز رہنے اور مائیں بننے پر رضامند کرنے میں کامیاب ہو گئے اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ محض مشاورتی بورڈوں کے قیام سے روس میں حمل گرانے کی واردات کی شرح پہلے سے آدھی رہ گئی تھی۔ اس کا سبب؟ جن لڑکیوں کو نا جائز حمل ٹھہر جاتا ہے۔ ان کی اکثریت پریشان اور خوفزدہ ہوتی ہے، کیونکہ انہیں کوئی ذمہ دار اور خیز خواہ مشیر نہیں ملتا جس سے وہ مشورہ کر سکیں۔ حمل کے ضائع کرنے کے متعلق ان کا علم سنی سنائی باتوں تک محدود ہوتا ہے۔ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ فوراً ایسا کر گزریں۔ تاکہ ان کا راز فاش نہ ہو اور وہ رسوائی سے بچ جائیں۔ اس قسم کی لڑکیوں کو اگر ہمارے ملکوں میں تجربہ کار اور ہمدرد مشیرمل جائیں، انہیں گرفتاری کا خوف نہ رہے اور بچوں کوجنم دینے کافیصلہ کرنے پر انہیں ایام زچگی میں امداد اور بعدا زاں مستقل ملازمت کا یقین دلایا جائے تو نہ جانے کتنی اس حرکت سے باز رہنے کا فیصلہ کر لیں۔
روس میں ٹھیک اکیاون فیصد لڑکیوں اور عورتوں نے یہی فیصلہ کیا۔باقی کے اصرار پر آپریشن کر دیئے گئے۔آخر سرکاری ہسپتالوں میں یہ حرکت کیونکر گوارا کی گئی؟ وجہ صاف ہے، اگر نہیں وہاں سے مایوس لوٹناپڑتا تو وہ سیدھی جرائم پیشہ لوگوں اورناتجربہ کار ڈاکٹروں کے پاس پہنچتیں۔ اور عمر بھرکے لیے روگی ہو بیٹھیں۔ لیکن سرکاری ہسپتالوں میں ان کے آپریش امراض زنانہ کے ماہرین نے بڑی احتیاط اور بے ضرر آلات کے ذریعے کئے اور کوئی موت واقع نہ ہوئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کوئی ماہر اورتجربہ کار ڈاکٹر آپریشن کرے تو عورت کے لیے جان لیوا ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ روس میں اسقاط حمل سے واقع ہونے والی اموات کی شرح یک لخت صفر کے برابر جا پہنچی، دوسرے ملکوں میں جوخلاف قانون آپریشن ہوتے ہیں جو آپریشن جرائم پیشہ لوگ اور عام ڈاکٹر ضروری آلات کے بغیر کرتے ہیں۔ ان سے واقع ہونے والی اموات کے اعداد وشمار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اشتراکی ڈاکٹروں نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے بارہ سال کے عرصے میں تقریباً تین لاکھ عورتوں کی جانیں بچائیں، چونکہ حکومت کی طرف سے محفوظ اور خفیہ آپریش کا بندوبست کر دیا گیا او رگھبراہٹ میں ناتجربہ کار اور جرائم پیشہ لوگوں سے مہنگے آپریش کرانے کی ضرورت نہ رہی۔ اس لیے بارہ سال کے عرصے میں چند اموات کی اطلاع ملی۔ جن کا موجب خلاف قانون آپریش تھا۔ سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن کو قانونی قرار دینے کے ساتھ ہی سوویت حکومت نے ایک اور قانون کے ذریعے خلاف قانون آپریشن کے لیے سخت سزا مقرر کر دی۔
اس اثناء میں اس مہم نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ عورتیں آخر یہ آپریشن کراتی کیوں ہیں؟ اس لیے کہ وہ اتنی بدکردار ہیں کہ ان کی اصلاح ممکن نہیں، یہ جواب بالکل مضحکہ خیز ہے۔ اس مسئلے کواجتماعی زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ یہ اقدام اس لیے کرتی ہیں کہ ان میں اولاد کی پرورش کی طاقت نہیں ہوتی۔ بے شمار عورتوں اورلڑکیوں سے دریافت کرنے کے بعد اشتراکی سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے کہ جدید سماج میں اولاد والی ماں کی تعریف اور قدر زبانی تو بہت ہوتی ہے لیکن عملاً اکثر عورتوں کے لیے بچے کی پیدائش اور پرورش سخت سزا کے برابر ہے۔ حاملہ عوت سے ملازمت چھن جاتی ہے۔ شادی سے پہلے لڑکی کا حاملہ ہو جانا بہت بڑی ذلت اور رسوائی ہے۔ اولاد والی عورت کے لیے زیادہ بچے جننا خود اپنے آپ، اپنے شوہر اور پہلے بچوں کو معاشی مصیبت میں مبتلا کرنے کے برابر ہے۔ اگر عورت حمل اور زچگی کے دوران میں طبی امداد حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تو اس کے لیے بچے کی پیدائش خطرناک جسمانی عذاب سے کم نہیں، جو اس کی ہلاکت کا موجب بھی ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں سوویت حکومت نے جو اقدام کئے انہیں بہت سے سماجی اور طبی ماہرین نے تفصیلاًبیان کیا ہے، مختصراً اقدام ایسے قوانین پرمشتمل ہیں، جن میںہر کنواری یا شادی شدہ عورت کو ایام حمل میں مفت طبی امداد چھ سے بارہ ہفتے تک رخصت با تنخواہ صحت یاب ہونے کے بعد ملازمت پر واپس آنے کا حق، مقام ملازمت میں دو مہینے سے پانچ سال کی عمر تک بچے کی مفت پرورش اور نگہداشت، چھاتی سے دودھ پلانے والی مائوں کو روزانہ کئی گھنٹے کی چھٹی اور مالی ومعاشی امداد کی ضمانت دی گئی ہے۔
