ہفتہ، 1 ستمبر، 2012

گناہ اور سائنس سوویت یونین میں گناہ کے خاتمے کا پنجسالہ منصوبہ (2)


 گناہ اور سائنس

سوویت یونین میں گناہ کے خاتمے کا پنجسالہ منصوبہ
(2)
پروفیسر ڈی۔ ڈی کو سامبی
پروفیسر سورولوف محترمہ بیلسوفیہ سے اتفاق کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اس مادی بنیاد میں سے مرد وعورت، میاں بیوی کے درمیان تعلقات کا تعین کرنے والے نئے محرکات پیدا ہوئے۔ اب عورتوں کے مفاد کے تحفظ کے لیے قانونی احکامات اوررسمی شادی کی حفاظت ضروری نہ رہی اب کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ رسمی نکاح کرتی تو لوگ اس کے رویے شادی اور خاندان کے لیے نقصان دہ تصور کرتے اور وہ ایساکرنے میں حق بجانب تھے”۔
تسلیم یہ ہمارے لیے واقعی حیرانی کی بات ہے کہ ازدواجی رشتوں کے استحکام اور خاندان کے تحفظ جیسے نازک مسائل کو قانون ساز لوگ حل کر سکتے ہیں۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود ہمارے ملکوں میں شادی، طلاق، روٹی کپڑے کے خرچ وغیرہ کے قوانین میں تبدیلیاںکرانے کے لیے بے پناہ شور برپا ہے۔ البتہ اکثر مجوزہ تبدیلیاں قوانین طلاق کو نرم کرنے کے متعلق ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ تحریک نرم اور سہل طلاق کے لئے جاری ہے۔
شادی کے متعلق سوویت یونین اور ہمارے ہاں کے قانونی اقدامات میں جو فرق ہے اس کا تعین اتنا مشکل نہیں، سوویت یونین میں پے بہ پے قانونی تبدیلیاں اس لیے کی گئی ہیں کہ ازدواجی قوانین کو سوویت سماج کے عظیم معاشرتی اور معاشی تغیرات سے ہم آہنگ کر دیا جائے۔ لیکن ہمارے ہاں قوانین شادی کی تجدید کے مطالبے کا بڑا محرک وہ خیالی نظریہ ہے۔ جسے ”ترقی پسند” وکیل، جج، قانون ساز اور پادری تک ”محبت اور اخلاق ” کے متعلق ”نئے زاویہ نگاہ” کا نام دیتے ہیں یعنی یہاںمعاشی تبدیلی کے بغیر قانونی تبدیلی کی توقع کی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں سوویت یونین میں عورت کی سماجی حیثیت کے تحفظ استحکام اور انجام کار خود شادی کی پائیداری، یعنی میاں بیوی، بچوں اور تمام خاندانی رشتوں کی استواری کی خاطر قوانین شادی میںترمیم کی گئی۔ لیکن ہمارے ہاں قوانین شادی میں ترمیم کا مطالبہ کرتے وقت ایسے مقاصد کا نام تک نہیں لیا جاتا اور اس کے برعکس قانون طلاق میں ترمیم کے مطالبے کی سخت مخالفت کی جاتی ہے او رمخالفت میں زیادہ تر ایسے لوگ پیش پیش ہیں جنہیں خدشہ ہے کہ قانون طلاق میں مزید ترمیم ہوگئی تو ازدواجی زندگی اور خاندان کی جڑیں اور بھی کمزور ہو جائیں گی۔ ”یہ حقیقت پسندحضرات” بار بار چلاتے ہیں کہ ازدواجی زندگی بہت زیادہ پست اور شادی سے پہلے سے زیادہ نا پائیدار ہو گئی ہے اور طلاق کی شرح بڑ ھ رہی ہے۔ اس لیے قوانین طلاق پرنظر ثانی کی جائے اور خاندان کی تباہی کا جائزہ لیا جائے۔ اگر ہم سوویت یونین کے قوانین شادی وخاندان مجریہ 1944کے بنیادی نکات کو دیکھیں تو حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
اولاجیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ سوویت یونین میں اب رسمی شادی کو قانوناً تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس سلسلے میں سوویت یونین نہ صرف قانون بنانے میں بہت سے ملکوں سے آگے ہے۔ بلکہ اس لیے بھی اسے سب پر فوقیت حاصل ہے کہ وہاں رسمی شادی کے لیے کوئی معاشی اور سماجی وجہ جواز نہیں رہی۔
ثانیا، سوویت یونین میں اب شادی پہلے کی طرح ایک عام اور سیدھا سادا طریق نکاح نہیںہے۔ وہاں آج کل شادی کا خواہش مند جوڑا سب سے پہلے رجسٹر ار کے سامنے پیش ہوتا ہے اور خلیفہ بیان دیتا ہے۔ کہ ان کی شادی ہر قسم کے قانونی اعتراض سے مبرا ہے، لڑکا اور لڑکی دونوں شہادت دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی تندرستی سے باخبر ہیں اس کے بعد وہ اپنی تمام پہلی شادیوں (بشرطیکہ ان میں سے کسی نے کوئی کی ہو) کار یکارڈپیش کرتے ہیں۔ اس صورت میں رجسٹرار بڑی احتیاط سے کام لیتا ہے۔ اگر پہلی شادی سے کچھ بچے ہوں تو رجسٹرار کا فرض ہے کہ ان کی پرورش کے انتظام کی تصدیق کرے ورنہ انکار کر دے۔ کہ شادی نہیں ہو سکتی۔ سوویت یونین کے باشندے”حلفیہ بیان” کے سلسلے میں بہت سنگین سز ا سے متعلق قانون پڑھ کر سنائے۔ یہ تمام شرطیں پوری ہو جائیں، تب کہیں جا کر درخواست دینے والے جوڑے کی شادی ہوتی ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے قانون شادی کی ایک شق ہمارے ہاں کی بعض مذہبی قیود سے ملتی ہے۔
اگر چہ وہاں شادی کی درخواست کو سر عام پڑھنے کا رواج نہیں لیکن جس کسی مرد یا عورت کو شادی کے بارے میں کوئی اعتراض ہوااور اسے اس کا علم ہوجائے تو وہ رجسٹرار کے سامنے پیش ہو سکتا ہے اورشادی کو اس وقت تک رکو ا سکتا ہے، جب تک اس کی شکایت رفع نہ ہو جائے ۔
امریکہ، برطانیہ اورکینیڈا کے لیے سوویت قانون طلاق شاید بہت زیادہ دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ ایک ”دہریہ” قوم نے سہل طلاق کو ختم کر دیا ہے اور طلاق کے راستے میں بالکل نئی مشکلات حائل کر دی ہیں۔ دنیا میں صرف سوویت یونین ہی ایک ایسا ملک ہے جو طلاق کو روز بروز آسان بنانے کی بجائے مشکل تر بنا رہا ہے۔
سوویت یونین میں 1944 سے پہلے کم سے کم خیالی اعتبار سے طلاق اتنا سہل تھا کہ بس رجسٹرار کے نام درخواست لکھنا اور برائے نام فیس ادا کر دینا کافی تھا۔ مرد وعورت دونوں میں سے ہر ایک طلاق کی درخواست دے سکتا تھا۔ دوسرے فریق کو محض اطلاع پہنچا دی جاتی تھی کہ تمہارے ساتھی کو طلاق دے دی گئی ہے۔ کئی سال تک یہی قاعدہ رہا۔ لیکن گزشتہ دس سال کے عرصے میں سوویت یونین کے باشندے طلاق کو نہایت بری نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ بچوں کی تربیت اور عورت کے ماہوار خرچ کی ذمہ داری کے متعلق قانون پاس ہو ئے تو غیر ذمہ دار قسم کے لوگ ”ایک ڈاک کے ٹکٹ سی سستی” طلاق سے دوسری کا ارادہ کرنے سے پہلے کچھ سوچنے پر مجبور ہوئے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ باشندوں کا ثقافتی معیار بلند ہوا اور عورتوں کی حالت پہلے سے سدھر گئی تو اطلاق کی شرح بھی رفتہ رفتہ گھٹ گئی۔
نئے قوانین طلاق کے ذریعے پہلے تمام قوانین کو منسوخ کر دیا گیا۔ اب طلاق لینے کے لیے مرد اور عورت دونوں کے لیے عدالت میں دراخوست دینا لازمی ہے۔ اس دراخوست پر تقریباً دو سو ڈالر خرچ اٹھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی طلاق کی دراخوشت کا نوٹس اخباروں میں شائع کیا جاتا ہے، تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہہ سے کہ مجھے خبر نہ ہوئی۔
اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ درخواست دینے والا جوڑا عوامی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ جہاں ان وجوہات طلاق کا پوری طرح تجزیہ کیا جاتا ہے۔ جو درخواست میں درج ہوتے ہیں اور ان پر جرح ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کے قانون دان یہ جان کر حیران ہوگے کہ اشتراکی قانون طلاق میں ایک بھی وجہ مذکور نہیں۔ لہٰذا بعض لوگوں نے خیال کیاکہ یہ قانون محض ڈھکوسلا ہے یہ دفتر شاہی آمریت کا قانون ہے۔ جسے ”سٹالن نے اس لیے نافذ کیا ہے کہ آئندہ کوئی طلاق نہ ہو”۔ تاہم اس قانون کی یہ تشریح غلط ثابت ہوچکی ہے۔نئے قانون کے ماتحت ہزاروں شادیاں منسوخ ہو چکی ہیں یا ابھی زیر غور ہیں۔ لیکن طلاق کی شرح 1944کے پہلے زمانے سے بہت ہی کم ہو گئی ہے ۔
سوویت یونین کے لیے قانون میں ”طلاق کی کوئی وجہ” کیوں درج نہیں؟ جواب بالکل سیدھا سادا ہے، آخر یہ بات قانون سازوں پر کیوں چھوڑی جائے کہ وہ ہمیشہ کے لیے چند وجوہات گھڑ دیں کہ مرد یاعورت کے لیے ایک ساتھ زندگی گزارنا اس لیے دو بھر ہو جا تا ہے۔ شادی ٹوٹنے کے بے شمار وجوہات ہو سکتے ہیں۔ کوئی جھگڑا ایک شادی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے لیکن دوسری پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔
مرد وعورت میں نا اتفاقی کے تمام تر وجوہات قلمبند کرنے کی کوشش کرنا انتہائی مضحکہ خیز بات نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ معاملہ کوئی اتنا سہل نہیں کہ شمار کر کے بتا دیا جائے کہ ٹریفک رول کی اتنی مرتبہ خلاف ورزی کی گئی۔
سوویت قانون سے تو اس اصول کی تصدیق ہوتی ہے کہ صرف مرد اور عورت ہی جان سکتے ہیں کہ ان کے تعلقات کب اور کیوں قائم نہیں رہ سکتے؟ لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ میاں بیوی خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان کی شادی منسوخ ہونا بہتر ہے یا نہیں، عوامی عدالت کافرض ہے کہ وہ صورت حالات کا بغور جائزہ لے، نئے طریقہ طلاق میں یہ اصول کار فرما ہے کہ شادی محض ذاتی معاملہ نہیں، بلکہ اس سے خاندانی اور سماجی ذمہ داریاں بھی وابستہ ہیں۔ عدالت اسی اصول پر عمل کرتی ہے اور گواہوں کے بیانات کو خاص اہمیت دیتی ہے۔
سوویت یونین میں آج کل اس وقت تک طلاق نہیں مل سکتی۔ جب تک چند ایسے لوگ شہادت نہ دے دیں جو فریقین کو اچھی طرح جانتے ہوں۔ اس سے دو باتیں مقصود ہیں۔ پہلی یہ کہ حتی الوسع طلاق کو روکا جائے اسے مشکل بنایا جائے، میاں بیوی پر ان کی سماجی ذمہ داریاں واضح کی جائیں۔ اور دونوں کو راضی نامہ کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح عدالت پر مقد مے کی نوعیت اور حقیقت واضح ہو جاتی ہے او روہ اسی کے مطابق طریق کا ر اختیار کرتی ہے۔
لہٰذا اس قانون سے حتی الوسع طلاق کو روکنا مقصود ہے۔ طلاق سے پہلے میاں بیوی کے لیے عدالت کو یقین دلانا ضروری ہے کہ سمجھوتہ نا ممکن ہے۔ فیصلہ کرتے وقت امثال وشرائط کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ مقدمے کی نوعیت وخصوصیت کو سختی سے پیش نظر رکھ کر اس پر غور کیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بہت سے علامہ دعوی کرتے ہیں کہ سوویت یونین کے قوانین طلاق ہمارے قوانین کی نقل ہیں۔ غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات سوویت یونین کے قانون طلاق کی اصلیت کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد فریقین میں سمجھوتے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہے۔
دوسرے لفظوں میں طلاق کے مقدمات کی سماعت کرنے والی سوویت عدالتیں ان مشاورتی بورڈوں سے ملتی جلتی ہیں۔ جو کبھی اسقاط حمل کے شفاخانوں میں قائم کئے گئے تھے یہ عدالتیں زیادہ ترطلاق کی روک تھام کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ بعض لوگ کہیں گے کہ کیا ہمارے ہاں کے قوانین طلاق کا بھی یہی منشا نہیں! لیکن صرف زبانی عملاً ہمارے ہاں کے قوانین طلاق ایک ایسا مجموعہ شرائط ہیں۔ جنہوں نے طلاق کے حصول کو اس قدر محال مہنگا بنا دیا ہے کہ بہت تھوڑے لوگ ان سے مستفیض ہو سکتے ہیں، سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں کوئی ایسا قانون نہیں جس کے رو سے یہ لازمی ہو کہ مرد وعورت ازدواجی مشکلات میں گرفتار ہو جائیں تو طلاق سے پہلے کسی مشیر اور ثالث سے رجوع کریں۔ بعض ماہرین نفسیات، ڈاکٹروں اور پادریوں نے بیاہ شادی کے لیے مشاورت خانے تو قائم کر رکھے ہیں مگر انہیں کوئی قانونی حمایت حاصل نہیں۔سوویت یونین کے نئے قوانین طلاق کے رو سے طلاق خواہ جوڑے کے لیے عوامی عدالت میں قطع تعلقات کے اسباب بیان کرنا لازمی ہے۔ اگر سمجھوتے کی کوشش نا کام رہے تو مقدمہ اعلیٰ عدالت کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ جسے صرف اس حالت میں شادی کو منسوخ کرنے کا اختیار ہے جب کہ ٹھوس ثبوت اور شہادتوں سے اس بات کا یقین ہو جائے کہ یہ رشتہ آئندہ کے لیے باہمی محبت کی بنا پر قائم نہیں رہ سکتا۔ بالا خر طلاق مل ہی جائے تو ایک سوسے لے کر چار سوڈالر کی مالیت کے رقوم عدالت کی فیس کے طورپر ادا کرنا پڑتے ہیں۔
حاصل؟ ابھی تک اعداد وشمار شائع نہیں ہوئے۔ حال ہی میں ایک شمار یہ انگریزی اخبار ماسکو کی خبریں” کے 25 اکتوبر 1945 کے ایشوع میں چھپا تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شادی اور طلاق کے نئے قوانین کے نفاذسے لے کر اب تک جتنی شادیاں منسوخ ہوئیں۔ ان کی تعداد پہلے سے دو تہائی کم ہے۔
یہ حقیقت کسی تبصرے سے بالا ہے، جس دن مذکورہ بالا شماریہ چھپا، اسی دن اطلانتک شہر کے اخباروں مین پنسیلو اینا سٹیٹ کالج کے محکمہ مشاورت شادی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر کلفر ڈ آرایڈ منز ا کا بیان شائع ہوا۔ ڈاکٹر موصوف نے پیش گوئی کی کہ: ۔
”1955 تک امریکہ میں دس شادیوں میں سے چار کا انجام طلاق ہو گا، آج سے بیس تیس سال کے عرصے کے بعد ایسی عورتوں کی ایک نسل وجود میں آجائے گی جنہیں شادی کے لیے مرد نہیں ملیں گے۔ کیا یہ عورتیں ہاتھ پر ہات دھرے بیٹھی رہی گی؟ ان میں اور شوہر دار عورتوں میں مردوں کے لیے زبردست مقابلے کی صورت پیدا ہوجائے گی:۔ ڈاکٹر ایڈ منزانے مزید کہا:۔
امریکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ شادیاں اور طلاقیں ہوتی ہیں۔ ہر مہینے تقریباً ایک ہزار شادیاں منسوخ ہوتی ہیں اور یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ڈاکٹر موصوف نے پیش گوئی کی:۔
آئندہ دس سالوں میں نابالغوں میں جرائم عام ہوں گے اور اخلاق اس قدر پست ہو جائے گا کہ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملے گی”۔
اس کے ایک ہفتہ بعد شکار گویونیورسٹی میں عمرانیات کے پروفیسر ڈاکٹر ارنسٹ نے بیان دیا۔ آئندہ چندسالوں میں عجلت کی شادی کا رجحان جو جنگ کے زمانے کا ایک خاصہ ہے۔ ملک کے لیے ایک حقیقی مصیبت بن جائے گا۔ معمولی شناسائی، مختصر کورٹ شپ اور اتفاقی ملاقاتوںپر ہی شادیاں ہونے لگیں گی، کیونکہ اکثر نوجوان ازدواجی زندگی کی ان لذتوں کے کسر نکالنے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ جن کے حصول سے وہ لڑائی کے دنوں میں مجبوراً محرام رہے۔
انہوں نے مزید کہا۔
اکثر مردوں کی عمر شادی کے وقت بہت زیادہ پختہ ہو چکی ہو گی۔ کیونکہ انہیں جنگ کی وجہ سے کئی سال تک مجرد رہنا پڑا۔ اگر ایسے ہی طرز عمل کی تکرار ہوئی۔ جیسا کہ گزشتہ جنگ عظیم کے بعد دیکھنے میں آیا تھا تو یہ مرد کمسن لڑکیوں کی طرف مائل ہوجائیں گے۔معمر عورتیں شادی کی منڈی میں اپنی نا قدری دیکھ کر مردوں کی فوری حصول کے لیے بلا سوچے سمجھے ہاتھ پائوں ماریں گی، نتیجہ طلاق کی شرح میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا”۔
چونکہ امریکہ میں جنگ سے پہلے طلاق کی اوسط 16 فیصد سے قدرے زیادہ ہی تھی۔ اس لیے ڈاکٹر موصوف نے اندازہ لگایا کہ مستقبل قریب میں یہ شرح 25فیصدہو جائے گی۔ لیکن وہ ڈاکٹرایڈ منز کے مقابلے میں قدامت پسند نظر آتے ہیں۔ جنہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ طلاق کی شرح اوسط 40فیصد ہو گی۔
شکا گو کے ماہر عمرانیات، یعنی ڈاکٹر ارنسٹ نے ذراتفصیل میں جاکربیان کیا۔
میدان جنگ سے واپس آکر شادی کرنے والے پانچ سپاہیوں میں سے ایک سپاہی تو بالضر ور عدالت طلاق کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ اگر انہیں تجربہ کا ر مشیر نہ ملے اوروہ غیر معمولی طورپر سخت جان ثابت نہ ہوئے تو باقی چار بھی زد دیابدیر یہ راستہ اختیار کریں گے۔
مزید 30فی صد سپاہی پریشانیوں سے بھر پور زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ دس میں سے صرف ایک سپاہی توقع رکھ سکتا ہے کہ وہ شادی کر کے اطمینان کی زندگی گزارے گا”۔
اور یہ سوچا ہی نہیں جاتا کہ ایسی شادیوںسے جو بچے پیدا ہوں گے ان کا کیا کیا جائے گا۔ ہمیں سوویت یونین کو ”ایک بداخلاق، مادہ پرست” قوم کاطعنہ دیتے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے۔ اس دوران میں ہمارے ہاں ازدواجی زندگی جس قدر تباہ ہوئی ہے او ر جس قدر اخلاق گرے ہیں۔ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔لیکن اس بھیانک صورت حال کے تدراک کے لیے کوئی منظم کوشش نہیںہو رہی۔
ایک طرف تو ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ عیسائی تہذیب کی بنیاد ہی خاندان یا کنبے کے تقدس پر ہے اور دوسری طرف خاموشی سے بداخلاقی اور طلاق کے بے پناہ طوفانوں کے منتظر بیٹھے ہیں۔ ادھر سوشلسٹ ریاست کا یہ حال ہے کہ وہ خاندان کو نئی اور بلند تر سطح پر لے جانے کی جدوجہد میں متواتر کا میابیاں حاصل کر رہی ہے۔
کتنے نکتہ چین ایسے ہیں جنہوں نے سوویت یونین کے نئے قوانین تحفظ مادر کا مقابلہ دوسرے ملکوں کے قوانین سے کیا ہے؟ یقینا ایسے ناقدوں کی تعدادبہت ہی تھوڑی ہے۔ بعض نے یہ کہہ دینا ہی کافی سمجھا ہے کہ یہ قوانین ماں کو اس کا اصل مقام واپس دلاتے ہیں۔ ہم بتا چکے ہیں کہ کس طرح سوویت یونین میں ایک طویل عرصے تک مائوں کے حفاظتی مرکز کھولے گئے اور وہاں عورتوں کی حالت سدھارنے کے لیے کس طرح انتھک کوششیں کی گئی۔ لیکن ہمارے ہاں کچھ بھی نہیں ہو رہا۔
مائوں کے تحفظ کے قانون پاس کرنے سے پہلے سوویت یونین نے ان کے لیے ہمہ گیر سرکاری امداد کا بندوبست کیا۔ چنانچہ معصوم بچوں کے لباس اور خوراک کی سالانہ امداد کی مالیت پندرہ کروڑ ڈالر تھی۔ یہ کوئی زکوٰہ نہ تھی، بلکہ اسے اسی طرح قبول کیا جاتا تھا۔ جیسے ہم اپنے پبلک سکولوں کی خدمات قبول کرتے ہیں۔
مائوں کے تحفظ وظائف کی صورت میں بھی امداد دی جاتی تھی۔ ساتویں بجے کی پیدائش پر یہ وظیفہ چار سو ڈالر سالانہ کے قریب ہوجاتی تھی۔اس منصوبے کے تحت لاکھوں خاندانوں کو وظیفے ملتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ بڑے کنبے عام کنبوں سے مادی استفادے کے اعتبار سے خسارے میں نہ رہیں۔
نئے قوانین مزید ارتقا کا پتہ دیتے ہیں لیکن ان میں بھی مسلمہ اشتراکی اصولوں سے سر موانحراف نہیں کیا گیا۔ ان میں ماں کی افضلیت کا اعتراف تین عطیوں کی صورت میں کیا گیا ہے۔ یہ عطیے تمغوں کی شکل میں دیئے جائیں گے۔ پہلے کا نام میٹرنٹی میڈل’ دوسرے کا آرڈر آف مدر زگلوری اور تیسرے کا نام ہیروئن مدرہے ۔ پہلا تمغہ درمیانے کنبے کے لیے ہے۔ دوسرا اس سے بڑے کنبے کے لیے اور تیسر اسب سے بڑے کنبے کے لیے ہے۔
اعلان کیا گیا ہے کہ آئندہ تمام مائوں کے وظیفے برھا دیئے جائیں گے۔ باقاعدہ مالی امداد اور مفت طبی امداد کے علاوہ ہر حاملہ عورت کو تیسرے بچے کی پیدائش پر اسی ڈالر وظیفہ ملا کرے گا۔ چوتھے بچے کی پیدائش پر ڈھائی سوڈالر نقد اور سولہ ڈالر ماہوار اور پانچویں بچے کی پیدائش تین سو چالیس ڈالر نقد اور چوبیس ڈالر ماہوار، غرضیکہ گیارہویں بچے کی پیدائش پر اس کی ماں کو ایک ہزار ڈالر نقد او رساٹھ ڈالر ماہوار وظیفہ ملا کرے گا۔
صرف سنجیدہ اخلاقی زاویہ نگاہ کے سبب بلکہ جنگ سے پیدا شدہ حل طلب مسائل کے پیش نظر بھی سوویت یونین کی بن بیاہی لڑکیوں اور بیوہ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ مالی امداد دی جاتی ہے۔ انہیں ہر ماہ سرکاری وظائف کی صورت میں خود بخود امداد پہنچنے لگتی ہے او ریہ وظیفے 12سال تک جاری رہتے ہیں اور فی بچہ 20سے 40ڈالر کی مالیت کے ہوتے ہیں۔ نرسریاں اور رہائشی سکول عام ہیں۔ جہاں ماں اپنے بچے کو جتنا عرصہ چاہے چھوڑ سکتی ہے، بچہ اسی کا رہتا ہے، اس سے چھینا نہیں جا سکتا۔
تمام حاملہ عورتوں کو کام سے 11ہفتے کی باتنخواہ رخصت ملتی ہے۔پانچ ہفتے بچے کی پیدائش سے پہلے خانہ نشین ہونے کے لیے اور چھ ہفتے بچے کی پیدائش کے بعد تک۔ جنگ کے دوران میں انہیں دگنا راشن ملتا رہا۔ علاوہ ازیں تمام سوویت یونین میں وسیع پیمانے پر نئی نرسریاں اور کنڈر گارٹن کھولے جائیں گے۔
بداخلاقی کے انسدادکی جدوجہد اورانسانی فطرت کی اصلاح کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں سوویت یونین کی بے مثال کا میابیاں یہ ہیں:۔
-1سوویت یونین میں پہلے اسقاط حمل کو قانوناً جائز قرار دیا گیا اور اس کے بعد سائنسی اقدامات کے ذریعے اس علت کو یکسر ختم کر دیا۔
-2 جب معاشی، سماجی اورا خلاقی ارتقا نے اسقاط حمل کر حرکت کو نا قابل معافی بنا دیا تو اسے فرد اور سماج کے خلاف ایک جرم قرار دے دیا گیا۔
-3 پہلے محض درخواست پرطلاق کی اجازت دے دی گئی، اس کے بعد بیس برس کے عرصے میں طلاق کے واقعات تقریباً نا پیدا ہو گے۔
-4اب مصالحتی عدالتیں قائم کر دی گئی ہیں۔ تاکہ طلاق کی مصیبت سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا ملے۔
-5جنسی بیماریوں کا قلع قمع کر دیا گیا۔
-6عصمت فروشی کو سماجی اتفاقات کی سطح تک پہنچا دیا گیا ہے۔
-7 ماں کے راستے میں جور کاوٹیں تھیں انہیں دور کر دیا گیا۔
-8مردوں اور عورتوں میں عملاً حقیقی مساوات قائم ہو چکی ہے۔
-9 سوویت یونین انسانی محبت اور شادی کو ایک ایسی وحدت میں منتقل کرنا چاہتا ہے جو اخلاقیات کے نئے شریفانہ شعور پر مبنی ہو گی اور دنیاوی وروحانی جبر سے آزاد ہو گی۔
عرصہ ہوا کہ کارل مارکس کے زندگی بھر کے ساتھی، سوشلسٹ فلسفی فریڈرک انیگلس نے پیش گوئی کی تھی۔
رفتہ رفتہ ایک نئی انسانی نسل معرض وجود میں آئے گی، یہ ایسے مردوں پر مشتمل ہو گی جنہیں زندگی بھر میں پتہ نہیں چلا ہو گا کہ روپے یا کسی دوسری سماجی طاقت کے ذریعے سے کسی عورت کی سپرد گی خریدنے کے کیا معنی ہیں اوریہ نسل ایسی عورتوں پر مشتمل ہو گی جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہ جانا ہو گا کہ محبت کے علاوہ کسی دوسرے خیال سے اپنے آپ کسی مرد کے سپرد کرنے کے کیا معنی ہیں”۔
اور یہ پیش گوئی آج سچ ثابت ہو گئی ہے۔

شراب کی ممانعت سنگینوں کے بل پر
