اتوار، 9 ستمبر، 2012

انقلاب فرانس



یہ 2جولائی 1789ء کا دن تھا اور پیرس شہر تھا۔پیرس کی مشہورزمانہ سٹرک “شانزے لیزے”کے ایک سرے پرلوگوں کا مجمع لگاتھا۔مجمعے کے اندر ایک شاہی محافظ ایک غریب اور مسکین شخص کو پیٹ رہا تھا۔ محافظ اس شخص کوٹھنڈوں ،مکوں اورڈنڈوں سے مار رہا تھا او ر درجنوں لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے جبکہ پٹنے والا دہائی دے رہا تھا منتیں کر رہا تھا اورمحافظ کے پاؤں پڑ رہا تھا ۔پٹائی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندر سے کسی نے محافظ کو ایک پتھر ماردیا۔محافظ تڑپ کرمجمعے کی طرف مڑا اور مجمعے کو گالی دے کرپوچھا :“یہ کون گستاخ ہے؟”مجمعے میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا ۔محافظ بپھر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مجمعے پرلاٹھیاں برسانا شروع کردی۔مجمعے نے “ریکٹ ایکٹ”کیا۔ لوگوں نے محافظوں کوپکڑا اور مارنا شروع کردیا۔محافظوں کوبچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بھپرے ہوئے مجمعے کا مقابلہ نہ کرسکے اور میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔اس حادثے میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور شاہی محافظوں کی یہ دونعشیں آگے چل کرانقلاب فرانس کی بنیاد بنیں ۔لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا اور طاقت کے اس اندازے سے 14جولائی 1789ءکا سورج طلوع ہوا۔ فرانس میں انقلاب آیا اور بادشاہت ختم ہوگئی۔

دنیا میں آج تک پانچ بڑے عوامی انقلاب آئے ہیں۔ان پانچوں عوامی انقلابوں میں انقلاب فرانس کو اولین حیثیت حاصل ہے ۔اس انقلاب کی وجوہات بہت دلچسپ تھی۔ فرانس میں ان دنوں بوربون خاندان کی حکومت تھی۔بادشاہ کے پاس وسیع اختیارات تھے اور اس نے یہ اختیارات اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کررکھے تھے۔مثلا :آپ عدالتی نظام کو لیجئیے ۔فرانس میں تمام عدالتی منصب باقاعدہ فروخت کیے جاتے تھے۔دولت مند لوگ عدالتی منصب خریدتے تھے اور ان کے مرنے کے بعد یہ عہدے وراثت میں چلے جاتے تھے۔یہ لوگ یہ عہدے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں بیچ بھی سکتے تھے۔اس زمانے میں ججوں کی تنخواہیں قلیل تھیں لہذا وہ مقدمہ بازوں سے بھاری بھاری رشوتیں لیتے تھے اور ان رشوتوں کو جائز سمجھاجاتا تھا اوربادشاہ کوکسی بھی شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا اختیار تھا۔ آپ پارلیمنٹ کولے لیجیئے ۔فرانس میں پارلیمنٹ آف پیرس کے علاوہ بارہ صوبائی پارلیمنٹس تھیں اور ان پارلیمنٹس کا صرف ایک ہی کام ہوتا تھا ۔یعنی بادشاہ کے ہرحکم کو قانونی اورآئینی شکل دینا ۔فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے ۔ یہ ٹیکس صرف اورصرف عوام پرلاگو تھے جبکہ امراء جاگیردار ،بیوروکریٹس ،شاہی خاندان اورپادری ٹیکسوں سے مادرا تھے ۔ حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کاکام ٹھیکے داروں کے حوالوں کررکھا تھا اوریہ ٹھیکیدار ٹیکسوں کی وصولی کے لیے کسی شخص کی جان تک لے سکتے تھے۔ٹھیکداروں کے ملازمین ملک بھر میں پھیل جاتے تھے اورٹیکس جمع کرنے کے بہانے لوگوں کوخوب لوٹتے تھے۔ فرانس میں فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی بھاری ٹیکس تھا۔اس ٹیکس کو ٹیلی ٹیکس کہا جاتا تھا ۔ٹیکسوں کا یہ عالم تھا حکومت نے عوام پرنمک ٹیکس تک لگا رکھاتھا ۔فرانس میں سات سال سے زائد عمر کے ہرشخص کو نمک استعمال کرنے پرسالانہ سات پونڈ ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اس ٹیکس کی عدم ادائی پرفرانس میں ہرسال تین ہزار سے زائد افراد کو قید ،کوڑوں اور ملک بدری کی سزا دی جاتی تھی۔