ان قوانین کے نفاذ کے ساتھ ہی وسیع پیمانے پر تعلیمی مہم چلائی گئی اور عام شہریوں کو ذہن نشین کرایا گیا کہ حکومت اولاد والی عورتوں کے لیے تمام سماجی اور معاشی مصیبتوں اور سزائوں کو دور کر رہی ہے اور ہر عورت کے لیے ماں کے فرائض با اخلاق طریقہ سے سرانجام دینا ممکن ہو جائے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ نئے سماج کے ایک محنتی فرد کی طرح قابل احترام حیثیت سے زندگی بسر کر سکے گی۔
اس تجربے کا تعلق اخلاقیات یعنی انسانی فطرت کی اصلاح سے تھا اور یہ تجربہ ایک ایسے ملک میں کیا گیا، جہاں بچوں کی شرح اموات اتنی زیادہ تھی، جتنی آج کل ہندوستان یا کیوبک میں ہے اور آج سوویت یونین میں بچوں او رمائوں کی شرح اموات دنیا کے تمام ملکوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے، وہاں ہر سال 60لاکھ سے زیادہ بچے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں ناجائز بچوں کی تعداد صفر کے برابر ہے، حمل کو ضائع کرنا نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ اب یہ فعل بدفی الواقعہ ختم ہو گیا ہے۔
نئے جنسی اخلاق کی تعمیر کے متعلق اس تاریخی تجربے کے آخری حصے کا جائزہ لینا باقی ہے۔ جس کا تعلق شادی اور خاندان سے ہے۔
ماں بننے والی عورتوں کے راستے سے تمام معاشی رکاوٹوں کا دور کر دینے سے سوویت یونین کے عام باشندوں پر نہایت خوشگوار اثر پڑا۔ ماں اور بچے سے متعلق قوانین عین اس وقت جاری کئے گئے جب کہ ملک بھر میں عصمت فروشی کے انسداد کی مہم جاری تھی۔ اس لیے عورتوں کو ہرقسم کی لوٹ کھسوٹ سے نجات دلانے کی جدوجہد اپنے آخری مرحلے پر پہنچ گئی اور مذکورہ قوانین کی بدولت مرد وعورت میں اصلی مساوات قائم ہو گئی شادی کی راہ میں جتنی معاشی اور مالی رکاوٹیں تھیں وہ دور ہو گئیں اور تاریخ میں یہی خواب پہلی مرتبہ شر مندہ تعبیر ہوا کہ ”جوڑ ابھی مجر وفرد جیسی زندگی گزار سکتا ہے”۔ نوجوان عشاق کے لیے شادی کرنا اور والدین بنناممکن اور آسان ہو گیا، کیونکہ طلبہ تک کو وظائف ملتے تھے اور انہیں بھی دوسرے افراد کی طرح سماجی تحفظ حاصل تھا۔ اس سے نوجوانوں کی اخلاقی اصلاح پر بہت گہرا اثر پڑا ، شادی میں تاخیر کی مصیبت کا خاتمہ ہو گیا اور نوجوان اپنی زندگیوں کی تشکیل کے نازک مرحلے میں محبت کی شادی اور والدین بننے کے مفید تجربے سے مستفیض ہوئے، نتائج نے ثابت کر دیا کہ اشتراکی کی سائنس دان ٹھیک کہتے تھے کہ بد اخلاقی اور جنسی بے رہروی کی محرک انسان کی ”فطرت” نہیں بلکہ بد اخلاق اور گھٹیا قسم کی زندگی کے غیر فطری طریقے ہیں۔غیر اخلاقی سماج اور معاشی نظام مردوں اور عورتوں کو بدی کی طرف دھکیلتا ہے۔ کیونکہ اس میں شادی او رازدواجی زندگی وبال اور بھاری بوجھ ہے اور ہر دو اصناف یعنی مرد عورت برابر کے مظلوم ہیں۔ سوویت یونین سے 20سال کے عرصے میں اخلاقی دو عملی ختم ہو گئی۔ مردوں نے محسوس کیا کہ شادی اور ازدواجی زندگی کے راستے سے رکاوٹیں دو رکرنے اور عورتوں کو سماجی اور معاشی مساوات دینے سے نہ صرف عورتوں کو اوپر اٹھایا جا رہا ہے بلکہ انہیں بھی اخلاقی پستی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جا رہا ہے۔
سوویت یونین کے مشہور قوانین طلاق آزادی نسواں کی مہم کا ایک اہم جزو تھے۔ وہ ہمارے ہاں کے قوانین سے بالکل مختلف تھے اور ان کا مقصد ہرگز وہ نہ تھا جو سوویت یونین کے بد خواہ دانستہ طور پر بتایا کرتے تھے۔
طلاق سے متعلق اشتراکی پالیسی کا مقصد انجام کار شادی اور خاندان کو تقویت بخشنا تھااس کی بنیاد محبت اور شادی کے اس تاریخی تجزیے پر تھی جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ سوویت یونین کے ابتدائی قوانین طلاق بہت نرم تھے۔ ان کے مطابق طلاق کے طالب مرد یا عورت کا رجسٹر یشن آفس کی معرفت فریق مخالفت کو اتنا لکھ بھیجنا کافی تھا کہ شادی ختم ہوئی۔ بچوں کی حفاظت اور پرورش کے بندوبست کے علاوہ کوئی اور عدالتی کاروائی نہ تھی اور رجسٹر یشن آفس کی فیس سینما کے ٹکٹ کی قیمت سے بھی کم تھی۔ سوویت یونین کے قانون سازوں نے ایسی ہر ایک شادی کو توڑ دینے کے حق کو تسلیم کیا، جس کی بنیاد محبت پر نہ ہو اور وہ اپنی اس منطق پر آخر تک قائم رہے کہ صرف دائمی محبت ہی شادی کا ثبوت ہے۔ مرد وعورت میں کسی وجہ سے محبت ختم ہو جائے تو شادی کو بھی ختم ہی سمجھنا چاہیئے اس لیے انہوں نے وہ تمام قانونی اور معاشی پابندیاں ہٹا دیں جو طلاق کی راہ میں حائل تھیں وجہ صرف یہ ٹھوس حقیقت تھی کہ اگر شادی شدہ جوڑے میں سے کوئی فریق کسی غیر مرد یا عورت سے ناجائز جنسی تعلقات قائم کرے، یعنی زنایا عصمت فروشی کے ذریعے جذبات کی تسکین کرنا چاہے تو سمجھا چاہیئے کہ ان کی شادی محبت پر مبنی نہیں اور ان کی زندگی سوگوار ہے۔