اب تک ہمارے بحث صرف ایسے مسائل تک محدود رہی ہے۔ جن کا تعلق جنسی بے رہروی سے براہ راست تھا۔ لیکن بداخلاقی کے اور بھی مظہر ہیں اور ہم نے ابتدا میں ”سماج کے لیے مضر بدکرداریوں” کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس کے باوجود اکثر قاریوں کو ہماری خطرناک فردگذاشت کا احساس ہو گیا ہو گا۔ جس کی طرف ہم نے کہیں کہیں اشارہ کرنے پر کفایت کی ہے۔ ہمارے دہ فرو گذاشت نشہ بازی، بدکاری کا وہ محرک شراب ہے۔
نشہ بازی ایک سماجی مسئلہ ہے، شراب نوشی، بداخلاقی کا ایک جزو اور نشہ بازی کی عادت کی ایک صورت ہے۔ جسے کوئی گناہ تصور کرے یا نہ کرے اس کا نتیجہ سماج کے لیے ہمیشہ خطرناک اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ شراب کے حق میں…. یا اس کے خلاف ازل سے بحث چلی آتی ہے او رہمارا ارادہ اس بحث میں نئی یا پرانی دلیلوں کا اضافہ کرنا نہیں ہے کیونکہ سوویت یونین میں دونوں قسم کی دلیلوں کا جواب سائنسی اور عملی طریقے سے دیا جا چکا ہے اور انہیں سچ ثابت کیا جا چکا ہے۔ یا جھٹلایا جاچکا ہے۔ اور اب ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہاں شراب کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا چکا ہے۔ کیونکہ اسے عصمت فروشی اور بدمعاشی کے ساتھ ہی حل کیا جاچکا ہے۔
لیکن پھر بھی کوئی صاحب سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آیا شراب نوشی واقعی کوئی مسئلہ ہے۔ سوویت یونین میں بیس سال پہلے اورہمارے ملکوں میں آج تک شراب نوشی ایک ایسا محرک تھا۔
لیکن پھر بھی کوئی صاحب سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آیاشراب نوشی کوئی مسئلہ ہے۔ سوویت یونین میں بیس سال پہلے اور ہمارے ملکوں میں آج تک شراب نوشی ایک ایسامحرک تھا۔ اور ہے، جس کے ذریعے بدمعاشی اورجنسی بیماری پھیلتی ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق ہر ایماندار پادری، پولیس افسر، ڈاکٹر، محکمہ صحت عامہ کا افسر اور رضا کار کرے گا۔
گناہ کا سوال اٹھایا بھی نہ جائے ، تو بھی یہ ایک مسلمہ امر ہے۔ کہ اکثر مرد عورتیں اور نوجوان شراب کے نفسانی محرکات سے اثر پذیر ہوتے ہیں، جن سے ترغیب بدکاری کی قدرتی مزاحمت کا جذبہ بے حد کمزور پڑ جاتا ہے۔
وضاحت کے لیے یہ مثال دی جا سکتی ہے۔ کہ پوری طرح اپنے ہوش وحواس میں ہوتے ہوئے کوئی سپاہی یا جہاز شاید ہی کسی طوائف کے پاس جانا پسند کرے گا۔نا بالغوں کے جرائم سے متعلق عدالتی کاغذات اس حقیقت کے شاہد ہیں۔ بہت کم نوجوان نا بالغ لڑکیاں پہلے شراب پیئے بغیر جنسی بد فعلی کی مرتکب ہوئی ہیں۔ فوجی ڈاکٹروں کا تلخ تجربہ ہے کہ متعدد بار شراب پینے کے اکثر سپاہی اپنی قوت فیصلہ اور فرائض سے اس درجہ غافل اور عاری ہوجاتے ہیں کہ وہ نہ صرف بری سے بری عورت کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ بلکہ جنسی بیماری سے بچائو کی دوا کو استعمال کرنا بھی بھول جاتے ہیں۔
فعلیات (علم وظائف الاعضائ) اور نفسیات کے ماہر متفق ہیں۔ کہ شراب سے تمام قوت مزاحمت ہوا ہو جاتی ہے۔
تاہم شریفانہ طریقے پر بھی بہت زیادہ شراب پی جاتی ہے۔ اخلاقی اور سماجی اعتبار سے یہ بھی کوئی کم اہم مسئلہ نہیں۔ ہارورڈ میڈیکل سکول کے پروفیسر اور مساچوسٹس جنرل ہسپتال کے ماہر اعلیٰ امراض نفسیہ، ڈاکٹر سٹیلنے کوب نے شراب نوشی کے اس طبی پہلو پر بڑی صفائی سے روشنی ڈالی ہے۔ جس کا جنس اور جرائم سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر کوب کا قول ہے کہ اس برعظیم میں ساٹھ لاکھ افراد ذہنی بیماریوں میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ وہ ایک طرح ”جنون کے لگ بھگ پہنچے ہوئے ہیں۔ ان میں پندرہ لاکھ ایسے ہیں کہ وہ نہ شراب سے ہی بناہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کے بغیر رہ سکتے ہیں”۔ دوسرے لفظوں میں آج کل ہمارے ہاں تقریباً پندرہ لاکھ افراد پکے شرابی ہیں۔
درست ہے کہ ان میں سے ابھی تک جنسی اعتبار سے ناکارہ نہیں ہوئے۔ اورآتشک سے مبرا ہیں تاہم وہ رفتہ رفتہ اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کوختم کر رہے ہیں۔ اپنے گھروں اور عزیزوں کا سکون ومسرت تباہ کر رہے ہیں۔ اور سماج پر برا اثر ڈال رہے ہیں۔ معاشرتی نقطہ نظر سے ہم ان کی عادت شراب خوری کو بد اخلاقی سے تعبیر کریں گے۔
سوویت یونین میں جو صورت حال ہے۔ اس کے متعلق ہمارے ہاں بے حد دلچسپی ظاہر کی گئی ہے۔
سوویت یونین میں شراب کے مسئلے کے بارے میں ہمارا علم صرف سنی سنائی باتوں تک محدود ہے۔ وہاں کے حالات کے بارے میں خبریں اکثر متضاد ہوتی ہیں۔ آج ہم یہ پڑھتے ہیں کہ سرخ فوج کا ایک مشہور کما ن افسر پکا صوفی ہے۔ وہ مطلقاًشراب نہیں پیتا۔اس خبر کو تحریک امتناع کے علمبر دارا اور رضا کار خاص دلچسپی اور انہماک سے پڑھتے ہیں۔ لیکن دوسرے ہی دن یہ پڑھ کر وہ چونک جاتے ہیں کہ اس سے بھی دو بڑے اور مشہور جرنیلوں سے اتحادیوں کی کامیابی کی خوشی میں شراب پی۔ اور یہ کہ ودو کا (آتش ناک روسی برانڈی، اور شراب) سوویت یونین کی سرکاری دعوتوں کے موقعوں پر پیش کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ حضرات فرض کر لیتے ہیں کہ وہاں شراب نوشی آداب معاشرت کا ایک ایسا مظہر ہے۔ جسے سوویت حکومت نے فرد کے ضمیر پر چھوڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کے ماہرین نے، جو شراب نوشی کے مسئلے کے مطالعے میں بری طرح کھوئے ہوئے ہیں۔ آج تک یہ دریافت کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ کہ سوویت یونین میں شراب کے ساتھ آخر کیا بیتی۔
صورت حال یوں ہے کہ اشتراکی سائنس دانوں نے بدکاری، عصمت فروشی اورجنسی بیماری کی انسدادی جدوجہد کے دوران میں محسوس کیاکہ جنسی مسائل اس وقت تک پوری طرح حل نہیں ہو سکتے۔ جب تک ان کے ساتھ ہی شراب کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا۔لہٰذا وہ اسی طریقے پر میدان عمل میں کود پڑے جو جنسی بداخلاقی کے خلاف ان کی کامیاب جدوجدہ کاخاصہ تھا۔ سوویت میں شراب کے انسداد کی جدوجہد سماجی تجربات کی تاریخ کا ایک دلچسپ باب ہے۔
اس جدوجہد کا آغاز تو ماضی بعید میں ہو چکا تھا۔ ہزار ہا سال سے روس جانے والے سیاح گواہی دیتے آئے تھے۔ کہ سلطنت زار میں شراب نوشی کی بدعت عام ہے۔
ہمہ گیر شراب نوشی اور ہمہ گیر جرائم۔ زنا، عصمت دری، آتشز دگی قتل منظم قتل عام، یہ جرائم شاہی محل سے لے کر کسان کے غلیظ جھونپڑے تک زار شاہی روس کے ہر طبقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
روس کے مشہور ناول نگار ترجنیف رقمطراز ہیں۔
عام طور سے ایک شہری خود فراموشی تک کفایت کرتا ہے۔ لیکن ایک پادری کسی مقدس موقعہ پر خوب پیٹ بھر کر پیتا ہے”۔
روس کے کٹر مذہبی لوگ سال بھر میں بے شمار تہوار مناتے تھے۔ اور عیسائی اور تاروں کی یاد میں بے حد وحساب پیتے تھے۔ حتیٰ کہ کثرت شراب خوری مذہبی تہواروں کی ایک مستقبل خصوصیت بن گئی تھی۔ لیکن انقلاب کے بعد صرف پندرہ سال کے عرصے میں یہ صورت حال یکسر بدل گئی اور امریکہ کے مشہور ڈاکٹر کنگس بری اور نیو شولم یہ اطلاع دینے کے قابل ہو گئے کہ ہم نے ایک تہوار کے دن بحیرہ سود سے دریائے والگا کے منبع کی طرف دور تک سفر کیا۔ لیکن ہم نے بہت کم شراب نوشی ہوتے دیکھی، اور کسی فرد کو شراب کے نشے میں بے ہوش نہ پایا، حالانکہ خود جہاز میں اور ہر بندر گاہ بے روک ٹوک شراب بک رہی تھی۔
اب ہم اس ظاہری تضاد کی اصلیت بیان کریں گے۔ ہمارے ملکوں میں اصل حقائق کو ابھی تک خفیہ رکھا گیا ہے۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ وہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ کہ امتنا عی قوانین سے بے نیاز رہتے ہوئے سائنسی اصولو ں سے کام لے کر شرا ب نوشی کی لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ ہمارے ملکوں میں امتناع کی تحریک چلا رہے ہیں۔ وہ بھول کر بھی سوویت یونین کا حوالہ نہیں دیتے۔ شاید وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں۔ کہ روس نے سو سال سے زیادہ عرصے تک شراب نوشی کے خلاف ہر ممکن طریقے سے وسیع پیمانے پر جدوجہد کی لیکن ہر بار ناکامی ہوئی۔ حتیٰ کہ ایک واحد عملی حل تلاش کر لیا گیا۔اور اسے آزمایا گیا۔ یہ آخری طریقہ پہلے تمام طریقوں سے اس لیے افضل ہے۔ کہ یہ کامیاب ہوا۔
روس میں شراب نوشی پر قابو پانے کی منظم کوششیں 1819شروع ہوئیں اس وقت تک روس میں ہر جگہ شراب فروشی ہوتی تھی۔ اور جس کا جی چاہتا تھا یہ بیوپار شروع کر لیتا تھا۔ ان دنوں امریکہ اور انگلستان میں جوتجاویز پیش ہو رہی تھیں زار کی حکومت نے سب سے پہلے ان پر عمل کیا اورشراب کی بکری پرسرکاری اجارہ داری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ نظام اجارہ داری آٹھ سال تک قائم رہا اور حکومت کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہو۔ لیکن شراب نوشی پر اس کا کوئی اثر نہ پڑا۔ اس رفتا روہی رہی۔ علاوہ ازیں اس سسٹم کا نفاذ بہت دقت طلب تھا۔ اور رشوت ستانی کے سبب جلد ہی بدنام ہو گیا۔ آخر کار 1926میں زار روس نے شراب کی تقسیم کا انتظام پر ائیویٹ کا ر پوریشنوں (بڑی کمپنیوں) کے حوالے کر دیا۔ اور ساتھ ہی شراب کی بکری پر ٹیکس لگا دیا۔ ا س طرح ایک ایسے نظام کی بنیاد پڑی جو اپنی ابتدائی شکل میں ٹیکس کی بھر مار کے باوجود شراب کی روز افزوں بکری کے موجودہ نظام سے مشابہ تھا۔ اور یہی طریقہ ابھی تک بہت سے ملکوں میں رائج ہے۔ مقصود تھا کہ شراب کو اوسط درجے کے شہری کے لی مہنگی اور ریاست کے لیے منفعت بخش بنا دیا جائے۔
زار شاہی روس میں شراب پر سرکاری کنٹرول حکومت کے لیے بہت نفع بخش ثابت ہوا۔ ایسے لوگوں کی جیبوں سے بے شمار روپیہ کھینچا جو ودو کا کی مقدار میں کمی کرنے کی بجائے ضروریات زندگی کو قربان کرنا زیادہ مناسب سمجھتے تھے۔ لیکن ٹیکس کے بتدریج اضافے پر بھی شراب کی کھپت کم نہ ہوئی۔
کوئی تیس سال تک شراب نوشی ترقی پر اور سلطنت زار زوال پر رہی جب حالت بہت خراب ہو گئی۔ تو پادریوں نے وعظ وتلقین اور توبہ کا پر چار شروع کیا۔ سیاسی اصلاحات کی جو تحریک انیسویں صدی کے وسط میں شروع ہوئی وہ 1859میں اپنے عروج پر پہنچی۔تو کلیسا نے زار کو شراب کی کشید کے تمام کارخانے بند کرنے پر راضی کر لیا۔ لیکن زار کی رعیت بھی آخر اسی طرح کے انسان تھے، جیسے دوسرے ملکوں کے لوگ ان پر الٹا رد عمل ہوا۔ اور جو لوگ محض بیر (جوکی شراب جو ہلکی ہوتی ہے) پر کفایت کرتے آئے تھے۔ شراب کو ترک کرنے کے بجائے ودو کا (تیز برانڈی) پینے لگے۔
تین سال بعد سرکاری کنٹرول کا نیا طریقہ رائج ہوا جس سے ہم سب اچھی طرح آگاہ ہیں یعنی لائسنس کا طریقہ جاری کر دیا گیا۔ اور شراب کی پرچون کی دوکانیں گھٹا دی گئیں زار نے یہ اقدام تحریک امتنا کے لیڈروں کو خوش کرنے کے لیے اٹھایا تھا۔
اس کے بعد تقریباً تیس سال کے عرصے میں زار کی حکومت شراب کی کشید کے سرکاری اور لائسنس یا فتہ کارخانوں کی تعداد ڈھائی لاکھ سے ایک لاکھ پندرہ ہزار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن اس اثنا میں ودو کا کی بکری پہلے سے بھی بڑھ گئی۔
1846 میں ڈاکٹر سیمیو نووچ الیگز یف امریکہ آئے۔ یہ انسان دوست ڈاکٹر مشہور مصنف اور فلسفی کونٹ طالسطائی کا گہرا دوست تھا۔ امریکہ میں ان دنوں جو امتناعی سرگرمیاں جاری تھیں، اسے ان سے روشناس کرایا گیا۔اوروہ یہ جذبہ لے کر اپنے وطن واپس گیا کہ وہ روس کے عوام کو رضا کارانہ طور پر شراب چھوڑنے کی تلقین کرے گا۔ اس نے مشہور امتناع پسند جماعت انتی سیون لیگ کے انداز میں کئی کتابیں لکھیں، اس کی کوشش کا صرف ایک نتیجہ نکلا کہ زار نے ایک قانون کے ذریعے اس قدیم رواج کو جرم قرار دے دیا۔ جس کے مطابق کا رخانہ دار اپنے مزدوروں کو تنخواہ کا ایک حصہ نقدی میں اور دوسرا حصہ ودوکا کی صورت میں ادا کیا کرتے تھے۔
اس طرح روس کے صنعتی مرکز امریکہ کے قدیم کانوں کے مرکزوں کی طرح مغربیائے گئے۔ یعنی کارخانہ داروں نے اب کارخانوں کے قریب ہی شراب کی دوکانیں کھول لیں اور مزدور لوگ اپنی تنخواہ وصول کرتے ہی ان کی نذرکرنے لگے۔ لیکن بے روک آزاد شراب نوشی کے منفی اثرات صنعتوں سے منافع کی تخفیف کا موجب ثابت ہونے لگے اس وقت تک روس کے دیسی اور غیر ملکی سرمایہ داروں نے مل کر زار کی وسیع اور زرخیز سلطنت اور لاکھوں مزدوروں کو خوب لوٹنا شروع کر دیا تھا انہوں نے پیدا وار کے جدید اصول رائج کئے مشینی صنعت کے فروغ کے ساتھ مزدوروں کے ہنر اور محنت کی لوٹ کھسوٹ بڑھی۔ ایک مزارع تو شراب کے نشے میں دھت ہوتے ہوئے بھی اپنے قدامت پرست جاگیر دار کے کھیتوں میں اس کے حسب منشا کام جاری رکھ سکتا تھا۔لیکن شراب کی عادت اور اس سے پیدا ہونے والی خرابیاں کارخانہ داری کے نئے نظام کے لیے وبال بن گئیں ۔ لہذا انیسویں صدی کے اختتام پر روس میں امتناع شراب کی طاقتور اور شدید تحریک پیدا ہوئی۔ اس تحریک کا سرغنہ کلیسا تھا۔ نہ حکومت بلکہ اس کے پیچھے نئے صنعتی سرمایہ دار تھے۔
ان جدید سرمایہ داروں کو ڈالر نکولائی گریگو ریف جیسا قابل لیڈر مل گیا۔ اس نے 1994 میں ”قاصد امتنا ع” کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ اس کی مہم پوری طرح منظم تھی اس نے شراب کی تجارت میں حکومت کی کثرت شرکت کو بداخلاقی سے تعبیرکیا اور بتدریج بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی سخت مخالفت کی۔ ڈاکٹر گر یگوریف نے شراب پر ” سرکاری کنٹرول” کا پردہ تار تا ر کر دیا۔ اس کی پروپیگنڈہ مہم کے نئے صنعتی سرمایہ داروں کی بے پناہ مالی امداد حاصل تھی۔
لیکن یہ مہم بری طرح ناکام رہی۔ اور حکومت کے ٹیکسوں کی سنگین دیوار سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئی۔ جب تک زار تحت شاہی پر برا جمان رہا۔اس کی آمدنی میں شراب کے ٹیکسوں کی بدولت بالکل اسی طرح اضافہ ہوتا رہا۔ جس طرح آج کل امریکہ کے ریاستی بجٹ یا مستعمرہ کینیڈا کی آمدنی میں آئے سال اضافہ ہوتا رہا ہے، جہاں سرکاری کنٹرول اور ٹیکسوں کی بھرمار کی بدولت شراب کی کھپت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تاہم جو طوفان شراب کے خلاف اٹھا تھا۔ اسے دبایانہ جا سکا۔ 1898میں زار کے اپنے حلقوں میں پھوٹ پڑگئی۔ اور زار کا ایک طاقتور چچاز اد بھائی شہزادہ سکندر اس قصیئے میں حکومت کا زبردست مخالف بن گیا، اس نے امیروں وزیروں کو اپنا حامی بنانا شروع کیا اس کے مقاصد کافی حقیقت پسندانہ تھے۔ وہ ایک امیر جاگیردار تھا۔ جس نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ صوفی مزدور کی طرح صوفی کسان بھی زیادہ مفید اور نفع بخش محنت کش ہے۔ دوسرے ملکوں میں جو امتناعی مہمیں جاری تھیں، ان کے مطالعے کے بعد اس نے اپنا سارا زور روس میں امتناعی تعلیم پھیلانے پر صرف کر دیا۔
سب سے پہلے اس نے تمام شراب دشمن گروہوں کو ایک جماعت یعنی انجمن امتناع میں متحد کیا، اس نے اپنے اور پنے ساتھیوں کے سرمائے سے انجمن کا خزانہ بھر دیا۔ جس میں نہ صرف ہزاروں بلکہ لاکھوں روبل اس وقت جمع ہوگئے جب کہ روبل کی قدرنصف ڈالر کے برابر تھی۔ اس کے بعد اس نے ہر طرف روپے کا چھٹا دے دیا۔
اس مہم کا سرچشمہ ماسکو میں الیکس محل امتناع تھا۔ اس ہیڈ کوارٹر میں تربیت یافتہ کا رکنوں کا ایک بڑا عملہ تھا۔ جس نے دنیا میں سب سے پہلے امتناعی تعلیم کے سائنسی مرکزوں کا منصوبہ بنایا اور تعلیمی مہم کا آغاز کر دیا۔ انہوں نے ایک دوسری عمارت میں ہزاروں کتابوں پر مشتمل ایک کتب خانہ کھولا۔ کیمیائی اور وظائف اعضاء کے معائنے کی تجربہ گاہیں کھولیں۔ جن کا عملہ بہترین ماہرین فن پر مشتمل تھا۔ انہوں نے تنخواہ وار محقق، اہل قلم مقرر اور استاد رکھے۔ یہ تھا ہمارے ہاں جدید تحقیقاتی مرکزوں کا باوا۔ اس کی مثال یصیل یونیورسٹی میں تجزیہ شراب کا سکول ہے جو حال ہی میں قائم ہوا ہے۔ جس کا عملہ مشہور ڈاکٹروں ماہرین فعلیات ونفسیات ماہرین عمرانیات، قانون دانوں اور پادریوں پر مشتمل ہے۔ جو بڑے انہماک سے یہ تحقیق کرنے میں مصروف ہیں کہ شراب انسانی دماغ، جسم اور سماجی تعلقات پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ گویا یہ پروفیسر صاحبان کسی شرابی باپ کے لڑکے سے تمام ضروری باتیں دریافت نہیں کر سکتے۔
شہزادہ سکندر کی انجمن امتناع نے حقائق اور قیاسات دونوں قسم کے مواد کا کافی ذخیرہ جمع کر لیا۔ اور اس نے وہ کچھ کر دکھایا۔جس کے متعلق ییل کا سکول ابھی تک منصوبہ ہی نہیں بنا سکا۔ یعنی اس نے یہ تمام چیزیں نہایت دل کش انداز میں لاکھوں عوام تک پہنچا دیں شہزادے نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری رکھیں۔ اس نے اس مقصد کے لیے پارک ، باغات ہر عمر کے افراد کی تفریح گاہیں عظیم الشان ریستوران، تماشا گاہیں تھیٹر غرضیکہ ہر موقع اور مقام کو استعمال کیا۔ ان میں سے اکثر ادارے مفت چلائے گئے اور جب تک وہ چالو رہے نہایت مقبول عام رہے۔ حالانکہ وہ شراب کا قطرہ تک مہیا نہ کیا تھا۔ وہاں باقاعدہ وقفوں کے بعد شوقین اور کچھ سننے کے لیے بے قرار مجمع کو ہوشیار مقرر خطاب کرتے اور شراب نوشی کی اصلیت سے انہیں باخبر کرتے۔ 1903 اس مہم کے عروج کا سال تھا۔ اس پر صرف ماسکو شہر میں پچیس لاکھ ڈالر صرف ہوئے۔ شہزادے کی انجمن امتنا ع روس کے طول وعرض میںتین سوستر امتناعی تھیٹر چلاتی تھی۔ اب خرچ کا انداڑہ لگا لیجئے۔ نتیجہ؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔
امتناعی سرگرمیوں کی مخالفت 1905میں نقطہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس سال جب کہ سیاسی دبائو ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔ روس کا ایک مشہور ومعروف اور جابر رئیس، ڈیوک اعظم سرگش جو ماسکو کا گورنر جنرل اور زار وقت کا چچا تھا۔ انجمن امتناع میں شریک ہو گیا۔وہ اپنے ساتھ شاہی خاندان دوسرے افراد کو بھی اس تحریک میں لایا۔ ان میں زار وقت کا ایک دوسرا چچا ڈیوک اعظم کونس ٹینیٹسن بھی تھا۔ اس نے ایک نام نہاد تنظیم، کل روس عیسائی مزدور یونین قائم کی اور اس کی صدارت خود سنبھالی۔ وہ شراب کی مکمل بندش کا حامی تھا۔ اس پروگرام سے زیادہ با اثر اور عمدہ پروگرام ذہن میں نہیں آسکتا۔
لیکن اس تحریک کا اور اس کے ساتھ ہی محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی لوٹ کھسوٹ کا عوامی رد عمل اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ جب کہ کسی نے ڈیوک اعظم سرگس کی گود میں ایک اعلیٰ ساخت کا بمب اٹھا پھینکا۔ تشدد کے اس توقع کے ساتھ ہی ڈیوک اور اس کی مہم تاریخ کے ہمپٹی ڈمپٹی کرداروں دبچوں کی پوری کے کردار جن میں انڈے کانام ہپٹی ہے کی گود میں جا سوئی۔ اور اس طرح دبی کہ دوبارہ ابھر نہ سکی۔ تمام واعظ اور وعظ اور شراب نوشی کے متعلق حقائق اور اعداد وشمار اس طرح منتشر ہوئے کہ ان کو پھر کبھی جمع نہ کیا جا سکا۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے۔ کہ کس طرح شراب کی اجارہ داری اس امتناعی مہم کی مکمل نا کامی کا باعث ہوئی۔جب حکومت نے 1894میں شراب کی فروخت خود سنبھالی تھی تو پادریوں نے شراب کی نئی سرکاری دکانوں کی کامیابی کے لیے دعا کی تھی۔ اور سرکردہ امرائ، وزرا ء اور صنعتی سرمایہ داروں نے یوم افتتاح پر شراب سپلائی کرنے کے ٹھیکے، شراب کی پرچون پر سرکاری اجارہ داری جو کینیڈا کے رائج الوقت نظام سے مشابہ ہے۔ قائم ہونے کے پندرہ سال بعد قانونی طور پر جائز ودو کی کھپت ایک کروڑ چالیس لاکھ گیلن سالانہ سے پچیس کروڑ گیلن سالانہ ہو گئی۔
1904سے 1913کے درمیان شراب کی بکری سے حکومت کو پانچ ارب روبل منافع ہوا۔ بادی نظریہ میں یہ رقم معمولی ہے۔ لیکن اس کا حکومت کی کل آمدنی سے مقابلہ کیا جائے تو اصلیت واضح ہو جاتی ہے اس اثنا میں حکومت کی کل آمدنی بیس ارب تھی۔ یعنی اکیلی شراب سے حاصل ہونے والا منافع کل آمدنی کا ایک چوتھائی تھا۔ اور یہ حقیقت ہے۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز پربھی زار کی حکومت کو اپنی کل آمدنی کا چوتھا حصہ صرف شراب کی بکری کے منافع سے حاصل ہوتا تھا۔ اس صورت حال کا موازنہ کینیڈا سے کیا جا سکتا ہے جس کے بعض صوبے کئی سال سے اپنے بجٹوں کو زیادہ تر مختلف کی شراب کی بکری سے حاصل شدہ منافعوں کے بل پرمتوازن بنا رہے ہیں۔
روس میں امتناعی تعلیم کی وسیع مہم اور شراب پر سرکاری کنٹرول کے وقت سے لے کر 1914تک ودو کا کی کھپت پہلے سے پانچ گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ اور شراب پینے والوں کی جیبوں سے ٹیکس میں جانے والی رقم دن بدن بڑھتی گئی۔
لیکن شراب کے خلاف جدوجہد جاری رہی۔ اس اثنا میں ایک نئی تنظیم یعنی سکولوں میں امتناع شراب کی جدوجہد کرنے والی انجمن کی بنیاد پڑی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے جس شدت سے روس شراب نوشی کی مصیبت میں مبتلا تھا۔ اس کی مثال دینا کے کسی ملک میں نہ ملتی تھی۔ اس سوسائٹی نے سلطنت کے طول وعرض کا دورہ کیا اور اصل صورت حال کے متعلق اعداد وشمار جمع کئے 1913میں وہ ایسے حقائق شائع کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ جن کی اجازت زار شاہی کے محکمہ احتساب (سنسر) نے دی مثال کے طور پر اسی فی صدی سے زیادہ نوجوان روسی طلبہ اور ساٹھ فی صد سے زیادہ روسی لڑکیاںودو کا کی عادی تھیں۔ ایک تعلیمی ضلع میں طلبہ کی کل تعداد پانچ ہزار سات سوتھی۔ سوسائٹی کے کارکن اس ضلع میں حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے گئے اور ڈھائی ہزار ایسے طلب سے ہم کلام ہوئے جو شراب کے نشے میں دھت تھے یا جنہوں نے اعتدال پی رکھی تھی۔ کارخانہ داروں کے دبائو پر ماسکو کی بلد یہ تحقیقات کی اور معلوم ہوا کہ ماسکو کے بالغ باشندوں میں نوے فیصد نہایت تیز شراب پینے کے عادی تھے ۔
