اتوار، 2 ستمبر، 2012

غیرجانبدار تحریک کی حیات نو: ہندوستان کا نیا عالمی کردار ریڈیو صدائے روس


Саммит Движение неприсоединения тегеран иран ахмадинежад мурси Хаменеи 

ایران میں، جو کئی مہینوں سے خارجی جارحیت کے خطرے مں ہے، تقریبا" ایک سو بیس ملکوں کے رہنماؤں کی شرکت کے ساتھ غیر جانبدار تحریک کی سمٹ کا ہونا ہی بذات خود خاصا اہم ہے۔ پھر ایسے ملکوں کے رہنما اور تا حتٰی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی کون تک نے امریکی دباؤ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے جس کی کہ امریکہ کو امید تھی۔
دنیا کے آدھے سے زیادہ ملکوں کے رہنماؤں کی تہران آمد اس بات کی غماز ہے کہ ایران کو دنیا سے کاٹنے کی مغرب جو کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، وہ قطعی بارور نہیں ہو پائی ہیں۔
ہندوستان کے ذرائع ابلاغ عامہ نے وہاں کے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے دورہ ایران پر لوگوں کی توجہ مبذول کرائے رکھی۔ ان کا تہران جانا فی الواقعی نتیجہ خیز رہا اور اس کے اثرات نہ صرف ایران کے ساتھ بلکہ خطے کے دیگر ملکوں کے ساتھ اشتراک عمل کے سلسلے میں ایک طویل مدت تک اہم رہیں گے، روس کے تزویری تحقیق کے انسٹیٹیوٹ کے ایک ماہر بورس وولہونسکی کہتے ہیں،"دلچسپ امر یہ ہے کہ من موہن سنگھ کے سمٹ میں جانے پر مختلف مبصرین کے تبصرے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر "وال سٹریٹ جرنل" کو سمٹ میں کہے اس فقرے کو کہ"دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حیثیت سے ہندوستان عوام کی جمہوریت اور کثرت پسندی کے لیے کوششوں کا حامی ہے" ایران کی غیر جمہوری حکومت پر مخفی تنقید خیال کیا ہے تاہم لفظ کثرت پسندی کو عالمی نظام کے تناظر مین بھی دیکھا جا سکتا ہے، یوں اس فقرے کا مطلب یکسر دوسرا ہوگا یعنی یہ امریکہ کی سربراہی میں مغرب کے دنیا پر بالادستی حاصل کرنے کی کوششوں پر تنقید کی حیثیت اختیار کر لے گا۔"
من موہن سنگھ کا یہ کہنا زیادہ اہم تھا کہ کہ ہندوستان ایران کے ساتھ تیل اور گیس کے شعبے میں تعاون جاری رکھے گا اور اسی طرح ان کی پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات بھی اہم تھی، جس میں انہوں نے ایران۔پاکستان۔ہندوستان گیس پائپ لائن بارے بحث کی۔
ایک اور معاملہ بھی ہے، جس کی جانب مبصرین نے کم توجہ دی ہے،بورس وولہونسکی کہتے ہیں،" بات یہ ہے کہ تہران سمٹ نے غیر جانبدار ملکوں کی تحریک کو ایک نیا مہیج فراہم کیا ہے اور دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور چین کے مد مقابل آ جانے کی صورت میں ایک "تیسرا راستہ" کھولا ہے۔ لگتا یوں ہے کہ 1990 کی دہائی کے آغاز میں جب سوویت یونین کے ختم ہو جانے سے سوشلسٹ بلاک نہ رہا، تو مغرب میں اکثر کا کہنا یہی تھا کہ اب غیر جانبدار تحریک کو جاری رکھنے کا جواز نہیں ہے۔ لیکن دنیا میں ایک محور کے ختم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد چین نے اس کی جگہ لینا شروع کر دی ۔ آج امریکہ اور چین دونوں ہی بڑھ چڑھ کر زیادہ سے زیادہ ملکوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی بات یوں منوانا چاہتے ہیں جیسے کہ اور متبادل ہے ہی نہیں۔"
مگر متبادل ہے۔ ایسی صورت میں ہندوستان کے لیے ایک حقیقی امکان پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ان بہت سے ملکوں کے ساتھ مل کر جنہوں نے اس یا اس کا کہا نہیں مانا ہے، اپنا ذاتی "تیسرا راستہ" بنائے جو غیر جانبداری کے اصول پر مبنی ترقی کا راستہ ہو۔
خیال کیا جاتا ہے کہ تہراں سمٹ کی اہمیت کا اظہار اس "تیسرے راستے" کے امکان کو اپنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...