مطلب یہ کہ سوویت یونین میں قوانین طلاق کو بے میل اور جبر کی شادیوں کو ختم کرنے یا ایسی شادی کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا جنہیں خلاف اخلاق تصور کیا جاتا تھا۔ زار شاہی روس میں ایسے بے شمار رشتے ناطے لاکھوں تھے۔ لہٰذا غیر مشروط طلاق کے ذریعے بے جوڑ شادیوں کی شکست اور محبت کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کے قوانین اور دلائل آفاقی نہیں ہو سکتے۔ ان کا اطلاق محدود ہے۔ بہت سے لوگ اس صورت حال کا تصور کرتے ہی جو طلاق کے نرم قوانین کے ہمہ گیر نفاذ پر ہماری جمہوریتوں میں پیدا ہوسکتی۔ ان کی سخت تروید اور مخالفت کرنے لگیں گے۔ ہمارے ہاں ایسا قانون نافذ کر دیا جائے تو کیا نتیجہ ہو گا؟ یہی کہ تقریباً تمام شادیاں فوراً ہی ٹوٹ جائیں گی۔ کیونکہ ہمارے ہاں اکثر رشتے طلاق کی قانونی اور مالی مشکلات کے طفیل قائم ہیں۔ یہ حقیقت بھیانک ضرور ہے۔ لیکن قابل تردید نہیں۔انقلاب کے بعد مسلسل کئی سال تک روس میں بھی یہی صورت حال برپا رہی۔ لیکن آٹھ دس سال کے عرصے سے سوویت یونین میں طلاق کے واقعات کی تعداد متواتر گر رہی ہے۔ اس کا مقابلہ دوسرے ملکوں سے کیا جائے تو طلاق کی واردات کی کثرت اور سہل قوانین طلاق کی تحریک کی شدت پر آدمی چونک جاتا ہے۔ حالانکہ مذہبی لوگ اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس سوویت یونین میں طلاق کو سخت تر بنایا جا رہا ہے۔ نئے سماجی اخلاق کی بدولت شادی پائیدار ہو گئی ہے جو لوگ پے درپے طلاق دے کرنت نئی شادیاں کرتے ہیں، ان کی مذمت کی جاتی ہے۔ انسانی محبت کی شائستگی ، حقیقی محبت کی پائیداری اور اس حیاتی ونفسانی حقیقت پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ انسانوں میں جنسی تعلقات کی اعلیٰ ترین صورت دو افراد یعنی ایک مرد اور ایک عورت کا ایک دوسرے کے لیے وقف ہو جانا ہے اور جنسی تعلقات کی مکمل تسکین محض اس شادی میں ممکن ہے۔ جو مرتے دم تک نہ ٹوٹے باہمی محبت پر قائم رہے اور جو مشرف بہ اولاد ہو۔ 1944 کے موسم گرم میں ماسکو میں شادی اور ازدواجی زندگی کے متعلق سلسلہ قوانین کا اعلان کیا گئے اور سوویت یونین کے بعض نام نہاد دوست یہ جان کر عجیب شش وپنچ میں مبتلا ہو گئے کہ وہاں کوئی شخص طلاق خرید نہ سکے گا۔ گویا طلاق نہ ہوئی ڈاک کا ٹکٹ ہوا لیکن عام ناقد مطمئن نظر آتے ہیں اور بعض مبصر سٹالن کی طرف اخلاق آموز انگلی اٹھائے ہوئے ہیں کہ روس ہمارے طر زندگی کی طرف مائل ہے۔ کتنی شرمناک سہل انگاری ہے۔
ہمارے ملکوں میں عصمت فروشی عام ہے۔ نابالغوں میں جرائم کا دور دورہ ہے۔ جنسی بیماری کسی انسدادی کوشش سے متاثر نہیںہوتی، شراب نوشی عام ہے۔ حمل گرانے کے واقعات پہلے سے دگنے چوگنے اور طلاق کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ایسے مبصر پائے جاتے ہیں جو یہ کہہ کر ہمیں تسلی دیتے ہیں کہ روس ہماری طرف مائل ہے۔ گویا بداخلاقی میں وہ ہماری تقلید کر رہا ہے۔
سیدھی بات ہے کہ شادی، ازدواجی زندگی، طلاق اور اسقاط حمل کے متعلق سوویت یونین کے حالیہ قوانین نئے اخلاق کی تعمیر کی مسلسل او سائنٹیفیک منصوبہ بندی کی ایک کڑی ہے۔ دوسری لفظوں میں وہاں اس منزل مقصود کی طرف ایک اور قدم آگے بڑھایا گیا ہے۔ جس کی طرف ہم اس کتاب میں مسلسل اشارہ کرتے چلے آرہے ہیں۔
سوویت یونین میں شادی کا نظام اخلاقی محبت کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے جس طرح وہاں اسقاط حمل کے اسباب ختم ہو جانے پر چند سال سے اس کے خلاف سخت قوانین دوبارہ نافذ کر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح اب وہاں اس امر کی ضرورت اور امکان پیدا ہو گیا ہے کہ قوانین طلاق کو سخت کر دیا جائے، کیونکہ آزاد اور آسان طلاق کی ضرورت جو وہاں پہلے محسوس کی جاتی تھی، اب باقی نہیں رہی۔ اس کا پہلا سبب تو یہ ہے کہ وہاں شادی کی ناکامی کے معاشی اخلاقی اور سماجی اسباب بڑی حد تک ختم ہو گئے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ اس ترقی یافتہ صورتحال کا کھلا اعتراف قومی ضابطہ قانون میں کرنا ضروری ہے۔ یہ ہیں قوانین طلاق کی ترمیم کے سادہ اور منطقی اسباب۔ لیکن ہمیں اس کے برعکس بتایاجاتا تھا کہ سوویت حکومت نے ابتدا میں قوانین طلاق اس لیے نہ بنائے کہ سوشلزم بد اخلاقی کا پرچار کرتا ہے۔ لیکن حقیقت حال یہ تھی کہ یہ قانون محض ایک عارضی اقدام تھے اور ان کا مقصد بداخلاقی پھیلانے کی بجائے طلاق جیسی بداخلاقی کو سرے سے ختم نہیں تو اس کی تعداد میں ہر ممکن کمی کرنا تھا۔