نوبت رفتہ رفتہ ہی یہاں تک پہنچی تھی۔ شاہی مشیر نکولس ڈی کر یمر کو امتناعی مہم کا کھوکھلا پن پہلے ہی نظر آگیا تھا اس نے1906 میں زار کے سامنے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں کہہ دیا تھا کہ یہ خیال غلط ہے کہ لوگ تفریحی سرگرمیوں کی بدولت شراب پینا چھوڑ دیں گے۔ یا تھیٹروں اور پارکوں میں ڈرامے اور تقریریں کرنے سے شراب نوشی کا انسداد ممکن ہے۔ لیکن خود ڈیمی کریمر کی تجاویز بے معنی اور نا کارہ سی تھیں اس کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی کہ انجمن امتاع کے وسیع پرا پیگندائی ادب کو ہمارے ملک کی طرح صرف وہی لوگ پڑھتے اور اثر لیتے تھے جو خود شراب نہیں پیتے اورپکے پرہیز گار تھے شراب نوش حضرات ایسے ادب کو ہاتھ نہ لگاتے تھے او وہ شہزادہ اسکندر کی تفریح گاہوں میں مفت جی بہلاتے تھے اس طرح جو روپیہ بچاتے اس سے ودو کا خرید کر پیتے تھے۔ 1910میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ امتناعی مہم کی خیروبرکت سے شراب کی کھپت اور بڑھ گئی اوراس مہم کی جتنی کمیٹیاں تھیں ان میں سے فی کمیٹی نوکے حساب سے سرکاری ٹھیکے چل نکلے۔ تاہم ناکامی اور مایوسی کے باوجود امتناعی تنظیمیں اس بدعت کے خاتمے پر غور کرنے کے لیے ایک کل روس اجتماع بلانے میں کامیاب ہوگئیں اس اجتماع میں ٹریڈ یونینیوں نے بھی شرکت کی اور انہوں نے شراب نوشی سے پیدا ہونے والے سماجی اور معاشی مسائل اٹھالیے۔ انہوں نے ڈومار زا رروس کی پارلیمنٹ میں دبائو ڈالا کہ سرکاری ٹھیکوں کے اوقات فروخت کو قانوناً محدود کیا جائے لیکن اس کا نگرس کے انعقاد سے جو نتیجہ نکلا وہ صرف یہ تھا کہ پارلیمان میں ایک بل پیش ہو اجس میں ودوکا میں نشے کی نسبت پچاس سے سنتیس فیصد کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ لیکن یہ بل بھی قانون نہ بن سکا۔
اس کے چار سال بعد یعنی 1914میں زار شاہی ریاست کے لیے شراب کا مسئلہ ہنگامی صورت اختیار کر گیا۔ شاہی حکومت نے انگلستان اورفرانس کے ساتھ فوجی اتحاد کی پالیسی مرتب کی تھی۔ لہٰذا لاکھوں سپاہیوں کو جدید ترین اسلحہ جنگ سے لیس کرنے کا مسئلہ در پیش ہوا اور زار رو س کو صنعتی سرمایہ داروں سے سمجھوتہ کئے بغیر نہ بن پڑی۔
لیکن شراب کے سلسلہ میں سرمایہ دار اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے ان کا مطالبہ تھا کہ حکومت شراب پر ٹیکس کم کر کے کسی اور ذریعے سے بجٹ کو متوازن بنائے اور ودو کا کی بکری کو حتی الوسع گھٹائے۔ لہٰذا 1914میں زار نے اعلان کیا کہ شراب پر مزید ٹیکس نہیںلگائے جائیں اور ان مقدار میں اضافہ بھی نہ کیا جائے گا اسی سال مشرقی محاذ پر جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ مورچوں میں شراب نوشی جاری رہنے سے کوئی نقصان نہ تھا۔ لیکن کارخانوں اور دیہات میں اس کا بہت برا نتیجہ نکلا کیونکہ پیداوار خاطر خواہ نہ ہو سکی اس لیے سرمایہ داروں نے زارروس کوالٹی میٹم دے دیا۔
آخر کار شراب کی خرابی کا آخری لمحہ آپہنچا۔ زار نے ڈرامائی اور جابر انہ انداز سے تمام روس میں شراب کی جبری اور مکمل بندش کا اعلان کر دیا۔ شہنشاہ معظم نے فرمایا کہ یکم جولائی 1916کی صبح سے ودو کا یا بیر کی کشید اور فروخت کومابدلت کی ذات اقد س کے خلاف سنگین جرم تصور کیا جائے گا لیکن شراب کی فروخت کے معاملے کو ہر علاقے کے مقامی حکمران کی مرضی اور فیصلے پر چھوڑ دیا گیا۔
اس فرمان کا اجرا اس قدر خلاف توقع تھا اور اس پر اس قدر شدت اور تکمیل سے عملدر آمد ہوا کہ ساری قوم سکتے میں آگئی۔ پہلی سے کوئی پراپیگنڈا اور کوئی رسم افتتاح ادانہ کی گئی تھی۔ لہٰذا اعوام اس سخت اقدام کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے سے قاصر رہے وہ دم بخود تماشائی بنے رہے اور ادھر دہشت آفرین خفیہ پولیس کی رہنمائی میں مسلح سپاہیوں کے دستے ایک ٹھیکے سے دوسرے ٹھیکے پر چھاپہ مارتے۔ شراب کے تمام ذخیرے کو بدروئو میں بہا دیتے اور دکان پر تالا چڑھا دیتے جہاں تک کشید گاہوں کا تعلق ہے وہ بالکل مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ بڑے سے بڑے رئیس یا وزیر کی جرأت نہ تھی کہ شاہی فرمان کی مخالفت کرے۔ مسلح سپاہیوں کے دستوں نے شراب کی ہر بھٹی اور ہر کشید گاہ پر حملہ کیا۔ تمام دود کا اور بیر دریائوں میں بہا دیا اور اس کے آلات کشید کو اس طرح تباہ کر دیا کہ دوبارہ مرمت کے قابل نہ رہے۔چند ہفتوں کے اندر زار شاہی میں شراب کی پیدا وار پوری طرح بند ہو گئی۔
تاریخ میں یہ واحد مثال ہے کہ شراب کا قطعی امتناع اس طریق پر عمل کیا گیا۔ عوام پر اس کا روائی کا جورد عمل ہوا ہو گا وہ کبھی سامنے نہ آسکا۔شراب نوشی کے مخالف اور شرابی دونوں زار کے اس کے اس ہنگامی جبری اور مکمل اقدام پر دم بخود تھے۔ سولہ کروڑ باشندے خاموش، حیران اور مبہوت رہے۔
زار روس نے قلم کے ایک ہی جھٹکے سے اپنے مقبوضات میں شراب اور شراب خوری کاصفایا کر دیا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر امریکہ میں اٹھارہویں ترمیم کے لیے زبردست تحریک پیدا ہوئی۔ روس کی بدرروئوں میں لاکھوں، کروڑوں گیلن ”شیطانی” یعنی شراب کے بہائو کے تصورپر بعض مبصرین خوشی سے دیوانے ہو گئے انہیںپراپیگنڈے کے لیے زبردست مواد مل گیا زار روس نے کوئی امتنا عی قانون پاس نہ کیا تھا۔اس نے چٹکی بجاتے ہی شراب کی جڑ ما ر دی تھی اس کی تمام رعایا ڈر کے مارے چپ رہی۔ 1916 کے نصف آخر اور 1917کے ابتدائی مہینوں میں روس کے باشندوں کو شراب کی شکل تک دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ لاکھوں نا بالغ لڑکے جو روزانہ چالیس فیصد الکحل آمیز شراب کے پیمانے کے پیمانے پر پیمانے خالی کرنے کے عادی تھے وہ نالی کے راستے وود کا کے غائب ہو جانے پر کافی صحت مند نظر آنے لگے۔ گویا یہ امتناع قدرے کامیاب رہا۔
اور یہ امتناع دراصل کل نو مہینے تک کامیاب رہا۔
جو عادت عارضی طور پر دب گئی تھی۔ وہ نومہینے کے بعد اچانک لاوے کی طرح پھر اچانک پھوٹ پڑی۔ روس کے لاکھوں انسانوں میں ناقابل برداشت پیاس بھڑک اٹھی ادھر میدان جنگ میں روسی فوجوں کے ٹکڑے اڑ رہے تھے ادھر روس پر بھوک اور بیماری کے بادل چھا گئے۔تمام سلطنت میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ ہرشخص فرار کا متمنی نظر آنے لگا۔ پراگندہ خیالات متحدہ طو رپر بوتل پر جا ٹھہرے۔
اور انہوں نے بوتل کو پیدا کر لیا۔جس سرعت سے زار نے بندش کا فرمان جاری کیا تھا اسی سرعت سے روس دوبارہ وودکا میں ڈوب گیا۔شراب خانہ ساز یعنی دیسی شراب اور اس کی ناجائز فروخت کا دور آیا۔ کسانوں نے غلے کی جگہ آلو بوئے، میلے کچیلے ، ہر صاف نا صاف طریقے سے ان کا خمیر اٹھایا اور شراب قطرہ بہ قطرہ ٹپکنے لگی۔ جو علاقے جرمن حملہ آوروں کی زد میں پڑتے تھے وہاں کے کسانوں نے غلے کے ذخیروں کو شراب میں تبدیل کر دیا اور بڑی آسانی سے روپیہ اکٹھا کر لائے۔ اس دیسی شراب کو تیار ہوتے دیر لگتی تھی۔ لیکن شہریوں اور سپاہیوں میں آنکھ جھپکتے میں کھپ جاتی تھی۔ جو کچھ امریکہ میں شراب خانہ ساز کے دور میںہوا تھا۔ وہ روس والوں کی ادنیٰ سرگرمیوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔ زار کی سلطنت چند مہینوں میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک نا جائز شراب میں تیر رہی تھی۔
یہ شراب کافی حد تک زہر ناک تھی اور اکثر مہلک ثابت ہوتی تھی۔ لاکھوں ردسیوں نے اپنے تلخ تجربے سے یہ سبق سیکھا کہ خالص شراب چند آدمیوں کے لیے مضر تھی مگر شراب خانہ ساز جو طبی نگرانی سے بے نیاز تھی۔ زود یا بدیر مضبوط سے مضبوط جسم کو بھی کھوکھلا کر دے گی اس قسم کی شراب میں زہر یلا مادہ اس کے نشیلے جزو کی بجائے ان خارجی کیمیائی اجزا کی ملاوٹ سے پیدا ہوتا ہے جو غلیظ کبات اورخمیر اٹھانے اور کشید کرنے کے ناصاف طریقوں کا خاصہ ہے۔
اس مکمل امتنا ع کا ایک اور خاص نتیجہ نکلا چونکہ وودکا کھلے بازار میں فروخت نہ کی جا سکتی تھی اس لیے چاء کی دکانیں اور بدمعاشی کے اڈے خلاف قانون کلال خانوں میں بدل گئے شراب کی خفیہ فروخت کے پس پردہ ہر قسم کی بدکاری پھلنے پھولنے لگی۔ حالانکہ شراب کی ناجائز فروخت،خرید یا استعمال کے لیے سنگین اور خوفناک سزائیں مقرر تھیں۔ لیکن سنگدل سے سنگدل پولیس افسر بھی ان سزائوں کو برائے کار لانے کا حوصلہ نہ کر سکا۔
یوں شراب کے مکمل امتناع کی یہ انوکھی سیکم جو سنگینوں کے بل پر نافذ ہوئی اپنے المناک انجام کو پہنچی۔
روس کے ایک پردٹسٹنٹ پادری، تقدس مآب پردخونوف جو پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے کل روس یونین کے صدر تھے ایک مرتبہ امریکہ آئے تو انہوں نے مذکورہ بالا صورت حال کا ذکر ان الفاظ میں کیا۔
قانون امتناع شراب کے نفاذ سے پہلے اگر ہر درمیان گھرانے میں ایک شخص شرابی تھا تو بندش کے زمانے میں ہر گھر بہ یک وقت کشید گاہ اور شراب خانہ بن گیا۔ ہر کہیں عورتوں اور مرد کھلے بندوں قانون کو توڑ کروودکا تیار تھے، لوگ پی کر سوتے تھے۔ ناشتے پر پیتے تھے۔ نشے کی حالت میں کام پر جاتے تھے۔ بیہوشی کے عالم میں کلیسا جاتے اور مائیں اپنے بچوں کو کھانے کے ساتھ شراب بھی دیتی تھیں۔

شراب نوشی کے انسداد سے متعلق بے شمار متضاد خیالات اور آرائوں میں سے صرف 5بڑے نظریے چنے گئے، چونکہ ہمارے ہاں ان میں سے ہر ایک کے بے شمار حامی ملتے ہیں اس لیے ان کا مختصر ساجائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
-1امتناع:۔
زار روس نے یہ طریقہ اتنی خوبی سے آزمایاتھا کہ سوویت حکومت اس کی ہمسری نہ کر سکتی تھی نہ کرنا چاہتی تھی۔ یہ طریقہ اس تجربے سے بھی زیادہ بری طرح ناکام رہا تھا جوان دنوں امریکہ میں کیا جا رہا تھا ، شراب کی قانونی ممانعت کا طریقہ بالکل لچر ہے۔ اس کے علاوہ اسے اشتراکی اخلاقی سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ کیونکہ اشتراکی اخلاق جبر کے بجائے ترغیب کے حامی تھے۔
-2تعلیم:۔
اس سلسلے میں سوویت حکومت نے شہزادہ اسکندر کی تعلیمی مہم کامطالعہ کیا۔ جس کا کوئی امید افزا انتیجہ نہ نکلا تھا۔ ایسی تعلیم شرابی کے لیے ہوئے سے کم نہ تھی۔ کیونکہ اس میں شرابی سے ذاتی قرابی کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ شرابی کو یہ کہہ دینا کہ اس کی صحت اچھی ہو جائے گی اور اسے ذاتی سکون ملے گا،بالکل الٹی منطق تھی، کیونکہ لوگ ذاتی تسکین ہی کے لیے تو پیتے ہیں۔ سبب خواہ کچھ بھی ہو، تاریخ ثابت کر چکی تھی کہ محض تعلیم کے ذریعے قوم سے نشہ بازی چھڑائی نہیں جا سکتی۔
-3مذہب:۔
آج ہمارے سامنے پوشیدہ شرابیوں کی اصلاح کی تنظیم کی صورت میں مذہبی تجربہ موجود ہے۔ مسئلہ شراب کو حل کرنے کی یہ کوشش بھی امیدافزا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طریقہ بعض نفسانی بیماریوں میں موثر ثابت ہوتاہے لیکن سوویت حکومت اس کی حمایت نہ کر سکی۔ کیونکہ تمام کلیسا ان دیہاتی پادریوں کی طرح بد نام تھاجو بری طرح شراب کے عادی تھے۔
-4نفسیات
نفسیاتی طریق علاج کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، کیونکہ ساری دنیا میں بھی اتنے ماہرین امراض نفس موجود نہیں تھے کہ اکیلے ماسکو کے شرابیوں کے لیے کافی ہوتے۔ عملی نقطہ نظر سے نفسیاتی طریق اور مذہب میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ اس کا دائرہ عمل چند لوگوں تک محدود ہے۔ لیکن یہاں سوال قوم کا تھا۔ اگرچہ اس کے موقل دعویٰ کرتے ہیں کہ اسے تمام قوم کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ اس کا اطلاق لاکھوںافرادکس طرح کیا جائے۔ علاوہ ازیں اشتراکی کی ماہرین کی عقل سلیم یہ نہ مانتی تھیکہ روس کے لاکھوں باشندے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ شراب نوشی کا سبب جسمانی اور ذہنی خلل کے علاوہ کچھ اور ہے۔
-5سرکاری کنٹرول:۔
اس سلسلے میں بھی حکومت کے پاس پہلے سے بے شمار تجربے موجود تھے جنہیں وسیع پیمانے پر آزمایا گیا تھا۔ ان کے مطالعے سے یہی پتہ چلا کہ روس کے شہنشاہوںمختلف نے شراب کی فروخت پر کنٹرول کے جو متعدد طریقے استعمال کئے تھے، ان کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلا کہ شراب اور زیادہ کثرت سے پی جانے لگی۔ حتیٰ کہ اس کی کھپت فی کس 12/5 گیلن سالانہ جا پہنچی لہٰذا سوویت ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ سرکاری کنٹرول کا طریقہ بھی ناکارہ ہے۔ اس سے شراب نوشی کثرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یہ حقیقت بڑی دلچسپ ہے کہ یہ نتیجہ کینیڈا میں کس طرح سچ ثابت ہوا۔ شراب پر کئی سال تک کامیاب اور شاندار صوبائی کنٹرول کے باوجود آج مستعمرہ کینیڈا میں شراب کی کھپت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ جنگ کے زمانے کی سخت راشن بندی سے پہلے کینیڈاوی قوم کو کثرت سے پینے والوں کی قوم نہ مانا جاتا تھا۔ لیکن1941میں کینیڈا والوں نے ایک کروڑ دولاکھ گیلن شراب پی جس میں شراب کے علاوہ بیرا و رانگور کی شراب بھی شامل ہے۔ گویا وہاں کی کھپت ا س قدر بڑھ جائے گی کہ زار شاہی روس کی مثال زندہ ہو جائے گی۔
خیر مذکورہ بالا تجزیے کے بعد سوویت حکومت نے جو بنیادی نتیجہ اخذ کیا۔ ا س جامع اظہار کے لیے شاید عیسائی عورتوں کی انجمن امتناع کی بانی اور تادم مرگ اس کی صدر، فرانسس دلار د کے مشہور مگرایک عرصے سے بدنام مقولے سے بہتر الفاظ نہیں مل سکتے۔ وہ الفاظ یہ ہیں اکثر لوگ اس لیے مفلوک الحال نہیں کہ وہ پیتے ہیں، بلکہ ا س لیے پیتے ہیں کہ وہ مفلوک الحال ہیں
یہ ہے شراب کی اصل حقیقت ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مذکورہ انجمن کی اراکین نے نیک نیتی اورخلوص کے باوجود اس زبردست اوراہم حقیقت کوسالہا سال سے بھلا رکھا ہے۔ فرانسس دلارد نے نفسیاتی، مذہبی، تعلیمی اور سرکاری کنٹرول کے پھیلائے ہوئے انتشار کو کوڑے کرکٹ کی طرح اٹھا کر الگ پھینک دیااور وہ مسئلہ شراب کی تہ تک جا پہنچا۔ یہ مسئلہ صرف معاشرتی اور معاشی ہے۔ لوگ اس لیے پیتے ہیں کہ وہ مایوس اور پریشان ہیں۔ ان کی زندگی بربادی، محرومی اور بے اطمینانی کی زندگی ہے۔ جب تک اکثریت کے لیے ایک ایسا ساز گار ماحول پیدا نہ کر دیا جائے کہ اس میں شراب ایک ضرورت نہ رہے اس وقت تک وعظ، تلقین، تعلیم اورجبری امتناع سبھی بے کار ہیں اور ٹھیک اسی طرح بیکار ہیں۔ جس طرح جنسی اخلاق کا سدھار اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک معاشی طاقتیں مرد وعورت ہر دو کو عصمت کی خریداور فروخت پر مجبور کرتے ہیں۔
زار روس کی رعایا شراب کی طرف اس لیے مائل ہوئی کہ ان افلاس ایک ناقابل تردید حقیقت تھی۔ لہٰذا سوویت یونین کے ماہرین کو ایک ہمہ گیر قومی فلاح وبہبود کے پروگرام ہی میں نجات کی صورت نظر آئی۔ یہ تھا پہلا بنیادی نتیجہ۔
دوسرا بنیادی نتیجہ جواشتراکی ماہرین نے اخذ کیا، یہ ہے کہ کوئی فرد اگر ماحول سے متاثر ہو کر پیتا ہے تو قوم کی ترغیب دلانے والی چیز وہ بے شمار سرکاری آمدنی ہے جو شراب کی فروخت پر ٹیکسوں کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔
لہٰذا عملی اقدامات؟
طلاق اور اسقاط حمل کے انسدادی اقدام کی طرح سوویت حکومت نے شراب نوشی کے تدراک کے لیے جو پہلا قدم اٹھایا، وہ بھی الٹا نظر آیا 1926 میں سوویت حکومت نے ایک سنسنی خیز اعلان کیا۔
سوویت حکومت نے شراب کی ناجائز فروخت سے منافع کمانے والے لوگوں کا کا روبار ختم کرنے کے ساتھ ہی شراب پر سے تمام قسم کے ٹیکس ہتا دینے کا فیصلہ کیا اور یہ کام بڑی برق رفتاری سے ہوا۔ زار کی طرح مسلح سپاہیوں کی مدد سے نہیں، بلکہ نہایت عام اور سادہ طریقے سے یعنی شراب پر سے تمام ٹیکس اڑا کر اور ودو کا کی پرچون قیمتوں کوفی کوارٹ (چوتھائی گیلن) پنیسٹھ سنٹ (ایک ڈالر میں سو سنٹ ہوتے ہیں) تک گرا کر ۔
ظاہر ہے شراب نوش حضرات حیرت ومسرت سے بھونچکا رہ گئے۔ اس فیصلے کے اعلان کے ساتھ ہی روس کے اخباروں میں زار کی تجارت شراب کے متعلق پورے اعداد وشمار شائع کئے گئے اور بتایا گیا کہ لوگوں نے سابقہ حکومت کو شراب کے ٹیکسوں کی صورت میں بے شمار روپیہ ادا کیا، اشتراکی منتظمین کو پہلے سے معلوم تھا کہ اس افشائے راز کا نتیجہ کیا ہو گا۔ اس سے شرابی اور صوفی دونوں بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کی نئی حکومت ودو کا پرٹیکس لگا کر منافع کمانا نہیں چاہتی اور پر چون سے جو تھوڑا بہت منافع حاصل ہو گا۔ اسے انسداد شراب نوشی پر خرچ کرنے کے لیے صحت عامہ اور تعلیم کے محکموں کے سپرد کر دیا جائے گا۔
عوام کی حیرت اور دلچسپی کوئی حد نہ تھی۔ شراب کی قیمت میں انتہائی کمی کے اعلان کا دن روس میں غیر سرکاری تہوار یا میلے کا دن تھا۔
حکومت نے جو نئی قسم کی مصفےٰ اعلی اور سستی ودوکا مہیا کی وہ منول منر فروخت ہوئی اور ناجائز طور شراب تیار اورفروخت کرنے والے لوگ اسی دن سے دیوالیے ہوگئے۔
ادھرمے نوش برادری میں مسرت کی پہلی دھیمی ہوئی، ادھر سوویت حکومت نے نئے قوانین کا اعلان کر دیا۔ ان کی رو سے آئندہ تمام کارخانوں کے قریب مزدوروں اور سرکاری ملازموں کی تنخواہ کے دنوں اور تہواروں کے موقعوں پر شراب بیچنے کی ممانعت کی دی گئی اور ملیشیا کو کمسن شرابیوں اور ایسے لوگوں کو سخت سزائیں دینے کا اختیار دے دیا گیا جو نشے میں بے ہوش پائے جائیں۔
اس کے بعد روس کے طول وعرج میں ایک نئی قسم کی پروپیگنڈائی مہم چلائی گئی۔ مہم سائنٹیفک تھی۔ اصولاً یہ امتناعی انجمن کی مہم سے قدر ے مختلف تھی۔کیونکہ اب شراب کے خلاف پروپیگنڈا کرتے وقت شرابی کی ذات پر شراب کے برے اثرات کا ذکر تک نہ کیا جاتا تھا۔ جہاں تک شراب کے علمی حقائق” کا تعلق ہے انہیں نظر انداز بھی نہ کیا جاتا تھا او ران کو بڑھا چڑھا کر بھی نہیں بتایا جاتا تھا۔
سوویت یونین کے ماہرین فعلیات و (علم وظائف اعضائ) نے بتایا کہ شراب ایک عام نشہ آور دوا سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ سکون آور ہے اور بعض اوقات مفید بھی، کیونکہ یہ وقتی طور پر عضوی فعالیت کو موقوف کر دیتی ہے اور دماغ اور مرکزی نظام عصبی کو متاثر کرتی ہے، اس اعتدال سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ تو صرف شرابی کی قوت کار کردگی میں مزاحم ہوتی ہے۔ اس کے مستقل عادت سے خون میں آکسیجن کے امساک کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ شراب اعضا کے حیات آفرین نظام میں خطرناک اختلاف بھی پیدا کر سکتی ہے شراب اور چند دماغی بیماریوں میں خاص تعلق ہے۔ یہ کئی ذہنی امراض کا باعث ہو سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کثرت شراب نوشی اکثر لوگوں کو دائمی تکان، حادثات اور بیماریوں کے خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ قصہ کوتاہ روسی عوام کو شراب کے بارے میں جو فیصلہ سنایا گیا اس میں واضح طو رپر بیان کیا گیا کہ شراب ایک ضرورت نہیں، اس کا جسم اور دماغ پر مفید اثر نہیں پڑتا۔ اگرچہ یہ مختلف افراد پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے، لیکن فائدہ کسی کو بھی نہیں پہنچاتی۔
جس طریقے سے یہ حقائق عوام کے ذہن نشین کرائے گئے وہ اپنی مثال آپ تھے۔اس سلسلے میں سینما اور تھیٹرسے بہت زیادہ کام لیا گیا۔ ڈراموں اورفلموں میں روسی عوام کی روز مرہ کی سرگرمیوں کے ذریعے شراب کے متعلق ایسی چیزیں بتائی گئیں، جن کابراہ راست تعلق روس کو ایک طاقتور، صنعت کار ادر زراعت پیشہ قوم بنانے کے منصوبے سے تھا۔ بچوں جوانوں، مردوں اور عورتوں کی چست ڈرامائی انداز میں بتایا گیا کہ شراب نوشی مستقبل کے معماروں یعنی انجنوں کے ڈرائیوروں، ٹرکوں، ٹریکٹروں، فصل کاٹنے کی مشینوں اورکارخانوں کی قیمتی مشینوں کو چلانے والے مردوں اور عورتوں نئے بجلی گھروں کے خاکے اور منصوبے بنانے والے انجنیرئوں، یونیورسٹی کے طالب علموں اورکوئلہ کھودنے والے کارکنوں پر کس بری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔
کہانیوں میں شرابی پر نکتہ چینی ہر گز نہ کی جاتی تھی اوریہ نہ کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو تباہ کر رہا ہے۔ بلکہ دکھایایہ جاتا تھا کہ یہ شخص کتنا نادان ہے۔یہ اتنا سادہ ہے کہ اسے ابھی یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ نئے سماج کی تعمیر میں حصہ لینے لگے تو اس کی زندگی کی کس قدر پر لطف اورمسرت بخش ہو جائے۔کسی سے ہر گزنہ کہا جاتا تھا کہ مت پیو، کہانی میں شرابی کو ایک گنہہ گار فرد کی طرح نہیں پیش کیا جاتا تھا بلکہ اسے ایک مضحکہ خیز، آداب مجلس سے بے خبر شخص کی حیثیت سے دکھایا جاتا تھا۔
ظاہر ہے اس طریقے سے پکے شرابی متاثر ہ ہو سکتے تھے ان کے لیے سوویت منصوبے میں ایک دوسری چیز موجود تھی۔ انہیں خطرناک مجرم تو نہیں کہا جا سکتا تھا۔ البتہ وہ ساری قوم کے فلاح وبہبود اور ترقی کے راستے میں ایک زبردست رکاوٹ ضرور تھے خاص طور جس وقت ودوکا پنیسٹھ سنٹ فی کوارٹ جیسی سستی قیمت پر دستیاب ہو رہی ہو تو ان کے ذہن قومی فلاح وبہبود کے خیالات کو کس طرح قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے؟
ایسے لوگوں کے لیے ترک شراب کے جو طریقے اختیار کئے گئے وہ ان طریقوں سے ملتے جلتے تھے۔ جن سے عصمت فروشی میں کام لیا گیا تھا۔جن علاقوں میں شراب خوری ایک نازک مسئلے کی صورت اختیار کر گئی تھی وہاں امتناع شراب کے سائنسی ادارے کھولے گئے۔ ودوکا کی امتناعی مہم کے کسی کارکن کو کوئی بے ہوش شرابی ملتا تو وہ اسے قریب کے امتناعی مرکز میں لے جاتا۔
اس کے بعد اس کا نام، گھر کا پتہ اور دفتر یا کارخانے کا نام لکھ لیا جاتا اور اسے چھٹی دے دی جاتی۔ اس کے دفتر یا کارخانے کے ٹریڈ یونین کو اس کے متعلق پوری رپورٹ بھیجی جاتی۔ ہر دفتر اورکارخانے میں ایک خاص کمیٹی مقرر تھی وہ رپورٹ ملتے ہی ایک لمبا چوڑا اشتہار تیار کر لیتی۔ اس میں متعلقہ شخص کی تصویر یا کارٹون ہوتا۔جس کے نیچے اس کا نام لکھا ہوتا۔ علاوہ ازیں اس کی بوتل سے شراب پینے کی کیفیت سے لے کر بعد کی تمام حالت کا نقشہ کھینچا ہوتا تھا۔