آپ فرانس کے معاشرتی ڈھانچے کوبھی لے لیجئیے ۔فرانس کا معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا ۔آبادی پادری ،امرا اورعوام میں بٹی ہوئی تھی ۔چرچ کی آمدنی پادریوں کی جیبوں میں چلی جاتی تھی ۔اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیراکمالیتا تھا جبکہ عام پادر کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دولاکھ تھی ۔فرانس میں امر ااورجاگیر دار خاندانوں کی تعداد بیس اورتیس ہزار تھی جبکہ ملک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے دس ہزار اعلی پادری تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعدادساٹھ ہزار تھی ۔اس وقت فرانس کی آبادی اڑھائی کروڑ تھی اور ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات یافتہ تھے ۔گویا چارلاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے ۔ان دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھا:“امرا جنگ کرتے ہیں ۔پادری دعامانگتے ہیں جبکہ عوام ان کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں۔”فرانس ایک زرعی ملک تھا جس میں دوکروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی کمائی ٹیکسوں کی نذرہوجاتی تھی ۔کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پرتھے ۔وہ جاگیر داروں کی اجازت کےبغیر اپنی زمینوں کے گردباڑھ نہیں لگاسکتے تھے اور فصلوں کوخراب کرنے والے جنگلی جانوروں اورپرندوں کوہلاک نہیں کرسکتے تھے۔اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں تھیں اور عوام اس زبان سے واقف نہیں تھے۔ملک میں 360 اقسام کے قوانین تھے۔عوام کومعمولی جرائم پرکڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امر قانون سے بالاتر تھے ۔بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور “ورسائی” کے محلات میں رہتا تھا ۔اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔محل میں سولہ ہزار شاہی خادم تھے ۔صرف ملکہ کی خادماؤں کی تعداد پانچ سوتھی ۔شاہی اصطبل میں انیس سوگھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے اورباورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب فرانس چار بار دیوالیہ ہوچکا تھا ۔دولاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے تھے ۔فرانس میں روٹی کی قمیت چار پاؤنڈتک پہنچ چکی تھی سالانہ خسارہ 15 کروڑ لیرا اورقرضوں کی رقم چار ارب چالیس کروڑ لیرا تھی اور 23کروڑ 60 لاکھ لیرا سالانہ بطور سود اداکیا جاتا تھا اور فرانس کی کل آمدنی کا تین چوتھائی حصہ فوجی اخراجات پرصرف ہوجات تھا ۔ملک کے جیل خانے معصوم اوربے قصورلوگوں سے بھرے پڑے تھے لہذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف نفر ت ابلنے لگی۔ اس نفرت کو 14جولائی 1789ءمیں میٹریل لائز ہونے کا موقع مل گیا ۔پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔

اگرہم آج کے پاکستان اور 18ویں صدی کے فرانس کا تجزیہ کریں توہمیں پاکستان کے حالات ماضی کے فرانس سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان کے اندر بھی ایک ایسا لاوا ابل رہا ہے جو باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آزاد فکرتجربی سوچ کا کا نتیجہ ہوتی ہے جو عقل' منطق ' علم اور شک کے ا شتراک سے پروان پاتی ہے. یہ وہموں کی بنیاد پر جگہ بنانے والی زہریلی سوچ اور طرز عمل کو للکارتی ہے جمے ہوے پسماندہ رویوں اور ان میں پوشیدہ طاقتوں
کے مفادات کو بےنقاب کرتی ہی. یہ مسائل کو حل کرنے کے روشن خیال 'سیکولر اور سائنسی طریقے اختیار کرتیہے. یہ آپ سے پوری جرات اور شعور کی بنیاد تجریدی وہموں کو مسترد اور زندگی میں سائنسی اقدار اپنانے کا مطالبہ کرتیہے. یہ عظیم اخلاقی اقدار کو انسانی اور سماجی ارتقا کا لازمی ایسا مانتی ہے . انسان کو رنگ' نسل، مذہب اورلسانی شناختوں پر منقسم منافرتوں کو پوری طاقت سے مسترد کرتی ہے. آزاد فکر انسانیت، علم اور سچ کو اپنا اثاثہ مانتی ہے' اس فورم پر آپ کو خوش آمدید ' ہم امید رکھتے ہیں آپ تمام دوستوں کا احترام کرتے ہوے مثبت طرزعمل کے ساتھ اس فورم پر علمی' ترقی پسنداور جہموری سوچ کو فوروغ دیں گے

گوادر سے بحری/سمندری شاہراہ ریشم، چین، ایران، روس، آزربائیجان، قازقستان،ترکمانستان، اومان، ترکیہ، جارجیا، بیلاروس، ازبکستان،کرغیزستان، تاجکس...