سوویت حکومت نے 18دسمبر 1917کو دو انقلابی قانون منظور کئے۔ پہلا قانون شادی پیدائش بچوں، اور موت کے اندراج کے متعلق تھا اور دوسرے کو قانون شادی وطلاق کہتے ہیں چونکہ یہ قانون بالکل نئے تھے، اس لیے دنیا بھر میں ان کے خلاف غلط اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ایک قیامت برپا کر دی گئی۔ لیکن آج یہ قوانین حالات و واقعات اور نئے قوانین کے نفاذ سے بیکار ہو گئے ہیں۔ تو یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوتی ہے کہ سب لوگ خاموش ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس تبدیلی کی خبر تک نہیں ۔
آئیے ہم چند لمحوں کے لیے ان قوانین سے آگاہی حاصل کریں۔
میں نے مندرجہ ذیل رپورٹ سوویت یونین کی ایک مشہور وکیل عورت بتیسوفہ سے حاصل کی ہے۔ جہاں تک حقائق کے قابل اعتبار ہونے کا تعلق ہے۔ ہم یہ فیصلہ قاری کی اپنی عقل سلیم پر چھوڑتے ہیں۔ وہ فرماتی ہیں۔
سوویت یونین کے قوانین شادی کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے عورت کو قانونی اعتبار سے آزاد کر دیا۔ اسے مردوں کے برابر حقوق دیئے اور عدم مساوات کے آخری قلعے میں شگاف ڈال دیا۔ یعنی خاندان میں مساوات پیدا کی۔ جہاں صدیوں پرانے رواج کے مطابق عورتوں کی مظلومیت کو قانونی درجہ مل چکا تھا اور عورتوں پر ظلم وستم وتشدد روزانہ کا معمول اورایک امر مسلمہ تھا۔ عورتوں کو مظلومی اور غلامی پر مردانہ قبائلی نظام کے سماجی رشتوں کے پردے پڑے ہوئے تھے۔
لیکن محض نئے قوانین بنا دینے سے سوویت حکومت کو پرانی شادیوں کے بارے میں جوزار شاہی قوانین کے ماتحت ہوئی تھیں۔ خود بخود کوئی اختیار حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ ان شادیوں کوناجائز قرار دینے کے لیے صرف یہ کہنا کافی نہ تھا کہ زار شاہی عہد میں اکثر شادیاں ایسی عورتوں کے ساتھ طے پائی تھیں۔ جن کو شادی جیسے اہم معاملے میں آزادانہ فیصلہ کرنے کے لیے ضروری ذرائع حاصل تھے، نہ طاقت اور آزادی۔ جن بنیادوں پرزار شاہی روس کے خاندان قائم تھے۔ اشتراکی ضابطہ قانون انہیں جائز قرار نہیں دے سکتا تھا۔ لیکن انہیں محض اس بنا پر توڑابھی نہیں جا سکتا تھا کہ انقلاب سے پہلے جتنی شادیاں ہوئیں وہ بے لوث محبت اور باہمی احترام کے جذبات پر مبنی نہ تھیں۔ بلکہ مادی مفاد اور بار سوخ رشتہ داروں کے حصول کے پیچیدہ نظام پر قائم تھیں۔
چونکہ انقلاب اکتوبر کا مقصد انسانوں کے درمیان ہر قسم کے عدم مساوات یعنی انسان کی انسان کے ہاتھوں ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کو ختم کرنا تھا۔ اس لیے خاندان جیسے اہم حلقہ رشتہ داری کو جوں کا توں کس طرح رہنے دیا جاتا۔ دسمبر 1917کے قوانین شادی نے خاندان کے متعلق ایک نیا اصول قائم کیا۔ وہ اصول آزاد انتخاب کا اصول تھا اس اصول کے ساتھ ہی یہ اعلاج کیا گیا کہ آج سے سوویت یونین کا ہر کنبہ محبت، باہمی احترام اور مرد وعورت کی مساوات پر قائم کیا جائے گا۔
ظاہر ہے ایسا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اشتراکی قانون وہ پابندیاں ہمیشہ کے لیے اٹھا دے جو طلاق کے رستے میں حائل تھیں، کیونکہ زار شاہی روس میں صرف کلیسا کی مداخلت پر ہی طلاق حاصل کی جا سکتی تھی اور کلیسا نے اس پرنہایت ہی اخلاق سوز پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔
جن پابندیوں کو روس کی نئی عورت اخلاق سوز کہتی ہے، وہ ہو بہو ویسی ہی ہیں جیسی کہ آج روس کے باہر اکثر ملکوں میں عائد ہیں۔ قصہ کو تاہ ہمارے ہاں کے اکثر قوانین طلاق کی طرح زار شاہی کے زمانے کے قوانین طلاق کی رو سے بھی طلاق صرف اسی صورت میں دی جاتی تھی جب کہ گواہ یہ ثابت کر دیں کہ مرد یا عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ اپنی دلیل کے ثبوت میں بیلسوفہ نے ان المیوں کا حوالہ دیا۔ جنہیں طالسطائی نے اپنے ناول ”اینا کرنینا” اور ”زندہ لاش” میں پیش کیا ہے۔ یہ ناول اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ قانون کی تلاش کے تلے انسانی تعلقات اور احساسات بری طرح پامال اور مردہ ہوتے جا رہے تھے”۔
1917کے قانون طلاق کی پہلی طلاق کی پہلی دفعہ کے مطابق ایک فریق یا دونوں فریقوں کی درخواست پر شادی منسوخ کی جا سکتی ہے۔ دوسری دفعہ بھی اسی طرح انقلاب پسندانہ تھی۔ اس کے مطابق تنسیخ شادی (طلاق) کسی عدالتی کاروائی کے بغیر محض رجسٹرار کے دفتر میں دراخوشت دینے سے حاصل کی جا سکتی تھی۔