یہ سب کچھ اس شخص کے دوبارہ کام پر واپس آنے سے پہلے مکمل ہو جاتا، وہ کام پر واپس آتا تو اس اشتہار سے اس کا شایان شان خیر مقدم کیا جاتا۔ لہٰذا وہ دفتر یا کارخانے میں بدنام ہو جاتا اگر وہ شخص دو یا تین بار یہی حرکت کرتا تو اسے لوگوں میں اور بھی زیادہ سواکیا جاتا۔
جن لوگوں کو بار بار گھیر کر امتناعی مرکزوں میں لے جایا جاتا اس کے خلاف ان کی یونین اور دوسری عوامی ادارے سخت نضباطی کاروائی کرتے۔
یہ طریقہ شرابیوں میں بے شمار امتناعی کتابچے تقسیم کرنے سے بھی زیادہ موثر ثابت ہوا۔شرابی کے لیے دیوالیہ پن، آدارہ گردی، فاقوںاور گھر یلو جھگڑے اتنے زیادہ ڈرائو نے نہ تھے لیکن اسے دوستوں میں شرمندہ کرنے اور قوم کی ترقی میں دوڑ اٹکانے والے شخص کی حیثیت سے بدنام کرنے کا یہ طریقہ قوم کے لیے اصلاح اخلاق کا یاایک کار گر ذریعہ بن گیا۔
چند سالوں میں ہی اس طریقے سے روس میں شراب نوشی تقریباً ختم ہو گئی اور درجنوں کی حد تک پینے والوں کی تھوڑی سی تعداد باقی رہ گئی۔ یہ لوگ کل شرابیوں کا ایک فیصد تھے ان لوگوں کو باقاعدہ شفاخانوں میں بھیجا گیا۔ یہ خاص شفاخانے پورے سازو سامان سے آراستہ تھے اورا ن میں ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کا علاج کیا جاتا تھا۔ اکثر لوگ اتنے قلیل عرصے میں صحت یاب ہو گئے۔ گویا وہ امتناعی مرکزوں کا تفریحی دورہ کرنے گئے تھے۔ جس دن انہیں شفاخانوں سے رہا کیا جاتا، اس سے اگلے دن ان کی صحت یابی کی خبر نمایاں کر کے چھاپی جاتی۔
لیکن سوویت یونین کے امتناعی پروگرام کی بعض شقیں ایسی بھی ہیں جو بادی نظر میں الٹی معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً ابتدا میں جو حکومت نے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں شراب کی کھپت بڑھانے کی بہت زیادہ کوشش کی۔ یہ فیصلے ایسے ماہرین امراض نفیسہ کے مشورے سے کیا گیا تھا، جو شراب نوشی کے محرکات اور مواقع کو ختم کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔
کھانے کے ساتھ شراب کی اجازت کا اقدام بظاہر قدامت پسندانہ اور اصلاحی مقصد کے خلاف تھا۔ لیکن یہ اقدام اس لیے کیا گیا کہ ہوٹلوں میں کھانے کے ساتھ پی لینا، شراب خانوں اور ایسے ہی دیگر مقامات پر جہاں صرف شراب ہی ملتی ہے۔ پینے سے یا نہار منہ اور خالی پیٹ پینے سے کم مضر ہے، علاوہ ازیں شراب پر حکومت کے طویل المیعاد کنٹرول کا تجربہ ثابت کر چکا تھا کہ بغیر کھائے شراب پینا انتہائی افلاس کی علامت ہے۔ اس سے شرابی کی تمام تر توجہ شراب پر مرکوز ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کثرت نوشی اور عادت کی پختگی پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے سامنے یہ سوال آجاتا ہے کہ کھانا کھائیں یا شراب پئیں اور اکثر اوقات نگاہ انتخاب شراب ہی پر پڑتی ہے اور کھانے کو ملتوی کر دیا جاتا ہے۔
ماحول اس سے بھی زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ سوویت قانون سے صرف خوبصورت، خوش انتظام اور باسلیقہ فیملی ریسورانوں میں شراب مہیا کی جا سکتی تھی۔ ایسے مقامات پر جا کر پینے والوں کے کردار اور سیرت میں نمایاں اور خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی۔ وہ کم پیتے تھے۔ کیونکہ انہیں کھانا بھی کھانا ہوتا تھا اور عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کی موجودگی میں زیادہ بھی نہ پی سکتے تھے ورنہ تضحیک بننے کا خطرہ تھا۔
ایسے مقامات پر عارضی طور پر شراب نوشی کی کھلی چٹھی دے کر سوویت حکومت نے نافہم لوگوں کی توقع کے خلاف نتیجہ اخذ کیا۔ اس سے شراب کی کھپت بڑھنے کی بجائے بے حد گھٹ گئی لیکن ہمارے ہاں کیا صورت حال ہے؟ بلد یہ شکا گو کے محکمہ علاج امراض نفس کے ڈائر کٹر ڈاکٹرڈی بی روسٹان نے امریکی میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدہ کے ایشوع بابت مارچ 1945میں تحریر کیا کہ ”ہماری قوم کے آگے شراب کے مسائل موجودہ شدت اور خطرناک انداز سے کبھی نہ اٹھے تھے” اس نے تسلیم کیا کہ حالت اس قدر نازک ہے کہ قانون امتناع کی طرف دوبارہ رجوع کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر روسٹان نے ایک نئی ترکیب ایجاد کی، یعنی اس نے ایک نئی ہستی کے منصئہ شہود میں آجانے کا انکشاف کیا اور اس نئی شخصیت کو اس نے ”دروازے کی چٹائی” کا شاندار خطاب دیا۔ اس نے کہا کہ سمندر پار سے واپس آنے والے اکثر سپاہی اپنی بیویوں کی صورت میں” ایسی دروازے کی چٹائیوں” سے دو چار ہوں گے جنہوں نے ”شراب نوشی” کی حسین زندگی کا درباز کرنے کے لیے اپنی آموزش پر پانی کی طرح روپیہ بہایا ہو گا۔
یہ دروازے کی چٹائی اب شراب خوری کے نقشے کا ایک مستقل جزو ہے یہ شخصیت پٹہ بازی کی کند تلوار اور گدیلے کی طرح دوہری حیثیت سے شراب خور مرد کے سر پر مسلط ہے” ڈاکٹر موصوف کا خیال ہے کہ شراب خور مرد بوڑھی اور بیوہ ماں، کنواری بہن یا مجبوربیوی کی صورت میں اپنے آپ کو بے شمار دورازے کی چٹائیوں” میں گھرا ہو اپاتا ہے۔اور شراب نوش عورت اپنے دوسرے یا تیسرے خاوند یا پھر تنہائی سے تنگ آکر اپنے چہیتے عاشق، یا نا کام شادی کے بعد اپنے دل پسند دلبر کی صورت میں متعدد ”دروازے کے بوریوں” سے دو چار ہوتی ہے۔
ڈاکٹر روسٹان نے شرابی عورتوں اور مردوں کی تعداد کے درمیان نسبت نکالی اور ثابت کیا کہ حال ہی میں یہ نسبت، نسبت معکوس کی شکل میں بدل گئی ہے۔ اس نے یہ انکشاف کر کے تمام ماہرین طب کو درطہ حیرت میں ڈال دیا کہ 1931 میں چار یا پانچ مردوں کے مقابلے میں صرف ایک عورت شراب نوش تھی اور 1943 میں دومردوں کے مقابلے میں ایک عورت۔
امراض نفس کے اس ماہر نے ”خفیہ شرابیوں ” کی ایک بہت بڑی تعداد کا انکشاف کیا انہیں شراب کی کھپت میں بے پناہ اضافے کا ایک سبب قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اب یہ معاملہ عوام سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے جزوی حل کی توقع بھی عوام ہی سے وابستہ کرنی چاہئیے”۔ اس نے متنبہ کیا کہ ”خفیہ شرابیوں” کی انجمن اصلاح کوچاہئیے کہ وہ القائے ارادی کے زجحان کو دبانے کے ساتھ ہی جو کوئے ازم (coueism) ہی کی ایک قسم ہے، اپنی کوتاہیوں اور کامیابیوں پر کٹری نظر رکھے۔
ڈاکٹر روسٹان کے خیال میں شراب خوری ایک سماجی بیماری ہے اور اکیلے ڈاکٹر اس کا تدراک نہیں کر سکتے۔ اس سلسلے میں وہ ییل یونیورسٹی کی تحقیقاتی کونسل بہت زیادہ تعریف کرتا ہے۔ لیکن اس تحقیقاتی کونسل نے بھی تو آج تک کوئی قابل قدر کارنامہ نہیںدکھایا۔ شراب کے معاملے میں امریکی ماہرین کا باہمی اختلاف رائے حیران کن ہے۔ مثال کے طور پر ہاورڈ میڈیکل کالج کے مشہور معالج امراض نفس اور محقق ڈاکٹر ابراہام میرسن نے 1944میں امریکہ کی ترقیات سائنس کی انجمن کو بتایا کہ مردوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ عورت شراب کی عادی ہیں۔ اس طرح اس نے ڈاکٹر روسٹان کے اندازے کو غلط ثابت کر دیا۔ دراصل بات یہ ہے کہ ابھی تک ایسے اعداد شمار جمع ہی نہیں کئے گئے۔
ڈاکٹر مامیرسن کا خیال ہے کہ کثرت شراب نوشی بذات خود کوئی مسئلہ ہی نہیں، دراصل شراب اس وقت ایک حل طلب مسئلہ بنتی ہے جب لوگ محض نشے کی غرض سے پینے لگیں اور جب تک پی نہ لیں، کل نہ پائیں۔ بالخصوص اس وقت جب کہ مے نوش سیری کی حد تک پی کر بھی ایک جام کا مطالبہ کرے۔ البتہ ان کے نزدیک حد سے زیادہ پینے کے معنی شراب خوری کی پختہ عادت کی شاہی سٹرک پرچل نکلنے کے ہیں۔
یہ ماہر منشیات چار قسم کے شرابی گنواتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی وہ ڈاکٹر روسٹان کے ”دروازے کے چٹائی یا بورئیے” والے نظریے کی تردید کرتا ہے۔ خیر وہ چار قسم کے شرابی کون سے ہیں؟
-1وہ مجہول شخص جو دو جام پئے بغیر نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔
-2جو شخص ہنسی مذاق میں جان بوجھ کر بے انتہا پیتا چلا جاتا ہے۔
-3دماغی اعتبار سے غیر متوازن شخص جس کی شراب نوشی کی عادت ایک مرض کی علامت ہے۔
-4ایسا شخص جو محض شوق میں شراب کا عادی ہو جاتا ہے وہ زندگی بھر مسرت اور لذت کی خاطر پیتا ہے اور شراب کے لیے زندہ رہتا ہے۔
یہاں دروازے کی چٹائی یا بورئیے” والے خاندان کا نام تک نہیں اور نہ کسی ایسے مسئلے کا ذکر ہے، جسے ڈاکٹر روسٹان شراب خوری کا دائمی” مظہر” کہتا ہے۔
نظریوں میں اختلاف تسلیم، لیکن جب دوماہر ایک دوسرے کے شمار یاتی حقائق کو سرے سے جھٹلائیں۔ تو ہم ان کے نظریوں کو علمی تحقیق کے ہم پلہ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
وہ ایک بات پر متفق ہیں۔ ڈاکٹر مامیرسن کے قول کے مطابق ”یہاں بھی دماغی حفظان صحت کے تمام پروگراموں کی طرح سماج کی بدعنوانیوں، غلیظ اور گھنی آبادی کی سماجی خرابیوں اور بے روز گاری سے دو چار ہونا پڑے گا۔ مختصراً یہ کہ شراب خوری کے مسئلے کو اچھی طرح سمجھنے اور اس پر قابو پانے سے پہلے معاشرے کی نفسانی بیماریوں کے علم پر ایمانداری سے عبور حاصل کرنا ہوگا”۔ اور ڈاکٹر روسٹان صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ”شراب خوری ایک عوامی مسئلہ ہے” آج کل علم حقائق کی بجائے ترقی پسندانہ گپ کا رجحان عام ہے۔ اور اصل صورت حال کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اس قسم کی سطحی دلیلوں کا مقصد حقیقت سے گریز کے سوا کچھ نہیں، جہاں تک شراب کی تحقیق کا تعلق ہے۔ اس برعظیم کے اکثر مقبول عام رسالے شراب نوشی کی نازک صورت حال کو چھپانے کے لیے محققین کے حوالے دیتے چلے آرہے ہیں۔ ان رسالوں میں شراب کشید کرنے والوں کے اشتہارات جتنی زیادہ تعداد میں چھپتے ہیں۔ اسی قدر وہ شراب کے مسئلے انداز سے پیش کرتے ہیں۔
لیکن یہ امر باعث مسرت ہے کہ حفظان ا لکحل کی قومی کمیٹی کے ناظم ڈائرکٹر ڈاکٹر آر’دی سلیگر اور میری لینڈ کے ہارم لوج سینے ٹوریم کی ناظمہ وکٹوریہ کر نیفورڈ نے اپنے حالیہ بیانات میں حقائق سے گریز کرنے کی کوشش نہیں کی، انہوں نے امریکی میڈیکل ایسوی ایشن کے جرنل کے 6اکتوبر 1945 کے ایشوع میں صاف صاف کہہ دیا کہ ”امریکہ میں شراب نوشی ایک خطرناک قومی مسئلہ بن گئی ہے”۔
ان سائنس دانوں کو یقین ہے کہ گزشتہ 25برس میں کثرت شراب نوشی کا رجحان اس لیے پیدا ہو ا ہے کہ ہمارے موجودہ کلچر نے انسانی جذبات پر حد سے زیادہ بائو ڈالا ہے۔ انہوں نے جرائم پر شراب کے اثرات سے متعلق بحث کرتے ہوئے دعویٰ کیاکہ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ سماجی جرائم کا اقدام ایسے لوگ کرتے ہیں۔جن کی شخصیتیں کمزور اور نامکمل ہوتی ہیں، جو جذباتی اور متلون مزاج ہوتے ہیں، جو ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا نہیںکر سکتے، یا جو ذہنی انتشار اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ بسا اوقات شراب نوش حضرات بھی سماجی جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں اور ان کی عادت شراب نوشی اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ماحول کے مطابق ٹھیک طرح نہیں ڈھال سکتے اور اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتے۔
ان کے خیال میں جرائم کا سبب شراب نہیں چونکہ اعتدال سے زیادہ پی لینے سے قوت فیصلہ اور ضبط نفس عارضی طور پر کمزور ہوجاتا ہے۔ اس لیے نشے کی حالت میں مجرمانہ حرکات کے سرز د ہونے کا امکان ہے۔
وہ عادی شراب نوشوں کو ایک الگ طبقہ قرار دیتے ہیں اور انہیں مندرجہ ذیل چھ اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔
-1جو لوگ جسمانی کمزوری کے سبب زندگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے ناقابل ہیں اور شراب نوشی کے علاوہ دوسری بدعادتوں میں مبتلا ہیں ایسے شخص انجام کار اخلاقاً بہت زیادہ پست اور سماج میں رہنے کے ناقابل بن جاتے ہیں انہیں تا عمر دماغی بیماریوں کے ہسپتال میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
-2 وہ لوگ جو جذباتی اور عقلی اعتبار سے ناقص ہیں اور نفسانی انتشار او رذہنی اختلال میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ شراب پی کر زندگی کی تلخیوں سے گریز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
-3وہ شخص جو زندگی کے نا خوشگوار حالات سے دو چار ہونے سے گھبراتے ہیں اورپیتے ہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنا انہیں پسند نہیں ہوتا وہ اسے برداشت کرنے کی مقدرت نہیں رکھتے۔
-4ایسے افراد جو اپنی ذاتی خامیوں، کسی کمزوری کے شعور، جنسی عدم مطابقت اور اسی قسم کی دوسری کمزوریوں کے احساس کو دبانے کے لیے پیتے ہیں۔
-5 وہ لوگ جسمانی اور روحانی کرب اور تکلیف کو فراموش کرنے کے لیے پیتے ہیں۔
-6ایسے افراد جو عادت، وقت اور جسمانی تغیرات کے علاوہ زندگی کے بڑھتے ہوئے رنج وآلام کے دبائو کوکم کرنے کے لیے عام مجلسوں میں پیتے پیتے شراب کے مستقل عادی ہو جاتے ہیں۔
اس بیان اور ڈاکٹر مامیرسن کے اس بیان میں مشابہت واضح ہے ۔ لیکن دونوںمیں اختلاف بھی شدید ہے۔ جہاں تک شراب کی تحریک دلانے والے اسباب کا تعلق ہے۔ سلیگر اور کرنیفورڈ اس شخصیت کی طرف اشارہ تک نہیں کرتے جسے ڈاکٹر روسٹان نے ”دروازے کی چٹائی یا بوریا” کہا ہے” بلکہ وہ مندرجہ ذیل محرکات گنواتے ہیں۔
خود فراموشی کے رجحانات یعنی کسی ناشگوار ذہنی حالت کو برداشت نہ کرنے کی عادت کوئی عملی اقدام کئے بغیر ذاتی تمنائوں کی تکمیل کی کوشش۔ اعتدال سے زیادہ اکساہٹ او رحیاتی مسرت کی آرزو، فرائض اور ذمہ داریوں سے جی چرانے کی عادت، جس سے خیالی پلائو پکانے کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ خود اعتمادی، خود نمائی، راھت اور سکون جیسے لازمی محسوسات جن کو بعض لوگ شراب پی کر وار د کرنا چاہتے ہیں”۔
یہ ماہرا س خیال کی تردید کرتے ہیں کہ مے نوشی ایک توراثی ایک توراثی چیز ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی عمل ثبوت نہیں۔ لیکن ماہرین امراض نفس مانتے ہیں کہ بعض افراد کے آبائو اجداد مسلسل شراب پیتے آئے ہوں۔ تو ان کی قوت مزامت کمزور ہو جاتی ہے۔ اور وہ آسانی سے شراب کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔
یہ سب مقولے اور حقائق کافی دلچسپ ہیں۔ لیکن سلیگر اور کرنیفورڈ کا بیان اپنے نتائج کے باعث بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ وہ عام ماہرین کی طرح شراب خوری کے معاشرے پر اثرات کا سطحی جائزہ لینے کی بجائے اس کی گہر ائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ سماجی اعتبار سے شرابی کو مریض تصور کرنا چاہیئے۔اور تعلیم کے ذریعے سے نئے سرے سے رہنے سہنے، جوش اوراکساہٹ کے عمل اور رد عمل، مایوسی ، انتشار کے متعلق نئی عادتیں پیدا کرنے کے قابل بنانا چاہیئے۔
وہ کسی شرابی عورت یا مرد کے وجود محض کو شرابی مسئلہ نہیں مسئلہ مانتے بلکہ وہ سماجی پیمانے پر عملی اقدام کی اپیل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے سماجی ماحول کی تبدیلی یا اصلاح کے پروگرام میں وسیع انسدادی اقدامات کو شامل کریں۔ تاکہ وہ ذہنی کھنچائو اور پریشانی میں اضافے کے بجائے صحت مند برادرانہ زندگی کے ذریعے قدرے سکون اور تحفظ کا موجب ہو”۔
ہو سکتا ہے کہ یہ بیان ترکیب بندی کے اعتبار سے قدرے گریز خواہ ہو۔ لیکن یہ ان لاتعداد بیانات سے زیادہ گراں قدر ہے۔ جو پچھلے دنوں شراب نوشی کے اسباب کے متعلق شائع ہوئے ہیں۔ اس میں شراب نوشی اور سماجی بدکاری کے دوسرے پہلوئوں کے متعلق وہی بنیادی سوال اٹھایا گیا ہے، جس کا جواب عرصہ ہوا سوویت یونین دے چکا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ نئی زندگی کا بھر پور سماجی شعور پیدا کرنے کے ساتھ ہی خود سماج میں کس طرح تبدیلی لائی جائے کہ تمام افراد کو خاطر خواہ تحفظ اور سکون نصیب ہو؟
امریکہ میں شراب کی کھپت دن رات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ محکمہ تجارت نے 1944 کے بارے میں اعداد وشمار شائع کئے ہیں۔ ان کے مطابق متوسط درجے کے شخص نے اس سال کے دوران میں چون دالر شراب پر خرچ کئے۔ منشیات سے قومی آمدنی کے بل کی قدر سات ارب ڈالر تھی۔ جو تمام قومی آمدنی کا پانچ فیصد ہے۔ لیکن محکمہ والوں نے متنبہ کیا کہ قومی آمدنی میں اضافے سے براہ راست شراب کی کھپت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔وجہ یہ ہے کہ 1943 میں شراب پر ٹیکس برھا دیئے گئے تھے اور اس طرح جو شراب بکی، اس کی مالی قدر تینتالیس فی صد زیادہ تھی۔ اور اس فاضل آمدنی کا نصف ٹیکسوں کے ذریعے وصول ہوا۔ غرضیکہ امریکہ میں ایک سال کے عرصے میں شراب کی کھپت تقریباً بیس فی صد بڑھ گئی۔
جنگ کے سالوں کے متعلق سویت یونین کے اعداد وشمار بھی تک دستیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ بہت زیادہ کم ہوں گے، کیونکہ وہاں فوجی اقدامات کے سبب بہت سی کشید گاہیں تباہ ہوگئی تھیں، لیکن شراب کی پیداواراور کھپت میں کمی کایہ ایک اتفاقی سبب ہے۔ اسے ملک یا قوم کا وصف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا مقابلے کے لیے جنگ سے پہلے کے سالوں کے اعداد وشمار موجود ہیں۔
1936تک تمام سوویت یونین میں شراب کی کھپت گھٹ کرفی کس تقریباً 4/5 گیلن سالانہ رہ گئی تھی۔ اس کا مقابلہ امتناعی مہم کی ناکامی کے دوسرے سال سے کیجئے جبکہ فی کس 12/5 گیلن کی اوسط تھی۔ گویا اوسط کمی تقریباً پچاس فی صد یا فی کس 3/5گیلن سالانہ کے قریب ہے۔
شاید آپ اس سے متاثر نہ ہوئے ہوں، سوویت یونین کی آبادی پر غور کیجئے، آج سے دس برس پہلے وہاں کروڑ نفوس آباد تھے، لہٰذا سوویت یونین کی امتناعی سرگرمیاں اس قدر کامیاب رہیں کہ مہم کے ابتدا میں دس سال تمام قوم میں شراب کی کھپت دس کروڑ گیلن سالانہ کے حساب سے اور کم ہو گئی۔
یہ ایک بے مثال واقعہ ہے۔
لیکن سوویت یونین کی امتناعی مہم کی کامیابی کو عصمت فروشی اورجنسی بیماری کی انسدادی مہم کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ وجہ ظاہر ہے کہ شراب نوشی کا مسئلہ نزاکت کے اعتبار سے جنسی بیماری اور عصمت فروشی سے کم اہم ہے۔ دراصل سوویت یونین کے طبی ماہرین میں آج کل شراب کے متعلق اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ سرخ فوجوں کے بعض ڈاکٹر میدان جنگ میں کام کرنے والی نرسوں کو جوریڈ کر اس سوسائتی کی رکن ہیں دوائوں میں ودوکا سپلائی کرتے ہیں اور خاص حالات میں ڈاکٹر پی اے پینی کوف جیسی ہستیاں شراب کی قدر وقیمت کو تسلیم کرتی ہیں ڈاکٹر موصوف کے اس مشہور نسخے میں دواونس ودوکا بھی شامل ہے جو معدے کے زخموں کے لیے ہے، آج کل روس میں شراب نوشی کے متعلق کوئی مہم نہیں چل رہی اور خود ہمارے ہاں کے ماہرین محسوس کرتے ہیں کہ حقیقی مسئلہ الکحل بازی کو ختم کرنا ہے نہ کہ شراب نوشی کی ہر صورت کو کیونکہ بین الاامی تقاریب میں رسمی طور پر پینا اور بعض دوائوں میں شراب کا ملانا گزیر ہے۔
الکحل بازی یا محض نشے کی خاطر عام شراب نوشی سوویت یونین میں نا پید ہو چکی ہے۔ ان کا امتناعی جہاد کامیاب ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اب بہت پیتے ہیں۔ یعنی ایک سال میں دس کروڑ گیلن کم ۔

بچوں کے تحفظ کی عدالتیں
تو قتل نہیں کرے گا۔ تو چوری نہیں کرے گا۔
یہ حکم ان احکام خداوندی میں سے ایک ہے جو قدیم زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے تھے، جرائم کے انسداد کی جدوجہد ان سے بھی پرانی ہے صدیوں تک اس جدوجہد کا نتیجہ سوائے ناکامی کے کچھ نہ نکلا ۔ جدید زمانے میں سائنس نے ترقی کی اور تمام اسرار قدرت کی باقاعدہ تحقیق کا آغاز ہوا تو اس کے ساتھ ہی جراثیم کی تحقیقات بھی شروع ہوئی۔ 1936میں بلجیم کے ایک محقق، اے کوئیے لٹ نے شماریات جرائم پر تاریخ میں سب سے پہلا تحقیقی مقالہ لکھا اس کا نام ”انسان اور اس کی صلاحیتوں کا ارتقا تھا”۔ یہ برسلز سے نکلنے والے ایک جریدہ صحت ”عسے ڈی فزیک سوشیل” میں شائع ہوا۔ اس مقالے میں انہوں نے لکھا۔
سماج کے شکم میں ہر جرم کاہیولی پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ جس کا ظہور بعد میں ہو کر رہتا ہے۔ خود سماج ایسے حالات پیدا کرتا ہے، جن میں جرائم پروان چڑھتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ جرائم کے لیے سماج ہی زمین تیار کرتا ہے، مجرم تو محض ایک آلہ ہے یہی وجہ ہے، کہ ہر معاشرے کی تنظیم اور جرائم پیشہ لوگوں کو وجود دونوں لازم وملزوم رہے ہیں”۔
اس محقق نے اپنے بیان کو انقلابی کہا اور اعلان کیا۔
ہوسکتا ہے کہ میرا بیان بادی النظر میں یاس انگیز معلوم ہو لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو اس میں امید کی جھلک موجود ہے۔ کیونکہ ا س میں اشارةً کہہ دیا گیا ہے کہ سماج کے اداروں افراد کی عادتوں، تعلیم اور طرز زندگی پراثر انداز ہونے والی ہر شئے کی تبدیلی سے انسانی فطرت کی اصلاح ہو سکتی ہے”۔
لیکن یہ محقق اور اس کے پیرو ماہرین علم جرائم ایسی قابل عمل تجاویز پیش کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ جن سے انسان کی فطرت کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
فرانسس دلاور کی مسئلہ شراب کے متعلق تاریخی تحقیق کی طرح کو ئیے لٹ کے اس فیصلے کو بھی سن کر بھلا دیا گیا۔ جس میں سماج کو جررئم کاجنم داتا کہا گیا ہے۔ آج تک علم جرائم اور قانون کے ماہریں کی زیادہ تر توجہ بدکاری کے اسباب کی تلاش کی بجائے سزا کی جستجو پر مرکوز رہی ہے۔