تاہم موصوفہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں ۔ کہ ”اس میں شک نہیں کہ اس قانونی رعایت کا ناجائز استعمال بھی ہوا۔ بعض ایسے لوگ جو اخلاق سے قطعاً عاری تھے انہوں نے محض ہوس پرستی کے لیے متعدد عورتوں سے نکاح کئے اور سوویت یونین کے قوانین طلاق کے جمہوریت دوست اصولوں کو نام نہاد ”آزاد محبت” کے نظریے کے حامیوں نے غلط معنی پہنائے، انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ قانون ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہیں کہ خاندان غیر ضروری چیز ہے کیونکہ یہ انفرادی آزادی کو ختم کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود 1917کے قانون طلاق کی اشد ضرورت تھی اور وہ بے حد مفید ثابت ہوا۔ اس نے رشتہ شادی کو عورت کی غلامی اور خاندان میںعدم مساوات کا ذریعہ بنانے کے امکان کوہمیشہ کے لیے ختم کر دیا”۔
رکاوٹوں کو پھاند جانے کا پکاارادہ کرنا تھا۔ یہ جدوجہد ایک مشکل اور پیچیدہ ترین نفسیاتی جدوجہد تھی او ریہ اس حقیقت کے پیش نظر اور بھی دشوار تھی کہ روسی عورت کے سامنے کوئی مثال نہ تھی۔ جس سے اسے کچھ مدد ملتی۔
دنیا میں ایسی کوئی مثالی عورت موجودہ نہ تھی جس میں وہ تمام شخصی اور سماجی خوبیاں موجود ہوں، جن کی بدولت وہ مرد کے ہم پلہ بھی ہو اور اپنے فطرت اوصاف، اپنی نسوانیت، اپنے وقار اور مادرانہ شفقت کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہو۔ کیونکہ یہ اوصاف عورت کی فطرت کا لازمی جزو ہیں۔ انسانیت کا ماضی نسوانی سیرت کے ایک پہلو کی مثال پیش کرتا تھا اور قدرتاً وہ کسی ایسی عورت کو پیش کرنے سے قاصر تھا۔ جس کا متوازن اور ہمہ گیر ارتقا ہوا ہو۔ ایسی مثال ماضی کے بجائے مستقبل ہی پیدا کر سکتا تھا”۔
یہ قانون دان خاتون اس عہد کے ابتدائی دنوں کی تصویرنہایت بے با کی اور وضاحت سے پیش کرتی ہیں۔ جب کہ عورتوں نے نئے قوانین طلاق کو ذہنی طور پر قبول کر کے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا شروع کیا۔ یعنی جس زمانے میں روس میں طلاق اس قدر عام تھی کہ ہمارے ملکوں میں اسے طنزاً ربڑ کی مہر والی طلاق” کہا جاتا تھا۔ اس وقت جو صورت حال تھی اسے وہ ا ن الفاظ میں بیان کرتی ہیں۔
حالات ایسے تھے کہ عورت کو نئے سماجی مقام تک اٹھانے کے لیے نئے سوویت معاشرے کو صرف اپنے ذرائع سے کام لینا تھا اور اشتراکی تحقیق محض نظریے تک محدود نہ تھی۔ بلکہ اسے زندگی کے تجربے سے عملاًنتائج اخذ کرنا تھے۔ اس لیے بعض اوقات غلطیوں کی صورت میں مردوں اور عورتوں کے لیے ناقابل برداشت ذاتی مصائب پیدا ہو جاتے تھے خاندانی تعلقات کے بگڑنے اور گھریلو جھگڑنے پیدا ہو جانے سے یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ اور دشوار بن جاتا تھا۔
لیکن پنجسالہ معاشی منصوبوں پر عمل در آمد کے زمانے میں نہایت ہی خوشگوار تغیر رونما ہوا لاکھوں عورتوں نے صنعت، ہوا بازی، سائنس، انجنیئر نگ اور آرٹ میں مہارت حاصل کر کے اپنا معاشی اور ثقافتی معیار بلند کرلیا اور اس عہد میں سب سے زیادہ جہاد نفس عورتوں نے کیا۔
چنانچہ بیلسوفہ فرماتی ہیں: ۔
عورت کے لیے سب سے زیادہ مشکل قربانی یہ تھی کہ اسے اپنے خاندان اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت کم وقت ملتا تھا اور اسے اپنے گھر اور خاوند کی طرف کم از کم توجہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لہٰذا یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ عورت کو اپنے لباس بالوں، چہرے وغیرہ کی آرائش کی فرصت ہی نہ ملتی تھی”۔
1930اور 1939 کے ہمارے ہاں کے بہت سے ”ناقدین” نے حصول منفعت کی غرض سے سوویت کی سیاحت کی، لیکن ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے اشتراکی لڑکیوں کے ظاہری فقدان کشش کی وجہ سمجھنے کی کوشش کی اور کتنوں نے یہ محسوس کیا کہ اشتراکی عورت نے کچھ عرصے کے لیے بنائو سنگھار، بالوں کی آرائش، ناخنوں کی سجاوٹ، فیشنی جوتوں اوردوسرے جوتوں او ردوسرے سامان آرائش کو ”تمام انسانیت کے بہبود کی مشترکہ جدوجد” پر قربان کر دیا تھا
محترمہ بیلسوفہ فرماتی ہیں۔
روسی عورتوں نے اکثر ضروریات زندگی کو ترک کر کے، خوبصورت لباس اور دوسرے آرائشی سامان کی قدرتی نسوانی خواہش کی کم از کم تکمیل اور وقت میں کفایت کر کے بے غرض مشقت کے ذریعے ہزار ہا سال کی ارتقائی کمی کو پورا کیا او رحقیقی مساوات کی شاہراہ پر گامزن ہو گئیں”۔
حالانکہ ہمارے ہاں اکثر ناقدین سوویت زندگی کو بہت قریب سے دیکھ آئے ہیں۔ لیکن بھی وہ اس بے ہودہ رائے کا اظہار کرنے سے نہیں شرماتے کہ
اشتراکی لڑکیوں کو معلوم ہی نہیں کہ انہیں کیا درکار ہے”۔
محترمہ بیلسوفہ جواب دیتی ہیں: ۔
ہر اشتراکی عورت اس عارضی مگر ضروری محرومی سے باخبر تھی۔ اس نے خوشحالی او رمضبوط گھرانے کی خواہش، ماں بننے کی مسرت، محبت کے انسانی جذبات اور شوہر کے ساتھ رفیقانہ تعلقات، آرام اور نسوانی تمنائوں کو کبھی فراموش نہ کیا”۔
تاہم عارضی طور پر ایک عجیب اور غلط رجحان ضرور پیدا ہوا۔ بعض عورتیں انتہا پسند ہو گئیں۔ انہوں نے حقیقی مساوات اور ظاہری یکسانیت میں تمیز نہ کی اور عادات واطوار اور لباس میں مردوں کی تقلید کرنے لگیں۔ لوگوں نے ایسی عورتوں کو ایک خاص نام سے یاد کرنا شروع کر دیا۔ جس کا انقلابی عہد کے ابتدائی دشوار ایام میں خوب شہرہ تھا۔ یعنی انہیں مذاقاً فوجی اشتراکیت کے نمونے کہنے لگے۔ ظاہر ہے ایسی عورتیں عام مجالس میں زیادہ نمایاں ہوتی تھیںاور غیر ملکیوں کی نظریں تو خاص طور سے سیدھی انہی پر پڑتی تھیں۔ لیکن ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔ پنجسالہ معاشی منصوبے پر کامیاب عمل در آمد کے دور میں سوویت یونین کا عام معیار زندگی بہت بلند ہوا اور عورتوں کی حیثیت میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ اب اسے اس سوال سے نجات مل گئی کہ وہ گھر کا کام کاج کرے یا ملازمت، اطمینان سے انفرادی زندگی گزارے یا سماج کی گراں قدر خدمت سرانجام دے؟ اب وہ حسب منشا زندگی بسر کر سکتی تھی۔ بیلسوفہ کا قول ہے۔
جس عورت نے اپنی فعالیت اور عملی جدوجہد سے رائے عامہ کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ بھی ایک کامیاب انجنیئر، ہوا باز، ڈاکٹر، سائنسدان، زرعی فارم کی صدر یا انعامی کار گربن سکتی ہے اب اس کے سامنے ذاتی فلاح ، بچوں کی پرورش اور تربیت کے بیشمار مواقع تھے اب اس کی حیثیت مرد کے برابر ہو گئی اور نیا اشتراکی خاندان سن بلوغ کو پہنچ گیا”۔
نیلسوفہ کی زبانی اس نئے دور کی خصوصات یہ ہیں۔
آج سوویت یونین کی ہر عورت شادی کے فیصلے میں آزاد ہے۔ اس پر مادی منفعت کا کوئی خیال یا کوئی قانونی یادوسری ناہمواری اثر انداز نہیں ہو سکتی وہ اشتراکی برادری کی باوقار اور معزز رکن ہے۔ وہ اپنی خانہ آبادی اور خاندانی مسرتوں کے انتخاب میں بالکل آزاد ہے۔ عورت سے متعلق مرد کے زاویہ نگاہ میں بھی مساوی تغیرواقع ہو چکا ہے۔ عورت کا تمسخر وعجز اور مرد کی خود پسندی یہ دونوں چیزیں جونئے کنبے کو قدیم زار شاہی سے ورثے میں ملی تھیں، اب ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئی ہیں۔ نئے اشتراکی گھرانے کی تعمیر بالکل اچھوتی بنیادوں پر ہو رہی ہے۔
خاندان کی نئی ساخت اس وقت تک ناممکن تھی۔ جب تک عورت کو پوری آزادی یعنی مساوات حاصل نہ ہو جاتی۔ چنانچہ بیلسوفہ کہتی ہیں۔
آ ج سوویت یونین میں ایسے تمام قانونی اور عملی لوازمات پیدا کئے جا چکے ہیں۔ جن کے بغیر ایسے خاندان کی تعمیر مشکل ہے۔ جس کی بنیاد مرد وعورت کے درمیان پر خلوص احساسات محبت، دوستی اور احترام، ہم خیالی اور مزاج کی ہم آہنگی ہو”۔
انسانی خاندان میں اس انقلابی ترقی کے بعد 1917کے قوانین بیکار ہو گئے۔ جنگ عظیم سے پہلے نہ صرف زار شاہی روس بلکہ ہمارے ملکوں میں بھی خاندان کی تباہی کا دور شروع ہو چکا تھا اور یہ سلسلہ ہمارے ہاں تو آج تک جاری ہے او ربے شمار گھریلو مسئلے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ سوویت یونین میں ان تمام مسائل کو پوری طرح حل کر لیا گیا اور وہاں کے باشندے اب اپنی توجہ بڑے بڑے معاملات کی طرف مبذدل کرنے کے قابل ہو گئے۔
اب وہ اپنے مستقبل کو شاندار بنانے اور اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے کوشاں ہو گئے، سوویت حکومت پر شروع سے یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ انسانی خاندان کی تباہی کی خواہاں ہے اور تمام بچوں کو ریاست کے مخافطین کی حیثیت سے پالنا چاہتی ہے لیکن واقعات نے اس الزام کی تردید کر دی۔ سوویت یونین نے گزشتہ بیس برس میں خاندانی زندگی کا جونیا اور بلند معیار قائم کیا وہ مرد عورت، زن وشوہر کے تعلقات میں انقلابی تبدیلی کئے بغیر حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ سوویت یونین کے نئے قوانین شادی وخاندان کا مقصد اسی معیار کو پائیدار بنانا ہے۔
وہاں 8 جولائی 1944کو جو نئے قوانین پاس ہوئے، ان کے نفاذ پر ہمارے ہاں کے اخباروں میں بڑی سرعت سے سخت قسم کی تبصرہ بازی شروع ہو گئی، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ نام نہاد تبصرہ نگاروں نے ان انقلابی تغیرات کی طرف اشارہ کرنے کی زحمت گوارانہ کی جو اس س پہلے سوویت خاندان میں رونما ہو چکے تھے۔