سائنس تقریباً سوسال سے ثابت کر چکی ہے کہ جرائم کی ذمہ داری فرد کی بجائے سماج پر عائد ہوئی رہی ہے۔لیکن اس اثنا میںہمارے قانون کا رخ الٹی طرف رہا ہے اور فرد کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ قانون دان حضرات کاایمان چلا آتا ہے کہ صرف سزا ہی وہ جادو کا ڈنڈا ہے جس سے مجرم کو دوبارہ قانون شکنی نہ کرنے کا سبق سکھایا جا سکتا ہے۔
لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سزا بالکل بیکار چیزہے۔ خود ہمارے قانون سازوں نے اس کا عملاً اعتراف کرتے ہوئے اکثر جرائم کی سزائوںکو کافی نرم کر دیا ہے۔ آج کل ہم اس دور سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ جب کسی مرد یا عورت کو خرگوش چوری کرنے کی پاداش میں پھانسی کے تختے پرلٹکا دیا جاتا تھا۔ یا غیر اخلاقی افعال پر کوڑے مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ اس کے باوجود ہم اس نظرئیے پر جمے ہوئے ہیں۔ کہ محرکات جرائم بے شک سماجی ہیں، لیکن مجرم کو قرار واقعی سزا دینے سے جرائم کو ختم نہیں تو کم ترضرور کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر جرائم کی رفتار دن بدن تیز ہو رہی ہے اور بعض نئی قسم کے جرائم جنم لے رہی ہیں۔
نازیوں نے اس نقطئہ نظر کو انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ جرمنی کی وزارت عدل وانصاف کے رکن مسٹر فو یضلر نے ہٹلری علم جرائم کا نصب العین ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔
سزا اس قدر سنگین ہونی چاہیئے کہ کوئی آدمی دوبارہ جیل کا مزا چکھنے کی جرأت نہ کرے
یہ تو اس دور کی طرف مراجعت ہوئی۔ جس میں آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کا وحشیانہ اصول کار فرما تھا۔ آج کل مہذب لوگ اس سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ لیکن آپ کسی پولیس کورٹ میں چند دن جائیے۔ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ کہ ہمارے قانون اب تک سزا اور انتقام کے اصول پر مبنی ہیں۔ ہم نے حضرت یسوع مسیح کی اس ہدایت کو بالکل بھلا دیا ہے۔ ”امتحان نہ و، کہ تمہار ابھی امتحان نہ ہو”۔
ہمارے ہاں علم جرائم کے بہت سے ”سائنٹیفک” مکاتب خیال ہیں او روہ کافی حد تک انسان دوست ہیں۔ لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے۔ علمائے جرائم بالکل کورے ہیں۔ گذشتہ پچاس برس میں مجرمین کے ذہنی امراض کے علاج کے متعلق کئی مقالے ہمارے سامنے آئے ہیں، بعض حضرات نے قانون شکنی کے سماجی اسباب کو محض زبانی تسلیم کیا ہے۔ ان کا مجوزہ طریق کارسر اسرا نفرادیت پسندانہ ہے اور وہ تحلیل نفسی یاعندو کرین غدود (بے نلکی کے بعض غدود اپنے سیال کو براہ راست خون میں داخل کرتے ہیں) پر طبی عمل یا جدید ترین اصلاحی قید خانوں کو واحد حل تصور کرتے ہیں۔ علم جرائم کے طبی ماہرین جرائم پیشہ لوگوں کی صحت کی بحالی پر تو زور دیتے ہیں۔ لیکن ان کے مرض کے سبب کو نظر انداز کر جاتے ہیں، یہ طریقہ ویسا ہی غیر سائنسی ہے۔ جیسے کسی طوائف کو آتشک سے شفاپانے کے بعد دوبارہ بازار میں بٹھا دیا جائے، راز شاہی حکومت نے جرائم کے انسداد کے لیے ویسا ہی طریق کار اختیار کیا، جیسا کہ بدمعاشی اور شراب نوشی کے خلاف جدوجہد میں بیان کیا گیا ہے۔ روسی عدالتیں عام طور سے جرائم پیشہ لوگوں کے لیے سائبیریا کی مشقت گاہیں اور قرون وسطیٰ اسی تنگ وتاریک کو تھڑیوں میں قید تنہاہی درہ زنی اور ایسی ہی دوسری ایذائیں تجویز کرتی تھیں۔حالانکہ روس کا ہر جج، وکیل، جیل کا نگران اور پولیس کا سپاہی اس نظریئے کو غلط ثابت کر تا تھا سزائوں کے ذریعے جرائم کا انسداد ہو سکتا ہے۔ شاہی حکمران جواباً اور بھی سنگین سزائیں دیتے تھے، انقلاب سے بیس سال پہلے خطا کار بچوں پر خاص طور سے ظلم ہوتا تھا۔ اس عرصے میں دس سے سترہ سال کی عمر کے گمراہ بچوں کی تعداد پہلے سے دگنی ہو گئی۔ اور زار شاہی روس میں ہر طرف آوارہ مزاج، چور، شرابی، بیمار، اور بدمعاش بچوںکی فوجیں گھومتی نظر آنے لگیں، مسلح ڈاکوئوں اور قتل کے واردات میں دہشت ناک اضافہ ہو گیا۔
انقلاب کے بعد عام ہنگامی صورت حال کی وجہ سے 1922تک جرائم کے خلاف کوئی باقاعدہ اور منظم مہم نہ چلائی جا سکی، لیکن اسی سال یعنی 1922میں سوویت حکومت نے پہلا ضابطہ فوجداری شائع کیا۔ ان قوانین کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ جرائم اور سماج کے سائنسی ادراک پر مبنی تھے، سوویت یونین کے سرکاری وکیل (پروکیوریٹر) اے دشنکی نے نئے قانونی نظر کی یوں تشریح کی ہے۔
عام افلاس بے روز گاروں کی لاتعداد فوج، حقوق یا فتہ طبقوں کی بدعنوانیاں چھوٹے سوداگروں کا زیادہ سے زیادہ نفع کی امید پر سامان خرید نے کے لیے جنونی مقابلہ تجارتی دستاویزات (یعنی اسٹاک) کواندھا دھند فروخت کرانے والے دلال، ناجائز اثر ورسوخ کے بل پر چلنے والے لاکھوں مجرمانہ کا روبار، غبن اور جعلسازیاں یہ ہیں جرائم کی پیداوار کی زرخیز زمین۔ جن کی ذمہ داری سماجی تعلقات کے اس نظام پر عائد ہوتی ہے، جس میں ذاتی ملکیت کا عمل ہے۔ اور جس کی خاطر ہزاروں بدکاریاں اور ناجائز حرکات بلا خوف سزا سر انجام پاتی ہیں۔
سوویت یونین کا ضابطہ فوجداری اس لحاظ سے ان تمام ضابطوں سے نرالا تھا کہ رومن قانون سازوں کے وقت سے لے کر آج تک اس قسم کا ضابطہ قانون وجود میں نہ آیا تھا، جو نئی قسم کے سماجی تعلقات پر مبنی ہو، اس نئے نظام میں فرد کے ذاتی مالی واسباب کے علاوہ باقی تمام شخصی جائداد کا کوئی خاص احترام نہیںکیا گیا۔ ضروری مال واسباب کے علاوہ باقی کے ذخیروں کو حقیقتاً خلاف اخلاق تصور کیا گیا تھا۔ اس ضابطے کا مقصد چور، خائن اور جرائم پیشہ لوگوں کو سزا دینا نہ تھا۔ بلکہ انہیں یہ سمجھانا تھا کہ اب ملک میں ایسے حقوق یا فتہ طبقے باقی نہیں رہے۔ جو بلا خوف پاداش قانون جرائم کا ارتکاب کر سکیں۔ سوویت یونین میں صحت مندانہ تعمیرات رونما ہو رہے تھے، ذاتی خود غرضانہ اور مالی منافعوں کی ہوسناک لڑائی کا رخ قومی خوشحالی کی جدوجہد کی طرف موڑا جا رہا تھا۔ اور جرائم کے خیابان میں بل چل رہا تھا۔
1923 میں سوویت عدالتوں میں جتنے مقدمات جرائم فیصل ہوئے۔ ان کا اشاریہ سو فرض کیا جائے تویہ 1926میں تریسٹھ اور 1929میں صرف ساٹھ تھا۔ چھ سال کے عرسے میں دس میں چار جرائم ختم ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ سوویت یونین کے ماہرین علم جرائم اپنی جدوجہد کے آغاز کو 1930سے شمار کرتے ہیں، جب کہ زراعت اور صنعت کی برق رفتار اجتماعی ترقی کے پیش نظر سوویت یونین کے ضابطہ فوجداری میں نمایاں تبدیلیاں کی گئیں، کئی سال سے قومی جائداد کی چوری میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اور اس قسم کے چوروں کے خلاف مقدموں کی تعداد تمام مقدموں کی تعداد کے نصف سے بھی زائد تھی۔ جرائم پیشہ لوگوں کی اخلاقی تعلیم اور معاشی بحالی کے منصوبے کی بدولت پانچ سال کے عرصے میں جرائم کی تعداد میں ساٹھ فی صد اور اس کے ساتھ ہی ہر قسم کے جرائم کی مجموعی تعداد میں ایک تہائی کمی واقع ہو گئی۔
یہ کامیابی کیسے ہوئی؟
بعینہ ان طریقوں سے جو شراب نوشی اور بدکاری کے انسداد کی جدوجہد میں بروئے کار لائے گئے۔ لہٰذا ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، سوویت یونین میں جرائم پیشہ لوگوں کی اصلاح کے لیے جو طریقے اختیار کئے گئے، ان کے متعلق دوسرے ملکوں کے بہت سے اہل قلم حضرات تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ سوویت یونین کے سرکاری وکیل، مسٹروشنسکی نے ان کا جامع خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا۔
جن جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ سرمایہ دار ملکوں میں آوارہ گردوں اورا چھوتوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین میں انہیں ملک کی اقتصادی ترقی میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی جاتی ہے اور وہ سوشلسٹ سماج کے سرگرم معمار بن جاتے ہیں۔ بحیرہ ابیض اور بحیرہ بالٹک کو ملانے والی نہر اور دریائے والکا سے ماسکو جانے والی نہر کی کھدائی اور تعمیر سے سینکڑوں جرائم پیشہ لوگوں کو عملی تعلیم ملی، جنہیں ان نہروں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے کام پر لگا دیا گیا۔ اس تجربے کے بعد زندگی کے متعلق ان کا نقطہ نظر ہی بدل گیا۔ اور ان میں ایمان دارانہ روزی کمانے کا شوق پیدا ہوا۔
سوویت یونین کی انسداد جرائم کی مہم کا نقطہ عروج وہ واقعہ ہے، جو دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے کچھ عرصہ پہلے رونما ہوا۔ ماسکو کے قریب جرائم پیشہ لوگوں کے اصلاح وتربیت کے لیے کئی سال سے ایک ادارہ مصروف کار تھا۔ جو بولشیفو کالونی کے نام سے مشہور ہے، یہ مرکز کئی لحاظ سے ان فیکٹریوں سے مشابہ تھا۔ جو پیشہ ور عورتوں کی اصلاح کے لیے قائم کی گئی تھیں، اس ادارے کو ہزاروں سیاحوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کی سرگرمیاں رفتہ رفتہ وسیع سے وسیع تر ہوتی گئیں او راس کالونی کی معاشی اور تہذیبی زندگی اور قدر خوش گوار اور دل کش بن گئی کہ 1939میں ایسے گریجویٹوں کی تعداد جو شادی کر کے وہاں مستقل سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان نوواردوں کو ملا کر بھی بڑھ گئی، جنہیںعدالتیں سزا کے طور پر وہاں بھیج رہی ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر بولشیفو کالونی میں اصلاحی پروگرام کو ترک کر دیا گیا۔لہٰذا یہ بستی ایک اصلاحی ادارے کی حیثیت سے ختم ہو گئی۔ اور اسے نئے سرے سے معزز شہریوں کی آزاد بستی کی حیثیت سے آباد کیا گیا۔ جن لوگوں نے امریکی نظام اصلاح پر وارڈن لادیس کی مشہور تصنیف ”سنگ سنگ میں بیس ہزار سال”پڑھی ہے ان کے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جرائم کے انسداد کے متعلق ہماری ان تھک جدوجہد او رسوویت یونین کی عملی کامیابی میں کتنا زیادہ فرق ہے۔ جہاں بولشیفو کالونی تھوڑے عرصے میں قید خانے سے آزاد برادری میں تبدیلی ہوگئی۔
سوویت یونین میں اب بھی کئی قید خانے موجود ہیں۔ لیکن ان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں میں ہر سال کم سے کم تر مقدمے آتے ہیں۔ ہمارے لیے شاید سوویت یونین کی انسداد جرائم کی جدوجہد کا سب سے زیادہ موثر کن پہلو وہاں کے نوجوانوں کی سیرت میں انقلابی تبدیلی ہے عملی تجربے کے پندرہ سال بعد 1935 میں روسی بچوں کی جرائم کاریوں میں متعدبہ تغیر رونما ہوا اور بچوں کی اصلاح کے عملی تجربے کے اٹھارہ مہینوں کے درمیان ہی ان کے جرائم میں بائیس فیصدی کمی واقع ہو گئی ادھر ہماری حکومت ہمیں ابھی سے متنبہ کر رہی ہے کہ ہمیں جنگ کے بعد خطا کار بچوں کی تعداد میں اور بھی اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا آج بھی یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے جس سے لاکھوں گھر انوں کی مسرت اور مستقبل خطرے میں ہے بے شمار اسکیمیں اور نظرئیے پیش کئے جا رہے ہیں لیکن ہمارے بچوں کے نام نہاد مصلحین میں جو اختلاف اور انتشار پایا جاتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ حوصلہ فرسا ہے جو انسداد بدکاری اور شراب کے مجاہدوں کی صفوں میں دیکھا گیا۔
سوویت یونین نے بچوں کی اصلاح کے لیے جس تکنیک سے کام لیا اسے منظر عام پر لانے کی ہر کوشش کو روکا گیا ہے نئے سوویت قانون میں گمراہ بچوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا گرو بلا امتیاز جرائم بارہ سال تک کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے دوسر ا گروہ بارہ سے سولہ سال تک عمر کے ایسے نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ادنیٰ قسم کے قانون شکنیوں کے مرتکب ہوتے ہیں تیسرے حصے میں بارہ سے سولہ سال کی عمر کے وہ نوجوان شامل ہیں جو سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور سولہ سال سے زیادہ عمر کے جرائم کا ر نو جوانوں کو بالغوں کی طرح باقاعدہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
قانون کی رو سے پہلے دو گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو گرفتار کر کے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا خواہ انہوں نے اس جرم کا اقدام کیا بھی ہو جس میں وہ پکڑے گئے ہوں وہ ضابطہ فوجداری کے موجب بیگناہ اور معصوم ہیں ان کے جرائم کی ذمہ داری ان کے والدین، معلمین، بالغ لوگوں، سکولوں یا ہمسایوں یا خود سماج پر عاید کی جاتی ہے۔
لیکن یہاں ہمارے کان ایک ناقابل فہم شور سے پک گئے ہیں۔ ہم ججوں، پولیس والوں اور پادریوں کو یہ چلاتے سن سن کر تھک گئے ہیں کہ والدین گھر، سکول اور کلیسا اپنے فرائض کی سرا نجام دہی میں کو تاہی کر رہے ہیں اور وہی بچوں کی تفصیروں کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن سوویت یونین میں انہیں حقیقتاً ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ان کے خلاف مقدمے چلائے گئے اور مجرم ثابت ہونے پر خاطر خواہ سبق سکھایا گیا۔ بعض خطا کار بچوں کے خلاف سوویت یونین کے عام شہری نالش کرتے ہیں۔ لیکن اکثر یت ایسے بچوں کی ہے۔ جنہیں ملیشیا (قومی رضاکار) یا پولیس عدالت میں پیش کرتی ہے۔ ملیشیا یا پولیس کے کارکنوں کو حکم ہے کہ وہ نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کو بازاروں، عام عمارتوں یا جگہوں پر بالخصوس سکول کے اوقات میں آوارہ گردی کرتے دیکھیں، یا جب کبھی ان کے متعلق کوئی شبہ پیدا ہو تو انہیں ٹوکیں، بچوں کی یہ سخت نگرانی محض انہیں گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے کی جاتی ہے۔ اگر کوئی بچہ جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے پایا جائے وہ سکول اور گھر سے اپنی غیر حاضری کی کوئی وجہ بیان نہ کر سکے۔ یا معلوم ہو جائے کہ اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہو رہی تو ملیشیا والے اسے حوالات لے جاتے ہیں۔
یہ حوالات ہمارے ہاں کے حوالات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ہوتے ہیں، جن میں عموماً دو یا تین کمرے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں خصوصی تربیت یا فتہ معلم ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اس کی امداد کے لیے چند رضا کار بھی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ پولیس یا ملیشیا والا لڑکے یا لڑکی کے بارے میں مفصل رپورٹ درج کراتا ہے۔ اور اسے وہاں چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن گرفتاری کا تکلف روا نہیں رکھا جاتا۔ کیونکہ قانون کے رو سے بچوں کو تھانوں میں لے جانا یا بالغ مجرمین کے ساتھ رکھنا منع ہے”۔
مذکورہ بالا معلم بچ کے والدین یا وارث اور سکول کو فوراًاطلاع دیتا ہے ۔ان کے آنے تک بچے کو کھیل، مطالعے اور آرام کی کھلی چھٹی ہو تی ہے۔ اس اثنا میں معلم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کہ اصل نقص کہاں ہے۔ اور وارثوں کے آنے تک یقین کرتا ہے۔ کہ بچہ اتفاقاً گمراہ ہو گیا ہے۔ یا وہ کسی خاص مشکل میں گرفتار ہے، پہلی صورت میں والدین اور وارثین کو متنبہ کیا جاتا ہے۔ اور خاص ہدایات دینے کے بعد بچے کو لے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔اگر یہ معلوم ہوجائے کہ والدین بچے کی نگرانی اور دیکھ بھال کی طرف سے غافل ہیں یا بچہ کسی گھر یلو مشکل میں پھنسا ہواہے۔ تو باقاعدہ تحقیقات کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ او ر ہو سکتا ہے کہ والدین کے خلاف فرد جرم بھی مرتب کر لی جائے، ادنیٰ قسم کی بیشتر قانون شکنیوں کو اسی طرح دور کیا جاتا ہے۔ اور کسی قسم کی عدالتی کاروائی نہیں کی جاتی۔
اگر قانون کی رو سے پہلے دو گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے خلاف نالش نہیں کی جا سکتی، تو کوئی میر یا کپڑے چراتی پکڑی جائے، یا کوئی متیکاسی وزیر کی کھڑی میں پتھر اٹھا پھینکے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے، ایسے بداخلاق بچوں کو عدالت میں پیش کیا جاتا ہے، لیکن انہیں عدالت میں تنہا نہیں لے جایا سکتا۔ ان کے ساتھ ان کے والدین وارثین یا کسی دوسرے بالغ شخص کو بھی عدالت کے کٹہروں میں کھڑا کیا جاتا ہے۔
بچوں کے خلاف ایسے مقدمے کی سماعت جس قسم کی عدالتیں کرتی ہیں، ان کی مثال سوویت یونین سے باہر کہیں نہیں ملتی، یہ وہ مشہور عدالتیں ہیں۔ جنہیں علاقائی رفیقانہ عدالتیں” کہتے ہیں اور یہ 1931 میں قائم ہوئیں، ان عدالتوں سے زیادہ ہمارے عدالتی نظام کی متاثر کن ضد کا تصور تک محال ہے، یہ عدالتیں سوویت یونین میں ہر کہیں قائم ہیں، یہ جج عام شہری ہوتے ہیں جنہیں متعلقہ علاقے کے باشندے صنعتی ادارے یا اجتماعی فارم کے تمام کارکن ایک سال کے لیے چنتے ہیں، ججوں کے یہ گروہ (یا پنچائتیں) ہمارے ہاں کی جیوریوں سے بہت کچھ ملتی جلتی ہیں،
انہیں عام تنازعوں، ادنیٰ مقدمات فوجداری، بدکاریوں، چھوٹی چوریوں اور بچوں کے خلاف (سنگین جرائم کے علاوہ) مقدموں کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ رفیقانہ عدالتیں ملک کے تمام باشندوں کا اخلاقی معیار بلند کرنے، لوگوں میں سماجی ذمہ داریوں کے اشتراکی اصولوں کی روح پھونکتے اور پسماندہ افراد کے مجلسی اور تہذیبی ارتقا میں ممد ثابت ہوتی ہیں ان کے وظائف کی مکمل روداد جان، این حیز رڈ کی تصنیف”سوویت قانون رہائش گاہ” میں دیکھی جا سکتی ہے سوویت یونین (پنجائتی حکومتوں کے دیس)کے اس اچھوتے عدالتی نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ تمام جج متعلقہ ماحول اور لوگوں سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں۔ ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت عام طور سے بے تکلف مباحثے کی صورت اختیار کر لی جاتی ہے۔ یہ عدالتیں عموماً حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں اور سب لوگ بحث میں حصہ لے سکتے ہیں۔ عدالت کا اولین فرض کسی بچے کی بد چلنی کا موجب یا اس کی بے راہروی کے ذمہ دار شخص کو دریافت کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اہم کام ایسا فیصلہ صادر کرنا او رایسی سزا تجویز کرنا ہوتا ہے کہ جرم کی تکرار کا امکان باقی نہ رہے۔
معمول یہ ہے کہ رفیقانہ عدالت بچوں کے لیے خاطر خواہ تفریحی سہولتیں بہم نہ پہچانے، دوستانہ امداد کے بغیر کسی خاندان کے غیر محفوظ صورت حال میں پھنس جانے، کسی نااہل معلم کو سکول میں باقی رکھنے یا اسی قسم کی دوسری غفلت پاداش میں خود اپنے آپ کو، یعنی علاقے کے تمام باشندوں کو مجرم ٹھہراتی ہے۔ بہرحال عدالت کا فیصلہ التزاماً کوئی ایسی تجویز ہوتا ہے، جس سے بچے اور اس کے ماحول کی اصلاح ہو جائے۔
اس طریقے سے خطا اور ملزم بچوں کی بھاری اکثر یت پر قابو پالیا جاتا ہے سولہ سال سے زائد عمر کے تمام نوجوانوں اور بارہ سے سولہ سال کی عمر کے ایسے بچون کو جن کے خلاف بڑی چوریوں، خطرناک شرارتوں اور قاتلانہ حملوں کا الزام ہو، انہیں عدالت فوجداری میں پیش کر کے ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں کی عدالتوں کا کام محض سخت سے سخت سزا تجویز کرنا ہے۔ اس لیے ہم بچوں کی جس قسم کی عدالتوں کا تصور کر سکتے ہیں سوویت یونین میں کوئی عدالت نہیں کیونکہ وہاں نابالغ مجرمین کے خلاف مقدمے کی سماعت یا تو رفیقانہ عدالتیں کرتی ہیں، یا ان کے جرائم کو سنگین تصور کیا جاتا ہے اور ان کے مقدمے فوجداری عدالتوں کے سپرد کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ لائحہ عمل پندرہ سال کے تجربے کا نچوڑ ہے۔ لہٰذا ہمارے ملکوں کے لیے غیر معمولی دلچسپی کا موجب ہے سوویت یونین میں خطا کار بچوں کے خلاف قانونی کاروائی کا مسلمہ طریقہ یہ ہے کہ وہاں بچوں کو ملجاظ جرائم دو گروہوں میں منقسم کر دیا گیا ہے،
-1اگر ملزم بہت ہی کم سن ہو یا اس کے خلاف ادنیٰ شرارت کا الزام ہو، تو ملزم لڑکے یا لڑکی کو گرفتار نہیں کیا جاتا اور اس کے خلاف مقدمہ نہیں چلا یا جاتا۔
-2ملزم بچہ عمر میں بڑا ہو اور اس نے کسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہو تو اس کے خلاف باقاعدہ عدالت میں سخت مگر منصفانہ کاروائی کی جاتی ہے۔
تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ قانون شکن بچوں کے دو گروہ ایک دوسرے سے اس قدر مختلف اور متضاد ہیں کہ کوئی ایک عدالت بیک وقت ان سے اچھی طرح نمٹ نہیں سکتی (ہمارے برعظیم کے بعض با عمل قومی رضا کار بھی اسی نیتجے پر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی تک رفیقانہ عدالتوں سی کوئی چیز وجود میں نہیں آئی)وجہ یہ ہے کہ جہاں تک عمل کا تعلق ہے، بچوں کی عدالت ہے، اس کا صدر منصف مقدمے کی رہنمائی خواہ کتنی ہی بے رسمی سے کرے، عدالت کا زیادہ تر وقت بچے کی سکول سے غیر حاضری، آوارہ گردی اور ادنیٰ قسم کی قانون شکنیوں کی غیر ضروری تفصیلات ہی میں ضائع ہوجاتا ہے۔
علاوہ ازیں کم سن بچوں کے لیے عدالت میں پیش ہونا ایک دلچسپ ڈرامائی تجربہ ہے اور بسا اوقات اس احساس کا نفسیاتی اثر تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ سولہ سال سے زیادہ عمر کے نوجوان اور بارہ برس سے زیادہ عمر کے وہ بچے جو سنگین جرائم کے اقدام کے قابل ہیں، ایک ایسی عدالت میں پیش ہوتے وقت جو کم سن بچوں کے ادنیٰ مقدموں کا فیصلہ بھی کرے۔ اپنے جرائم کو حد سے زیادہ معمولی خیال کرنے لگتے ہیں۔
روس میں جب کسی لڑکے یا لڑکی کو اعلیٰ فوجداری عدالت کے حوالے کرنا مقصود ہو تو محکمہ وکالت سرکار خصوصی تحقیقات کرتا ہے۔ اگر مقدمے کو اعلیٰ عدالت کے سپرد کرنا ہو، تو ایک مفصل فرد جرم تیار کی جاتی ہے۔ اس فرد جرم میں نہ صرف مبینہ الزام کے مکمل حالات بلکہ ملزم کی شخصیت کی بھی مکمل تشریح شامل ہوتی ہے۔ جسے عموماًایک ماہر امراض نفس تیار کرتا ہے اور حتی الامکان جرم کا محرک بھی بتاتا ہے۔