ان قوانین کا اعلان کیا گیا تو روس کے باہر ہر کہیں ادھم مچایا گیا کہ روس نے اپنی ابتدائی پالیسی کو اچانک اور حیران کن طریقے سے منسوخ کر دیا ہے۔ بات دراصل یہ تھی کہ 1927میں سوویت یونین کو بڑی بڑی وفاقی جمہوریتوں میں جنہیں سوشلسٹ فیڈریشن آف سوویت ری پبلکن کہتے ہیں۔ نہایت ہی اہم قانونی تغیرات رونما ہوئے۔ یہ نئے قوانین شادی کے متعلق تھے۔ آئیے ان کی نوعیت پر غور کریں۔
ان قوانین نے اس قسم کے انسانی تعلقات کو قانونی شکل دے دی، جیسے ہمارے ہاں قانوناً جائز ہیں۔ یعنی رسمی شادی کو قانوناً جائز قرار دے دیا گیا۔ 1927سے پہلے سوویت روس میں صرف وہی شادیاں قانوناً جائز تھیں۔ جن کا اندراج سرکاری رجسٹر ار خود کرتے تھے۔ لیکن 1927کے قوانین میں رسمی شادی کو ایک حد تک ناجائز تسلیم کر لیا گیا۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ رسمی شادی کو رجسٹرڈ شادی کے برابر تسلیم کر لیا گیا۔ شادی کا رجسٹر ہونا اب بھی نکاح کا نا قابل تردید ثبوت تھا۔ لیکن سماجی اور معاشی بحران کے دور میں جس کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔ عورتوں اور بچوں کا مزید قانونی تحفظ لازمی تھا۔ اس لیے نئے مجموعہ قانون میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ رسمی شادی کے بعد ازدواجی زندگی کا آغاز کر نے والے مرد اور عورت کو رجسٹرڈ شادی کی شرائط سے بری الذمہ تصور نہیں کیا جائے گا۔
رسمی شادی کے مندرجہ ذیل عملی ثبوت ہیں:۔
-1دونوں فریق اکٹھے رہتے ہوں۔
-2عام لوگ انہیں شوہر اور بیوی کی حیثیت سے جانتے ہوں۔
-3ان کے پاس مشترکہ گھر ہو۔
-4وہ ابھی تک یا پہلے سے ایک دوسرے کے روٹی کپڑے کا خرچ برداشت کرتے رہے ہوں اور دونوں اپنے بچوں کی پرورش کرتے رہے ہوں۔
ظاہر ہے اس قانون سے ایسے عورتوں کا تحفظ مقصود تھا۔ جنہیں غیر ذمہ دار مرد رجسٹرڈ شادی کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے چھوڑ کر الگ ہو جاتے تھے۔ کیونکہ ہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ طلاق اگرچہ قانوناً کسی بھی رجسٹریشن آفس سے نہایت ہی کم قیمت پر حاصل کی جا سکتی تھی لیکن حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے۔ عام لوگ کسی معقول سماجی وجہ کے بغیر طلاق حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ عام لوگ ان سے سخت نفرت کرنے لگے تھے اور جن افراد کو کئی بار طلاق ہو جاتی تھی ان کے عزیز اور بزرگ ان کے خلاف سخت کا روائی کرنے لگے تھے۔ لہٰذا ایسے ماحول میں بعض غیر ذمہ دارافراد میں ناجائز جنسی تعلقات پیدا کرنے کا رجحان پیدا ہو نے لگا تھا اور اس کا تدراک لازمی تھا۔
1927کے قانون شادی کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں میاں بیوی کی نجی جائداد کا فیصلہ خاص طور سے کیا گیاہے۔ آج بہت سے لوگ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سوویت حکومت شخصی جائداد کو ختم نہیں کرتی اور نہ وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن وہ ایسے اداروں کی شخصی ملکیت کو برداشت نہیں کرتی جو منافع اندوزی کی غرض سے دوسروں کی محنت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ یعنی سوویت روس میں سرمایہ دارانہ ملکیت کو ختم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ رسمی شادی کے قانون میں میاں بیوی کی تمام نجی جائداد کو دونوں کی مشترکہ ملکیت قرار دے دیا گیا اور اعلان کر دیا گیا کہ اگر رسمی شادی کے قانون میں میاں بیوی کی تمام نجی جائداد کو دونوں کی مشترکہ ملکیت قرار دے دیا گیا اور اعلان کر دیا گیا کہ اگر رسمی شادی ٹوٹ جائے تومیاں بیوی کی مشترکہ شخصی جائداد کی مساوی تقسیم اور بچوں کی پرورش کے انتظام کے لیے عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی قرار پایا کہ اگر فریقین میں سے کوئی ایک کام کرنے کے ناقابل ہو تو دوسرا فریق ازدواجی تعلقات ختم ہوجانے کی صورت میں بھی اس کے روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو گا۔
ماسکو کے سرکاری وکیل، براندوف کا کہنا ہے کہ 1927کے قانون کے رو سے رسمی شادی صرف مذکورہ بالا دو شرائط کے اعتبار سے رجسٹرڈ شادی کے برابر ہے۔ اس قانون میں جائداد کے حق وراثت کو نظر انداز کر دیا گیا لیکن خاص صورتوں میں عدالت عالیہ وراثت کا فیصلہ بھی کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ باقی دوسرے حقوق کو بھی چھوڑ دیا گیا جو رجسٹرڈ شادی میں واجب ہیں۔