بچوں کے خلاف مقدمات جرائم کی سماعت کے اشتراکی طریقے کو اچھی سمجھنے کے لیے دوسرے ملکوں او رسوویت یونین کے دستور قانون کے باہمی فرق کو جاننا ضروری ہے اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سوویت یونین کے سرکاری وکیل کے فرائض منصبی کا مطالعہ کریں۔
سوویت یونین کے دستوار ساسی کے نویں باب میں درج ہے۔
یہ دیکھنا کہ تمام عوامی وزارتیں اور ان کے ماتحت اداروں کے علاوہ تمام سرکاری ملازم اور شہری قوانین کی سختی سے تعمیل کرتے ہیں، سوویت یونین کے اعلیٰ وکیل سرکار کا فریضہ ہے”۔
تمام سوویت یونین کے لیے ایک اعلیٰ سرکاری وکیل مقرر کیا جاتا ہے اور اس کے ماتحت ہر جمہوریت اور خود مختار علاقے اور خطے کا ایک ایک سرکاری وکیل ہوتا ہے….جنہیں اعلیٰ سرکاری وکیل پانچ سال کے لیے مقرر کرتا ہے۔ سوویت یونین کی سب سے اونچی پنچایت سات سال کے لیے مقرر کرتی ہے۔
سوویت یونین کا سرکاری وکیل امریکہ کے وکیل کناڈا کے سرکاری وکیل سے ملتا جلتا ہے۔ سوویت یونین میں نہ صرف وفاقی جمہوریتوں اور خود مختار علاقوں بلکہ ہر شہر اور ہر ضلع میں ایک مقامی سرکاری وکیل ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے عدلیہ کے برعکس سوویت یونین کا محکمہ وکالت سرکار ایک واحد ادارے کی طرح کا م کرتا ہے اور وہاں پرچھوٹے بڑے سرکاری وکیل کے فرائض تقریباً ایک سے ہیں۔
غرضیکہ سوویت یونین کے ہر چھوٹے بڑے سرکاری وکیل کافرض منصبی یہ ہے۔ کہ وہ قانون کی یکساں اور فاقی تشریح کرے او ردیکھے کہ اس تشریح پر ہو بہو عمل ہو۔ ا س کا یہ کام خاص طو ر پر قابل توجہ ہے کہ اس کی ذمہ داری ملک کے باشندوں سے تعمیل کرانے تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام سرکاری اداروں اور خود عدلیہ سے بھی تعمیل قانون کراتا ہے۔ لغوی معنوں میں سوویت یونین کا سرکاری وکیل دراصل محافظ قانون ہے۔ ہر ایک سوویت سرکاری وکیل اپنے حلقے کے تمام سرکاری افسروں ، حتیٰ کہ خود ججوں سے بھی بالا ترہوتا ہے اور وہ محض عدلیہ کا مدد گار نہیں ہوتا۔ یہ تفوق بہت اہم ہے۔ جب سے قانون کا عمل ہوا ہے اسی وقت سے اس کی اصلاح وترمیم کے لیے مسلسل تحریک بھی جاری ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاستوں، ان کی پولیس ، ان کے مستغیثوں او ران کے تمام امدادی اداروں کا رویہ ظالمانہ رہا ہے۔ جسے ایک عام شہری کے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ قانون عوام کاشکار کرتا ہے۔ قانون لوگوں کا دشمن ہے۔ حقیقی انصاف کے نام سے تمام قانونی اور عدلی اصلاح وترمیم کی تحریک کا مقصد ہمیشہ سے اسی خامی کو دور کر ہا ہے۔ سوویت یونین میں قانونی اور عدلی اصلاح نہ تسلی بخش بلکہ بے حد موثر بھی۔
سوویت وکیل سرکار کے دو اہم فریضے ہیں۔ پہلا یہی قانون کی تعمیل، قانون شکنی کا سدباب او رقانون توڑنے والوں کو سزا دینا۔ دوسرا فریضہ مفاد عامہ کا تحفظ ہے۔ دوسرے فریضے میں ان لوگوں کی صفائی کی ذمہ داری بھی شامل ہے جو قانون شکنی میں ماخوذ ہوں، اس کے علاوہ اس فریضے میں نفاذ قانون اور عدل کے اداروں کی سخت نگرانی بھی شامل ہے۔
لہٰذا سوویت یونین کے سرکاری وکیل کے اختیارات بے حد وسیع ہیں اور اسے اپنے اختیارات کو جس غیر جانبداری سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کسی دوسرے ملک کے سرکاری وکیل کے لیے ممکن نہیں۔ ہم بجاطو رپر سوال کر سکتے ہیں کہ ایسی غیر جانبداری حقیقی ہے یا محض نظری؟
سوویت یونین کے ضابطہ فوجداری کو وضع ہی اس مقصد کے لیے کیا گیا ہے کہ سرکاری وکیل صحیح معنوں میں عوام کا محافظ ثابت ہو۔ مثلاً روس کی سوشلسٹ جمہوریتوں کے وفاقی آئین کے مطابق ابتدائی تفتیش کرنے والے افسر کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ان حالات کی تحقیق اور تعین کرے جن کی بنا پر کسی شہری کو جرم سے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ان حالات کا بھی جائزہ لے، جن کے سبب اس کے جرم کو سنگین یا معمولی قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقدمے کی ابتدائی تفتیش کرنے والا شخص خود سرکاری وکیل ہوتا ہے یا اس کا کوئی ماتحت افسر، فرد جرم میں ان تمام شہادتوں کا درج ہونا ضروری ہے جو ملزم کے حق میں ہوں یا خلاف، سوویت یونین کے ضابطہ فوجداری کا اہم اصول یہ ہے کہ سرکاری وکیل اس وقت تک کوئی مقدمہ نہیں جیت سکتا، جب تک تمام شہادتوں سے ارتکاب جرم ثابت نہ ہو۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 306کے مطابق اگر متغیث کو یقین ہو جائے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران میں جن حقائق کا انکشاف ہوا ہے ۔ ان سے فرد جرم کو کو تقویت نہیں پہنچی تو اسے مقدمہ واپس لینے کا اختیار ہے۔
مزید بریں سرکاری وکیل کافرض ہے کہ مقدمے کے بعد عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کرے ہمارے ہاں سرکاری وکیل اس بنا پر اپیل کر سکتا ہے۔ کہ سزا جرم کے مقابلے میں کم ہے۔ سوویت یونین میں بھی یہی دستور ہے۔ لیکن وہاں سرکاری وکیل کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ سزا کو جرم کے مقابلے پر زیادہ سنگین پائے تو عدالت عالیہ سے اپیل کرے۔ خصوصاًاس صورت میں جب کہ مقدمے کی سماعت میں ایسی قانونی اور عدلی خامیاں رہ گئی ہوں جو مجرم کے مفاد کے خلاف جاتی ہوں۔
دوسرے لفظوں میں سوویت وکیل سرکارمدعی بھی ہے اور مدعا علیہ بھی۔ وہ عدالتوں سے اونچانہ ہوتے ہوئے بھی ایک حد تک تمام عدالتی کاروائی کی نگرانی کرتا ہے۔ قوانین مذکور کی دوسری دفعہ کے مطابق سرکاری وکیل کو نالش کرنے کا اختیار ہے اور اسے ریاست یا عوام کے مفادات کے تقاضے کے پیش نظر مقدمے میں مداخلت کا حق حاصل ہے۔ خواہ مقدمہ کسی بھی مرحلے میں ہو۔
یہ تمام نظام وکالت ایک مرکز کے ماتحت ہے۔ گویا یہ نظام ایک ایسا وفاقی مرکز ہے۔ جسے تمام جمہوریتوں، خود مختار علاقوں اور خطوں کے قانونی اور عدلی نظام پر کلی اختیارات حاصل ہے۔ اس نظام کا مقصد تعمیل قانون میں ہمہ گیری اور یکسانیت پیدا کرنا ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اس نظام کو لینن نے سوویت حکومت کے ابتدائی ایام ہی میں قائم کردیا تھا۔ لینن نے اپنے ایک خط میں استالین کو لکھا”۔ سرکاری وکیل کا واحد حق اور فرض یہ ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ مقامی اختلافات او ر موثر ات کے باوجود تمام ری پبلک (سوویت یونین) میں قانون کی صحیح معنوں میں گیر تشریح وتعمیل ہو”۔
ہمارا اپنا تجربہ شاہد ہے کہ ایسے اصولوں کی پیروی سے بے شمار خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لیکن سوویت یونین کا نظام عدل ان اصولوں کی سختی سے حمایت کرتا ہے او روہ بالکل نئے قانونی اصولوں پر مبنی ہے۔ سوویت عدالتوں کا بڑا کام سنگین ضابطہ قانون کی پیروی نہیں۔ بلکہ محنت کش طبقے میں نظم وضبط، بالخوص رضا کارانہ نظم وضبط پیدا کرنا ہے کیونکہ یہ عدالتیں اسی طبقے کے اختیارات حکمرانی کی نمائندہ ہیں۔ انہیں سوویت نظام کے ہمہ گیر مدر کات کے مطابق منظم کیا گیاہے اور یہ دوسرے ملکوں کی عدالتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ جمہوری ہیں۔
کوئی سوویت عدالت نسل، قومیت یا جائیداد کے تفوق کو تسلیم نہیں کرتی۔ججوں کا آزادانہ انتخاب ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف عوام کے چنے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ عوام میں سے ہوتے ہیں۔ یہی کچھ ان کی قانونی تربیت ہے او ر اکثر سوویت یونین کے جج ابتدا میں وکالت پیشہ نہ تھے بلکہ وہ شہروں یا دیہات کے محنت کش مرد یا عورتیں تھیں۔ عدالتی تقرر کے اس نئے طریقے کا فائدہ ہر خاص وعام پر واضح ہے۔ کیونکہ سوویت یونین کا نظام عدل بالکل اسی طرح جمہوری ہے جس طرح ہمارے ہاں کی مجلس بلد یہ یا میونسپل کمیٹی۔ ہمارے ہاں کے کونسلروں اورسکول بورڈ کے ٹرسٹیوں کی طرح سوویت جج عوام کے لیے ہیں۔
جب سے جدید ریاست نے جنم لیا ہے۔ اس وقت سے لے کرآج تک سوویت یونین کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں اس اصول پر عمل نہیں ہوا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس اصول سے مراد قانون کی میکانکی اصلاح وترمیم نہیں۔ بلکہ اس کا تقاضا ہے کہ تمام قانونی اور عدلی ڈھانچہ لوگوں کے مفاد کے عین مطابق ہو، ورنہ عوامی جج یاتو قانونی تضاد کے سبب کام ہی نہیں کر سکیں گے یا ان قوانین پر عمل پیرا ہونے کی کوشش میں جو عوام کے کسی ادنیٰ گروہ کے خلاف ہوں جو بنیادی حقوق کو تسلیم ہی نہ کریں یا جو کسی طرح بھی خصوصی تو جیحات کو روا رکھیں وہ بہت جلد قانون کی تعمیل کرانے والی مشینری کو توڑ دیتے ہیں۔ یہ نکتہ ان نام نہاد مصلحین پر انقلاب فرانس کے وقت ہی سے روشن ہو گیا تھا۔ جو اس کلاسکی عیاری سے کام لینا چاہتے تھے کہ قانون امیراور غریب دونوں کی روٹی کی چوری سے روکتا ہے۔ لیکن عوامی ججوں کے لیے مشکل ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف مقدمے لیں جوا س لیے روٹی چرائیں کہ وہ بھوکے تھے۔
سوویت یونین میں نہ صرف عوامی جج اور عدالتیں بھی نہایت کامیابی سے کام کر رہی ہیں بلکہ گزشتہ 25برس کے عرصے میں اکثر وبیشتر قوانین کی تعمیل انہی نے کرائی ہے اعلیٰ عدالتیںتو چندا ایسے مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے مخصوص ہیں جو ریاست کے تحفظ سے متعلق ہوں۔ ان کا خاص کام عوامی عدالتوں کی اپیلون کو سننا ہے”۔ سوویت دستور ورایت” میں جسے سوویت اکادمی کے علوم کے شعبہ قانون نے شائع کیا ہے، ججوں کی آزادی کی یوں تشریح کی گئی ہے۔
سوویت جج خود مختار ہیں، کیونکہ سوویت عدالت صرف ایسے قانون کی پابند ہے جو لوگوں کو پسند خاطر ہو اور وہ خاص مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ہر قسم کے اثر ورسوخ سے آزاد ہو۔ تمام جج سزا دینے یا فیصلہ کرنے میں صرف قانون کے تقاضوں یا اپنی داخلی رایوں کے پابند ہیں۔ جن پر وہ تمام حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد پہنچیں۔ ان معنوں میں سوویت عدالت، عوامی عدالت (یعنی پنچایت)حقیقتاً آزاد عدالت ہے”۔
سوویت آئین کی دفعہ نمبر 110کے مطابق ”تمام عدالتی کاروائی وفاقی جمہوریت، خود مختار جمہوریت یا خود مختار علاقے کے لوگوں کی مادری زبان میں کی جاتی ہے جو لوگ متعلقہ زبان نہ جانتے ہوں، انہیں ایک ترجمان کے ذریعے مقدمے کے تمام مواد سے پوری طرح آگاہ ہونے اور عدالت میں اپنی مادری زبان استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
چند مستشینات کے علاوہ تمام مقدمے کھلی عدالت میں سنے جاتے ہیں، مستشینات میں ایسے مقدمے ہیں جن میں عدالت کے لیے شخص کی ذاتی زندگی کے رازوں کا تفصیلی جائزہ لینا ناگزیر ہو یا جن سے فوجی یا ڈپلومیسی کے اسرار وابستہ ہوں۔
آخری بات یہ ہے کہ ججوں کو چننے والے لوگ چاہیں انہیں واپس بلا سکتے ہیں۔
سوویت یونین میں بالغ مجرمین کے مقدمات کی سماعت کے طریقے کی دو امتیازی خصوصیات ایسی ہیں، جن سے ہماری عدالتیں آشناتک نہیں، پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ہر مقدمے کی سماعت تین جج کرتے ہیں۔ ان میں صرف ایک جج قانون دان ہوتا ہے اور دوسرے دونوں عام شہری ہوتے ہیں۔ جنہیں کمسن مجرمین کے معاملات کا پورا تجربہ ہوتا ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ باقاعدہ عدالت میں پیش ہونے والے ہر بچے کے لیے ایک وکیل صفائی کا مفت بندوبست کرے۔ اس حفاظتی اقدام کا مقصد تمام بچوں کا زیادہ سے زیادہ قانونی تحفظ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ہاں کے تمام تجربہ کا روکیل اور قانون دان حضرات اس طریقے کی پرزو رحمایت کریں گے، کیونکہ اس سے بچوں کی عدالتوں کے خلاف اس بڑے اعتراض کا ازالہ ہو جائے گا کہ عدالت کی رائے اور غیر جانبداری پر حد سے زیادہ اعتماد کرنے سے خطرناک نا انصافی کا امکان ہے۔
سوویت عدالتوں میں مقدمے کی سماعت کا طریقہ بالکل سیدھا سادا ہے۔ ہماری عدالتوں کے معمول کے برعکس وہاں قانونی اصطلاحات اور پرانی مثالوں کے حوالوں سے حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے اور تینوں جج مل کر روز مرہ کی زبان میں حکم تیار کرتے ہیں۔ ہر شخص کو اپیل کا حق حاصل ہے اورا پیل پر کچھ خرچ نہیں آتا کیونکہ وکلائے صفائی کی فیس سمیت تمام اخراجات حکومت خود برداشت کرتی ہے۔
تاہم سوویت یونین میں بچوں کے مقدمات کی سماعت کے طریقے کی مکمل وضاحت کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ وہاں ملزم کو مجرم یا معصوم ثابت کرنے پر زور نہیں دیا جاتا بلکہ ان حالات ومحرکات کا تعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جن کے تحت کسی جرم کا اقدام ہوا ہو۔ لہٰذا ہمارے معمول کے برعکس وہاں بچوں کو مقدمات جرائم میں بہت زیادہ شہادتیں لی جاتی ہیں۔ مزید بریں عدالت کا فرض ہے کہ جرم کا خاص سبب دریافت کرے اس طرح جو فیصلے صادر کئے جاتے ہیں وہ ہمارے لیے واقعی حیران کن ہیں۔ مثال کے طور پر سوویت جج اکثر گواہوں یاجرائم کار بچے کے ایسے پڑوسیوں پر برس پڑتے ہیں جو شہادت دیں کہ بچے کے والدین بہت بداخلاق یا شراب کے عادی ہیں یا بچہ کافی مدت سے آوارہ گردی کے لیے مشہور ہے، کیوں کہ ان کی غفلت یہ ہے کہ انہوں نے بچے کے خطرناک مجرم بن جانے پہلے رفیقانہ عدالت کو اطلاع نہ دی مقصد یہ ہے کہ جرم کی تکرار نہ ہو۔ بچہ بھی اس جرم کا دوبارہ مرتکب نہ ہو اور یہ حرکت اجتماعی پیمانے پر بھی دہرائی نہ جائے، اس طریقے پر کسی مقام یا علاقے کے بچوں میں جرائم کے جڑ پکڑنے سے پہلے ہی انہیں ختم کر دیا جاتا ہے، عدالت فوجداری میں شاذو نادر ہی کسی بچے کا مقدمہ پیش ہوتا ہے اور جب کبھی ایسا اتفاق ہو تو عام اجتماعات اور مجالس میں اس پر بحث چھڑ جاتی ہے۔ اخبارات میں اس پر تنقید وتبصرہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح متعلقہ علاقے کی برادری کی اخلاقی اورمعاشرتی تعلیم کے ساتھ عدالتی مشینری کی پڑتال بھی ہوجاتی ہے۔
آج کل سوویت یونین میں جرائم بچگان کا مسئلہ فضول نظریہ بازی سے نکل چکا ہے اور اسے سائنسی طریقے سے حل کیا جارہا ہے۔ اقدام اتنے عام فہم اور عملی ہیں کہ جس شخص کو اس مسئلے سے تھوڑا بھی مس ہے وہ ان طریقوں کی قدر و منزلت سے فوراً آگاہ ہو سکتا ہے۔
ہم اپنے برعظیم امریکہ میں گمراہ بچوں کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ امریکہ ایک مدت سے جدید قید خانوں، اصلاحی جیل خانوں اور بچوں کے حوالات والی قوم کی حیثیت سے مشہور ہے، یہ بلند نظریہ زیادہ تر چند مقامی نمائش گاہوں کو مشتہر کرنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔ 1944میں بالٹی مور کی ضلع کچہری کے ایک جج رچرڈ ڈبلیوو کس نے ”پروبیشن” نامی جریدے میں مندرجہ ذیل حقائق تحریری کئے۔
-1میں نے ایک نہایت غلیظ قید خانہ دیکھا جس میں اسی قیدی ایک ساتھ بند تھے۔ ان میں 20بچے تھے، جن کے لیے مردوں سے الگ کوئی انتظام نہ تھا۔
-2ایک شہر کے قید خانے میں یتیم بچے بھی بند تھے، کیونکہ وہاں لاوارث بچوں کی پرورش کا کوئی بندوبست نہیں۔ بچوں کی عدالت کا تو خیر ذکر ہی کیا۔
-3 عورتوں کا ایک قید خانہ اتنا غلیظ تھا کہ میرے کپڑے بدبو میں بس گئے ۔ نوجوان لڑکیوں کے لیے الگ کمرے نہ تھے۔ خاص طور سے دو ایسی طالبات کے لیے کوئی الگ انتظام نہ کیا گیا جودو لڑکوں کے ساتھ چوری کی کار میں آوارہ گردی کرتی ہوئی پکڑی گئی تھیں۔ اس جیل کی تمام لڑکیاں پست اخلاق افراد میں گھری ہوئی تھیں۔ وہ طوائفوں کے ساتھ کھانا کھاتی تھیں اور انہیں کے ساتھ سوتی تھیں۔
-4 قیدی بچیوں کا خاص کھانا پھلیاں اور دن میں دوبار کالی چائے تھی۔ انہیں پینے کوھ نہ ملتا تھا۔ ان کے لیے نہانے دھونے کے لیے گرم پانی کا بندوبست نہ تھا یہ لڑکیاں سیمنٹ کے فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر اٹھتی بیٹھتی اور سوتی تھیں۔ ان کے محافظوں میں کوئی عورت شامل نہ تھی۔
-5بچوں کی میعاد قید ایک سے تین مہینے تک تھی، انہیں کسی قسم کی عدالتی کا روائی کے بغیر جیل بھیج دیا گیا تھا، کیونکہ اس شہر میں بچوں کی عدالتیں نہ تھیں اور تعلقہ دار کوفی قیدی کے حساب سے روزانہ معاوضہ ملتا تھا۔
قصبوں اور بڑے شہروں کے قید خانوں کی یہی حالت تھی۔

امریکہ کی سب سے بڑی انسانی دولت اس کے تین کروڑ بچے ہیں۔لیکن ان کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے؟ان کے زبوں حالی کے متعلق جو کچھ عوام کو بتایا جاتا ہے وہ اس سے کہیں بری صورت حال میں گرفتار ہیں۔ 1944 میں ہٹن کی ایک خاتون جج اینا ایم کر اس نے کہا کہ سرکاری عہد یدار بچوں کیجرائم کاری کے اعداد وشمار کو دانستہ کم تر دکھاتے ہیں۔امریکہ میں نیویارک سٹیٹ کی عورتوں کے کلبوں کے وفاق کا تجزیہ، کینیڈا میں وہاں کی بار ایسوسی ایشن کے لیے مرتب شدہ میکروئر ر پورٹ اورا نگلستان میں دوران جنگ کی متعدد تحقیقات میں متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ بچوں میں جرائم اور بداخلاقی اس قدر عام ہے کہ صرف پولیس ہی کو اس کا صحیح علم ہے۔
لیکن متحرمہ کر اس کا کہنا ہے کہ ”ہر ریاست کے دفاتر کی الماریاں گرد آلود تحقیقات سے اٹی پڑی ہیں”۔
میامی کی عدالت بچگان کے جج والٹر بکہام کا قول ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال کی نسبت 50 فیصد زیادہ مقدمات جرائم کی سماعت کی۔ انہوں نے بتایا کہ ان مقدمات کے دوران میں بعض ایسی مفلوک الحال پردیسی دوشیزائوں کو دیکھا جوعصمت بیج کر اپنا پیٹ پالنے پر مجبور تھیں اور عدالت انہیں گھر واپس جانے کے لیے ٹکٹ خرید دینے کی مجاز نہ تھی۔
امریکہ کے ایک فوجی افسر کرنل ہو مرگیریزن فرماتے ہیں کہ:۔
ہمارے ملک میں گزشتہ دو سال سے بچوں کے جرائم میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا ہے”۔ انطاریو کے چیف جسٹس ذرا بلا غت سے فرماتے ہیں کہ:۔
میری پریشانیوں کا موجب صرف بچوں کی بڑھتی ہوئی جرائم کاریاں ہی نہیں بلکہ ان کے مقابلے میں ہمارا عجز بھی ہے”۔
عجز یاپریشانی جسٹس صاحب؟
اب ہم امریکہ کے صاحب اختیار حضرات کی رایوں اور نظریوں کے نمونے پیش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک ہائی سکول کے پرنسپل رالف سی سمتھ کولیجئے جنہیں روٹری کلب نے اظہار خیال کے لیے مدعو کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ ”میں نے نوجوانوں میں پندرہسال گزارے ہیں۔ اس اثنا میں مجھے ایک لڑکی یا لڑکا ایسا نہیں ملا۔جسے ”پیدائشی بدکردار کہا جا سکے”۔ لیکن میں نے بہت سے بچوں کومصیبت میںمبتلا پایا۔ان کے حالات کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے ان کے گھروں، سکولوں کلیسائوں، برادریوں یاان کو ان کی مصیبتوں کا ذمہ دار پایا ہے”۔
قومی رضا کار اور پولیس اس حقیقت سے ایک مدت سے آشنا ہے۔ شراب خوری کے مسئلے کے طرح یہاں بھی ہمیں ایک سطحی قسم کا ترقی پسند نظر یہ ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ”بچوں کی گمرائی کا ذمہ دار سماج ہے”۔ تاہم جو لوگ مسٹر سمتھ کے زاویہ نگاہ کے حامی ہیں۔ وہ ایک خاص محدود حلقہ اثر سے باہر عملاً کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ سمتھ صاحب کے بیان میں ایک طویل سوال نامہ شامل ہے، جس کی رو سے روٹیرین حضرات اپنی برادریوں کی بے بسی اور ناکامی کے مفروضے قائم کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کا رد عمل منفی اثرات کا حامل ہوگا۔ کیونکہ یہ سوال نامہ خود سماج کی ایک سطحی اور بہانہ جو قسم کی مذمت ہے۔
آخر ہم اپنے گھروں، سکولوں، کلیسائوں اوربرادریوں کا کیاکریں؟ بعض لوگ فوراً بچوں کی عدالتوں کی اصلاھ کی تجویز پیش کریں گے اور ڈاکٹر لوگ بچوں کے معیار صحت کی طرف اشارہ کریں گے۔ بعض لوگ کہیں گے کہ نفسیاتی رہنمائی کے ذریعے بچوں کی امداد کی جائے۔مسٹر سمتھ پولیس عدالتی نظام،بے روز گاری اور بہت سے دوسرے عوامل کا ذکر کرنا بھول گئے۔ جنہیں وقتاً فوقتاً بچوں کی جرائم کاری کامرکز ٹھہرایا گیا ہے۔
انہی سامعین یعنی روٹری کلب کے اراکین کو ایک مرتبہ امریکہ کے تحقیقات جرائم کے وفاقی ادارے (ایف، بی، آئی) کے افسر اعلی جے ایڈ گرہو ور کے خیالات سے مستفیض ہونے کا موقع ملا ان کے الفاظ سن کر حاضرین کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ ”امریکہ میں جرائم کی موجودہ صورت حال خاموش آتش فشاں کی تہ میں کھولتے ہوئے گندھک کے لاوے سے ملتی ہے”۔
1938 میں امریکہ میں انگلستان کے مقابلے میں گیارہ گنا زیادہ لوگوں نے جرائم کا ارتکاب کیا 1943 میں 13 لاکھ سنگین جرائم کاارتکاب ہوا، جن میں ہر تر یپن منٹ کے بعد ایک قتل کی واردات بھی شامل ہے۔ ایف، بی، آئی کے رجسٹروںمیں چھ کروڑ امریکی جرائم پیشہ لوگوں کے نام درج تھے جنگ کے بعد سے کمسن لڑکیوں میں جرائم کی شرح 130 فیصد (تقریباً ڈیوڑھی زیادہ) ہو گئی۔
مسٹر ہو ور بچوں کے جرائم کے ذمہ دارا داروں یعنی گھروں، کلیسائوں، سکولوں وغیرہ کی فہرست پر سے جلدی جلدی گزر گئے اور اس فہرست میں بزنس (تجارت) کا اضافہ کیا۔ انہوں نے مبہم سا اشارہ کیا جو لوگ جرائم کی طرف مائل ہیں۔ ان پر تاجر پیشہ لوگوں کی خاص عنایت ہے۔ انہوں نے جو اعداد وشمار دئیے ہیں۔ وہ آخری اعشاریہ تک درست ہیں۔ لیکن ان کے تعمیری منصوبے مسٹر سمتھ کی تجویزوں کی طرح مبہم ہیں۔
بوسٹن کی عدالت بچگان کے جج جے ایف پر کنس نے جریدہ ”کرسچن سائنس مانیٹر” کے 16 جنوری 1945 کے شمارے میں ایک اور ہی نقطہ نظر پیش کیا، انہوں نے قوم کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فرمایا۔
بچے ازل سے جرم کرتے آئے ہیں اور ابد تک کرتے ہی رہیں گے”۔
پولیس کی ناقابل تردید تحریری شہادتوں کے سامنے اس قسم کی دلیلیں اتنی مصلحت آمیز اور لچر ہیںکہ فاضل جج کے باقی ماندہ تبصرے کو روی کی ٹوکری میں اٹھا پھینکنا مناسب ہے تاہم اس میں عقل سلیم کی تھوڑیسی جھلک پائی جاتی ہے۔ فاضل جج نے امریکہ کی جنگی مساعی کی تعریف کی اور غیر منطقی طریقے سے نتیجہ نکالا کہ ”جو تحریک اس قدر کار ہائے نمایاں انجام دے سکتی ہے۔ وہفی الواقعہ ایک عجیب اوراعلیٰ شے ہے۔ اس کے بعد فاضل جج ہٹلر کی شاندار فوجی فتوحات کے بارے میں رائے زنی کر کے آدمی کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتے ہیں وہ ان فتوحات کی پیدا کردہ تباہی، بدحالی اور نتیجتہً جرائم کی کثرت کا ذکر نہیں اور سیدھے اپنے مقالے کے مرکزی خیال تک جاپہنچے ہیں کہ ”ہم سماج کو بناتے ہیں یا سماج ہمیں”؟
اگرچہ اس سوال کے دونوں حصے درست ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں لازم وملزم ہیں۔لیکن فاضل جج کا خیال ہے کہ سماج کوہم ہی بناتے ہیں۔ جدید عمرانی نظریے کو توڑ مروڑ کر وہ ایک نئی ترکیب ”فلسفہ معافی” ایجاد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم بدراہ بچوں کو حد سے زیادہ نرمی کے ساتھ معاف کرتے آئے ہیں اور انہیں بتاتے آئے ہیں کہ وہ بذات خود جرائم کے ذمہ دار نہیں بلکہ کلیسا، گھر اور سکول برابر کے ملزم ہیں۔ یہ ہے ان کا نیا دعویٰ، ظاہر ہے کہ وہ اپنی اصل نیت پر پر دہ ڈالتے ہیں۔ ان کا زاویہ نگاہ ہمیں براہ راست قرون وسطیٰ کے انفرادی ذمہ داری کے اصول کی طرف لے جاتا ہے اور یہ ایک نظریہ ہے جسے ہر ایماندار سائنسدان غلط ٹھہرا چکا ہے۔
اگرچہ فاضل جج پر کنس اپنے نقطہ نظر کو موثر بنانے میں قاصر رہے ہیں۔ تاہم ان کی بات تو توجہ طلب ہے، گمراہ بچے کو صرف یہ بتا دینے سے کہ اس کی بدحالی کا ذمہ دار سماج ہے۔ کچھ حاصل نہیں ہوتا، الٹا بدراہ بچے کے دماغ میں تباہ کن، احساس کہتری پیدا ہو جاتا ہے ۔ فاضل جج کا مقولہ درست سہی، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ وہ ایک کھلی حقیقت سے بالکل بے خبر معلوم ہوتے ہیں ۔جس سے ہزاروں رضا کار نجوبی آگاہ ہیں اور وہ حقیقت یہ ہے کہ جرائم کی ذمہ داری سماج پر تو ہے، لیکن سماج کو بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا ہے۔
جنگ کے دوران میں صحت اور تعلیم کے مسئلے پر غور کر نے کے لیے پسیپر کی ذیلی کمیٹی مقرر ہوئی تھی، اس کمیٹی نے 1944میں امریکی پارلیمان کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں نہایت سنجیدگی سے بچوں کے جرائم کا تجزیہ کیا گیا ۔ اپنے تجزیے کے دوران میں اس کمیٹی نے ان لوگوں کی شہادتیں قلمبند کیں جو بچوں کی تربیت، تحفظ، تعلیم، تفریح، مذہب، قانون، محنت صنعت اور دوسرے اداروں کے ذمہ درا ارکان تھے۔ اس کمیٹی کی معلومات کا خلاصہ یہ ہے
-1سنسنی خیز خبروں سے قطع نظر صورت واقعی بہت نازک ہے۔
-2 بچوں کے جرائم میں جنگ سے کچھ عرصہ پہلے ہی اضافہ شروع ہو گیا تھا اورجنگ کے دوران میں چند علاقوں کے سوا کہیں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔
-3 شماریات قابل اعتماد نہیں۔ کیونکہ اعداد وشمار جمع کرنے طریقے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
-4 جرائم کے مختلف محرکات میں سے کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
-5 جو مائیں جنگی اسامیوں پر متمکن ہیں وہ جرائم میں اضافے کا باعث نہیں بنیں۔ محنت کش مائوں کی مذمت کرنے والے بیانات غیر ذمہ دارانہ ہیں۔
پیپر کی ذیلی کمیٹی کو شیلڈون اور ایلیز گلیوک کی اہم تصنیف ”ایک ہزار جرائم کار بچے” میں جرائم کے قابل اعتماد حقائق دستیاب ہوئے اوروہ حسب ذیل ہیں۔
-1 بچے عام طو ر سے نو سال سات ماہ کی اوسط عمر میں جرم کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔
-2جرائم کار بچوں کی تقریباً نصف تعداد صحیح الذہن ہوتی ہے۔ تیرہ فیصد کند ذہن اورسترہ فیصد تقریباً نا کارہ ہوتے ہیں۔
-3 85 فیصد بچوں کا چلن سکولوں ہی میں قابل مواخذہ تھا۔
-4اتنے ہی بچے یعنی 85فیصد بچے شہر کے گنجان آباد اور غلیظ علاقوں میں رہتے ہیں
-5 اتنے ہی یعنی 85فیصد بچوں کے خاندانوں کے بزرگ اراکین جرائم پیشہ تھے۔
-6 76 فیصد جرائم کاربچوں کا تعلق افلاس زدہ گھرانوں سے ہے۔
یہ سائنسی حقائق تشریح طلب نہیں۔ بچوں کی جرائم کاری واحد سبب سماجی خرابیاںہیں یہ خرابیاں پر اسرار، فلسفیانہ یا انفرادی نہیں بلکہ عام فہم اجتماعی خرابیاں ہیں۔ مثلاً قلیل آمدنی، گنجان وغلیظ ماحول کے اثرات، غیر سائنسی طریقہ تعلیم، بچے کی جسمانی اور دماغی بہبود سے مجرمانہ غفلت وغیرہ۔
پیپر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میںکہا۔ ”تمام گواہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بچوں کی جوائم کاری کی روک تھام بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم حفظ ماتقدم کے اصولوں پر کار بند ہوں۔جو چیز بچے کے لیے مفید ہے وہی عام طو ر سے انسداد جرائم کے لیے بھی مفید ہے۔ کوئی بچہ محبت اور شفقت سے محروم نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کے لیے ایک ایسا گھر ہونا چاہیے جہاں اس کی عمدہ دیکھ بھال اور خوراک ولباس کا مناسب بندوبست ہو اور جہاں اس میں ایسے خیالات وعادات اور اخلاق کی نشوونما ہو جو ایک اچھے شہری بننے کے لیے ضروری ہیں۔ محلوں میں طبی امداد ونگہداشت کا خاطر خواہ انتظام ہونا چاہیئے، جس کا خرچ کسی خاندان کے مقدور سے باہر نہیںہونا چاہیئے۔ محلے کے پاس ہی ایسے سکول ہونے چاہئیں، جن میں نئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ان کی تعلیم وتربیت ہو سکے۔ مذہبی اور برادری کے اداروں اور نوجوانوں کی تنظیموں تک ہر بچے کی رسائی ہونی چاہیئے جہاں وہ دوسرے بچوں کے ساتھ عبادت یا کھیل کوداور تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لے سکے، اگر کوئی بچہ یا اس کا گھرانا ایسی مشکلات میں پھنس جائے جسے وہ اکیلا دور کرنے سے معذور ہو تو اس کی مدد کے لیے تجربہ کار ماہرین موجود ہوں۔ اسے ہم مختصراً امریکی بچوں کے بینادی حقوق کا چار ٹر کہہ سکتے ہیں”۔
آج تک ہماری نظر سے بچے کی سماجی حیثیت کے متعلق اس سے بہتر بیاں نہیں گزرا۔ جرائم اطفال کے مسئلے کے متعلق اکثر جائزوں میں جو لفظی گورکھ دھندا پایا جاتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ اس سے مبرا ہے، کیونکہ یہ رپورٹ ہمیں سیدھے سادے چند الفاظ میں اس اہم بنیادی حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ ”بچے بھی انسان ہیں وہ اس ماحول کی پیداوار ہیں جس میں وہ رہتے ہیں اور وہ ماحول خود سماج ہے”۔
چونکہ کمیٹی کے ارکان سے جن لوگوں سے ملاقات سے ملاقات کی تھی ان میں سے ہر ایک نے پرزور درخواست کی تھی کہ بچوں کے جرائم کے مسئلے میں ان کی رہنمائی اور امداد کی جائے اس لیے اس کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ ایک کمیشن مقرر کیا جائے اور بچوں کی ضروریات….کے لیے قومی پیمانے پر نشر واشاعت اور تعلیم کا پروگرام بنایا جائے۔ تمام نجی، ریاستی، وفاقی اورمقامی اداروں میں اشتراک عمل پیدا کرنے کے لیے ایک مرکز قائم کیا جائے۔
دوسری جمہوریتوں میں بھی یہی صورت حال پائی جاتی ہے۔ بچوں کے جرائم کے متعلق جو بین الاقوامی کا نفرنسیں ہوتی ہیں۔ ان میں کینیڈا کو بہت سراہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں جرائم اطفال کے متعلق ایک قومی قانون، نافذ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف 45فیصد کینیڈوی بچے اس قانون سے متاثر ہوتے ہیں۔ مستعمرہ کینیڈا میں نظر بندی کی سہولتوں میں حیرتناک ناہمواری پائی جاتی ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں ایک جرم کی سزا ئیں تبسم آمیز سرزنش سے لے کر کسی اصلاح گاہ میں تین سال کی نظر بندی تک کافرق ہو سکتا ہے۔ تمام جمہوریت پسند اقوام زنانہ پولیس، مشیروں اور حوالات کے عدم موجودگی کے ساتھ عقل سلیم کا بھی فقدان ہے۔ بچوں کی جرائم کاری کی تحقیق وتفتیش کرالی جاتی ہے اور بس ، رضا کاروں کی تربیت اور ماہرین سے صلاح ومشورہ کا کام ایک پشت سے جاری ہے۔ اس کے باوجود بچوں کے جرائم میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔
ہمارے خطا کا ر بچوں کی اکثریت عدالت میں پیش ہوتے وقت صدر منصف کی رحم دلی یا مزاح پسندی کے علاوہ ہر قسم کی قانونی امداد اور تحفظ سے محروم ہے۔ مقدمے کی سماعت اور سزا یابی کے بعد بچوں کے ساتھ جو کچھ گذرتی ہے وہ صرف قیاس کا معاملہ ہے۔
عوام کو تو سرے سے علم ہی نہیں کہ سزا بھگتنے والے بچوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اصل مجرموں یعنی بچوں کو جرائم پر اکسانے والے لوگوں کو شاید ہی کبھی سزا ہوئی ہو۔ بچوں کو جو سزا دی جاتی ہے یا اس کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کا کوئی تسلی بخش جواز پیش نہیں کیا جاتا۔ جو بچے جنسی بے رہروی میں ماخوذ ہیں ان میں سے کسی کو جنسی حقائق کی تعلیم نہیں دی جاتی۔
اس کتاب میں جتنے مسائل زیر بحث لائے گئے ہیں ان کے حل کے لیے جنسی بیماری اور جنسی تعلقات کی صحیح تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ کمبوڈ یا یونیورسٹی کے سابق پروفیسر حیاتیات ڈاکٹر موریس اے بائجلو نے اس موضوع پر ایک بصیرت افروز مقالہ لکھا ہے جو رسالہ ”سوشل ہائجین” کے فروری 1944 کے ایشوع میں شائع ہوا اور امریکی محکمہ عامہ نے پوری طرح اس کی نشرو اشاعت کی۔ اس مقالے میں بڑی حد تک نظریوں کے گورکھ دھندوں میں پڑنے کی بجائے براہ راست حقائق کا انکشاف کیاگیا ہے۔ اسے محکمہ صحت عامہ اور انجمن حفظان صحت کی مشترکہ امداد سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کی اشاعت سے پہلے بڑی بڑی کانفرنسوں اور سرکاری عمال نے اس مسئلے پر بہت غور وخوض تھا۔ خود ڈاکٹر بائیجلو نے صحیح حقائق جمع کرنے کے لیے بارہ ہزار میل کا سفر طے کیا تھا، اس مقالے میں ڈاکٹر بائیجلو فرماتے ہیں۔ ”مجھے اس مسئلے کی تحقیقات کے دوران میں اپنی ذاتی ملاقاتوں یا خط وکتابت میں ایک بھی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر، ماہر تعلیم یا وزیر ایسا نہیں ملا جس نے اس خیال کی حمایت نہ کی ہو کہ سکول اور گھر میں جنسی مسائل کی صحیح تعلیم بچوں کی شخصیت اور سماج کی تعمیر کے لیے بے حد مفید ثابت ہوتی ہے۔ ایسی تعلیم حاصل کرنے والے بچے آئندہ زندگی میں اپنے کردارکو قابو رکھنا سیکھ جاتے ہیں”۔ البتہ اس مسئلے پر اختلاف تھا کہ ”عمومی جنسی تعلیم، جنسی بیماریوں کی روک تھام کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے”۔ لیکن اس بات پر سب متفق تھے کہ ”جہاں تک بچے کے انفرادی تحفظ کا تعلق ہے۔ اس میں یہ احساس پیدا کر دینا کہ جنسی بیماریوں چھوت کی بیماریاں ہیں۔ بہت بڑا تعلیمی حربہ ہے”۔
انہوں نے ڈاکٹر پیرن کی رپورٹ کا حوالہ دیا اور کہا ”ہمارے لیے از حد ضروری ہے کہ ہم ان تمام ذرائع سے جو کلیسا، سکول، سرکاری اداروں یا رضا کارانہ تنظیموں کی استطاعت میںہیں۔ اپنے نوجوانوں کو شریفانہ زندگی کی زیادہ سے زیادہ تعلیم دیں، میں اس بات کا قائل نہیں ہوںکہ جنسی اخلاق کا استحکام وتنزل جنسی بیماری کے متعلق اچھے یا برے نظریے پر منحصر ہے۔ آتشک کی روک تھام کے لیے خوف کافی نہیں، ہمیں اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو بہترین جنسی تعلیم دینی چاہیے۔ ہمیں ایسے سماجی اور معاشی حالات بھی پیدا کرنے چاہئیں ، جن کے تحت ہمارا نوجوان طبقہ صحت مندنہ اور معتدل زندگی بسرکر سکے”۔
مزید بریں ”پڑھنے والوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ امریکہ کے بہت سے مقامی ادارے اور باختیار لوگ تعلیم صحت کے بعض امور خاص سے جنسی یا مذہبی امور کی تعلیم کے سخت مخالف ہیں۔ اگر کسی مقام پرجنسی بیماری کی تعلیم کے خلاف تحریک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس سے فائدہ کچھ نہیں ہو گا۔ البتہ سخت نقصان کا احتمال ضرور ہے”۔
چند سال پیشتر ایک استاد مسئلہ ارتقاء پر بحث چھیڑ بیٹھے تھے۔ ان کے خلاف بالش کر دی گئی، جس سے نہایت نا خوشگوار صورت حال پیدا ہو گئی۔ اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر بائیجلو فرماتے ہیں ”عین ممکن ہے کہ چند والدین اور استاد جنسی بیماری کی تعلیم کی مخالفت کریں۔ اس لیے فی الحال ہر ریاست میں ٹینی زی کی طرح جنسی مسائل کی ابتدائی تعلیم پراکتفا کرنا مناسب ہو گا”۔
اس بات پر بار بار زور دیا جاتا ہے کہ جنسی بیماری کی تعلیم کو نام نہاد ”جنسی تعلیم” اور عام تعلیم صحت سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے۔ حیرانی کی بات ہے، جب ایسا پروگرام ٹینی زی میں استعمال ہو سکتا ہے تو اسے قومی پیمانے پر کیوں نہیں شروع کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر بائیجلو نے اپنی رپورٹ میں فرمایا کہ ”سماجی حفظان صحت کے اکثر رہنمائوں میں عرصے سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جنسی بیماری کے انسدادی منصوبوں میں جنسی تعلیم کے تمام امور کو برابر کی اہمیت دینا چاہیئے، لیکن گزشتہ دس سال میں یہ خیال بدل گیا ہے اور جنسی تعلیم کی ضرورت کے حق میں جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کی بنیاد جسمانی، دماغی اور سماجی صحت کے ان اصولوں پر ہے، جن سے جنسی بیماری کا کوئی تعلق نہیں۔
اگر اس خیال کو قبول عام حاصل ہو گیا کہ جنسی تعلیم کا صحیح پروگرام نہ جنسی بیماری سے شروع ہوتا ہے نہ اس کے گرد گھومتا ہے تو یہ جنسی بیماری کو تعلیم کو انسانی رشتوں کی تعلیم کا حصہ قرار دے کر ان کی تعلیم دینے میں بہت کار ثابت ہوگا”۔
دوسرے لفظوں میں یہ امر ضروری ہے کہ جنسی بیماری کی تعلیم عام امور صحت کے ساتھ دی جائے اگر آتشک اور سوزاک کو تپ دق اور گلے کے امراض کے ساتھ زیر بحث لایا جائے تو اس کی وہ لوگ بھی مخالفت نہیں کریں گے جو بچوں او ر بالغوں کو جنسی تعلیم دینے کے حامی نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ حفظان صحت کے باعمل ماہرین بھی اس نقطہ نظر کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ تعلیمی مقاصد کے پیش نظر جنسی بیماری کو عام جنسی مسائل سے الگ رہنے پر اصرار کرنا عصبیت پسند لوگوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہر گز نہیں۔ دراصل جنسی بیماری کو اخلاق عصمت فروشی، جرائم اطفال وغیرہ سے الگ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔
یہ معاملہ سبھی طبقوں کے لیے ایک سی اہمیت رکھتا ہے۔ جنسی بیماریوں کا ذکر مذکورہ طریقے سے کیا جائے اور محض جنسی موضوعات کا ذکر نہ کیا جائے تو ان بیماریوں کی تعلیمی مہم پر کوئی طبقہ یا گروہ برا نہیں مانے گا۔
بہتر حال جنسی اعتبار سے بد راہ بچوں کو جنسی حقائق کی تعلیم دینے کی فوری ضرورت ہے۔ آج کل بچوں کی عدالتیں ماہرین نفسیات، افسران فلاح وبہبود اور استاد بدکار بچوں کی اصلاح کے لیے کسی منظم طریق پر کار بند نہیں ہیں۔ خاص طور پر سے لڑکیوں میں دیگر جرائم کی نسبت جنسی غلط کاری کی بدعت عام ہے۔ نیویارک سٹیٹ کی عورتوں کے کلبوں کے وفاق کی طرف سے امریکہ بھر کہ بچوں کی جرائم کاری کی رفتار کا جائزہ شائع کیاگیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ آج کل زمانہ قبل از جنگ کے مقابلے میں تین سو فیصد (یعنی سہ گنا) زیادہ کمسن نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں۔ حالانکہ پولیس کے پاس بڑے اور سنگین جرائم کی اس قدر بھر مار ہے کہ وہ ان جرائم کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہے۔

دعوت فکر
لوگ ”گناہ” کیوں کرتے ہیں؟
یعنی لوگ ایسا چلن کیوں اختیار کرتے ہیں۔ جو خود ان کے لیے، ان کے قریبی رشتہ داروں تمام سماج کے لیے افسوناک اور روحانی ایذا کا موجب ہوتا ہے؟
یا اور بھی واضح لفظوں میں عورت اور مرد زنا کیوں کرتے ہیں؟ ہم جنسی اختلاط کے اکا دکایا اتفاقی واقعے کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ہماری مراد ان ناجائز جنسی تعلقات سے ہے جو اس قدر عام ہی کہ ان کی زندہ مثال وہی ”ایک مہینے میں پانچ کروڑ حفاظتی آلات” کا استعمال ہے۔
لہٰذا ان معنوں میں لوگ ”گناہ” کیوں کرتے ہیں؟
اس سوال کو جواب ہمارے ذہن میں اس بے ہنگم قوالی کی طرح ابھرتا ہے جس میں ایک گویے کا سر دوسرے سے ملتا نہ ہو۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ ناجائز جنسی اختلاط کی وجہ یہ ہے کہ عورت اور مرداپنے ضمیر کی آواز نہیں سنتے تو کیا ہم اس وقت تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ جب تک ضمیر کی مدہم آواز کو زور دار بنانے کے لیے سائنس کوئی آلہ نشر الصوت ایجاد نہیں کر لیتی؟
لیکن مصیبت یہ ہے کہ دوسرا گروہ فوراً صدائے احتجاج بلند کرتا ہے کہ یہ تو قادر مطلق کی توہین ہوئی۔ کیونکہ وہی بتا سکتا ہے کہ ثواب کیا ہے اور گناہ کیا، لیکن افسوس کہ جاگیر دار انہ نظام میں روحانی پیشوا عام لوگوں کو یقین دلایا کرتے تھے کہ لاتعداد عورتوں کا طوائفیں بن جانا علامت خیر اورشریف عورتوں کا محبت کرنا دلیل شر ہے (یاد رہے کہ امریکہ اس وقت سرمایہ کاری کے آخری دور یعنی امپیریل ازم یا سامراجیت میں ہے۔ مترجم) تو کیا خدا کے اخلاقی قانون بھی اس وقت بدل جاتے ہیں جب کہ انسان اپنے سماجی نظام کوبدل دیتا ہے؟
اس سوال پر بعض فلسفی جھٹ پٹ بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو کفر ہے اور متنبہ کرنے لگتے ہیں کہ ہم ایسے لوگوں کی غلط تعلیمات کو خدا سے منسوب نہ کریں۔ جو اپنے آپ کو اس کے اوتار کہتے تھے، غرضیکہ اس قسم کی دلیلوں سے بے شمار صفحے کالے کئے جاسکتے ہیں۔ مثلاً قرون وسطیٰ میں عالم لوگ نہایت سنجیدگی سے بحث کیا کرتے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے کھڑے ہو سکتے ہیں اور آج کل ہمارے فلسفی اور بعض سائنس دان بھی یہ سوال پوچھنے کے بڑے شوقین ہیں کہ ”لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟” ہو سکتا ہے کہ قرون وسطیٰ کے مناظر ے بڑے دلچسپ اور مفید ہوتے ہوں شاید ان مناظروں کی بدولت بعض لوگوں نے ہوا بازی کے کچھ بنیادی مسائل پر غور وخوض کرنا شروع کر دیا ہو۔ کہ سوئی پر کسی فرشتے کو اپنا اڑن کھٹولا اتارنے اڑانے میں کیا مشکلیں پیش آتی ہیں یا فضا میں آرتے اترتے وقت چکر کاٹنا کیوں مفید ہے”۔ یا اسی قسم کے دوسرے ”بنیادی” مسئلوں پر غور وخوض شروع ہو گیا ہو۔
لیکن ہمارے سامنے تو آج کل جنسی اختلاط یا زنا اور جنسی بیماری اور آتشک جیسے خشک معاملے ہیں۔
آج ہر پادری، ڈاکٹر، وکیل، بالخصوص ہر عیال دار شخص کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے ملکوں کے واقعات کے رجحان سے واقفیت پیدا کرے۔
موجودہ زمانے میں ہمارے ملکوں کے بے شمار لوگوں کی دماغی بیماریوں کا موجب شراب ہے۔ لیکن اس کے تدراک کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ شراب نوشی ایک خطرناک وبا کی طرح اس قدر عام ہے کہ ہماری حکومتیں ا س کی بدولت بے شمار منافع کماتی ہیں۔
امریکہ پر ابھی جنگ کا کوئی خاص دبائو نہیں پڑا تھا۔ کہ یہاں پر پانچ بچوں کے بعد دو بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی اسقاط حمل کے عمل جراحی کی نذر ہونے لگے تھے۔ ڈاکٹر شہادت دیں گے کہ آج کل ہمارے ہاں نوزا ئیدہ بچوں کی شرح اموات پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ اس سنگین جرم،اس قتل عام کی کثرت کا تصور بھی محال ہے۔ آپ یہ الفاظ پڑھ رہے ہیں اور ادھر کوئی صاحب حمل گرانے کے عمل جراحی میں مصروف ہیں۔ وحشی نازی بھی یورپی بچوں کو اتنی تعداد میںذبح کرنے کا کامیاب نہ ہو سکے، جتنے کہ آج کل ہمارے ملکوں میں ہر سال چند طریقے سے ضائع کئے جا رہے ہیں۔
مزید بریں محکمہ شماریات حیات یعنی امریکہ کے محکمہ مردم شماری کے افسر اعلیٰ ڈاکٹر ہالبرٹ ایل دئون نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے بارہ بچوں میں ایک بچہ ولدالحرام ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سکول کے پہلے درجے میں ایک لاکھ ستر ہزارایسے بچے داخل ہوتے ہیں جو اپنے باپوں کے نام نہیں بتا سکتے، ان میںسے قانوناً کسی کا کوئی باپ نہیں اور ان کا کوئی گھر نہیں۔ ان بچوں کو عمر بھر مذامت اور شرمندگی کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ان بے گناہ معصوم بچوں کی فوج میں روز افزوں اضافہ کا المیہ اتنا درد ناک ہے کہ ڈاکٹر دوئن ان بد نصیب بچوں کی پیدائش کے اندر اجات کو سماج کی نگاہوں سے قانوناً خفیہ رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ انہیں کوئی توقع نہیں کہ امریکی قوم بے باپ کے لڑکوں اورلڑکیوں کی تعداد میں کمی کر سکتی ہے۔
ہمارے ہاں اس قدر طلاقیں ہو رہی ہیں کہ لاکھوں عورتیں اور مرد کسی دوسرے عورت کے سابقہ خاوند یا کسی دوسرے مرد کی سابقہ بیوی سے شادی کئے ہوئے ہیں۔ بے شمار بچے زندہ مائوں کی محبت سے محروم ہیں یا زندہ باپوں کی یہ بٹی ہوئی محبت ان کے لیے عذات سے کم نہیں۔ حالانکہ کلیسا پہلے دن کی طرح آج بھی طلاق کا اسی سختی سے مخالف ہے۔لیکن طلاق کے واقعات کو کم کرنے سے قاصر رہا ہے۔ دوسری طرف قانون پیشہ حضرات شادی کااحترام برقرار رکھنے کی غرض سے دن رات نرم اورآزاد قانونی طلاق کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