براندوف کہتے ہیں کہ ”البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ سوویت یونین میں چونکہ ساٹھ چھوٹی بڑی قومیں آباد ہیں، اس لیے وہاں کوئی واحد قانون شادی یا دوسرے رسم ورواج سے متعلقہ مسائل کا بیک وقت احاطہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بیاہ شادی اور رسم ورواج کے بارے میں قانون بنان کا کام مختلف جمہوریتوں کے اختیار میں ہے۔ سولہ وفاقی ریاستوں میں سے ہر ایک اپنا الگ ضابطہ قانون رکھتی ہے۔ تاہم چند قانون ایسے بھی ہیں جن کا اطلاق ملک کے تمام علاقوں پر ہوتا ہے”۔ وہ مثال میں جمہوریہ یوکرین کو پیش کرتے ہیں۔ جہاں 1927کا قانون شادی کبھی لاگو نہیں ہوا اور رجسٹرڈ شادی کے علاوہ کسی دوسری شادی کو قانوناً تسلیم نہیں کیا گیا۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ نہ صرف 1944کے قوانین کے نفاذ کے وقت سے بلکہ اس سے سترہ سال پہلے بھی سوویت یونین میں رسمی نکاح اور رجسٹرڈ شادی میں خاص امتیاز روا رکھا جاتا تھا، یعنی رجسٹرڈ شادی کو رسمی نکاح پر ترجیح دی جاتی تھی اور اسے افضل مانا جاتا تھا۔
اس سلسلے میں تمام یونین میں 1944میں ایک اور خاص قانونی تبدیلی رونما ہوئی جسے ہمارے ہاں کے مبصرین نظر اندز کر جاتے ہیں اوروہ یہ ہے کہ رسمی نکاح کو اب کسی قسم کی قانونی حمایت حاصل نہیں۔ اس ترمیم کی وجہ بالکل عام فہم ہے۔ سوویت یونین میں شادی اور خاندان ترقی کر کے اس درجے تک پہنچ گئے ہیں کہ عورتوں او ربچوں کے تحفظ کے لیے آفاقی، مسلمہ اور قانونی شادی کے علاوہ کسی دوسرے نکاح کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ یعنی سوویت سماج میں ارتقائی ہمواری پیدا ہو گئی ہے۔ تمام معاشرہ ترقی کی ایک ہی سطح پر ہے اس لیے تمام سوویت یونین کے لیے اب ایک ہی قانون کافی ہے۔ پہلے کی طرح ایک سے زیادہ قوانین کی ضرورت نہیں پڑتی۔
میں نے سوویت یونین کی اکادمی علم کے ادارہ قانون کے ایک ممبر اور مصنف پروفیسر سورولوف سے مارچ 1945میں اس سلسلے میں مزید اطلاعات حاصل کیں۔ انہوں نے مجھے بتایا۔
سوویت یونین میں رسمی شادی کی تاریخ بڑی سبق آموز ہے۔ 1918میں قوانین شادی کا جو ضابطہ شائع کیا گیا۔ اس میں بے قاعدہ ازدواجی رشتوں کو قانونی تحفظ کی ضمانت نہ دی گئی۔ کیونکہ ایسا کرنے سے خاندان کی بنیاد یں ہل جاتیں۔ حکومت نے پہلے دن سے ہی خاندان اور اس کے استحکام کی طرف خاص توجہ کی تاکہ پائیدار اور صحت مند خاندان کے قیام کے لیے راستہ ہموار ہو جائے”۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر موصوف کا یہ بیان درست ہے تو سوویت یونین نے رسمی شادی کو 1926 میں یعنی آٹھ سال تک اسے تسلیم نہ کرنے کے بعد یکا یک قانوناً جائز کیوں قرار دے دیا۔
پروفیسر سورولوف فرماتے ہیں۔
اشتراکی ریاست اور اس کے معاشی نظام کے ارتقا کی ابتدائی منزل میں رسمی شادی کو قانوناً جائز قرارنہ دیاجاتا تو عورت کے مفاد کو شدید صدمہ پہنچتا۔ اس وقت عوام کا ثقافتی اور مادی معیار بلند نہ تھا۔ جنگ کی خوفناک تباہی کے بعد بحالیات کا دور آیا تو افلاس اور بیروز گاری کا مسئلہ بڑی شدومد سے سامنے آیا۔ ان حالات میں مفلس اور بے کس عورتیں مادی اعتبار سے خوشحال مردوں کے ساتھ رسماً ازدواجی تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوئیں۔
لہٰذا رسمی شادی میں ہر عورت کے لیے روٹی کپڑے کے ماہوار خرچ اور حق وراثت کا قانوناً تعین نہ کیا جاتا تو نقصان صرف عورتوں کا تھا۔ لہٰذا سوویت حکومت اس صورت حال کو عام نہ ہونے دے سکتی تھی”۔
یہ اشتراکی قانون دان مزید فرماتے ہیں”۔ اس کے بعد حالات پہلے سے زیادہ خوشگوار ہو گئے۔ بے روز گاری ختم ہو گئی۔ عورتوں کو تعلیم وتربیت اور ملازمت کے مواقع بہم پہنچائے گئے۔ لاکھوں عورتیں صنعت کار بن گئیں اور انہوں نے ملک کی معاشی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی جدوجہد میں کار ہائے نمایاں کئے۔ روس پر جرمنی کے حملے سے ایک کروڑ 10لاکھ عورتیں کارخانوں یا دفتروں میں اور ایک کروڑ 90لاکھ زرعی فارموں میں کام کرتی تھیں۔ جنگ کے آغاز کے وقت کارخانوں کام کرنے والے افراد کی کل تعداد میں 45فیصد عورتیں تھیں۔
علاوہ ازیں عورتوں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی حکومت نے ان کی مالی امداد بھی بڑھا دی۔ بچوں کے لیے نئے سکول، نرسریاں (جہاں نرسیںبچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں)کنڈر گارٹن (جہاں عملی اسباق کھلونوں، کھیلوں وغیرہ کے ذریعے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے) اور کر یشز دودھ پیتے بچوں کی پرورش کے ادارے کھولے گئے۔ ان کے علاوہ حکومت نے 
خاندان کی مادی بہبود کے مختلف اداروں میں اضافہ کیا۔ اس طرح ازدواجی زندگی کا بوجھ بہت ہلکا ہو گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...