ادھر طبی تحقیقات جنسی اختلاط کو تمام جسمانی خطرات سے مبرا بنانے کی منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یعنی اس قسم کی دوائیں استعمال ہو رہی ہیں۔ جن کے استعمال سے حمل ٹھہرنے یا بیماری لگنے کا خوف جا تا رہے گا۔ اور ان گنت ملاقاتیں کرنا ممکن ہو جائے گا۔
جنسی بیماری، شراب نوشی، اولاد حرام، اسقاط حمل، طلاق، جرائم ، بچوں اور نوجوانوں کی خطا کاریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ایک ہیبت ناک اخلاقی بحران، ایک بدمعاشی کا بھوت ہماری نظروں کے سامنے نمودار ہو رہا ہے۔
ہمارا زاویہ نگاہ سوویت یونین کے نقطہ نظر سے اس قدر متضاد ہے کہ بے حد مایوسی ہوتی ہے۔ یہ پہلی تاریخی مثال ہے کہ سوویت روس میں عام اور بے شمار کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ گناہ کسی مافوق الفطرت ہستی یعنی شیطان یا اہر من کی تحریک نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی برائی ہے۔ جس کا ازالہ محض ٹھوس، عقلی اور سائنسی طریقوں ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ سوویت یونین کے باشندوں نے بدکاری اور بدمعاشی بدترین صورتوں پر سائنسی اصولوں کی مدد سے بے نظیر فتح حاصل کی ہے۔ روئے زمین پر صرف اہل روس ہی ایک ایسی قوم ہیں میں عصمت فروشی کا نام ونشان تک نہیں۔ انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جسے ہمارے ہاں کے فلسفی، پادری اور ڈاکٹر ابھی تک ناممکن الحصول خیال کرتے ہیں۔
دنیا کے کسی اور ملک میں قید خانے اور اصلاح گاہین بن نہیں ہو رہیں۔ صرف سوویت یونین ہی ایک ایسی سر زمین ہے۔ جہاں قید خانے کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جہاں حمل ضائع کرنے کے عمل جراحی سے واقع ہونے والی اموات کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ جہاں طلاق کی تعداد دن بدن گھٹ رہی ہے۔ جہاں خاندان اور ازدواجی زندگی اس قدر قابل احترام ہے کہ بہترین مائوں کی اعلیٰ سے اعلیٰ اعزاز دئیے جاتے ہیں اور جہاں دماغی اور جسمانی صحت کا معیار اس قدر بلند ہے کہ شراب طبی نادرات میں شامل ہو گئی ہے۔ حالانکہ اس کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں ۔
اس فرق کو نمایاں کرنے سے ہمارا مقصد سوویت یونین کا پروپیگنڈا ہر گز نہیں یہ تو ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ ہمیں کم از کم اپنے آپ سے ایمانداری کے ساتھ سوال ضرور کرنا چاہیئے کہ یہ تفوق ہمیں اور ہمارے ملکوں کو کیا سبق سکھا سکتا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اپنے ہاں کی بدکاری سے گھبرانا اور مایوس نہیںہونا چاہیئے، اگر اہل روس کرامات کے بغیر ہی صرف عملی سائنس ہی کی مددسے او رتمام نیک نیت لوگوں کو شرافت اور صحت کا معیار بلند کرنے کی ترغیر دے کر بدترین اخلاقی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ تو ہم کیوں نہیں ہوسکتے؟ کیاہم اس قدر گر چکے ہیں کہ معاشرتی بوسیدگی کو خوش آمدید کہیں۔
بعض دوسرے لوگ سنجیدگی یا دبی زبان سے کہتے ہیں کہ اب ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ سوویت یونین سے تہذیب اخلاق کا سبق سیکھیں۔ یہ زاویہ نگاہ زمانہ مابعد جنگ کے اتحاد اشتراک سے تعلق رکھتا ہے اور ایسے سیاسی لیڈروں نے اس پر غور تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ جنہوںنے گذشتہ بیس برس کے عرصے میں بے شمار تقریریں ”بد اخلاق سرخوں” کی لعنت ملامت کے لیے وقف کی ہیں۔ اس تجویز کا رد عمل عام طور سے خفگی یا مسکراہٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔ آخر ”مادہ پرست روس”سے نیکی کا سبق سیکھنے کا خیال ہمارے لیے کس قدر قابل قبول ہو سکتا ہے؟
لیکن اس معاملے کو زیادہ دیر کے لیے محض خفگی سے ٹالا نہیں جا سکتا اور اکثر حلقوں میں استفہامیہ ابھر آیا ہے۔ انگریزی جریدہ ”کیتھولک ریکارڈ” کے ایڈیٹر اور مشہور کیتھولک مفکر کوئنٹ میکائیل ڈی لابدومیر کے الفاظ قابل غور ہیں:۔
وہ سوال کرتے ہیں ”کہ موجودہ زمانے کے بے پایاں بحران کے مقابل آج عیسائیت کس قدر کی ہے؟”اور بڑی بے چینی سے جواب دیتے ہیں ”کہ ہمیں کسی نہ کسی طرح نئے سپنے دیکھنے چاہئیں اور نئی امیدیں جگانا چاہئیں ”۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ ”عیسائیت مطلوبہ جذبہ پیدا نہ کر سکی تو اشتراکیت (کمیونزم) کا طوفان عوام کو بہا کر لے جائے گا۔ ماسکو کا مقناطیسی مینار روم یا کنٹر بری کی برحیوں سے بہت زیادہ طاقت ور ثابت ہو رہا ہے”۔
ایک حیران کن اعتراف! لیکن بد قسمتی سے کونٹ میکائیل یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ لوگ ہمارے اشتراکی اتحاد کی طرف اس قدر راز جو نگاہوں سے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ شاید وہ ہمیں قائل کریں کہ اشتراکی روس میں کشش کے موجب صرف سیاسی اور معاشی محرکات ہیں۔یعنی لوگ اس لیے روس سے دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہاں سے بے روز گاری دور ہو چکی ہے یا وہاں کی حکومت کی باگ ڈور محنت کش لوگوں یعنی مزدوروں اور کسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ بالکل بجا کہ مزدور اور درمیانہ طبقے کے بے شمار لوگ جنہوں نے معاشی بحران کے دوران میں سخت مصیبتیں اٹھائیں۔ سوویت یونین سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔کیونکہ وہاں غیر محدود معاشی ترقی کے منصوبے تیار ہو رہے ہیں اوروہاں کوئی طفیلی یامسرف نہیں۔
آئیے ہم بھی ایک اشتراکی ادیب میکسم گورکی کے قول سے مستفیض ہوں کیونکہ اس میں مسرفوں سے متعلق اشتراکی نقطہ نظر کی پوری صفائی اور وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ ”مسرف کا لفظ کوئی گالی نہیں، یہ اس شخص کی اصلی تعریف ہے جس کی زندگی ہمہ اسراف ہے۔ ہمارے سوشلسٹ سماج میں مسرف ایک ایسا جانور ہے جس میں پرانے نظام کی متعدی امراض، حسد اور لالچ اس طرح گھر کر چکے ہیں کہ علاج ممکن نہیں، اسراف پسند شخص کے اصل الاصول، اس کے ایمان اور اس کے روحانی زندگی کو دو سادہ لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ”مجھے تو اپنا پیٹ بھرنا ہے” اس کے لیے یہ دنیا ایک ایسا مقام جہاں صرف اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جیتے ہیں اوروہ پیٹ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ سے زیادہ لذیذ خوراک سے بھرنا چاہئیے۔ اس کی تمام ترقوت ارادی، اس کا دماغ اور اس کا ہر وصف، جسے وہ روحانی جذبہ کہتا ہے۔ صرف اسی حیوانی مقصد کی طرف مائل ہے
یہ ہے ایک عظیم ادیب کی نشتر آمیز تنقید، فاشی ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے پہلے گورکی نے ایک اور واضح اوراہم بات کہی اوروہ یہ ہے:۔
سرمایہ دار دنیا ہماری سوشلسٹ دنیا میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہمارا نظر یہ اورمعاشی عمل انسان کے ہاتھوں انسان کی لوٹ کھسوٹ کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ اور لوگوں کی قدرت کی نعمتوں کے تصویبی، جائز استعمال کی تربیت دیتا ہے۔ لیکن سرمایہ داری زندہ ہی انسانی لوٹ کھسوت پر ہے۔ اوریہ آدمی کو عموماً نفع اندوزی کی ہوس کی تسکین اور قوت زر کا جواز کا ادنیٰ آلہ سمجھتی ہے”۔
بات دراصل یہ ہے کہ ہمارا معاشرتی نظام، یعنی سرمایہ دارانہ جمہوریت سونے کی طاقت پرقائم ہے۔ جس چیز کو ہم آزاد کا رو بار یا تجارت کہتے ہیں۔ ہمارا نظام منافع صرف اس آدمی کی قدر کرتا ہے۔ جو اپنے ہم جنس، ہم پیشہ آدمی کے مقابلے میں دوسروں کو نقصان پہنچا کر ذاتی نفع حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ میں آگے نکل جائے۔ ہمارے نظام نے ماضی میں ان لوگوں کو بے حد فائدہ پہنچایا ہے جو قدرتاً ارادتاً نہایت سنگ دلی سے تجارتی مقابلے کے لیے مسلح رہے اور ایسے مردوں اور عورتوں کو جنہوں نے سب سے زیادہ محنت کی اور ہمارے معاشرے کی مادی اور تہذیبی اقدار پیدا کیں۔ ان کی بھاری اکثریت کو عموماً بہت ہی کم معاوضہ ملا، دوسری طرف مٹھی بھر لوگ جنگ اور ہولناک بحران میں بھی انتہائی عیاشی میں مصروف رہے۔
کونٹ میکائیل کو یہ جاننے کے لیے ہمارے عوام سوویت یونین سے کیوں ہمدردی رکھتے ہیں، صرف اس تضاد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اپنے آبائو اجداد کی طرح ہمیں بھی بچپن سے یہی سکھایا گیا ہے کہ زندگی میں کامیابی کا معیار دولت کا ذخیرہ اور زندگی کو سونے کے دیوتا کی پرستش کے لیے وقف کر دینا ہے۔ ہمارے سماج میں مہر بانی، خدمت خلق، جہاد نفس، ایمانداری ہم جنسوں سے محبت اور اسی قسم کے دوسرے نیک جذبے نایاب ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ خوبیاں تمام ترانہی لوگوں میں پائی جاتی ہیں جن سے متعلق ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہر طرح سے نادار ہیں۔
ہم ہراتوار کو یسوع مسیح کا پیغام پڑھتے ہیں کہ ”ایک اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا ممکن ہے لیکن امیر آدمی کا خدا کی بادشاہت میں گزرنا ممکن ہیں”۔
شاید نصیحت پرانے فیش میں شامل ہو گئی ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہفتہ بھر دولت کی قابل رشک پوجا ہوتی ہے اور خدا کی بادشاہت اتوار کے دن بھی کسی امیر آدمی کے بارے میں متفکر نظر آتی ہے۔ ہمارے تمام صنعتی رہنما، اکثر سیاست دان اور بہت سے پادری خود یسوع مسیح کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور دولت سمیٹنے کی دوڑ دھوپ میںبے محابہ مصروف رہتے ہیں اور جو لوگ اس ہو سناک جدوجہد کے اخلاقی جواز پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔
ہم نے سرمایہ داری نظام پر تمام قسم کی معاشی ناکامیوں، معاشی دبائو، بحران، فاقے، غلاظت آفرینی، بدپر وری، بیماری، فاشیت اور جنگ کا الزام بار بار لگتے سنا ہے اور کچھ نہیں کیا۔ لیکن سوویت یونین کے لوگوں نے ایک پشت پہلے سرمایہ داری کو ختم کر دیا۔ کیونکہ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ سرمایہ داری نہ صرف مادی مسائل پیدا کرتی ہے، بلکہ وہ بداخلاقی او ربدمعاشی کو بھی سماج میں برداشت کرتی ہے۔ وہ بدکاری کا بیج بوتی ہے اور گناہ کے پودے کی پرورش کرتی ہے۔ اس حقیقت کا اطلاق دوسرے ملکوں پرہو یا نہ ہو۔ لیکن سوویت یونین کے لوگوں نے بے نظیر کامیابی سے ثابت کر دیا کہ ہم نے اپنے سماج کو اخلاقی بنیادوں پر قائم کر کے خود اپنے کردار اور سیرت میں نمایاں تبدیلی پیدا کرلی، اور نئے سماجی نظام نے زندگی کے ایک نئے اخلاقی نظام کو جنم دیا۔
آج کل، زمانہ مابعد جنگ میں ہمارے ملکوں میں نئے شہر اور کارخانے تعمیر کرنے کے لیے فنی منصوبوں کو بری دھوم دھام سے تیاری ہو رہی ہے۔ ان تمام منصوبوں میں اور ان کے متعلق تمام قیمتی اشتہاروں میں لفظ اخلاق ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ اپنے طرز زندگی کے تحفظ واستحکام اور اس کی لامحدود ترقی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ لیکن اخلاقیات کے متعلق یکسر خاموشی پائی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم عصمت فروشی کو نہ صرف قائم رکھنا بلکہ اسے پلاسٹک کے محلوں میں بٹھا کر اس کی سج دھج میں چار چاند لگانا چاہتے ہیں۔ کیا ہم آسمانی شاہرائوں اور فضائی مستقروں کے ساتھ مافوق الفطرت مجرمین بھی پیدا کریں گے؟کیا ہماری طبی تحقیقات کے عجوبے دوا گھروں کے ان بنڈلوں کی سطح پر آجائیں گے؟جنہیں ضبط تولید اور انسداد مرض کے لیے فروخت کیا جاتا ہے؟
تسلیم کہ ہم، شمالی امریکہ والوں نے سرمایہ دارانہ نظام سے فائدہ اٹھا کر تاریخ میں ایک انتہائی مال دار تہذیب کو تعمیر کیا ہے۔ ہم بڑے فخر سے دعوے کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا بھر میں سب سے زیادہ کار یں، بلند ترین عمارتیں، برق رفتار ٹرینیں، براق روشنیاں، نفیس ترین سازو سامان ہے۔ قصہ کو تاہ ہمارے ہاں کی ہر شے عظیم ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ بد اخلاق بچے، سب سے زیادہ حرام کے بچے، دنیا بھر میں سب سے زیادہ طلاقیں، اور آتشک کے ہسپتال ہیں۔
لیکن یسوع مسیح فرماتے ہیں کہ ”انسان تمام دنیا کو حاصل کرے، مگر وہ اپنی روح کو ضائع کر دے۔ تو اسے کو نسا نفع ہوا؟
زیر بحث مسئلہ ایک مذہبی مسئلہ تو نہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں چند لوگوں نے بے اندازہ دولت جمع کر لی، اور دوسرے لاکھوں انسان افلاس بیماری، بدکاری، بدمعاشی اورجرائم کے سبب تباہ ہوتے رہے۔ ہم تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ اس ”عوامی دنیا”میں، جس کے لیے ہمارے نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں، معاملات کو نئے ڈھب سے ترتیب دیں۔ اور یہ خیال عام ہے کہ جس طرح ”آزاد کاروبار” کا جنگ کے دوران میں جنگی مساعی کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح آئندہ پر امن تعمیر کے لیے سامان پہنچانے کے لیے استعمال کیاجائے۔ ہمارے ہاں اکثریت اس امر کی قائل ہے کہ قدرے پابندی اور ترمیم کے ساتھ سرمایہ داری اب بھی کسی اور نظام حیات سے افضل ہے۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ہمارے نظام منافع کا استحکام یا زوال آئندہ چند سالوں میں اس امر پر ہے کہ نظام تمام لوگوں کو کافی کام ، خوراک ورہائش، لباس اور صحت کے ذرائع مہیا کرنے میں کامیاب رہتا ہے یا نا کام۔
معاشیات کا یہ کھلا چیلنج ہے اور تمام سنجیدہ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے ہم نے اپنی جمہوریت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی اہم ضرورت کو تو محسوس کیا ہے کہ اس میں ہر خواہش مند شخص، بالخصوص ہر عورت ، لڑکی اور نوجوان لڑکے کی مستقل اورمکمل ملازمت کا انتظام ہو سکے۔ لیکن ہم نے اس اہم ضرورت کو اس نقطئہ نظر سے کبھی نہیں دیکھا کہ یہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی امید ہے۔
تمام مذہبی اور سیاسی معاملات سے قطع نظر، سوویت یونین نے تجربے سے ثابت کر دیا ہے کہ ”جدید معاشرے میں لوگوں کی نجات یعنی منظم بدمعاشی، بدکاری، ناجائز جنسی اختلاط،اسقاط حمل، کمسنی کے جرائم، کنبے کی تباہی اور شراب کی بدعادت سے لوگوں کی خلاصی، اسی وقت ممکن ہے۔ جب بیروز گاری اور افلاس کو دور کرنے کے ساتھ ہی بدکاری سے حصول منفعت کی لعنت کو بھی ختم کر دیا جائے”۔
لیکن ہمارے اکثر رہنمائوں کا طریق فکر سائنسی اور استدلالی نہیں ہے کٹڑ عصبیت پرست لیڈر تو یہ ثابت کرنے کے لیے بے شمار مثالیں گھڑ لائیں گے کہ روس میں بدی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، وہ ہمارے ہاں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اگر یہ دلیل درست ہے تو اسے ہمارے لیے اور ہمارے معاشرے کے لیے نیک شگون نہیںہونا چاہئیے۔ کیوں کہ مقتدر حضرات کی خود فریبی اور جھوٹی تسلیوں کے باوجود لوگ خود یہ سوال اٹھانے والے ہیں کہ ”گناہ کے متعلق ہمارا کیا منصوبہ ہے؟
آپ صاحب اولاد ہیں۔ تو آپ اپنے من سے یہ سوال پہلے ہی بوجھ چکے ہوں گے، اپنی پانچ سال کی معصوم بچی کو سوتے دیکھ کر آپ نے کبھی نہ کبھی یہ سوچا ہو گا کہ زندگی اسے چودہ سال کی عمر میں کیا سکھانے والی ہے تو آپ کلیجہ تھام کر رہ گئے ہوں گے۔ آپ کا نوکر لڑکا جو ابھی ابھی گھر واپس لوٹا ہے وہ اب اخلاق کے متعلق کیا سوچتا ہے کیا یہ ٹھیک نہیں کہ اب وہ اخلاق کو محض مذاق سمجھنے لگا ہے؟
یہی حال دوسرے بے شمار بچوں کا ہے۔ اور اسی طرح ایک گھرانے کی پریشانیاں لاکھوں خاندانوں کی پریشانیاں ہیں۔ اب آپ اندازہ لگائیے تومعلوم ہو گا کہ گناہ کا تعلق ذات سے نہیں، بلکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور شاید ان مسئلوں میں سے سب سے بڑا مسئلہ ہے جن سے ہماری قوم دو چار ہونے والی ہے۔
آج سے پچیس سال پہلے اہل روس کو بھی ہو بہو اسی قسم کے اخلاقی بحران کا سامنا تھا۔ لیکن روس کے نوجوان بد اخلاقی کے خلاف ایک ایسا پرچم لے کر بازاروں میں نکل آئے جسے آج تک کسی نے تیار کرنے اور اٹھانے کی جرأت نہیں کی انہوں نے اس پرچم کے ذریعے اعلان کیاکہ ”ہم سائنسی اصولوں کے مطابق نسل انسانی کی اصلاح کریں گے
اشتراکی سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ:۔
-1 سماج میں بدکاری اور شراب نوشی عام ہو تو گناہ ذاتی معاملہ نہیں رہتا بلکہ اس کی ذمہ داری عین اس طرح قوم پر عاید ہوتی ہے جس طرح تپ دق محرقہ ہذیانی یا گلے وغیرہ کی وبائی بیماریوں کی۔
-2 تاریخ ثابت کرتی ہے کہ لوگوں کو قوانین یا مذہب کے ذریعے نیک بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
-3 لوگ گناہ کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ان حالات اور ماحول میں ملتا ہے۔جس میں عوام رہتے ہیں۔ یعنی سماج کے لیے لوگوں کے مضرت رساں رویے کے بڑے اسباب، افلاس اور بے روز گاری ہیں۔
-4 جنسی بد اخلاقی صرف ایسے اقدامات کے ذریعے دور کی جا سکتی ہے جن سے دائمی محبت کی قوت کو آزاد کر دیا جائے۔ اور ایسی محبت صرف حقیقی شادی اور ازدواجی زندگی میں نصیب ہوسکتی ہیں۔
-5 اخلاق مسلسل بدلتے آئے ہیں۔ انسان فطرتاًشرپسند نہیں۔ بدی کو اس وقت ختم کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ لیڈروں سمیت تمام قوم ذاتی مفاد کے لیے دوسرے لوگوں کو پائوں تلے کچلنے کی بجائے کسی ارفع اور صالح مقصد میں ایمان رکھتے ہوئے زندگی کو سب کے لیے برابر کی خوشگوار بنانے کی جدوجہد کریں۔
اس سائنسی اصول کی بنا پر، جو یسو ع مسیح کی تعلیمات سے حیران کن مشابہت رکھتا ہے۔ سوویت اخلاقیات کا محل تعمیر کیا گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آئندہ زمانے میں اشتراکی اخلاقیات کا شہرہ بڑی شدو مد سے سننے میں آئے گا۔ اور ہم خود اس کا ذکر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جو گمراہ اور بد نصیب لو گ سوویت یونین کے لوگوں سے نفرت اور حسد کرتے ہیں۔ ان کے لیے ہر ایسے شخص پر ”سرخے” کا لیبل چپکانا مشکل ہونے والا ہے۔ جو اشتراکیت کی گناہ پر فتح سے متاثر ہوگا۔ آخر جنسی بد اخلاقی ایک غیر سیاسی مسئلہ اور کوئی شخص اتنا بے وقوف نہیں کہ وہ یہ خیال کرے کہ روس والوں نے محض چڑانے یا محض سرمایہ داری کو پریشان کرنے کے لیے لاتعداد عوام کی تہذیب اخلاق کی ہے۔ اب کسی قسم کا پروپیگنڈ ابھی جھوٹے اخلاق کی تعلیم یا سچے اخلاق کی تکذیب میں زیادہ عرصے کے لیے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کسی نظام اخلاق کا عروج وزوال اس بات پر ہے کہ اس سے لوگوں کو کیا فائدہ پہنچتا ہے۔ ہمارا نظام اخلاق یا بے اخلاقی، لوگوں کو تاریک اور عمیق غار کے لب پر لے آیا ہے۔ہو متزلزل ہے۔ لیکن سہارا دینے والی چیز ابھی تک ناپید ہے۔ سوویت یونین کے نئے نظام اخلاق نے لوگوں کی فطرتوں کو بدل دیا ہے۔
ہم ان حقائق سے گریز نہیں کر سکتے اورکریں بھی کیوں؟ جب کہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ اگر تاریخ میں بھی کبھی ایسے لوگوں اور قوموں کا پتہ ملتا ہے جنہوں نے بے اطمینانی کے عالم سے بیزار ہو کر شیطان کے ساتھ سودابازی کرنے سے انکار کر دیا ہو۔تو یقینا وہ لوگ ہم ہیں۔ اوروہ قومیںہماری جمہورتیں ہیں۔
گذشتہ پانچ برس سے ہم نے فاشیوں کے ساتھ صلح جوئی کا مجرمانہ اصول ترک کر دیا ہے اور اپنی جنگی طاقت کو اتنے وسیع پیمانے پر پھیلایا ہے کہ نام نہاد نکتہ چیں تو اسے ہماری تباہی کا موجب ٹھہرانے لگے تھے۔ لیکن وہ طاقت یا جنگ ہمیں تباہ نہ کر سکی۔ بلکہ اس نے ہمیں بتا دیا کہ ہماری طاقت کا راز کیا ہے۔ اور ہم نے ثابت کر دیا کہ ہم سنیکٹروںسال کی جدوجہدسے حاصل کی ہوئی آزادی کے تحفظ کے لیے اپنے آبائو اجداد کی طرح عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔
ہم نے یہ کار نامہ اس وقت انجام دیا جب کہ نازی ہمیں حق زندگی سے بھی محروم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔آج ہماری جمہوریت کو اس کے اندرونی فاسد مادے سے خطرہ ہے ۔ گمراہ لوگ بداخلاقی کے اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ ”چھتری والے مکتبہ سیاست یعنی امبر یلا سکول” (مختلف الخیال سیاست دانوں کا آپس میں کوئی سمجھوتہ کر کے کمیونسٹوں کے خلاف متحدہ ہو جانے کا نظریہ۔ امریکی یونینسٹ) کے سیاست دانوں کی طرح بدی کے ساتھ سمجھوتہ بازی کی پالیسی جا ری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمیں ہٹلر کے میونک والے مکارانہ اعلان کی طرح یقین دلانا چاہتے ہیں۔ کہ بداخلاقی کو ”اور زیادہ علاقے کی طلب نہیں”۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ فریب ہے۔ خاندان، ازدواجی زندگی، بچوں کی ایک صلالح نظریہ حیات کے مطابق پرورش، یہ ہیں ہمارے چند ایک مقدس مقبوضات جنہیں شیطانی طاقتیں نرغے میں لینا چاہتی ہیں اور انہیں برباد کرنا چاہتی ہیں۔
سچائی کو چھپانے، فضول وعظ وتلقین یا گناہ گاری پرماتم کرنے کا زمانہ گزر چکا ہے۔ ہمارے معاشرے کو جس کے گناہ کا خطرہ ہے۔وہ درحقیقت تپ محرقہ، ہذیانی سے زیادہ پائیدار نہیں۔ یہ بدخوراکی کے مسئلے سے زیادہ بعید الفہم نہیں۔اور اب یہ بیرزو گاری اور صحت عامہ کے مسئلے کی طرح انفرادی ذمہ داری نہیں ہے۔
بعض لوگوں کو یہ خیالات عجیب وغیرب معلوم ہوتے ہیں۔ میرے لیے ان کی اطلاع اور اس کتاب کے خاتمے کے لیے اس سے بہتر الفاظ تلاش کرنا ناممکن ہے جو کافی مدت پہلے سینٹ پال نے اہل فلپائن سے کہے تھے۔
بھائیو!آخر میں مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ باتیں خواہ کسی قسم کی ہوں، اگر وہ سچی ہوں، ایماندارانہ ہو، منصفانہ ہوں، بے لاگ ہوں، پیاری ہوں، دل فریب ہوں۔ اگر ان میں ذرا بھی اچھائی معلوم ہوا اور اگر ان کی تھوڑی سی بھی تعریف ہو تو ان پر غور ضرور کیجئے”۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...